سید روح الله موسوی خمینی

سید روح الله موسوی خمینی

سید روح‌ اللہ موسوی خمینی (1902-1989ء)، امام خمینی کے نام سے مشہور، چودہویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ مرجع تقلید ہیں۔ آپ ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر و قائد بھی تھے جو سنہ 1979ء میں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔ آپ نے ایران میں شاہی نظام کو ختم کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ڈالی۔

آپ کو دو مرتبہ پہلوی شاہی حکومت کی طرف سے گرفتار کیا گیا اور دوسری مرتبہ ہمیشہ کے لئے ایران سے جلا وطن کر دیا گیا۔ آپ کچھ عرصہ ترکیہ میں رہے اور پھر نجف (عراق) چلے گئے۔ آپ نجف میں تیرہ سال کے عرصے میں دینی و حوزوی دروس کی تدریس و تالیف کے ساتھ ساتھ انقلابی گروہوں کی قیادت بھی کرتے رہے۔ آپ جب سنہ 1979 میں عراق کو چھوڑنے پر مجبور کیے گئے تو فرانس کے شہر پیرس چلے گئے۔

امام خمینی کی تحریک و ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے پوری دنیا کو متأثر کیا اور دینی و اسلامی مبانی کے ساتھ سیاسی تحریکوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔

آپ کا سب سے اہم سیاسی نظریہ، ولایت مطلقہ فقیہ کا نظریہ ہے جو تشیع کے اعتقادات پر مبنی نظریہ ہے۔ آپ نے کوشش کی کہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت اور اس کا آئین اسی نظریے کے مطابق تشکیل پائے۔

آپ علم فقہ میں اس وقت کے حوزہ علمیہ میں رایج اجتہاد کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ آپ کی نظر میں تمام فقہ کا عملی فلسفہ حکومت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ فقہ پر اس حکومتی نگاہ کے باعث آپ ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ روایتی اور جواہری فقہ کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اجتہاد میں ترقی و توسیع اور جدت بھی آنی چاہئے۔ اجتہاد میں زمان و مکان کی تاثیر کا نظریہ اور آپ کے بعض دیگر مؤثر فتاوا اسی نقطہ نظر کا نتیجہ تھے۔

تمام مسلمان اور خاص طور پر شیعہ، آپ کو والہانہ طور پر چاہتے تھے۔ آپ کے جنازے کی تشییع میں ایک کروڑ افراد نے شرکت کی جو اب تک پوری دنیا میں پر جمعیت ترین تشییع جنازہ تھا۔

آپ فقہ و اصول جن کا شمار حوزہ علمیہ کی رایج علوم میں ہوتا ہے، کے علاوہ اسلامی فلسفہ اور عرفان نظری میں بھی صاحب نظر تھے اور تالیفات بھی رکھتے تھے۔

امام خمینی کا شمار علمائے اخلاق میں بھی ہوتا تھا۔ اپنے تدریسی دور میں قم کے مدرسہ فیضیہ میں درس اخلاق دیا کرتے تھے۔ آپ نے پوری عمر بہت سادگی اور زاہدانہ زندگی گزاری۔ مرجعیت کے دور میں جب آپ نجف میں سکونت پذیر تھے اور اسی طرح اپنی عمر کے آخری دس سال جب آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد اور لیڈر تھے تب بھی آپ نے تہران کے ایک محلے جماران میں ایک بہت ہی معمولی اور محقر گھر میں زندگی بسر کی۔

زندگی نامہ

20 جمادی الثانی سنہ 1320 ھ، 24 ستمبر سنہ 1902 ء، میں ایران کے مرکزی شہر خمین میں آپ کی ولادت ہوئی۔
آپ کے والد سید مصطفی موسوی آیت اللہ میرزا شیرازی کے معاصر تھے۔ آپ نے نجف میں علم حاصل کیا اور خمین میں دینی امور کے مرجع تھے۔ سید روح اللہ کی ولادت کے پانچ ماہ بعد محلے کے حاکموں سے جنگ کے دوران شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔ آپ 15 سال تک اپنی والدہ حاجرہ اور اپنی پھوپھی کی سرپرستی میں رہے۔[1]

