معرفت توحید کے چند گوہر امام رضا (علیہ السلام) کی زبان اطہر سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ
دین کے مسائل میں سے ضروری اور اہم ترین مسئلہ، توحید کا مسئلہ ہے اور اصول دین کی پہلی اصل توحید ہے، لہذا اگر انسان توحید کی پہچان اور معرفت اچھے طریقہ سے حاصل کرلے تو باقی اصول کو سمجھنا اور ان کا معتقد ہونا آسان ہوگا اور اگر توحید کی صحیح طریقہ سے شناخت نہ کی تو باقی اصول کو سمجھنے میں انتہائی دشواری کا سامنا ہوگا بلکہ دیگر اصول کو سمجھنا بالکل ناممکن ہوگا اور مختلف اعتقادی مسائل میں انسان، کمزوری کا شکار ہوتا ہوا مسلسل گمراہی کی زد میں رہے گا یہاں تک کہ یا کفر و شرک میں مبتلا ہوجائے گا یا غلو کے ناپاک گڑھے میں ڈوب جائے گا۔ اسی لیے توحید کی معرفت انتہائی اہم ہے اور بالکل بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔

کائنات کا خالق کون ہے
بعض لوگوں کے ذہن میں شاید یہ سوال اٹھتا ہو کہ اس بات پر کیا دلیل پائی جاتی ہے کہ یہ کائنات پہلے نہیں تھی اور بعد میں وجود میں آئی، یہ خود بخود بن گئی یا اسے کسی نے بنایا، اس کائنات میں مختلف چیزیں کیا پہلے سے موجود تھیں یا بعد میں وجود میں آئیں، یا ان کو کسی نے خلق کیا ہے؟ اس طرح کا سوال حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا۔ آپؑ کی خدمت میں ایک آدمی شرفیاب ہوا اور اس نے کائنات کے حدوث (وجود میں آنے) کی دلیل دریافت کی؟ آپؑ نے فرمایا: أنتَ لَم تَكُنْ ثُمّ كنتَ، و قد عَلِمتَ أنّكَ لَم تُكَوّنْ نَفْسَكَ، و لا كَوّنَكَ مَن هُو مِثلُكَ”[1]، “تم نہیں تھے بعد میں وجود میں آئے اور تم جانتے ہو کہ تم نے اپنے آپ کو وجود نہیں دیا اور نہ تجھ جیسے نے تجھے وجود دیا”۔ لہذا معلوم ہوگیا کہ اس کائنات کو کسی نے خلق کیا ہے، جبکہ یہ کائنات پہلے سے نہیں تھی۔

دلیل کی ضرورت دوسرے خدا کے لئے ہے
ایک آدمی جو ثنوی تھا اور دو خداوں کا قائل تھا اس نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا: میرا عقیدہ ہے کہ کائنات کے صانع اور بنانے والے، دو خدا ہیں، تو بنانے والے کی وحدانیت پر کیا دلیل ہے؟ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: قولك: إنه اثنان دليل على أنه واحد، لانك لم تدع الثاني إلا بعد إثباتك الواحد، فالواحد مجمع عليه، وأكثر من واحد مختلف فيه”[2]، “تمہاری یہ بات (کہ کائنات کو بنانے والے دو خدا ہیں)، اس بات کی دلیل ہے کہ (کائنات کا بنانے والا) ایک ہے، کیونکہ تم دوسرے کے دعویدار نہیں ہو مگر پہلے کو ثابت کرنے کے بعد (یعنی تم، دوسرے بنانے والے کے دعویدار تب ہو جب پہلے کو مانتے ہو) لہذا پہلے (بنانے والے) پر سب کا اتفاق ہے، لیکن ایک سے زیادہ پر اختلاف ہے” (اور جس کے وجود پر اختلاف ہو، اس کا وجود ہرگز یقینی نہیں ہے، دوسرے بنانے والے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے)۔

اللہ کی وحدانیت کی تشریح
حضرت ثامن الحجج علی ابن موسی الرضا ­(علیہ السلام) اللہ کی وحدانیت کے بارے میں فرماتے ہیں: “واحد لا بتأويل عدد”[3]، “اللہ واحد ہے، مگر اس کی وحدانیت عددی نہیں ہے”۔
وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت، عدد والی وحدت نہیں، یعنی اللہ تعالی وہ “ایک” نہیں جس کے بعد “دو” ہوتا ہے، بلکہ اس کی وحدت وہ وجودی وحدت ہے جس کے مقابل میں عدم ہے، نہ کہ وہ وحدت جس کے مقابل میں کثرت ہے۔

