قرآن کی نظر میں خواتین کا گھر کے باہر کام کرنا

خلاصہ: قرآن نےمجبوری کی حالت میں خواتین کو گھر کے باہر کام کرنےکی اجازت دی ہے۔

قرآن اور خواتین کا گھر کے باہر کام کرنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     شروع میں اس بات کو ذکر کرنا ضروری ہے کہ اقتصادی اعتبار سے گھر والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا مرد کے ذمہ قرار دیا گیا ہے: «الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى‏ بَعْضٍ وَ بِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِمْ[سورۂ نساء، آیت:۳۴] مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے»۔
قرآن ان موقعوں پر خواتین کو گھر کے باہر کام کرنے کو صحیح سمجھتا ہے:
۱۔ گھر کے باہر کام کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چارہ باقی نہ رہ گیا ہے جیسا کے جناب شعیب(علیہ السلام) کے بیٹیاں اضطرار کی حالت میں گھر کے باہر کام کیا کرتی تھیں: «… وَ أَبُونا شَيْخٌ كَبير[سورۂ قصص، آیت:۲۳] اور ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں»۔
۲۔  ایسی جگہ پر کام کرنےسے پرہیز کرے جہاں پر مرد ہوں جیسا کے جناب حضرت شعیب(علیہ السلام) کی بیٹیوں نے حضرت موسی(علیہ السلام) سے کہا: «لا نَسْقي‏ حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعاء[سورۂ قصص،آیت:۲۳] ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے»۔
۳۔ گھر سے باہر آنا جانا شرعی احکام کے مطابق ہو اور نامحرم سے ارتباط نہ ہو: «فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذي في‏ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَ قُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفاً[سورۂ احزاب، آیت:۳۲] لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو»۔
۴۔ راستہ چلنے اور بات کرنے میں حیا کی رعایت کرنا: «فَجاءَتْهُ إِحْداهُما تَمْشي‏ عَلَى اسْتِحْياء[سورۂ قصص، آیت:۲۵] اتنے میں دونوں میں سے ایک لڑکی کمال شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی»۔
     قرآن نے ان چیزوں کی رعایت کرتے ہوئے خواتین کو گھر کے باہر کام کرنے کی اجازت دی ہے۔

تبصرے
Loading...