زوجہ اور اولاد

سنہ 1929 ء میں آپ نے خدیجہ ثقفی سے شادی کی۔

اور آپ کی اولاد میں دو بیٹے مصطفی و احمد اور تین بیٹیاں زہراء، فریدہ و صدیقہ ہیں۔

وفات اور تشییع جنازہ

امام خمینی کی تدفین کا منظر

آپ نے 13 خرداد سنہ 1368ھ ش کی شام میں کینسر کی وجہ سے شہید رجائی ہارٹ ہاسپیٹل، تہران میں وفات پائی۔ 15 خرداد کو تہران کے ایک بڑے مقام پر آپ کی تشیع جنازہ ہوئی۔ آیت اللہ سید محمد رضا گلپایگانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور 16 خرداد کو تقریباً 10 ملین عزاداروں کی عزاداری اور تشییع سے آپ کو بہشت زہراء میں دفن کیا گیا۔ اب تک تاریخ میں کسی اور شخص کے جنازے میں اتنی تعداد میں لوگوں کی تعداد کی شرکت نوٹ نہیں کی گئی ہے جتنی آپ کے جنازے میں تھی۔
آپ کی رحلت کی وجہ سے ایران میں حکومت کی طرف سے چھٹی کا اعلان کیا گیا اور اسی مناسبت سے مختلف مجالس کا انعقاد کیا گیا۔ آپ کی قبر پر ملک کے بزرگان اور مومنین کے ہمراہ پروگرام منعقد ہوتا ہے اور ہمیشہ جمہوری اسلامی کے رہبر تقریر کرتے ہیں۔

علمی زندگی

آپ نے متداول ابتدائی دینی اور حوزہ علمیہ کے مقدمات و سطوح جیسے عربی ادبیات، منطق، فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم خمین کے علماء اور اساتذہ (آقا میرزا محمو افتخار العلماء، مرحوم میرزا رضا نجفی خمینی، آقا شیخ علی محمد بروجردی، مرحوم آقا شیخ محمد گلپایگانی و مرحوم آقا عباس اراکی اور سب سے زیادہ اپنے بڑے بھائی آیت اللہ سید مرتضی پسندیدہ) سے حاصل کی۔[2]

اراک اور قم میں علم حاصل کرنا

سنہ 1919 ء میں اراک کے حوزہ علمیہ کی طرف روانہ ہوئے اور شیخ عبد الکریم حائری یزدی (رجب سنہ 1340 ھ) کی ہجرت کے بعد آپ بھی اپنے استاد کی خاطر آپ کے کچھ شاگرد کے ہمراہ قم آ گئے۔[3]
حوزہ علمیہ قم میں مختلف مباحث کے متعلق کتابوں (علم معانی و بیان) کے مطالعہ کے علاوہ، دوسرے علوم جیسے خارج فقہ اور اصول کو بھی مکمل کر لیا اور اسی دوران دوسرے علوم جیسے ریاضیات، ہئیت اور فلسفہ کی شروعات بھی کی اور عرفان نظری کی سخت ترین سطح کو چھ ماہ کی مدت میں آیت اللہ آقا میرزا محمد علی شاہ آبادی سے حاصل کیا۔ امام خمینی، میرزا جواد ملکی تبریزی سے کافی مانوس تھے اور آپکو اچھائی سے یاد کرتے تھے۔
حوزہ علمیہ قم میں فقہ و اصول فقہ کے آپ کے اصلی استاد شیخ عبد الکریم حائری یزدی تھے۔[4]
شیخ عبد الکریم حائری یزدی کی رحلت کے بعد امام خمینی اور بعض دیگر مجتہدین کی کوشش سے آیت اللہ بروجردی نے قم کے حوزہ علمیہ میں زعیم کے عنوان سے قدم رکھا۔ اس زمانے میں امام خمینی فقہ، اصول فقہ، فلسفہ، عرفان و اخلاق میں ایک استاد اور مجتہد کے عنوان سے پہنچانے جاتے تھے۔[5]

