حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کا دست کرم رحمۃ للعالمین کے سر پر

خلاصہ: حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) وہ عظیم شخصیت ہیں جن کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرورش اور حفاظت میں بنیادی کردار ہے۔ آپؑ تاحیات آنحضرت کا تحفظ کرتے رہے اور احتضار کے وقت بھی اپنے بیٹے حضرت ابوطالب (علیہ السلام) کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں وصیت فرمائی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس عظیم شخصیت کے مقدس وجود سے سیدالانبیاء و المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیدا ہونا ہو، یقیناً اس شخصیت کے وجود میں نیک صفات اور نمونہ عمل کردار ہونا چاہیے۔ حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) ایسی باعظمت ہستی تھے جو ہر طرح کے گناہ اور آلودگی سے پاک و پاکیزہ تھے۔ آپؑ موحد اور توحید شناس تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کے معتقد تھے اور قیامت پر ایمان رکھتے تھے۔حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا تھے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والدہ کی وفات کے بعد اپنے دادا حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کے زیرسرپرستی قرار پائے۔ابن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے کہ جناب آمنہؑ کی وفات کے بعد جناب عبدالمطّلبؑ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس لے گئے اور اپنے بیٹوں سے زیادہ آنحضرتؐ سے محبت کرتے تھے اور آنحضرتؐ کو اپنے قریب کرتے اور تنہائی اور نیند کے وقت آنحضرتؐ کے پاس جاتے اور آنحضرتؐ کی حفاظت کرتے…اور نیز نقل کیا ہے کہ قبیلہ “بنی مدلج” کے کچھ لوگوں نے عبدالمطّلبؑ سے کہا: اس فرزند کی حفاظت کیجیے کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کے مقام کے نقش قدم سے اس (فرزند) کے نقش قدم سے زیادہ شبیہ کوئی نقش قدم نہیں دیکھے اور عبدالمطّلبؑ نے یہ بات سن کر ابوطالبؑ  سے فرمایا: سنیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور ابوطالبؑ یہ بات سننے کے بعد آنحضرتؐ کی حفاظت کرتے تھے۔اور عبدالمطّلبؑ، ام ایمن کو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کرتی تھیں فرماتے تھے: میرے اس فرزند کی حفاظت کرو کہ اہل کتاب انہیں اس امت کا پیغمبر سمجھتے ہیں۔  اور عبدالمطّلبؑ ایسے تھے کہ کوئی کھانا نہیں کھاتے تھے مگر کہتے تھے: میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤ، اور آنحضرتؐ کو آپؑ کے پاس لے جایا جاتا تھا۔[1]شیخ صدوق (علیہ الرحمہ) نے اپنی کتاب اکمال الدین میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس(رہ) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: خانہ کعبہ کے سائے میں عبدالمطّلبؑ کے لئے ایک قالین بچھایا جاتا تھا جس پر کوئی شخص عبدالمطّلبؑ کے احترام کی وجہ سے نہیں بیٹھتا تھا اور عبدالمطّلبؑ کے بیٹے آتے اور اس قالین کے اطراف پر بیٹھتے تھے تا کہ عبدالمطّلبؑ آجائیں۔ اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبکہ بچپن میں تھے، تشریف لاتے اور اس قالین پر بیٹھ جاتے اور یہ منظر آنحضرتؐ کے چچاوں (جو عبدالمطّلبؑ کے بیٹے تھے) کے لئے ناگوار تھا اور اسی لیے آنحضرتؐ کو اٹھالیتے تا کہ اس خاص جگہ اور قالین سے دور کردیں اور عبدالمطّلبؑ جو اس صورتحال کو دیکھتے تو فرماتے تھے: میرے بیٹے کو چھوڑ دو کہ اس کا مقام انتہائی بلند ہوگا، اور میں ایسے دن کو دیکھتا ہوں کہ وہ تم پر سیادت اور سرداری کرے گا اور میں اس کے چہرہ پر دیکھتا ہوں کہ ایک دن لوگوں پر سیادت کرے گا…آپؑ یہ بات کرتے اور پھر آنحضرتؐ کو اٹھا لیتے اور اپنے پاس بٹھاتے اور اپنا ہاتھ ان کی پشت پر پھیرتے اور آنحضرتؐ کو چومتے اور فرماتے: میں نے اس فرزند سے زیادہ پاک اور زیادہ خوشبودار نہیں دیکھا …  پھر ابوطالبؑ (جو عبداللہؑ کے ساتھ ایک ماں میں سے تھے) کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: اے ابوطالبؑ! یقیناً اس لڑکے کا عظیم مقام ہے، اس کی حفاظت کیجیے اور اسے نہیں چھوڑیں کہ وہ اکیلا ہے اور اس کے لئے مہربان ماں کی طرح رہیں کہ ان کو کوئی صدمہ نہ پہنچے…پھر آنحضرتؐ کو اپنے دوش پر بٹھاتے اور سات مرتبہ خانہ (کعبہ) کے اردگرد طواف دلواتے اور اس جیسی روایت مختصر طور پر مناقب ابن شہر آشوب اور اصول کافی اور دیگر کتب میں نقل ہوئی ہے۔