سید رضی (علیہ الرحمہ) کی کاوش و محنت پر طائرانہ نظر

خلاصہ: اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے کہ سید رضی (علیہ الرحمہ) نے نہج البلاغہ کی تالیف کیسے کی اور آپ کن مآخذ سے فیضیاب ہوئَے، نیز آپ کی دیگر تصنیفات کا تذکرہ۔

سید رضی (علیہ الرحمہ) کی کاوش و محنت پر طائرانہ نظر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہم ترین اور معروف ترین کتاب جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے کلام کے بارے میں ہمارے پاس ہے، کتاب “نہج البلاغہ” ہے۔ یہ عظیم الشان کتاب جو آپؑ کے ارشادات اور تحریروں کا منتخب مجموعہ ہے، یہ سید رضی (علیہ الرحمہ) کی کاوش و محنت اور تحقیق و جستجو کا حاصل ہے۔ ابوالحسن محمد ابن حسین موسوی بغدادی عرف “سید رضی” نے اس باعظمت کتاب کو تین حصوں میں تالیف کیا ہے: خطبات، مکتوبات اور حکمتیں۔
سید رضی (علیہ الرحمہ) اپنے زمانے کے عظیم علماء میں سے تھے اور مختلف اسلامی علوم کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے بڑے ادیبوں اور شاعروں میں سے  بھی تھے۔ نہج البلاغہ کے علاوہ آپ کی کئی دیگر تالیفات بھی ہیں، جیسے: خصائص ائمہ، تلخیص البیان عن مجاز القرآن، المجازات النبویہ اور حقائق التاویل فی متشابہ التنزیل۔
سید رضی (علیہ الرحمہ) نہج البلاغہ کے مقدمہ میں اس قیمتی کتاب کی تالیف کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
“میں نے جوانی کے زمانے میں خصائصِ ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے سلسلہ میں ایک کتاب تالیف کی تا کہ ان بزرگ ہستیوں کی احادیث اور کلمات کو منتخب طور پر اکٹھا کروں۔ جب میں نے امیرالمومنین (علیہ السلام) سے متعلق خصائص کو مکمل کرلیا تو کچھ مشکلات پیش آئیں کہ کتاب کو مکمل نہ کرپایا۔ اس کتاب کی فصلوں کے آخر میں، آنحضرتؑ کے کلمات قصار کی ایک فصل تھی، لیکن میں آپؑ کے خطبات اور مکتوبات کو نہیں لایا تھا۔ جب میرے کچھ دوستوں نے کتاب کی اس فصل کو دیکھا تو ان کے لئے دلچسپ تھی، لہذا انہوں نے مجھ سے چاہا کہ مستقل کتاب، امیرالمومنین (علیہ السلام) کے قیمتی کلمات کے بارے میں مختلف موضوعات پر تالیف کروں، میں نے جب دیکھا کہ ایسی تالیف ابھی تک نہیں ہوئی تو اس عظیم کتاب کی تالیف شروع کی… اور میں نے اس کا نام نہج البلاغہ رکھا”۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ سید رضی (علیہ الرحمہ) کے پاس حضرت علی (علیہ السلام) کے ارشادات کو اکٹھا کرنے کے لئے ماخذ بہت بھرپور اور وسیع تھا، کیونکہ آپ بغداد کے دو عظیم کتب خانوں سے فیضیاب ہوئے۔ ان میں سے ایک آپ کے بھائی سید مرتضی (علیہ الرحمہ) کا ۸۰ (اَسّی) ہزار جلدوں پر مشتمل کتب خانہ تھا اور دوسرا ۱۰ (دس) ہزار جلدوں پر مشتمل کتب خانہ “بیت الحکمہ” تھا جو وزیر بہاء الدولہ ابن بویہ دیلمی کا تھا [ مصطفوی، معرفی نهج‌البلاغه، ص ۳۵]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[مصطفوی، سید جواد، معرفی نهچ‌البلاغه، مشکات، شماره ۴۰۱، پاییز ۱۳۶۱ش]۔

تبصرے
Loading...