اساتید

  • شیخ عبدالکریم حائری یزدی (مؤسس حوزہ علمیہ قم)
  • محمد رضا مسجد شاہی اصفہانی (صاحب وقایة الاذہان)
  • میرزا محمد علی شاہ آبادی
  • سید ابوالحسن رفیعی قزوینی
  • میرزا جواد ملکی تبریزی
  • سید علی یثربی کاشانی
  • سید محمد تقی خوانساری
  • میرزا علی اکبر حکمی یزدی
  • میرزا محمد علی ادیب تہرانی

تدریس

آیت اللہ خمینی نے حوزہ علمیہ قم میں کئی سال تک فقہ، اصول، فلسفہ، عرفان، اور اخلاق اسلامی کی مدرسہ فیضیہ، مسجد اعظم، مسجد محمدیہ، مسجد حاج ملا صادق، مسجد سلماسی و … میں تدریس کی۔ حوزہ علمیہ نجف میں بھی تقریباً تیرہ سال کے قریب مسجد شیخ اعظم انصاری میں معارف اہل بیت اور فقہ کی اعلیٰ ترین سطح کی تدریس کی اور پہلی بار نجف میں ولایت فقیہ کے افکار و نظریات پر مبنی مباحث کی تدریس کا آغاز کیا۔

آپ کے شاگردوں کے بقول امام خمینی کے دروس کا شمار حوزہ کے بہترین درسوں میں ہوتا تھا اور کسی زمانے میں قم میں آپ کے شاگردوں کی تعداد 1200 افراد تک بتائی جاتی ہے جن میں بہت سے افراد کا شمار اس زمانے کے مجتہدین میں سے ہوتا ہے.[6]

آپ کے مشہور شاگرد

تالیفات

  • کشف اسرار
  • تحریر الوسیلہ
  • چہل حدیث
  • مصباح الہدایۃ الی الخلافۃ و الولایہ
  • کتاب البیع (۵ جلد)
  • کتاب الطہارہ (۴ جلد)
  • ولایت فقیہ
  • مناہج الوصول الی علم الاصول (۲ جلد)
  • انوار الہدایۃ فی التعلیقۃ علی الکفایۃ (۲ جلد)
  • صحیفہ امام (صحیفہ نور) ۲۲ جلد
  • شرح حدیث جنود عقل و جہل
  • آداب الصلاۃ
  • سر الصلاۃ
  • تفسیر سورہ حمد
  • جہاد اکبر
  • شرح دعای سحر
  • سیاسی الہی وصیت نامہ
  • طلب و ارادہ
  • رسائل (علم اصول میں کئی مقالے جیسے: لاضرر و لا ضرار، استصحاب، تعادل و تراجیح، اجتہاد و تقلید، اور تقیہ)
  • تعلیقات علی شرح فصوص الحکم ومصباح الانس
  • رسالہ توضیح المسائل
  • مناسک حج
  • استفتائات (۳ جلد)

پہلوی حکومت کے خلاف اعتراضات کی قیادت

ایران پر حاکم نظام مشروطہ سلطنتی نظام تھا، البتہ دونوں پہلوی باپ بیٹے کی کارستانیوں کی وجہ سے مطلق العنان سلطنتی نظام میں بدل چکا تھا۔ کبھی کبھی حکومت کے پروگرام دین اسلام اور مذہب تشیع کے مطابق نہیں ہوا کرتے تھے اور یہي مسئلہ متدین افراد اور خاص طور پر دینی علماء کے طرف سے اعتراضات کا موجب بنتا تھا۔

