اصحاب الایکہ قرآن کریم کے آئینہ میں

خلاصہ: قرآن کریم نے کئی سابقہ اقوام کا تذکرہ فرماتے ہوئے ان کے برے اعمال اور اس کے بعد ان کے برے انجام کو بیان کیا ہے، جس میں آنے والی اقوام کے لئے عبرت افروز درس پایا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک اصحاب الایکہ ہے، جن کی طرف اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا، آنحضرت نے ان کی ہدایت کی، لیکن انہوں نے اتنی نافرمانی کی کہ عذاب الہی کی گرفت میں آگئے۔

اصحاب الایکہ قرآن کریم کے آئینہ میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بہت سارے مفسرین اور لغت کے ماہرین نے کہا ہے کہ “ایکہ” کے معنی ایک دوسرے میں لپٹے ہوئے اور زیادہ درخت کے ہیں۔ لہذا درختوں سے بھرپور جنگل اور باغات کو “ایکہ” کہا جاتا ہے۔ “اصحاب الایکہ” حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے جو حجاز و شام کے درمیان پانی اور درخت سے بھرپور سرزمین میں بستے تھے۔ ان کی زندگی پرسکون تھی اور فراوان دولت کے مالک تھے، شاید اسی لیے غرور اور غفلت میں ڈوب گئے تھے اور خصوصاً ناپ تول میں ہیراپھیری کرتے اور زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور خرید و فروخت میں کمی بیشی کرنے اور حضرت شعیب کو جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الہی کے ذریعہ نابودی کے گھاٹ اتر گئے۔ آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اصحاب ایکہ اور اصحاب مدین دو الگ الگ گروہ تھے۔
قرآن کریم میں “اصحاب الایکہ” کا یہ نام چار بار ذکر ہوا ہے۔ سورہ حجر: “وَإِن كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ[1]، ” اور اگرچہ ایکہ والے ظالم تھے”۔  سورہ ق: وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ[2]، “اور اصحاب ایکہ اور قوم تبع نے بھی اور ان سب نے رسولوں کی تکذیب کی تو ہمارا وعدہ پورا ہوگیا”۔ سورہ ص: وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ أُولَٰئِكَ الْأَحْزَابُ[3]، “اور ثمود, قوم لوط, جنگل والے لوگ یہ سب گروہ گزر چکے ہیں”۔ سورہ شعراء میں دیگر سوروں سے زیادہ تفصیل سے بیان ہوا ہے: كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ. إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ . إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ . فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ . وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ . أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ . وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ . وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ . وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ . قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ  .وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ . فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ . قَالَ رَبِّي أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ . فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ  .إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ[4]، “اور جنگل کے رہنے والوں نے بھی مرسلین کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں ہو ۔ میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں ۔ لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ اور میں تم سے اس کام کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہوں کہ میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ اور دیکھو ناپ تول کو ٹھیک رکھو اور لوگوں کو خسارہ دینے والے نہ بنو ۔ اور وزن کرو تو صحیح اور سچیّ ترازو سے تولو ۔ اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کیا کرو اور روئے زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو ۔ اور اس خدا سے ڈرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والی نسلوں کو پیدا کیا ہے ۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم تو صرف جادو زدہ معلوم ہوتے ہو ۔ اور تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو اور ہمیں تو جھوٹے بھی معلوم ہوتے ہو ۔ اور اگر واقعا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔ پھر ان لوگوں نے تکذیب کی تو انہیں سایہ کے دن کے عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ یہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا ۔ بیشک اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں تھی”۔
