انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو قبول کرنا عقل کا حکم

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تشریح میں ضمنی طور پر یہ بیان کیا جارہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو قبول کرنا عقل کا حکم ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “وَ قَامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدَایَۀِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ، وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ، وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ”، اور (رسولؐ اللہ) لوگوں میں ہدایت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ان کو گمراہی سے نجات دی، اور انہیں اندھے پن سے (نکال کر) بینائی (کی طرف) لائے، اور انہیں مضبوط دین کی طرف ہدایت کی، اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف پکارا”۔
وضاحت:رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا “قویم اور مضبوط دین” اگرچہ دنیاپرستوں کی دنیا کے مطابق نہیں ہے، لیکن انسان کی فطرت کے مطابق ہے۔ دوسرے لفظوں میں “قویم اور مضبوط دین” صحیح دنیاوی زندگی کے خلاف نہیں ہے بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی فرمانبرداری باعث بنتی ہے کہ انسان کی دنیاوی زندگی کے ساتھ عزت، سکون اور مقصد بھی پایا جائے اور انسان آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں بھی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا رہے۔عقل کا حکم یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو قبول کیا جائے، کیونکہ اگر انسان انصاف کے ساتھ اور غرض کے بغیر سوچے تو اس بات کو سمجھ جائے گا کہ ان کی دعوت دلیل اور عقل کے مطابق ہے اور پھر یہ فیصلہ کرے گا کہ عقلمندانہ احتیاط، انبیاء (علیہم السلام) کی فرمانبرداری کرنے میں ہے، کیونکہ عقلمند آدمی، اپنی دنیاوی زندگی میں بھی ممکنہ خطرے سے پرہیز کرتا ہے اور خطرے کے کم امکان میں بھی سنجیدگی سے کام لیتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہی کم امکان وقوع پذیر ہوجائے تو اسی سے سانحہ جنم لے لے گا۔عقل، انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت، وعدے اور اِنذار سے بھی ایسا برتاؤ کرتی ہے، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) لوگوں کو آخرت کے ان خطروں سے ڈراتے ہیں جو خطرے لوگوں کی گھات میں ہوتے ہیں۔ حتی اگر عقلمند آدمی کو انبیاء (علیہم السلام) کی بات پر یقین نہ بھی ہو تو اسے اپنی عقل کے تقاضے کے مطابق احتیاط اور انبیاء (علیہم السلام) کی فرمانبرداری کرنی پڑے گی، ورنہ اس کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ کی شقاوت اور بدبختی میں ڈال دے، لہذا عقل ہمیشہ احتیاط کرتی ہے اور محتاط آدمی، انبیاء (علیہم السلام) کے اِنذار اور ڈرانے کو قبول کرتا ہے۔
*احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۶۵، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...