حضرت جعفر طیارؑ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں دشمن کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں حضرت جعفر طیار (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا، اس مضمون میں جناب جعفر طیار (علیہ السلام) کے کچھ فضائل بیان ہوئے ہیں تا کہ واضح ہوسکے کہ آپؑ کا مقام کتنا عظیم ہے کہ حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے اپنے خطبہ میں آپ کا تذکرہ کیا۔

حضرت جعفر طیارؑ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا: “أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ: اُعطينَا وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلّی الله عليه و آله وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ[1]“، “اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے، ہم اہل بیتؑ کو عطا ہوا ہے …، اور ہم اہل بیتؑ کو فضیلت دی گئی اس ذریعہ سے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں اور صدّیق (امیرالمومنینؑ) ہم میں سے ہیں اور طیارؑ ہم میں سے ہیں”۔
مقدمہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے جو دشمن کے سامنے حضرت جعفر طیارؑ کا ذکر کیا، اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب جعفر طیارؑ کی عظمت و شان اتنی بلند ہے کہ معصومؑ کی لسان عصمت سے جو موتی نچھاور ہورہے ہیں، ان موتیوں میں جناب جعفر طیارؑ بھی شامل ہیں، جن کا امامؑ نے ذکر ان کے بھائی امیرالمومنین (صدیق) کے بعد کیا ہے اور وہ بھی نام کے بغیر صرف لقب طیار کے ساتھ جیسا کہ حضرت علی (علیہ السلام) کا بھی یہاں پر تذکرہ صرف لقب سے کیا ہے، نام بیان نہیں فرمایا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپؑ سے بہت محبت تھی۔ آنحضرتؐ کی آپؑ کی شان میں تعریفیں، آپؑ کے بلند مقام کی نشاندہی کرتی ہیں۔ آپؑ ایمان، ہجرت اور جہاد میں نمونہ عمل تھے۔ جعفر ابن ابی طالب، حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بھائی ہیں، آپؑ طیار اور ذوالجناحین کےلقب سے مشہور ہیں، آپؑ کی والدہ جناب فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) اور آپؑ کے باپ حضرت ابوطالب (علیہ السلام) ہیں۔ آپؑ حضرت ابوطالبؑ کے تیسرے فرزند اور امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بڑے بھائی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچازاد بھائی ہیں۔  آپؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت  سے بیس سال پہلے اور عام الفیل سے بیس سال بعد، مکہ میں پیدا ہوئے اور اس جاہلیت کے دور اور شرک و برائی کے زمانہ میں پاک و پاکیزہ اور شریفانہ زندگی گزاری۔ آپؑ نے جوانی میں ہی اپنا اسلام ظاہر کیا اور حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بعد دوسرے مرد تھے جنہوں نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام پر لبیک کہی۔ لہذا آپؑ اپنے اسلام کو ظاہر کرنے میں اپنے بھائی حضرت علی (علیہ السلام) کے بعد دیگر سب مردوں سے پیشقدم ہیں۔
جناب جعفر طیارؑ قرآن کی نظر میں: آپؑ کا عظیم مقام یہیں سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی کئی آیات آپؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں: مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا[2]، ” مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے”،  تفسیر البرہان میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے روایت نقل ہوئی جو یہ بتارہی ہے آیت کے اس حصہ “مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں” سے مراد حضرات حمزہ، جعفر اور عبیدہ ابن حارث ہیں اور جو “بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے” سے مراد حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔[3] نیز “أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ[4]، ” جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بنا٫ پر جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے “، حضرت علی (علیہ السلام)، جناب حمزہؑ اور جناب جعفرؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[5]
حضرت جعفر طیارؑ اہلسنت علما٫ کی نظر میں: علامہ اہلسنت ابن اثیر کا کہنا ہے کہ آپؑ دوسرے مرد تھے جو اپنے بھائی علی (علیہ السلام) کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور مسلمان ہوئے۔ جب حضرت ابوطالبؑ نے دیکھا کہ ان کے فرزند علی (علیہ السلام) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں تو جعفرؑ سے فرمایا: پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیں طرف نماز پڑھیں۔[6] ابونعیم اصفہانی نے لکھا ہے کہ جعفر ابن ابی طالب خطیب، سخی، شجاع اور عارف مرد تھے۔[7] ابن قدامہ نے آپؑ کو بردبار (صابر) اور متواضع شخص کہا ہے۔[8] ذہبی نے تحریر کیا ہے کہ جعفر ابن ابی طالب، بڑی شان والے، شہدا٫ اور مجاہدین کے سید و سردار ہیں۔[9]