اللہ کے موجود ہونے کی تشریح
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام)، اللہ کے موجود ہونے کے سلسلے میں فرماتے ہیں: “موجود لا عن عدم”[4]، “اللہ موجود ہے، (لیکن اس کا وجود) عدم سے نہیں۔
اس فقرہ کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ کا وجود ایسا نہیں جو عدم کے بعد ہو، بلکہ ازلی اور قدیم وجود ہے، کیونکہ مخلوقات، عدم سے وجود میں آئی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اللہ کی ذات بھی ایسی ہے جو عدم سے وجود میں آئی ہو، مگر عظیم توحید شناس امام، حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کے اس معرفت الہی سے لبریز جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات موجود ہے بغیر اس کے کہ عدم سے وجود میں آئی ہو۔
نیز اسی طرح کا ایک اور بیان بھی امام رضا (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: “سبق الاوقات کونه و العدم وجودہ”[5]، “وہ سب زمانوں سے پہلے تھا اور اس کا وجود عدم سے پہلے تھا”۔

کیونکہ اللہ تعالی اکیلا وجود ہے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا تو اس بات کا صحیح ہونا ثابت ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی، ازل سے موجود ہے، جبکہ کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں تھی، جیسا کہ اب بھی موجود ہے اور کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں ہے، چونکہ وجودِ محض کے وجود کے ساتھ کسی اور وجود کا اس کے رتبہ میں موجود ہونا بالکل ناممکن ہے، لیکن خداوند متعال ہر چیز کے ساتھ ہے، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ[6]، ” اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو”، کیونکہ ان دو چیزوں کی معیّت کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دو چیزیں کسی تیسری چیز سے، جس میں دونوں مشترکہ ہیں، موازنہ ہوں اور اس تیسری چیز کے بغیر، دو چیزوں کی معیت بے معنی ہے، کیونکہ دو چیزوں کے آپس میں موازنہ کے لئے کوئی معیار نہیں پایا جاتا، نیز ایک چیز کا دوسری چیز سے پہلے ہونا تب صحیح جب ان دونوں کا تیسری چیز سے موازنہ ہو، مثلاً جب کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بعثت، ہجرت سے پہلے ہے، تو یہ کہنا تب صحیح ہے جب ان دونوں کو ایک مشترک چیز مثلاً آنحضرتؐ کی حیات سے موازنہ کیا جائے۔ اگر دو چیزوں کا کوئی مشترکہ نقطہ نہ ہو تو ان کے درمیان معیت اور قبل یا بعد میں ہونا ناقابل تصور ہوگا۔
نتیجہ: ہمیں چاہیے کہ اہل بیت (علیہم السلام) سے درس توحید لے کر دوسروں کو بھی اس توحید کی معرفت سے روشناس کریں جو اہل بیت (علیہم السلام) نے اپنے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے علم کے سمندر میں سے وقت کے تقاضہ کے مطابق بیان فرمائی ہے۔ اگر معصومین (علیہم السلام) کی بیان کردہ توحید، دنیابھر کے لوگوں کو سمجھائی جائے تو اس کے ساتھ ساتھ ولایت کے ادراک کا راستہ بھی فراہم ہوجائے گا، کیونکہ انسانیت ایسے اللہ کو پہچاننے لگے گی جس کی عظمت اتنی بلند ہے کہ اس سے رابطہ کسی معصوم ہستی کے ذریعہ ہی ممکن ہے، تو اس وحدہ لا شریک ذات سے رابطہ قائم کرنے کے لئے وہ کون سی معصوم ہستی ہے جو گناہ سے پاک ہو، جسے ذات احدیت نے منصب امامت پر رونق افروز کیا ہو، جو اس کے علم کا علمبردار ہو، اس کے احکامات کا نشر کرنے والا ہو، اپنے دامن کو ہر طرح کے گناہ و خطا سے پاک رکھے اور اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے اس کی رضا پر راضی ہو، اس معصوم ہستی سے مخلوق بھی راضی ہو اور اس کا خالق بھی راضی، وہ کون ہے؟ وہ وہی علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: “لا إله إلا الله حصني، فمن دخل حصني أمن من عذابي بشرطها و شروطها وأنا من شروطها[7]، لاالہ الا اللہ، میرا قلعہ ہے، پس جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے امان پاگیا، کچھ شرطوں کے ساتھ اور میں اس کی شرطوں میں سے ہوں”۔ لہذا اللہ کے قلعہ میں داخل ہونے کے لئے کچھ شرطیں ہیں اور حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی ولایت کو قبول کرنا اور اس پر معتقد ہونا نیز اس کے شرائط میں سے ایک ضروری شرط ہے۔ بنابریں توحید اور امامت کا باہمی ایسا تعلق ہے کہ اگر جس کو اللہ نے امام قرار دیا ہے، اس کی امامت کو قبول نہ کیا جائے تو درحقیقت وہ شخص توحید پر ایمان نہیں لایا اور اللہ کے عذاب سے بھی امان میں نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] ميزان الحكمہ ، ج3، ص437۔
[2] میزان الحکمہ، ج3، ص1896۔
[3] امالي شيخ مفيد، ص255۔
[4] امالي شيخ مفيد، ص255۔
[5] امالي شيخ مفيد، ص256۔
[6] سورہ حدید، آیت 4۔
[7] توحيد صدوق، ص 25۔

تبصرے
Loading...