بعثت سے پہلے لوگ بتوں کے عابد اور اللہ کے منکر

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً في اَدْيانِها، عُكَّفاً عَلي نيرانِها، عابِدَةً لِاَوْثانِها، مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها”، “تو آنحضرتؐ نے (اس زمانے کی) اقوام کو (اس حال میں) پایا کہ وہ اپنے ادیان میں  فرقوں میں بٹی ہوئی تھیں، اپنی آگ میں منہمک تھیں، اپنے بتوں کی عبادت کررہی تھیں، (اللہ کو فطری طور پر)  پہچاننے کے باوجود اللہ کی منکر تھیں”۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]۔
اَوْثَان: “وَثن” کی جمع ہے، یعنی بت۔ وہ لوگ جہالت کی وجہ سے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔سورہ عنکبوت کی آیت ۱۷ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات بیان کی جارہی ہے جو آپؑ نے اپنی قوم سے بیان فرمائی: “إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكاً إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ”، “تم اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کی پرستش کرتے ہو اور تم ایک جھوٹ گھڑتے ہو۔ بےشک یہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ پس تم اللہ سے روزی طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر ادا کرو۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے”۔
مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها: اللہ کو پہچاننے کے باوجود، اللہ کے منکر تھے۔ اللہ کی نعمت کو پہچان کر اس کا انکار کرنے کے بارے میں سورہ نحل کی آیت ۸۳ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: “يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّـهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ”، “یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور پھر انکار کرتے ہیں اور ان کی اکثریت کافر ہے”۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...