قرآنِ کریم کی روشنی میں اصلاحی تحریک

باسمہ تعالیٰ

قرآنِ کریم کی روشنی میں

اصلاحی تحریک کے انفرادی عوامل

تحریر: سید عقیل حیدر زیدی

کسی بھی اصلاحی تحریک کے ثمرآور اور نتیجہ بخش ہونے کے لیے دو قسم کے عوامل کی ضرورت ہوتی ہے؛ ایک اِن عوامل کا انفرادی پہلو ہے اور دوسرا اجتماعی پہلو ہے۔ اصلاحی تحریک اور انقلاب کی کامیابی و کامرانی کے لیے اِن دونوں پہلوؤں کو ہونا ضروری ہے۔ ہم نے ماہ ربیع الاوّل میں ’’ہفتۂ وحدت‘‘ کی مناسبت سے اصلاحی تحریک کے اجتماعی پہلوؤں کو قرآنِ کریم کی روشنی میں بیان کیا تھا اور اِس شمارے میں ’’انقلابِ اسلامی کی سالگرہ‘‘ کی مناسبت سے اصلاحی تحریک کے انفرادی پہلوؤں کو بیان کر رہے ہیں۔

معاشرے اور مجموعہ جات مختلف افراد اور اَجزاء سے تشکیل پاتے ہیں اور ہر مجموعہ اپنے اَجزاء کی شناخت اور کارکردگی کے علاوہ، خود اپنی علیحدہ شناخت اور مختلف و مستقل کارکردگی بھی رکھتا ہے۔ اہم ترین مجموعہ جات میں سے انسانی جوامع اور معاشروں کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ انسانی معاشروں میں دو قسم کے لوگ وجود رکھتے ہیں: ایک وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے ذاتی منافع کی فکر میں رہتے ہیں اور اس تک پہنچنے کے لیے ہر بُرے اور غلط کام کا ارتکاب بھی کر لیتے ہیں۔ یہی لوگ کسی بھی معاشرے کے انحطاط اور پستی کے اہم ترین عوامل میں سے شمار ہوتے ہیں۔ اِن کے برعکس معاشرے میں ایسے افراد بھی وجود رکھتے ہیں جو ہمیشہ حالات کے سازگار ہونے اور اُمور کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہی اصلاح کنندگان بیشتر اوقات معاشروں میں اصلاحی تحریکوں کی تشکیل کا نقطۂ آغاز ہوتے ہیں۔

قرآنِ کریم کی روشنی میں انقلاب ایک قسم کی اصلاح شمار ہوتا ہے اور یہ دونوں (انقلاب اور اصلاح) ایک دوسرے کے مدّمقابل نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآنِ کریم ہمیشہ اصلاح اور فساد کی بات کرتا ہے اور اس کی تعلیمات کا مکمل رُخ فساد کو روکنے، اسے نابود کرنے اور اُمور کی اصلاح کی بنیاد پر استوار ہے۔ قرآنِ کریم انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کو بھی ایک قسم کی اصلاح بیان کرتا ہے: ﴿إِنْ أُريدُ إِلَّا الْإِصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ﴾[1] بنابرایں ہر قسم کی تحریک اور انقلاب کو ایک اصلاحی تحریک سمجھا جا سکتا ہے۔ اصلاح پسندانہ تحریکوں اور انقلابوں کی کامیابی کے چند اہم ترین انفرادی عوامل کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ ایمان

انفرادی عوامل کے درمیان ’’ایمان‘‘ اصلی اور بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ ایمان؛ امنیت، تصدیق، قبول اور دل میں ٹھہر جانے کے معنی میں ہے۔[2]‏ نیز اسی طرح اصطلاح میں ایمان کا معنی، ایمان کے متعلقات کے ساتھ اُس کا قلبی طور پر یقین و ایقان؛ یعنی پروردگارِ عالم کی وحدانیت و یکتائی، پیغمبروںؑ کی نبوّت و رسالت اور روزِ قیامت پلٹنے و بازگشت کا عقیدہ رکھنا ہے۔