[2]اکمال الدین کی اسی روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب عبدالمطّلبؑ کی وفات کا وقت ہوا تو آپؑ نے اپنے فرزند ابوطالبؑ کو بلوایااور جب ابوطالبؑ آپؑ کے سرہانے پر تشریف لائے جبکہ عبدالمطّلبؑ احتضار کی حالت میں تھے اور گریہ کرتے تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپؑ کے سینہ پر تھے، آپؑ، ابوطالبؑ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرماتے تھے: “يا اباطالب انظر ان تکون حافظا لهذا الوحيد الذي لم يشم رائحة ابيه. و لم يذق شفقة امه. انظر يا اباطالب ان يکون من جسدک بمنزلة کبدک…”، “اے ابوطالبؑ! غور کرو کہ حفاظت کرو اس اکیلے (بچہ) کی کہ جس نے اپنے باپ کی خوشبو نہیں سونگھی اور اپنی ماں کی شفقت کو نہیں چکھا، غور کرو اے ابوطالبؑ کہ یہ (بچہ) آپؑ کے بدن کی بہ نسبت جگر کی طرح ہو…”۔”يا اباطالب ان ادرکت ايامه فاعلم اني کنت من ابصر الناس و اعلم الناس به، فان استطعت ان تتبعه فافعل وانصره بلسانک و يدک و مالک فانه والله سيسود کم…”[3]، “اے ابوطالبؑ! اگر آپؑ، آنحضرتؐ کے زمانے کو پالیں تو جان لیں کہ میں لوگوں سے زیادہ آنحضرتؐ کے بارے میں بصیرت رکھنے والا اور عالم ہوں اور اگر آپؑ کے لئے ممکن ہو تو آنحضرتؐ کی پیروی کرنا اور اپنی زبان، ہاتھ اور مال کے ذریعے آنحضرتؐ کی نصرت کرنا کیونکہ اللہ کی قسم، آنحضرتؐ آپ لوگوں پر سیادت اور سرداری کریں گے…”۔نتیجہ: رب کائنات نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقدس وجود کی مختلف شخصیتوں کے ذریعے حفاظت، پرورش اور دیکھ بھال کروائی، جن میں سے ایک حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) ہیں۔ مختلف مقامات پر آنحضرتؐ کے بارے میں آپؑ کے بیانات اور ارشادات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپؑ سیدالانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کرتے رہتے اور دوسروں کو بھی حفاظت اور احترام کی تاکید کرتے، خود بھی محبت اور شفقت کرتے اور وصال کے موقع پر اپنے فرزند حضرت ابوطالب (علیہ السلام) کو بھی شفقت کا حکم دیتے چلے گئے۔ کیا شان ہے اس عظیم شخصیت کی جس نے امت کے باپ یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مختلف مقامات پر تحفظ کرتے ہوئے، اللہ تعالی کی بہترین اور سب سے پیاری مخلوق کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور پھر اپنے بیٹے حضرت ابوطالب (علیہ السلام) کو جو اس امت کے دوسرے باپ یعنی حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے باپ ہیں، شفقت کا حکم دیا جس کی بنیاد پر حضرت ابوطالب (علیہ السلام) نے تاحیات، طرح طرح کے خطرناک موقعوں پر آنحضرتؐ کی حفاظت کرتے ہوئے سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان اقدس کو بچایا، کہیں مشرکین کے ناپاک عزائم کو ناکام کردیا، کبھی شعب ابی طالبؑ میں اپنے فرزند علی (علیہ السلام) کو بستر رسولؐ پر سلا کر اپنے بھتیجے محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان بچاتے رہے اور اسی عملی تربیت کا نتیجہ اور خلاصہ لیلۃ المبیت کی ایک رات میں ہی نکھر کر منظر عام پر آگیا، جس ابوطالبؑ نے شعب ابی طالبؑ میں حضرت علی (علیہ السلام) کو بستر رسالت پر سلا سلا کر جان رسالت بچائی تھی، اسی ابوطالبؑ کے بیٹے علی (علیہ السلام) نے لیلۃ المبیت کو چالیس مشرکوں کی تلواروں کی جھرمٹ میں بستر رسالت پر سو کر ایسے نازک حالات میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی جان سے لاپرواہ ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان بچائی اور اپنی جان اللہ کو بیچ دی، رے شان ولایت!اب کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے آیت مباہلہ میں “انفسنا”یعنی جان رسولؐ کا طمغہ، امیرالمومنین (علیہ السلام) کو کیوں دیا، شاید اس لیے کہ جس علی (علیہ السلام) نے اپنی جان، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان کردی تھی، صرف وہی علی (علیہ السلام) اس مقام کے لائق تھے کہ خاتم النبیینؐ کی جان قرار پائیں، ان جانثاریوں کے سلسلہ کا تعلق تربیتِ ابوطالبؑ سے ہے اور تربیتِ ابوطالبؑ کا تعلق وصیتِ عبدالمطّلبؑ سے ہے۔ عبدالمطّلبؑ کا دست کرم رحمۃ للعالمین کے سر اقدس پر اپنی زندگی میں بھی رہا اور اپنے بعد اپنے بیٹے ابوطالب ؑ کے ذریعے بھی رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[1]  طبقات ابن سعد، ج 1، ص 118.[2]  مناقب ابن شهر آشوب، ج 1 ص 24 و 25 و اصول کافي ج 1، ص 448.[3] کمال الدين، ج 1، ص 171-172.

تبصرے
Loading...