حضرت جعفر طیارؑ، حبشہ کے مہاجرین کے سردار: کفار مسلمانوں کو اذیت دیتے تھے، لہذا پانچویں ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےحکم کے مطابق کچھ مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہ قافلہ جناب جعفر ابن ابی طالبؑ کی زیرسرپرستی تھا۔[10] کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد خواتین اور بچوں کے علاوہ ۸۲ مرد تھے[11]۔ جب مہاجر مسلمان حبشہ میں داخل ہوئے تو نجاشی نے ان کو اپنے دربار میں بلوایا۔ جعفر ابن ابی طالبؑ نے اس سے فرمایا: “میں نے جو اپنے راہنما اور پیغمبر سے سنا ہے، بتاوں گا”، پھر جناب جعفرؑ نے اسلام کے نمائندہ کے طور پر یہ فرمایا: ہمارے ہاں ایسا نبی آیا ہے جس نے ہمیں بتوں، سود کھانے کو چھوڑ دینے، ناحق ظلم و خونریزی کے حرام ہونے اور برائی کے حرام ہونے کا حکم دیا ہے اور نماز، زکات، عدل اور قرابتداروں کے ساتھ اچھا برتاو کرنے کا حکم دیا ہے۔ نجاشی نے جناب جعفرؑ سے پوچھا: کیا جو کچھ آپ کا پیغمبر، خدا کی طرف سے لایا ہے، اس میں سے کچھ آپ کے پاس ہے؟ جناب جعفرؑ نے سورہ مریم میں سے کچھ آیات کی تلاوت کی جو حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیؑ کے مقام کو بیان کرتی ہیں۔ نجاشی ان آیات کے سننے سے رو پڑا۔[12] اس نے جناب جعفرؑ کی باتیں سننے کے بعد، مکہ کے مشرک جو نجاشی کے پاس عطیات لائے تھے تا کہ وہ مسلمانوں کو قبول نہ کرے، ان مشرکوں کو حبشہ سے نکال دیا اور مسلمان بالکل امن و سکون کے ساتھ اس سرزمین میں زندگی بسر کرنے لگے۔[13]مسلمانوں کی حبشہ میں رہائش چھٹی ہجری کے اختتام کے قریب تک جاری رہی۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر سے پہلے، نجاشی سے فرمایا کہ مسلمانوں کو واپس بھیج دے۔ نجاشی نے آنحضرتؐ کی بات پر عمل کیا اور اسلام لایا اورجناب جعفرؑ اور دوسروں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفیر عمرو ابن امیہ ضمری کے ساتھ دو کشتیوں سے مدینہ بھیج دیا۔[14]
حضرت جعفر ؑ، اسلام کی فوج کے سردار اور آپؑ کی شہادت: فتح خیبر اور جناب جعفرؑ کے حبشہ سے واپس آنے کے بعد، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھویں ہجری کے جمادی الاول میں، جناب جعفرؑ کو فوج کے پہلے سردار کے طور پر موتہ بھیجا تا کہ مشرقی روم سے جنگ کریں۔ جناب جعفر طیارؑ جنگ موتہ میں آٹھویں ہجری، جمادی الاولی میں شہید ہوئے۔[15] ابوالفرج اصفہانی نے حضرت ابوطالبؑ کے فرزندوں میں سے اسلام میں پہلا شہید، جناب جعفر ابن ابی طالبؑ کو شمار کیا ہے۔[16] طبری نے لکھا ہے: زید کی شہادت کے بعد، جعفرؑ نے عَلَم پکڑا اور جنگ کرنا شروع کی۔ جب دیکھا کہ دشمن نے آپؑ کے اردگرد گھیرا ڈال لیا ہے تو اپنے گھوڑے سے اترے اور اسے پے کردیا، پھر جنگ کی یہاں تک کہ آپؑ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور آپؑ شہید ہوگئے۔[17] مشہور نظریہ کے مطابق، آپؑ ۴۱ سال کی عمر میں اور دسویں آدمی تھے جو اس جنگ میں شہید ہوئے۔[18] شیخ صدوقؒ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، جعفرؑ کی شہادت کے بعد، آپؑ کے گھرانہ کے پاس تشریف لائے اور شدت سے گریہ کیا۔[19]، آپؑ کے بچوں کو گود میں لیا اور ان پر شفقت فرمائی۔[20]
نتیجہ: حضرت جعفر طیار (علیہ السلام) کے اتنے فضائل و کمالات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے دشمن کے سامنے آپؑ کا تذکرہ کیوں کیا ہے۔ جو شخصیت ایمان،ہجرت، جہاد میں اتنی شجاع ہو اور اتنے فضائل کی حامل ہو، اس کا نام ہی دشمن کے بدن پر لرزہ طاری کردیتا ہے، اس کی غاصبانہ حکومت کے ستونوں کو متزلزل کردیتا ہے، اس کی خام خیالی کا تاج گرا دیتا ہے، اس کے تکبر و غرور کا تخت الٹ دیتا ہے اور اس کے ناپاک عزائم کو ناکامی کے گڑھے میں جھونک دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام ، ری شہری، ج1، ص1132، بنقل از مقتل خوارزمی، ج2، ص69۔
[2] سورہ احزاب، آیت 23۔
[3] البرهان في تفسير القرآن، سید ہاشم بحرانی، ج‏4، ص: 429
[4] سورہ حج، آیت 39۔
[5] تفسیر قمی، ج 2، ص 84۔
[6] اسدالغابه، ج 1، ص 287.
[7] حلیه الاولیاء، ج 1، ص 114.
[8] التبیین، ص 115.
[9] سیر اعلام النبلاء، ج 1، ص 206.
[10] سیره ابن هشام، ج 1، ص 323. طبقات کبری، ج 4، ص 34.
[11] بحارالانوار، ج 18، ص 412.
[12] بحارالانوار، ج 18، ص 415.
[13] اعیان الشیعه، ج 4، ص 123.
[14] تاریخ ابن عساکر، ج 45، ص 430.
[15] اعیان الشیعه، ج 4، ص 118.
[16] مقاتل الطالبیین، ص 3.
[17] تاریخ طبری، ج 2، ص 321.
[18] بحارالانوار، ج 22، ص 126. استیعاب، ج 1، ص 245.
[19] بحارالانوار، ج 22، ص 126. استیعاب، ج 1، ص 245.
[20] مغازی واقدی، ج 2، ص 766.

تبصرے
Loading...