“لامحدود ذات” کا “لاثانی” ہونا

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے، اللہ کی لامحدودیت اور لاثانی ہونے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔

"لامحدود ذات" کا "لاثانی" ہونا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: وَمَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ، “اور جس نے اسے محدود سمجھا تو یقیناً اس نے اسے (گنتی کا ایک) شمار کرلیا”۔
     اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو محدود سمجھ لے تواس نے اللہ تعالیٰ کو عدد اور گنتی میں شمار کردیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے اللہ تعالیٰ کے لئے شریک کو ممکن سمجھ لیا ہے، کیونکہ جو چیز ہر لحاظ سے لامحدود ہو اس کا کوئی شریک، شبیہ اور مانند نہیں ہوتا، لیکن اگر محدود ہو، چاہے وہ چیز جتنی بھی بڑی ہو، پھر بھی اس چیز کی ذات سے باہر اس کی شبیہ اور مانند کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ دیگر الفاظ میں دو یا چند محدود چیزیں جتنی بھی بڑی ہوں، ان کا موجود ہونا بالکل ممکن ہے، لیکن وہ چیز جو ہر لحاظ سے لامحدود ہو، اس کی ثانی کوئی چیز ممکن نہیں ہے، کیونکہ جس چیز کا بھی تصور کیا جائے وہ چیز، اسی لامحدود کی ذات کی طرف پلٹے گی۔

*منبع: پيام امام امير المومنين عليه السلام‌، ناصر مكارم شيرازى، ناشر: دار الكتب الاسلاميه‌، تهران‌، ۱۳۸۶ ھ. ش‌، پہلی ایڈیشن۔

تبصرے
Loading...