پہلی حرکت

امام خمینی نے سنہ 1341 میں حکومت کی علنی اور کھلی مخالفت شروع کی۔ ریاستی و صوبائی انجمن کے لائحہ عمل لانے سے پہلے 16 مہر سنہ 1341 میں امام خمینی نے تمام مراجع قم کے ہمراہ ایک میٹینگ کی۔ جس کے باعث امام خمینی اور تمام علماء کی جانب سے اعلانیہ طور پر یہ قانون نافذ ہوا۔[7]
11 آذر سنہ 1341 میں امام خمینی کی تصویب کی گئی صوبائی اور بلدیاتی انجمن کو لغو کیا گیا۔ آپ نے اس تصویب کو ختم کرنے کا پیغام دیا۔

اعتراضات

  • 2 بہمن 1341؛ امام خمینی کی جانب سے شاہ کے غیر قانونی ریفرینڈم کو حرام قرار دیا گیا۔
  • 2 فروردین 1342؛ شاہ کی حکومت کے ہاتھوں مدرسہ فیضیہ قم میں ایک خونی حادثہ پیش آیا۔[8]
  • 15 خرداد 1342؛ امام خمینی کو قید کیا گیا اور لوگوں نے آپکو قید کرنے پر اعتراض کرنے کے لئے قیام کیا۔
  • 4 تیر 1342؛ امام کو قصر چھاونی سے نکال کر عشرت آباد منتقل کیا گیا۔
  • 21 فروردین 1343؛ آپ کے قید سے آزادی کے بعد قم کی مسجد اعظم میں پہلی تاریخی تقریر۔
  • 4 آبان 1343؛ میں کیپٹلیزم کے خلاف سخت اعتراضی خطاب۔
  • 13 آبان 1343؛ میں امام کو قید کرکے ترکی بھیجا گیا۔
  • 21 آبان 1343؛ ترکی کے شہر آنکارا سے دیہات میں منتقل کیا گیا۔
  • نجف میں جلاوطنی۔
  • 13 مہر 1344؛ کو امام خمینی کو ترکی سے بغداد کی جانب منتقل کیا گیا۔ 16 مہر 1344، کو سامرا سے کربلا کی جانب حرکت کی اور 23 مہر 1344 کو نجف میں داخل ہوئے وہاں پر علماء و مراجع کی جانب سے ملاقات کے بعد 16 مہر 1344 کو اپنے حوزے کا درس شروع کیا۔
  • 12 اردیبہشت 1356؛ شہدائے قم کے چہلم کی مناسبت سے آپکا پیغام۔
  • 2 مہر 1357؛ عراق کی فوج نے امام کے گھر کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔
  • 10 مہر 1357؛ عراق سے کویت کی طرف حرکت۔
  • 13 مہر 1357؛ عراق سے فراںس کی جانب حرکت۔
  • 12 بہمن 1357؛ کو 15 سال کی قید کے بعد ایران میں واپسی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت

سنہ 1357 ھ ش، ایران میں انقلاب انقلاب کامیاب ہوا۔ امام خمینی اسی سال کی 12 تاریخ کو ایران واپس آئے اور 22 بہمن کو شاہی حکومت کو شکست ہوئی اور کچھ مہینوں کے بعد 1358 ھ ش کے پہلے مہینے میں جمہوری اسلامی کا نظام نافذ ہوا۔ کچھ عرصے قانون اساسی کو جاری کرنے اور اپنا رہبر انتخاب کرنے کے لئے لوگوں نے ووٹ ڈالے اور اس نظام کو اجراء کرنے کے لئے امام خمینی جمہوری اسلامی کے رہبر کے طور پر انتخاب کئے گئے۔ خرداد سنہ 1368 یعنی اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس نظام کی رہبری آپ کے کندھوں پر رہی۔
نظام اسلامی جمہوریہ ایران کی تثبیت، قانون اساسی کی شروعات، داخلی مشکلات سے مقابلہ، ایران اور عراق کی آٹھ سال جنگ کی فرماندہی، عراق کی جانب سے صلح کو قبول کرنا، قانون اساسی کی اصلاح … امام کی دس سالہ قیادت کے اہم ترین کاموں میں سے تھے۔

