اتحاد و افتراق نہج البلاغہ کی روشنی میں

جو قوم ملت متحد ہوتی ہے وہ ہمیشہ کامیابی و کامرانی کی طرف گامزن رہتی ہے اور جس قوم و ملت میں انتشار ہوجا تا ہے وہ ہمیشہ تنزلی کی طرف جاتی رہتی ہے مقالہ ھذا  میں نہج البلاغہ کی روشنی میں اتحاد و افتراق کے اثرات اور نقصانات و فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے افتراق کے علاج کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

اتحاد و افتراق نہج البلاغہ کی روشنی میں

آج بد قسمتی سے حالت یہ ہوگئی ہے کہ ملت اسلامیہ مختلف طبقوں اور فرقوں میں منقسم ہو کر اپنے اپنے مسلک کے تحفظ کو اپنی سلامتی اور استحکام کا ضامن گردان رہی ہے، ہر مسلک کے پیروکار اس حقیقت سے کلی طور پر چشم پوشی کر رہے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ دشمن کے ہاتھ اسلام کے دامن تک پہنچ گئے اور امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر کوئی گزند پہنچ گیا تو ہمارے مسلکوں اور فرقوں کو کون سلامتی کی ضمانت دے گا؟ امام عالی مقام کا فلسفہ اعتصام(اوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ ………..وَ الِاعْتِصَامِ بِحَبْلِه[۱])ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس امر کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ باہمی انتشار و تفرقہ سے احتراز کرکے از سر نو اپنی شیرازہ بندی کی تدبیر کریں کہ یہی عافیت اور سلامتی کا راستہ ہے ۔ تاریخی مشاہدے کی بات ہے کہ باہمی اختلاف اور نزاع کے نتیجہ میں قوموں کا وقار مجروح اور رعب و دبدبہ ختم ہوا ہے اور دشمنوں کی نظر میں اسکی حیثیت بالکل گری ہے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”تقوی الہی اختیار کرو، گناہوں سے چشم پوشی کرو، اپنی آوازوں کی حفاظت کرو، بے جا کلام سے پرہیز کرو، اپنے آپ کو ایک دوسرے سے رزم آزمائی ، قتل و غارت، بیہودہ بحث و مباحثہ سے پرہیز کرو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرو تاکہ تم کامیاب ہوجائو اور اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا نہ کرو کہ نتیجہ میں تم دشمن کے مقابل سست پڑجائو اور تمہارا رعب و دبدبہ ختم ہوجائے پس صبر کرو کہ اللہ بے شک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “[۲] ۔
اتحاد ایسی طاقت ہے جس سے ہر مشرک ڈرتا ہے اور یہی اتحادان لوگوں پر گراں گزرتا ہے۔ اسی لئے دنیا پرست مخالفین اسلام ہمارے درمیان انتشار و تشنت کے خواہش مند ہوتے ہیں اور ہماری سب سے بڑی طاقت اتحاد کو افتراق میں بدلنے درپے رہتے ہیں، تاکہ وہ ہمارے تفرقہ سے فائدہ اٹھا کر ہم پر آسانی سے کے ساتھ حکومت کریں اور ظلم و ستم ڈھائیں”۔۔۔ان اقیمواالدین ولا تفرقوافیہ کبر علی المشرکین ما تدعوھم الیہ۔۔۔۔اور دین کو قائم کرو اسمیں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے مشرکین کو وہ بات گراں گزرتی ہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔[۳] اسی نکتہ کی طرف امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:” اور اللہ سے ڈرو اپنے جان ،  مال اور زبان سے جہاد کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات سلجھائے رکھو۔ ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور خبردار ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرلینااور تعلقات توڑ نہ لینا اور امر بالعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کردینا کہ تم پر اشرار کی حکومت ہوجائے اور تم فریاد بھی کرو تو اسکی سماعت نہ ہو۔[۴]دوسری جگہ ارشا د ہوتا ہے “یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنادیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کر کے تمہاری ساری گرہیں کھول دے، وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق کے فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے لہذا اس کے خیالات اور اسکی جھاڑ پھونک سے منھ موڑے رہو”[۵]
