حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا پر عنایت خاص خداوند متعال

چکیده: خداوند متعال کی اپنے بندوں پر عنایت خاص

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا پر عنایت خاص خداوند متعال
حضرت فاطمه عليهاالسلام خداوند متعال کے نزدیک اتنی معزز تھیں کہ  ہمیشہ پروردگار کی طرف سے عنایت خاص ان کو شامل حال رہی اور مختلف نعمات آسمانی ان پر نازل ہوئیں ۔پیامبر اسلام کو ایک مرتبہ سخت بھوک لگی ہوئی تھی اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا کسی کے پاس کھانا  ہے تو ہر ایک نے کہا کہ نہیں، پھر اپنی بیٹی فاطمہ (س)کے گھر جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں بیٹی کیا کھانہ ہے مجھے سخت بھوک لگی ہے تو سیدہ نے بھی کہا کہ نہیں اسی طرح جب گھر  سے باہر آتے ہیں تو کسی نے دروازے پر آکے کہا یہ کھانہ لے لو میں آپ کے ہمسایے سے آیا ہوں فاطمہ(س)نے جیسے ہی کھانہ دیکھا تو فوراً بچوں کو بھیجا کہ جاؤ نانا کو کہو کہ تشریف لائیں جب پیامبر (ص) آئے تو پوچھا کہ بیٹی ابھی تو کھانہ نہیں تھا سیدہ نے  کہا: جی بابا ابھی ابھی ہمسایے کے گھر سے آیا ہے جب کھانا آیا تو اتنا پربرکت تھا کہ پیامبر اور بچوں نے کھایا پھر بھی بچ گیا شہزادی ہیران ہو گئی کہ اتنا زیادہ کھانا پیامبر(ص) مسکرائے اور فرمایا :بیٹی یہ ہمسایہ کون تھا جانتی ہو ؟شہزادی نے کہا نہیں بابا پیامبر (ص)نے فرمایا: بیٹی یہ خدا کی طرف سے  آیا تھا جب میں نے تم سے کھانے کا سوال کیا تو تمہارے پاس نہیں تھا اور تم شرمندہ ہوئی خدا کو یہ ناگوار گذرا  فورا ً جبرائیل سے کہا جاؤ یہ کھانا لے جاؤ فاطمہ(س) کے گھر اور تم نے جیسے ہی یہ کھانا دیکھا تو خوش ہوگئی اور ہاں خدا کی خوشی بھی اسی میں ہے کہ تم خوش رہو۔
هو من عنداللَّه ان اللَّه يرزق من يشا بغير حساب. فقال: الحمدللَّه الذى جعلك شبيهه بسيدة نسا بنى‏اسرائيل فانها كانت اذا رزقها اللَّه شيئا فسئلت عنه قالت: «هو من عنداللَّه ان اللَّه يرزق من يشاء بغير حساب[1].»یہ برکات خداوندی ہیں خدا جسے چاہے بغیر کسی محدودیت کے عطا کرتاہے ۔رسول خدا (ص) نے بیٹی سے فرمایا :شکر ہے اُس خدا کا کہ جس نے تمہیں مریم کی طرح سرخرو فرمایا   [2]۔اس طرح کے کئی واقعات ملتے ہیں کہ خدا وندمتعال کی خاص عنایت تھی فاطمہ (س) پر ۔ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام  کو سخت بھوک لگی تھی اور فاطمہ (س) سے کہا کھانا ہے تب گھر میں کچھ نہ تھا اور فاطمہ (س) نے کہا :یا علی گھر میں تو کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تھوڑا سا کھانا تھا جو آپ کو دیا تھا اور خود صبر کیا ، علی علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو بہت ناراحت ہوئے آنکھوں سے پانی آگیا بازار گئے اور ایک دینار قرض لیا تاکہ گھر والوں کے لیے کھانا مہیا کریں لیکن جب گھر جارہے تھے تو ایک گھر کے قریب سے گزرے  تو گھر کے اندر سے بچوں کے رونے کی آواز آرہی تھی اور گھر کے باہر کھڑا شخص رو رہا تھا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ کیسے بچوں کے لیے کھانا مہیا کرے علی علیہ السلام نے وہ ایک دینار اسے دے دیا اور کہا جاؤ بچوں کے لیے غذا مہا کرو۔اور ہاں خالی ہاتھ علی علیہ السلام گھر واپس آگئے وہاں سے مسجد کا رخ کیا اور عبادت خدا میں مشغول ہو گئےپھر پیامبر (ص) جب مسجد میں آئے تو علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑااور فرمایا:علی جان ! آج رات مجھے مہمانی میں قبول کرو گے ؟مولائے متقیان خاموش ہوگئے کیونکہ جانتے تھے کہ فاطمہ اور حسنین نے کھانا نہیں کھایا اور پیسے بھی نہیں ہیں لیکن پیامبر (ص) نے دوبارہ اظھار کیا اور فرمایا جواب کیوں نہیں دیا؟ہاں یا نہ کچھ کہو :تا کہ میں کسی اور طرف جاؤں،علی علیہ السلام نے عرض کی : یا  رسول اللہ !آیئے بسم اللہ ، رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ (س) کے گھر کی طرف چل پڑے ، جب دونوں گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہ (س) نے بابا کی آواز سنی تو آئیں بابا کے استقبال کے لیے دونوں کو بیٹھایا اور دستر خوان بچھا دیا کھانا لگایا ،علی علیہ السلام نے فاطمہ (س) کو حیرت سے دیکھا اور اشارہ سے پوچھا یہ کھانا کہاں سے آیا ہے ؟  اس سے پہلے کہ فاطمہ (س) کچھ جواب دیں رسول خدا(ص) نے  علی علیہ السلام کے کندھے پر  ہاتھ رکھا اور فرمایا:یا علی !ھذا جزا دینارک من عنداللہ ۔اے علی یہ پاداش ہے خدا کی طرف سے اس دینار کے بدلے جو تم نے مقداد کو دیئے ۔یہ اسی طرح کی داستان ہے جو مریم اور زکریا کے ساتھ پیش آئی تھی[3]  اور بہشتی کھانا خدا نے مرحمت فرمایا۔[4]
منابع[1] آل‏ عمران/ 37.[2] فرائدالسمطين، ج 2، ص 51 و 52، ش 382- تجليات ولايت، ج 2، ص 319- فضائل خمسه، ج 3 ص 178- مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 339- جلاءالعيون شبر، ج 1، ص 136.[3] آل عمران ،آیہ ۳۷[4] محجة البيضاء، ج 4، ص 213- بحار، ج 43، ص 59، و ج 41، ص 30 با اختصار.

تبصرے
Loading...