امامت دونوں مکاتب فکر کی نظر میں حصہ دوم

امامت دونوں مکاتب فکر کی نظر میں حصہ دوم

 

حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں پناہ

حضرت عمرابن خطاب کہتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہمیں خبر ملی کہ علی(ع)، زبیراور ان کے ساتھی جنہوں نے ہماری بیعت نہیں کی حضرت فاطمہ(ع) کے گھرمیں جمع ہو گئے ہیں۔۱

مورخین نے بیعت ابو بکرسے انکار کرنے اور حضرت فاطمہ زہراء(ع) کے گھر میں علی(ع) اور زبیر کے ساتھ پناہ لینے والوں میں درج ذیل افراد کے نام گنے ہیں:

۱۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ۲۔ عتبہ بن ابی لہب

۳۔ سلمان فارسی ۴۔ حضرت ابوذر غفاری

۵۔ حضرت عمار بن یاسر ۶۔ مقدادبن الاسود

۷۔ حضرت براء بن عازب ۸۔ حضرت ابی بن کعب

۹۔ حضرت سعد بن ابیوقاص ۱۰۔ حضرت طلحہ بن عبداللہ

 

اس کے علاوہ بنی ہاشم کی ایک جماعت اور بعض مہاجرین و انصار کا بھی ذکر کیا ہے۔

 

۲ حضرت علی(ع) اور آپ کے حامیوں کا بیعت ابو بکرسے انکار اور فاطمہ زہرا(ع) کے گھر میں پناہ لینے کا واقعہ سیرت، تاریخ، صحاح، مسانید، ادب، کلام اور سوانح کی کتابوں میں تواتر کے ساتھ مذکور ہے۔ لیکن چونکہ حکمران طبقے اور بیت فاطمہ میں جمع ہونے والوں کے درمیان واقع ہونے والی روئیداد انہیں گوارا نہیں ہے۔ اس لئے وہ ان واقعات کو صاف صاف بیان نہیں کرتے سوائے ان باتوں کے جن کا ذکر بھولے سے کہیں ہوا ہو۔ ان میں سے ایک بلاذری کی روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں:

جب حضرت علی(ع) نے حضرت ابو بکرکی بیعت نہیں کی تو انہوں نے عمربن الخطاب کو حضرت علی(ع) کے پاس بھیجا اور کہا: انہیں نہایت سخت گیری کے ساتھ میرے پاس لاؤ۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو ان دونوں میں کچھ لے دے ہوئی اور حضرت علی(ع) نے کہا: اے عمرخلافت کا دودھ دوہ لو کہ اس میں تمہارا بھی برابر کا حصہ ہے۔ اللہ کی قسم ابو بکرکی امارت میں تمہاری دلچسپی اس وجہ سے ہے تاکہ وہ کل اسے تیرے حوالے کر دے۔ 3

حضرت ابو بکرنے مرض الموت میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:

آگاہ رہو کہ مجھے دنیا میں کسی چیز پر افسوس نہیں سوائے تین کاموں کے جنہیں میں نے انجام دیا ہے۔ کاش میں ان کو انجام نہ دیتا ان میں سے ایک فاطمہ کے گھر کی حرمت پامال کرنے کا واقعہ ہے۔ کاش میں ایسا نہ کرتا اور اس گھر کو نہ چھیڑتا اگرچہ وہ میرے خلاف جنگ کرنے والوں کی پناہ گاہ ہوتی۔

بعض کتب میں ہے:

کاش کہ وہ رسول(ص) کی بیٹی فاطمہ(ع) کے گھر کی حرمت پامال نہ کرتا اور اس گھر میں مردوں کو داخل نہ کراتا اگر چہ وہ گھر( میرے خلاف) جنگ کرنے والوں کی پناہ گاہ ہوتا۔ 4

مورخین نے ان لوگوں کی فہرست میں جو دختر رسول کے گھر میں بلا اجازت گھس گئے تھے ان افراد کا نام لیا ہے:۔