لہذا جب تک مسلمان ایک دوسرے پر رحم کریں گے ایک دوسرے کے ساتھ مہربان رہیں گے تو آپس میں اتحاد و یکجہتی کی رحمت باقی رہے گی ورنہ افتراق ، بغض ، حسد اوردوری کے سیاہ بادل مسلمین کے سروں پر منڈ لائیں گے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اہل ایمان بھائی تین چیزوں کے محتاج ہیں اگر ان کو انجام دیا تو آپس میں محبت و یکجہتی وجود میں آئے گی ورنہ افتراق و دوری، وہ تین چیزیں یہ ہیں:۱۔ آپس میں انصاف، ۲۔ ایک دوسرے پر مہربانی،۳۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا۔[۶]
اتنے نقصانات جاننے کے بعد ” اب تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوں میں جو فتنہ اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھادو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں، نخوتوں فتنہ انگیزیوں اور فساد کا نتیجہ ہے، اپنے سرپر تواضع کا تاج رکھنے کا عزم کرو اور تکبر کو اپنے پیروں تلے رکھ کر کچل دو، غرور کے طوق کو اپنی گردنوں سے اتار دو اور اپنے اور اپنے دشمن ابلیس اور اسکے لشکروں کے درمیان تواضع و انکساری کا مورچہ قائم کرلو”۔[۷]
یہی وجہ ہے کہ امام علی علیہ السلام افتراق کےنقصان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”آخر کار ان کا کیا ہوا جب ان کے درمیان افتراق پیدا ہوگیا اور محبتوں میں انتشار پیدا ہوگیا، باتوں اور دلوں میں اختلاف پیدا ہوگیا اور سب مختلف جماعتوں اور متحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے، تو پروردگار نے ان کے بدن سے کرامت کا لباس اتارلیا اور ان سے نعمتوں کی شادابی کو سلب کرلیا اور اب ان کے قصے صرف عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے سامان عبرت بن کر رہ گئے ہیں۔[۸]
لہذا اس زیاں کاری سے بچنے کے لئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں”ہمسایوں کا تحفظ کرو، عہد وپیمان کو پورا کرو، نیک لوگوں کی اطاعت کرو، سرکشوں کی مخالفت کرو، فضل و کرم کو اختیار کرو، ظلم و سرکشی سے پرہیز کرو، خونریزی سے پناہ مانگو، خلق خدا کے ساتھ انصاف کرو، غصہ کو پی جائو فساد فی الارض سے اجتناب کرو کہ یہی صفات و کمالات قابل فخر و مباہات ہیں۔
بدترین اعمال کی بناء پر (جیسے فرقہ پرستی کہ جس کا پہلے ذکر کیا جاچکا ہے)گذشتہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب سے اپنے کو محفوظ رکھو، خیر و شر ہر حال میں ان لوگوں کو یاد رکھو اور خبردار ان کے جیسے بد کردار نہ ہوجانا۔اگر تم نے ان کے اچھے برے حالات پر غور کرلیا ہے تو اب ایسے امور کو اختیار کرو جن کی بناء پر عزت ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ، دشمن ان سے دور دور رہے، عافیت کا دامن ان کی طرف پھیلادیا گیا نعمتیں ان کے سامنے سرنگوں ہوگئیں اور کرامت و شرافت نے ان سے اپنا رشتہ جوڑ لیا کہ وہ افتراق سے بچے، محبت کے ساتھ رہے اور اسی پر دوسروں کو آمادہ کرتے رہے اور اسی کی آپس میں وصیت اور نصیحت کرتے رہے۔[۹]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱]  نہج البلاغہ، وصیت۳۱، ص ۵۲۴، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۲]   الکافی، ج۵، ص۳۸، کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق،  دار الكتب الإسلامية، تهران‏، چاپ چهارم، 1365 هجرى شمسى‏۔
[۳]  شوری، ۱۳۔
[۴]  نہج البلازغہ،وصیت ۴۱، ص۵۶۶، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۵]  نہج البلاغہ، خطبہ۱۲۱، ص ۲۳۹، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۶]  بحار، ج۷۵،ص۲۳۶۔مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، ۱۴۰۳ ق‏۔
[۷]  نہج البلاغہ، خطبہ۱۹۲، تحذیر من الشیطان، ص۳۸۳، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۸]  نہج البلاغہ،خطبہ ۱۹۲،عصیبۃ المال و ص۳۹۱، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۹]   نہج البلاغہ،خطبہ ۱۹۲،عصیبۃ المال و الاعتبار بالامم، ص۳۹۵، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔

تبصرے
Loading...