قرآنِ کریم نے حیاتِ طیّبہ کہ جو تمام اصلاح پسند افراد کا اصلی ہدف و مقصد رہی ہے، کے حصول کو ایمان سے مشروط کیا ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى‏ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾[3] ایک اور آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ مومنین کسی بھی چیز سے محزون و غمگین نہ ہوں اور سستی (و غفلت) نہ کریں کیونکہ وہی برتری (اور غلبہ) پانے والے ہیں: ﴿وَ لَا تَهِنُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنينَ﴾[4] یہ آیت اس جنگ سے مربوط ہے کہ جس میں مسلمان بہت زیادہ نقصان اُٹھانے کے بعد رنجیدہ خاطر ہوکر جنگ و قتال سے بےرغبت ہو گئے تھے، لیکن خداوندِ متعال اس آیت کو بیان کرنے کے ساتھ فرماتا ہے کہ (اے مسلمانو!) ہرگز سُست (اور بےرغبت) نہ ہو اور غمگین نہ ہو جاؤ کیونکہ تم ایمان رکھتے ہو اور ایمان ہمیشہ صبر و تقویٰ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں کامیابی و کامرانی کے لیے ضروری ہیں، لہٰذا تم لوگ ایمان کے ساتھ کبھی بھی کافروں کے مدِّمقابل مغلوب نہیں ہوں گے۔[5]

قرآنِ کریم دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ خداوندِ متعال مومنین کی مدد و نُصرت فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنينَ﴾[6] اِس آیت میں لفظِ ’’کان‘‘ استعمال ہوا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خداوندِ متعال کے یہاں یہ ایک دائمی اور جاری و ساری سنت ہے۔ نیز لفظِ ’’علیٰ‘‘ خداوندِ متعال کی اِس مدد و نُصرت کو ایک حتمی اور یقینی اَمر کے طور پر بیان کرتا ہے۔[7] ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام اِس آیت کے ضمن میں مومنین کی نُصرت کو انتظارِ فرجِ امام زمانہ (عج) کے ساتھ ربط دیتے ہوئے مومنین کی نجات کو اسی امر سے مربوط قرار دیتے ہیں۔[8]

۲۔ تقویٰ و پرہیزگاری

قرآنِ کریم تقویٰ و پرہیزگاری کو صحیح اور غیرصحیح کی شناخت کا عامل قرار دیتے ہوئے بیان فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَاناً﴾[9] اصلاح کرنے والے افراد کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک خصوصیت، اچھے، شائستہ اور نیک اعمال سے آشنائی اور مفاسد و  بُرائیوں سے اُن کا جدا کرنا اور تشخیص دینا ہے۔ بےشک جب تک انسان نیک اعمال کو بُرے اور ناپسندیدہ اعمال سے جدا نہ سمجھے، وہ ان کی اصلاح کے لیے قدم نہیں اُٹھا سکتا۔ اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ ’’فرقان‘‘ بطورِ مطلق استعمال ہوا ہے اور ہر وہ چیز جو حق و باطل اور صحیح و غیرِصحیح کے زُمرے میں آتی ہے، اُسے شامل ہوتا ہے۔[10]

دوسری آیت میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے: ﴿وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً * وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ…﴾[11] اِن آیاتِ کریمہ میں تقویٰ و پرہیزگاری کو راہِ خروج قرار دیتے ہوئے، اگلے حصّے میں ایسے رزق و روزی کا ضامن قرار دیا گیا ہے جس کا انسان کو خیال و گمان بھی نہ ہو۔ اِس لیے اصلاح کرنے والے ہر مومن و انقلابی شخص کو ہمیشہ اپنے عمل کی بنیاد تقویٰ و پرہیزگاری کو قرار دینا چاہیے، کیونکہ یہی چیز باعث بنتی ہے کہ وہ اپنے ہدف و مقصد میں ثابت قدم رہے اور بہترین راستے کا انتخاب کرے۔

۳۔ صبر و پائیداری

کسی بھی معاشرے کے موجودہ حالات میں تبدیلی لانے کے لیے اصلاح اور سعی و کوشش ہمیشہ سختیوں اور مشکلات کے ہمراہ ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو اس راستے میں قدم اُٹھاتے ہیں، اپنے اندر برداشت و بردباری اور صبر و پائیداری کے عنصر میں اضافہ کریں۔ قرآنِ کریم سب کو صبر و استقامت سے مدد چاہنے کا حکم دیتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرينَ﴾[12] اِس آیتِ شریفہ میں تاکید کی گئی ہے کہ خداوندِ متعال صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور وہ جس کے ساتھ خداوندِ متعال ہو وہ یقیناً کامیاب ہوتا ہے۔

