رسول اللہ (ص) کی عظیم شخصیت نہج البلاغہ کے دیگر آٹھ خطبوں کی روشنی میں

خلاصہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم الشان شخصیت کے بارے میں نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے جو خطبے ارشاد فرمائے ہیں، ان میں سے مزید آٹھ خطبوں میں سے اس عنوان سے متعلق مطالب نقل کیے گئے ہیں (اس سے پہلے مضمون میں بھی آٹھ کی روشنی میں بیان کیے جاچکے)۔

رسول اللہ (ص) کی عظیم شخصیت نہج البلاغہ کے دیگر آٹھ خطبوں کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ: اِس مضمون میں صرف نہج البلاغہ میں جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیان ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ خطبات نمبر 103، 106، 112، 156، 158، 159، 171، 192۔
خطبہ 103 میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: آخر اللہ نے محمد ﷺ کو بھیجا درآں حالیکہ وہ گواہی دینے والے ، خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تھے ۔ جو بچنے میں بھی بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہونے پر بھی اشرف کائنات تھے اور پاک لوگوں میں خوخصلت کے اعتبار سے پاکیزہ تر اور جو دوسخا میں ایر صفت برسائے جانے والوں میں سب سے زائد لگاترا برسنے والے تھے ۔
خطبہ 106 میں فرماتے ہیں: انہیں انبیاء کے شجرہ ، روشنی کے مرکز آل ابراہیم) ) بلندی کی جبیں )قریش) بطحاء کی ناف (مکہ) اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا … وہ ایک طبیب تھے جو اپنی حکمت و طب کے لیے ہوئے چکر لگا رہا ہو۔ اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لیے ہوں اور داغنے کے آلات تپالیے ہوں ۔ وہ اندھے دلوں بہرے کانوں ، گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے ، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو، اور دوا لیے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔
خطبہ 112 میں فرماتے ہیں: اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو وحدہ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد اس کے عبد اور رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں (اچھی) باتوں کو اونچا اور (نیک) اعمال کو بلند کرتی ہیں۔ جس ترازو میں انہیں رکھ دیا جائے گا اس کا پلہ ہلکا نہیں ہو گا اور جس میزان سے انہیں الگ کر لیا جائے گا اس کا پلہ بھاری نہیں ہو سکتا۔
خطبہ 156 میں فرماتے ہیں: (اللہ نے) آپ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جب کہ رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور امتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور (دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق (کرنے والی کتاب) اور ایک ایسا نور لے کر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات گذشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔
خطبہ 158 میں فرماتے ہیں: تم اپنے پاک و پاکیزہ نبی کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنےوالے کے لیے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بر کرنے و الے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپ نے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسول برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو برا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔ گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں۔تو آپ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اوراس کی آرائشیں یاد آجاتی ہیں۔ آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا۔ یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی۔ جبکہ آپ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے اور باوجود انتہائی قرب منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور بہت بڑا بہتان باندھا اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا۔ پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے اور ان کے نشان قدم پر چلے اور انہی کی منزل میں آئے ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے۔ دنیا سے آپ بھوکے نکل کھڑے ہوئے اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ آپ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی۔ یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں (انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم میں نے اپنی اس قمیض میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپ اسے اتاریں گے نہیں؟ تو میں نے سے کہا کہ میری (نظروں سے) دور ہو که صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس طرح کی مدح کرتے ہیں۔
خطبہ 159 میں فرماتے ہیں: اللہ نے اپنے رسول کو چمکتے ہوئے نور،روشن دلیل، کھلی ہوئی راہ،شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے کہ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہے کہ جہاں سے آپ کے نام کا بول بالا ہوا اور آپ کا آوازہ )چار سو) پھیلا اللہ نے آپ کو مکمل دلیل شفا بخش نصیحت اور (پہلی حالتوں کی) تلافی کرنے والا پیغام دےکر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے (شریعت کی) نامعلوم راہیں آشکار کیں اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا اور (قرآن و سنت میں) بیان کئے ہوئے احکام واضح کئے۔
خطبہ171 میں فرماتے ہیں: وہ اللہ کی وحی کے امانتدار اس کے رسولوں کی اخری فرد، اس کی رحمت کا مژدہ سُنا نے والے اور اس کے عذاب سے ڈرانے والے تھے۔
خطبہ 192 میں فرماتے ہیں: اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد اس کے عبد اور رسول ہیں۔جو اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ليے ہر سختی میں پھاند پڑے اور جنہوں نے اس کے ليےغم و غصہ کے گھونٹ پئے۔جن کے قریبیو ں نے بھی مختلف رنگ بدلے اور دو ر والوں نے بھی ان کی دشمنی پر ایکا کرلیا اور عرب والے بھی ان کے خلاف بگٹٹ چڑھ دوڑے اور دور دراز جگہوں اور دورافتادہ سرحدوں سے سواریوں کے پیٹ پر ایڑ لگاتے ہوئے آپ سے لڑنے کے ليےجمع ہو گئے اور عداوتوں کے (پشتار سے ) آپ کے صحن میں لا اتارے۔[1] ،[2]
نتیجہ: ان خطبوں میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کہیں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی دیتے ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم صفات بیان فرماتے ہیں اور کہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اور پیروی کرنے کا حکم دیتے ہیں اور ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی سیرت بھی بیان کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مذکورہ خطبوں کے سب ترجمے علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ) کے ترجمہ نہج البلاغہ سے یہاں پر نقل ہوئے ہیں۔
[2] مطالب میں لکھائی کی غلطیاں پہلے سے لکھی گئی تحریر جو نیٹ میں موجود ہے، سے چلی آرہی ہیں۔

تبصرے
Loading...