کیا ہمارے سلام اسلامی سلام ہیں؟

خلاصہ: ہم جب سامنے والے آدمی کو زبان سے سلام کہتے ہیں تو سلام کا مطلب دل اور عمل میں بھی پایا جانا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ زبان سلام کہے اور دل اور عمل اس کی خلاف ورزی کررہے ہوں۔

کیا ہمارے سلام اسلامی سلام ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیارت جامعہ کبیرہ کے پہلے فقرہ میں حضرت امام علی النقی (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: “السلام علیکم یا اھل بیت النبوّۃ”۔
حضرتؑ کے اس فقرہ کے سلسلہ میں گفتگو سے پہلے سلام کے بارے میں کچھ مطالب پیش کیے جارہے ہیں۔
اسلام نے سلام کو مستحب رکھا ہے اور اس کا جواب واجب کیا ہے۔ کیا مسلمانوں کا ایک دوسرے کو سلام، حقیقی اور خالص سلام ہے؟ کیا سب ایک دوسرے کے خیرخواہ اور سلامتی کے طلبگار ہیں؟ کیا سب ایک دوسرے سے صلح کی حالت میں ہیں یا آگ کے دو شعلوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بھڑک رہے ہیں؟ زبان سے سلام علیکم کہتے ہیں اور دل میں دھوکے اور خیانت کے طریقے سوچ رہے ہوتے ہیں؟ اگر ہمارا بازار، سلام والا بازار ہوتا تو اس میں اتنا سود کیوں چلتا، اتنی دھوکہ بازی کیسے ہوتی، اتنے مالی گھاٹے اور نقصان کیسے پڑتے؟ اگر ہماری قوم، سلام والی قوم ہوتی تو اس میں اتنی امراض اور بیماریاں کیوں ہوتیں؟ اتنے گلے اور شکوے کیوں ہوتے؟ تھانوں میں اتنی گرفتاریاں اور عدالتوں میں اتنے کیس کیوں چل رہے ہوتے؟ جب میاں بیوی جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ان کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی چیخ و پکار عدالتوں تک پہنچ کر طلاق کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو معاشرے کے افراد جو مختلف گھرانوں، خاندانوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے کب صلح و سلامتی اور امن و امان کی توقع کی جاسکتی ہے؟!
اس کا ایک حل: جب مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتے ہوئے، سلام کے مطلب پر غور کرے تو اس کا ضمیر اسے راہنمائی کرے گا کہ منافقت کیوں کررہے ہو، سامنے والے شخص کو زبان سے سلامتی اور امان کی خبر دے رہے ہو اور دل میں اس کے لئے کینہ، بغض اور دھوکے کے جال بچھا رہے ہو؟! ضمیر مذمت کرتا ہوا اسے صحیح طریقہ نکالنے پر مجبور کرے گا کہ جب تم اسے سلام کررہے ہو تو دل میں جتنا کینہ، دشمنی اور بدخواہی ہے اسے چھوڑ دو اور اس کی جگہ پر محبت، دوستی اور خیرخواہی اپنالو، تب تمہاری زبان اور عمل نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر دوسرے مسلمان کو سلام دیا ہے اور اس کے لئے سلامتی کی دعا کی ہے۔

تبصرے
Loading...