۱۔ عمر ابن خطاب ۲۔ خالد بن ولید۔

۳۔ عبدالرحمان بن عوف ۴۔ ثابت بن قیس بن شماس

۵۔ زیاد بن لبید۔ ۶۔ محمد بن مسلمہ

۷۔ زید بن ثابت۔ ۸۔ سلمہ بن سالم بن وقش

۹۔ سلمہ بن اسلم ۱۰۔ اسید بن حفیر

حضرت فاطمہ زہراکے گھر کی بے حرمتی، اس میں پناہ لینے والوں اور دھاوا بولنے والے مردوں کے درمیان واقع ہونے والے ماجرا کو یوں بیان کیا گیا ہے:۔

مہاجرین میں سے کچھ مرد حضرت ابو بکر کی بیعت سے ناراض ہوئے۔ ان میں حضرت علی(ع) ابن ابی طالب اور حضرت زبیربھی شامل تھے۔ یہ دونوں مسلح ہو کر حضرت فاطمہ(ع) بنت رسول اللہ(ص) کے گھر میں داخل ہوئے5 پس حضرت ابو بکر اور حضرت عمرکو خبر ملی کہ مہاجرین و انصار کی ایک جماعت حضرت علی(ع) ابن ابی طالب کے ہمراہ فاطمہ(ع) کے گھر میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اور یہ کہ وہ حضرت علی(ع) کی بیعت کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ پس ابو بکر نے عمر بن خطاب کو ان کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ ان کو فاطمہ(ع) کے گھر سے نکالے۔ ابو بکر نے ان سے کہا: اگر وہ انکار کریں تو ان کے ساتھ مقاتلہ کرو۔ پس وہ جلتی ہوئی آگ لیکر ان کے گھر کو جلانے کے لئے آگئے۔ پس فاطمہ(ع) ان کے سامنے آگئیں اور بولیں: اے پسر خطاب! کیا تم ہمارے گھروں کو جلانے آئے ہو؟ وہ بولے: ہاں مگر یہ کہ تم لوگ بھی اس چیز کو قبول کر لو جس کی کو امت نے قبول کیا ہے۔ 6

انساب الاشراف میں مذکور ہے کہ دروازے پر حضرت فاطمہ دختر رسول کا ان سے سامنا ہوا تو انہوں نے فرمایا:اے پسر خطاب کیا تیرا ارادہ ہے کہ میرے دروازے پر آگ لگاؤ؟ بولا۔ ہاں7 اسی بات کی طرف حضرت عروہبن زبیر نے اپنے بھائی عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے اس واقعے پر اعتذار کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے جو اس کے اور بنی ہاشم کے درمیان پیش آیا۔ عبد اللہ بن زبیر نے بنی ہاشم کو ایک درے میں محصور کر کے ان کو جلانے کے لئے ایندھن جمع کیا تھا تاکہ وہ اس کی اطاعت قبول کر لیں۔ جیسا کہ ماضی میں بنی ہاشم کی طرف سے انکار بیعت پر ان کو ڈرایا گیا تھا اور ان کو آگ میں جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کی گئی تھیں۔8 یہ اشارہ ہے حضرت ابو بکرکی بیعت سے انکار پر ماضی میں لکڑی اور آگ لانے کے واقعے کی طرف ۔ شاعر نیل حافظ ابراہیم اس بارے میں کہتا ہے:
و قولہ لعلی قالھا عمر
حرقت دارک لا ابقی علیک بھا
ما کان غیر ابی حفص یفوہ بھا
اکرم بسامعھا اعظم بملقیھا
ان لم تبایع و بنت المصطفیٰ فیھا
امام فارس عدنان و حامیھا