یوم قدس

انقلاب کی کامیابی کے کچھ مہینوں بعد مرداد سنہ 1358 ھ ش، ماہ رمضان سنہ 1399 ھ ق، میں امام خمینی نے ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو روز قدس کا عنوان دیا اور اعلان کیا کہ دنیا کے تمام مسلمان لوگوں کے قانونی حقوق کی خاطر اجلاس کریں۔
ایران کی سالانہ ڈائری میں اس دن کا نام محفوظ ہے۔ اس دن کے بعد ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو، ایران اور دوسرے مختلف ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے۔

سوویت یونین کے صدر گورباچف کے نام خط

سنہ 1989ء کی پہلی تاریخ، 11 دی سنہ 1367 ھ ش، امام خمینی نے سوویت یونین کے صدر میخائیل گورباچف کو خط ارسال کیا۔ یہ خط آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی، ڈاکٹر محمد جواد لاریجانی اور خانم مرضیہ حدیدچی کے ذریعہ سے گوریاچف تک پہنچایا گیا۔

یہ خط ایسے شرائط میں سابقہ سوویت یونین کے صدر کو لکھا گیا جب سیاسی تجزیہ نگار کیمونیزم دنیا میں تبدیلی اور تحول کا نظارہ کر رہے تھے۔ اسلامی انقلاب کے قائد نے سوویت یونین کے نظام کے پاش پاش ہونے کی پیشین گوئی کرتے ہوئے یوں مرقوم فرمایا تھا: اب کے بعد کمیونیزم کو دنیا کے سیاسی میوزیم میں تلاش کرنا پڑے گا۔

اسی طرح اس خط میں مادی طرز فکر پر بھی تنقید کی گئی تھے اور کیمونیسٹ حاکموں کو دین کی طرف دعوت دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دینی حقائق سے آگاہی کے لئے اپنے دانشوروں کو قم بھیجا جائے۔

مشرکین سے بیزاری

حج کے سفر کے دوران ایرانی حاجیوں کی جانب سے مشرکین سے برائت کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ جس میں امریکا کے خلاف تقریر اور جلوس نکالنا، صہیونسم اور دوسری حکومت جو کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت کرتی ہیں ان کے خلاف اقدام کرنا، کہ ہر سال 7 ذی الحجہ کو مکہ میں یہ پروگرام کیا جاتا۔

سلمان رشدی کے قتل کا فتوی

سنہ 1988 ع/1367 ش، آیات شیطانی کے نام سے کتاب نشر ہوئی اکثر مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق اس کتاب میں پیغمبر اسلام (ص) کی توہین کی گئی. بہمن 1367 ، کو امام خمینی نے اس کتاب کے مولف کو پیامبر اسلام (ص) کی توہین کرنے کی وجہ سے سزائے موت کا حکم دیا۔[9] کچھ عرصے کے بعد کسی نے کہا کہ اگر اس کتاب کا مولف توبہ کرے تو اس کے قتل کا حکم ختم کر دیا جائے گا لیکن آیت اللہ خمینی نے اس جواب میں کہا کہ سلمان رشدی (کتاب کا مولف) حتی اگر توبہ بھی کر لے اور اپنے زمانے کے پرہیزگاروں میں سے بھی ہو جائے تب بھی اس کا حکم تبدیل نہیں ہو گا۔[10]