دوسری آیتِ کریمہ میں صبر اور کامیابی کو ایک دوسرے سے لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے: ﴿قالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ أَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرينَ﴾[13] یہ آیت طالوت پر ایمان لانے والے سپاہیوں کے بارے میں ہے کہ جب وہ جالوت کے لشکر سے رو بُرو ہوئے تو اُن کی تعداد جالوت کے سپاہیوں سے بہت کم تھی، لیکن انہوں نے خداوندِ متعال سے صبر و استقامت کا تقاضا کیا اور اپنے سے بڑے لشکر کے مقابلے میں کامیاب و کامران ہو گئے۔ پس اِس لحاظ سے وہ افراد جو کسی معاشرے میں تبدیلی اور اصلاح کے خواہاں ہیں، ضروری ہے کہ وہ اپنے ہدف کی راہ میں صابر و بُردبار ہوں اور یقینی طور پر جان لیں کہ صبر و پائیداری، کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

۴۔ ایثار و فداکاری

اصلاح اور جدّوجہد کے دوران کبھی ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ انسان کو اپنے بلند و بالا اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لیے اپنے مقام و منزلت، رفاہ و آسائش، خاندان و رشتہ داروں، مال و منافع اور حتی کہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ بےشک تحریکیں ایسے ہی حالات میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہیں کہ اِ ن کے محرِّک افراد اِس قسم کے جذبے سے سرشار ہوں۔ اِس قسم کے ایثار و فداکاری کا واضح ترین نمونہ کہ جو پیغمبر اکرمﷺ کی اصلاحی تحریک کے ثمرآور اور نتیجہ بخش ہونے میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، حضرت علی علیہ السلام کا شبِ ہجرت پیغمبر اکرمﷺ کے بستر پر سُونا ہے۔ بےشک اُس رات آپؑ کے اِس عمل نے پیغمبرؐ کی جان بچائی، اگرچہ جو شخص بھی اُس رات آنحضرتؐ کے بستر پر سُوتا اُس کے قتل کئے جانے کا بہت زیادہ احتمال تھا۔ قرآنِ کریم اِس بارے میں فرماتا ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبَادِ﴾[14] البتہ اِس چیز میں دِقّت ضروری ہے کہ جس کے لیے جان و مال وغیرہ کو ہاتھ سے دے رہے ہیں وہ اِس ایثار و فداکاری کی ارزش و لیاقت بھی رکھتا ہو۔

۵۔ شجاعت اور بہادری

وہ افراد جو معاشرے کی اصلاح اور موجودہ حالات کے تبدیل کرنے کی راہ میں قدم اُٹھاتے ہیں، ایک قسم کے مجاہد ہیں، اسی وجہ سے ہمیشہ دشمنوں اور ڈکٹیٹروں کی طرف سے مختلف قسم کی دہمکیوں اور خطرات سے دُچار رہتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مجاہد کی مانند کہ جو میدانِ جنگ میں جہاد میں مشغول ہوتا ہے، شجاع، بہادر اور نڈر ہوں، تاکہ کوئی بھی رکاوٹ انہیں پیشرفت سے نہ روک سکے۔ خداوندِ متعال ایسے لوگوں کی جو راہِ خدا میں جہاد کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کا خوف نہیں رکھتے، تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرينَ يُجَاهِدُونَ فِي‏ سَبِيلِ اللَّهِ وَ لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَآءُ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾[15] نیز دوسری آیت میں عتاب و سرزنش آمیز خطاب اُن لوگوں کے لیے آیا ہے کہ جو دشمنانِ خدا کے مقابلے میں سُستی اور خوف کا شکار ہو گئے ہیں: ﴿أَ لَا تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَ تَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾[16]‏اِس آیت میں دو نکات پر تاکید کی گئی ہے؛ پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانوں کو چاہیے کہ اپنی قابلِ قدر اور ارزشمند چیزوں کا دفاع کریں اور تجاوز کرنے والوں کے سامنے ڈَٹ جائیں اور یہ کام فقط شجاع انسانوں ہی سے ممکن ہے اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مقابلہ اور جہاد فقط اُس وقت ہونا چاہیے جب مدِّمقابل اِس کا آغاز کرے۔ دوسرے الفاظ میں اصلاح خواہی میں جو چیز اصل شمار ہوتی ہے وہ ملائم ثقافتی اقدامات ہیں، لیکن جس وقت مدِّمقابل قدرت و طاقت کا سہارا لے تو اُس وقت ضروری ہے کہ اس کا مقابلہ بالمثل کیا جائے۔

انفرادی عوامل کے طور پر دوسرے موارد بھی ذکر کیے جا سکتے ہیں، لیکن گنجائش نہ ہونے کی بناء پر فقط ان کے عناوین بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے: اُمیدواری، خدا دوستی اور اخلاص، دوستوں کے ساتھ تواضع و انکساری اور دشمنوں کے ساتھ شدّت و سختی وغیرہ۔

