دین کی ابتداء اللہ کی معرفت، نہج البلاغہ کی تشریح

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ دین کی ابتداء اللہ کی معرفت ہے۔

       نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ”، “دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے”۔اس فقرے اور اگلے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے پانچ مراحل بیان ہوئے ہیں جن کا اس طرح خلاصہ کیا جاسکتا ہے:۱۔ مختصر اور ناقص معرفت ۲۔ تفصیلی معرفت ۳۔ مقام توحید ذات و صفات  ۴۔ مقام اخلاص ۵۔ مقام نفیِ تشبیہ۔حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) ان فقروں میں سے پہلے فقرے میں فرماتے ہیں: “دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے”۔یقیناً یہاں پر دین کے معنی عقائد، الٰہی فرائض، اعمال اور اخلاق ہیں جن کی ابتدا اور بنیاد “معرفۃ اللہ” ہے، لہذا اللہ کی معرفت کا پہلا قدم بھی ہے اور دین کے تمام اصول و فروع کی بنیاد بھی، جس کے بغیر دین کا یہ درخت ثمردار اور نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔بعض نے یہ جو سمجھا ہے کہ اللہ کی معرفت سے پہلے بھی کوئی چیز پائی جاتی ہے جو دین کے بارے میں تحقیق اور مطالعہ و نظر کا واجب ہونا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔کیونکہ تحقیق کا واجب ہونا پہلا واجب ہے، لیکن اللہ کی معرفت دین کی پہلی بنیاد ہے یا دوسرے لفظوں میں تحقیق مقدمہ ہے اور اللہ کی معرفت ذی المقدمہ کا پہلا مرحلہ ہے۔یہ بات بھی غورطلب ہے کہ مختصر معرفت انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے کہ اس کے لئے حتی تبلیغ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جس بات کے لئے انبیائے الٰہی مبعوث ہوئے ہیں یہ ہے کہ یہ مختصر معرفت اور پہچان، تفصیلی اور مکمل پہچان میں بدل جائے اور اس کی ٹہنیاں اور پتّے پروان چڑھیں اور اس درخت کے آس پاس جو فالتو گھاس، مشرکانہ افکار کی صورت میں اُگ جاتا ہے، وہ کٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالہ:[ماخوذ از: پيام امام امير المومنين(ع)، آیت اللہ مکارم شیرازی]

تبصرے
Loading...