مجمع تشخیص اور مصلحت نظام کی ابتداء

اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کے مطابق، مجلس شورای اسلامی کوئی ایسا حکم نہیں کر سکتی جو شرع اور قانون کے مخالف ہو اور اس کی تشخیص شورای نگہبان کی ذمہ داری ہے۔ مجلس اور شورای نگہبان کے نظرات مختلف ہونے کی وجہ سے امام خمینی کو مجبوراً اس کام کے لئے کوئی چارہ کرنا پڑا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر تین برابر نمایندے ایک قانون کو تصویب کر لیں ان کی نظر شورای نگہبان کی نظر پر مقدم ہے۔ کچھ مدت کے بعد بہمن ماہ سنہ 1366 ش میں ایک گروہ درست نظام کی تشخیص کی لئے منتخب کیا گیا۔[11]
یہ گروہ شورای نگہبان اور مجلس شورای اسلامی کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو دور کرتا ہے اور کبھی ایسے قانون جو کہ ممکن ہیں شرع اور اصلی قانون کے خلاف ہوں ان کی تصویب کی جائے اور ان کو قانون میں تبدیل کیا جائے۔[12]

نظریات اور افکار

ولایت فقیہ

امام خمینی نے نظریہ ولایت فقیہ کو پہلی بار نجف میں تدریس (وہ درس جو بعد میں حکومت اسلامی کے نام سے مشہور ہوئے) کے دوران بیان کیا۔[13] اس نظریے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ شیعی حکومت ایک مجتہد جامع الشرایط کے زیر نظر ہونی چاہیے۔ ایران کا انقلاب کامیاب ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران میں اس نظریے پر عمل کیا گیا اور جمہوری اسلامی کی بنیاد اسی نظریہ پر رکھی گئی۔

امام خمینی کے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ولایت فقیہ کے نظریے کو بیان فرمایا اور فقیہ کے اختیارات کو پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ (ع) کے اختیارات کے معادل قرار دیا۔ اس نظریے کے مطابق فقیہ مصلحت کی بناء پر حکم شرعی کو وقتی طور پر روک سکتا ہے۔[14]

اجتہاد میں زمان و مکان کا کردار

امام خمینی نے اسفند ماہ سنہ 1367 ش، حوزہ علمیہ کے لئے ایک پیغام صادر کیا جو منشور روحانیت کے نام سے مشہور ہوا۔[15] آپ نے اس پیغام میں حوزہ علمیہ کو ایک جامعہ کے کنٹرول کے لئے ناکافی سمجھا اور تاکید کی کہ زمان اور مکان اجتہاد کے اصلی عنصر ہیں۔ زمان اور مکان ایک مجتہد کی نظر کو تبدیل کر سکتے ہیں اور اس کے باعث ایک حکم تبدیل ہو سکتا ہے۔[16] آپ نے اس خط میں سب سے زیادہ تاکید اجتہاد مصطلح کے حوزہ علمیہ کے لئے ناکافی ہونے پر کی۔

مصالح کو فقہ میں دخالت دینا

شطرنج کا جائز قرار دینا

شطرنج اہل تشیع کے اکثر علماء کی نظر میں حرام ہے۔ امام خمینی نے سنہ 1367 ش نے ایک سوال کے جواب میں کہا: اگر یہ آلات قمار میں سے شمار نہ ہو تو اسے شرط کے بغیر کھیلنا جائز ہے۔[17] یہ فتوا نیا ہونے کی وجہ سے اس پر کافی بحث کی گئی۔ امام خمینی کے ایک شاگرد نے اعتراض کے طور پر امام کو خط لکھا۔ امام خمینی نے اس کے جواب میں ایک تو اپنے فتویٰ پر تاکید کی اور دوسرے دیگر فقہاء کے فتویٰ پر اعتراض کیا۔[18]

دیوان شعر

پہلی بار امام خمینی کی رحلت کے ایک ہفتے بعد آپ کے کچھ اشعار نشر ہوئے۔ یہ اشعار جن کا مضمون عرفانی تھا بہت تیزی سے لوگوں کے درمیان مشہور ہو گئے۔