منابع:

________________________________________

[1]. سورۂ ہود، آیت۸۸؛ ’’جہاں تک میرے لیے ممکن ہے، میں تو صرف (معاشرے کی) اصلاح چاہتا ہوں۔‘‘

[2]. لسان العرب، محمد بن مکرم ابن منظور مصری، ج۱۳، ص۲۳

[3]. سورۂ نحل، آیت۹۷؛ ’’مرد یا عورت میں سے جو شخص بھی اچھا اور شائستہ کام انجام دے جبکہ وہ صاحبِ ایمان بھی ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور یقیناً وہ جو کچھ (دنیا میں) کرتے رہے ہم انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزاء دیں گے۔‘‘

[4]. سورۂ آل عمران، آیت۱۳۹؛ ’’اور ہرگز سستی نہ کرو اور (مصیبتوں پر) محزون نہ ہو جاؤ کیونکہ اگر تم صاحبانِ ایمان ہو تو سر بلندی تمہارے ہی لیے ہے۔‘‘

[5]. ملاحظہ فرمائیں: المیزان فی تفسیر القرآن، سید محمد حسین طباطبائیؒ، ج۴، ص۲۷

[6]. سورۂ روم، آیت۴۷؛ ’’اور ہم پر لازم ہے کہ ہم صاحبانِ ایمان کی مدد کریں۔‘‘

[7]. ملاحظہ فرمائیں: تفسیر نمونہ، ناصر مکارم شیرازی، ج۱۶، ص۴۶۷؛ تفسیر مفاتیح الغیب، ابو عبد الله محمد ابن عمر فخر رازی، ج۲۵، ص۱۰۸؛ ایک اور آیت میں یہی مضمون مومنین کی نجات کی صورت میں تکرار ہوا ہے: ﴿ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنا وَ الَّذينَ آمَنُوا كَذلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنينَ﴾؛ سورۂ یونس، آیت۱۰۳؛ ’’پھر ہم اپنے رسولوںؑ اور ایمان لانے والوں کو نجات دیتے ہیں اور یہ ہم پر لازم ہے کہ ہم صاحبانِ ایمان کو نجات دیں۔‘‘

[8]. ملاحظہ فرمائیں: تفسیر العیاشی، محمد‌ابن‌مسعود عیاشیؒ، ج۲، ص۱۳۸

[9]. سورۂ انفال، آیت۲۹؛ ’’اے ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) جدائی کی صلاحیت عطا کر دے گا۔‘‘

[10]. ملاحظہ فرمائیں: المیزان فی تفسیر القرآن، سید محمد حسین طباطبائیؒ، ج۹، ص۵۶؛ تہذیب الاحکام، شیخ محمد ابن‌حسن طوسیؒ، ج۵، ص۱۰۸

[11]. سورۂ طلاق، آیت۲-۳؛ ’’اور جو بھی تقوائے الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا اُسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص خدا پر بھروسہ کرے خدا اس کے لیے کافی ہے…۔‘‘

[12]. سورۂ بقرہ، آیت۱۵۳؛ ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘؛ نیز ملاحظہ فرمائیں: سورۂ بقرہ، آیت۴۵

[13]. سورۂ بقرہ، آیت۲۵۰؛ ’’(اور وہ لوگ جب جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے کے لیے نکلے تو) انہوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! ہمیں بےپناہ صبر عطا فرما اور ہمارے قدموں کو استقامت دے اور ہمیں کافروں کے مقابلے میں نُصرت عطا فرما۔‘‘

[14]. سورۂ بقرہ، آیت۲۰۷؛ ’’اور لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضیِ پروردگار کے لیے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔‘‘

[15]. سورۂ مائدہ، آیت۵۴؛ ’’اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی، مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحبِ عزّت، راہِ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی۔ یہ فضلِ خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحبِ وسعت اور علیم و دانا ہے۔‘‘

[16]. سورۂ توبہ، آیت۱۳؛ ’’کیا تم اُس قوم سے جہاد نہ کرو گے جس نے اپنی قَسموں (عہد و پیمان) کو توڑ ڈالا اور رسولؐ کو (اُن کے وطن سے) نکال دینے کا ارادہ بھی کر لیا اور وہی تھے جنہوں نے تم پر مظالم کرنے میں پہل کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم صاحبانِ ایمان ہو تو خدا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔‘‘

 

تبصرے
Loading...