سورہ شعراء کی ان آیات کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلے حصہ میں اصحاب الایکہ کا بنیادی مسئلہ، مختصر طور پر بیان ہوا ہے جس کے بارے میں ایک آیت ہے۔ دوسرے حصہ میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی ان سے گفتگو ذکر ہوئی ہے جو آٹھ آیات پر مشتمل ہے، آیت ۱۷۷ سے ۱۸۴ تک۔ تیسرے حصہ میں ان لوگوں کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب دینا بیان ہوا ہے جو تین آیات پر مشتمل ہے، آیت ۱۸۴ سے ۱۸۷ تک اور اس کے بعد والی آیت میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو جواب دیا ہے۔ چوتھے حصہ میں ان کے عذاب کی کیفیت کا تذکرہ ہوا ہے جو ۱یک آیت پر مشتمل ہے، آیت ۱۸۹۔ اس داستان کے آخر میں آیت ۱۹۰ میں اللہ تعالی نے ان کے عذاب میں دوسروں کے لئے درس عبرت قرار دیا ہے تاکہ وہ گناہوں کے ارتکاب سے بچ کر عذاب الہی سے محفوظ رہ جائیں۔
مذکورہ آیات سے ماخوذہ نکات میں سے چند نکات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اصحاب ایکہ نے صرف حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نہیں، بلکہ دیگر انبیاء کو بھی جھٹلادیا جو ان کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔
۲۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے وہاں سے دعوت کا آغاز کیا جہاں سے دیگر انبیاء بھی شروع کیا کرتے تھے، تقوی اور پرہیزگاری کی دعوت جو سب اصلاحی ضوابط اور اخلاقی و معاشرتی تبدیلیوں کی بنیاد ہے۔
۳۔ اصحاب الایکہ کی داستان میں “اخوھم” کا لفظ استعمال نہیں ہوا، یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اصحاب الایکہ کا بھائی نہیں کہا، جبکہ حضرات صالح، ہود، نوح اور لوط (علی نبینا وآلہ وعلیہم السلام) کی داستان میں ذکر ہوا ہے، نیز قرآن کریم نے مدین والوں کی داستان میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کا بھائی کہا ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اصل میں مدین کے تھے اور صرف وہاں کے لوگوں کے قرابتدار تھے نہ کہ ایکہ کے لوگوں کے۔
۴۔ ناپ تول میں کمی کرنا منع ہے اور حقوق العباد کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
۵۔ انبیاء اور آسمانی ادیان، معاشرتی عدالت اور اقتصادی نظام کا خیال رکھتے ہیں۔
۶۔ معاشرہ کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ ان خرابیوں کو پہچانا جائے جو معاشرہ میں پائی جاتی ہیں، پھر ان کی اصلاح کے لئے قدم اٹھایا جائے۔
۷۔ تقوا اور ایمان، اقتصادی تخریب کاریوں کے سامنے رکاوٹ ہیں۔
۸۔ الزام اور بہتان لگانا ان کا آلہ کار ہے جو عقل اور حقیقت پر مبنی بات کا انکار کردیتے ہیں۔
۹۔ مجرم کو چاہیے کہ اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے اس سے باز آجائے نہ یہ کہ اپنے جرم پر ڈٹ جائے اور انبیاء کو جھٹلانے لگ جائے۔
۱۰۔ انسان کا انجام اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ دنیا اور مال تک پہنچنے کی محبت، انسان کو انبیائے الہی کے سامنے بھی سرکش بنادیتی ہے۔ اس سرکشی کو انسان اپنے اختیار سے انتخاب کرتا ہوا، غضب الہی کی جکڑ میں آتا ہے۔
نتیجہ: یہ ظالم قوم جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی ہدایت افروز باتوں کے سامنے لاجواب رہ گئی تو اپنے تکبر کو جاری رکھنے کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلانے لگ گئی۔ یہاں تک کہ اس خیرخواہ اور ہمدرد نبی کی باتوں کا اس قوم پر اثر نہ ہوا اور ان کو عذاب الہی نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ نیز واضح رہے کہ قرآن کریم کا تاریخی داستانوں کو نقل کرنے سے مقصد، درس عبرت دینا ہے نہ کہ کہانیاں سنانا مقصد ہو، لہذا اصحاب الایکہ کی داستان اور ان کا برا انجام بیان کرکے فرمایا ہے: “إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ[5]، “بیشک اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں تھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سورہ حجر، آیت 78۔
[2] سورہ ق، آیت 14۔
[3] سورہ ص، آیت 13۔
[4] سورہ شعراء، آیات 178 سے 190 تک۔
[5] سورہ شعراء، آیت 190۔

تبصرے
Loading...