من بہ خال لبت‌ ای دوست گرفتار شدم چشم بیمار تو را دِیدم و بیمار شدم
فارغ از خود شدم و کوس انا الحق بزدم ہمچو منصور خریدار سر دار شدم
غم دلدار فکندہ است بہ جانم، شرری کہ بہ جان آمدم و شہرہ بازار شدم
در میخانہ گشایید بہ رویم شب و روز کہ من از مسجد و از مدرسہ بیزار شدم
جامہ زہد و ریا کندم و بر تن کردم خرقہ پیر خراباتی و ہشیار شدم
واعظ شہر کہ از پند خود آزارم داد از دم رند می‌ آلودہ مددکار شدم
بگذارید کہ از بتکدہ یادی بکنم من کہ با دست بت میکدہ بیدار شدم

کچھ عرصے کے بعد امام خمینی کے اشعار کا ایک مجموعہ شائع کیا گیا جس کا نام دیوان امام رکھا گیا۔
دیوان شعر امام ایسا مجموعہ ہے جس کے 6 ابواب میں غزلیں، رباعیاں، قصیدے، مسمط، بند اور مختلف جگہ سے جمع کئے گئے اشعار ہیں جو پہلی بار موسسہ تنظیم و نشر امام خمینی کی جانب سے 438 صفحوں پر مشتمل تھا۔

اس دیوان میں غزل اور رباعیوں کے علاوہ کچھ اشعار امام خمینی کی بہو (سید احمد خمینی کی بیوی) کے لئے پڑھے گئے تھے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ عصر حاضر کے کچھ شاعر جیسے حمید سبزواری، جواد محقق، عبد الجبار کاکایی، رحیم زریان، محمد علی بہمنی، کامران شرفشاہی، سعید بیابانکی، صابر امامی، عباس چشامی اور امیر مر زبان نے اس دیوان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

ترجمہ کے علاوہ، ایک کتاب فرھنگ موضوعی اور شرح اور تفسیر دیوان امام خمینی کے عنوان سے نشر ہوئی ہے۔ اس کے مولف قادر فاضلی ہیں۔

حوالہ جات

  1. انصاری، ص۱۴-۱۵
  2. انصاری، حدیث بیداری، ص۱۶
  3. انصاری، حدیث بیداری، ص۱۶
  4. انصاری، حدیث بیداری، ص۱۷-۱۸
  5. انصاری، حدیث بیداری، ص۱۸
  6. انصاری، حدیث بیداری، ص۱۹-۲۰
  7. رجبی، محمد حسن، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی ره، ص۲۲۹
  8. رجبی، محمد حسن، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی ره، ص ۲۵۰
  9. صحیفہ امام،‌ ج۲۱، ص۲۶۳
  10. صحیفہ امام،‌ ج۲۱، ص۲۶۸
  11. صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۳۲۱
  12. صحیفہ امام، ج۲۰، ص۴۶۴
  13. رک: امام خمینی، ولایت فقیہ
  14. صحیفہ امام، ج۲۰، ص۴۵۲
  15. صحیفہ امام،‌ ج۲۱، ص۲۹۱
  16. صحیفہ امام، ج۲۱،‌ ص۲۸۹
  17. صحیفہ امام، ج۲۱، ص۱۲۹
  18. صحیفہ امام، ج۲۱، ص۱۵۱

مآخذ

  • انصاری، حمید، حدیث بیداری، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۷۸ش.
  • خمینی، سید روح الله (امام)، صحیفہ امام، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی.
  • خمینی، سید روح الله (امام)، ولایت فقیہ.
  • رجبی، محمد حسن، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی: از آغاز تا تبعید، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۷۸ش.
  • حافظیان، ابو الفضل، اجازات حسبیہ امام خمینی، فصل نامہ حکومت اسلامی، ۱۳۷۸، شمارہ۱۲.
  • فصل نامہ حضور، شمارہ ۳۴، زمستان ۱۳۷۹ش.

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A2%DB%8C%D8%AA_%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81_%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C

تبصرے
Loading...