حضرت عمر نے حضرت علی(ع) سے ایک بات کی۔ اس بات کے سامع کی عزت کرو اور متکلم کی تعظیم ۔ (وہ بات یہ تھی) کہ اگر تم بیعت نہ کرو تو میں تیرے گھر کو تیرے اور دختر رسول کے ساتھ جلا کر خاکستر کر دوں گا۔ عرب کے شہسوار اور اس کے حامیوں سے یہ بات کہنے والا ابو حفص (عمر) کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

یعقوبی کا بیان ہے کہ وہ ایک جماعت کے ساتھ آئے یہاں تک کہ گھر پر دھاوا بول دیا۔ (حضرت علی(ع) کی) تلوار توڑ دی گئی اور گھر میں داخل ہو گئے۔

بروایت دیگر حضرت عمربن خطاب حضرت علی(ع) کے گھر پر آئے۔ وہاں طلحہ، زبیر اور کچھ مہاجرین جمع تھے۔ زبیرتلوار سونت کر ان کی طرف آیا لیکن اس کا پاؤں پھسلا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ وہ لوگ اس (زبیر) پر پل پڑے اور انہوں نے اسے گرفتار کر لیا۔ 9
حضرت علی(ع) نے کہا:

میں اللہ کا بندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں۔
یہاں تک کہ وہ آپ کو ابو بکرکے پاس لے گئے۔ پس ان سے کہا گیا کہ بیعت کرو۔ آپ نے فرمایا:

اگر تم بیعت نہیں کرتے تو میں تمہیں مجبور نہیں کرتا۔ اس وقت ابو عبیدہ نے حضرت علی(ع)سے کہا: میں اس امارت کا تم سے زیادہ حقدار ہوں۔ میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا کیونکہ حق تو یہ ہے کہ تم لوگ میری بیعت کرو۔ تم نے اس امارت کو انصار سے چھین لیا اور ان کے آگے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت کو دلیل بنا کر پیش کیا۔ پس انہوں نے قیادت تمہیں دی اور امارت سپرد کر دی۔ اب میں تمہارے سامنے وہی دلیل رکھتا ہوں جو تم نے انصار کے آگے رکھی تھی۔ پس ہمارے ساتھ انصاف سے کام لو اگر تم اپنے بارے میں اللہ سے ڈرتے ہو۔ انصار نے امارت کے حوالے سے تمہارے بارے میں جو سوچا اب تم ہمارے بارے میں وہی سوچو۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو جانتے بوجھتے ہوئے ظلم میں مشغول رہو۔
یہ سن کر حضرت عمرنے کہا:

جب تک بیعت نہ کرو گے چھوڑے نہ جاؤ گے۔
حضرت علی(ع) نے کہا:

اے عمر آج خلافت کا دودھ دوہ لو کہ اس میں تمہارا بھی برابر کا حصہ ہے۔ آج اس کی کرسی مضبوط کر لو تاکہ وہ اسے کل تمہارے حوالے کر دے۔ خدا کی قسم میں تیری بات قبول نہیں کروں گا اور نہ اس کی اطاعت کروں گا۔

حضرت ابو بکرنے حضرت علی (ع) سے کہا:

اے ابو الحسن! آپ کم سن ہیں اور وہ آپ کی قوم یعنی قریش کے سن رسیدہ بزرگ ہیں۔ آپ کے پاس وہ تجربہ اور معاملہ فہمی نہیں جو ان کے پاس ہے۔ میں ابو بکرکو اس معاملے میں آپ سے زیادہ قوی، ثابت قدم اور قابل پاتا ہوں۔ پس یہ امارت اس کے حوالے کر دیں اور اس سے راضی ہو جائیں۔ اگر آپ زندہ رہیں اور طویل عمر پائیں تو اپنے مرتبے، رسول(ص) کی قرابت، شاندار ماضی اور جہاد کے باعث آپ اس منصب کے سزاوار اور حقدار ہوں گے۔

حضرت علی(ع) نے کہا:

اے گروہ مہاجرین اللہ کا خوف کرو، اللہ کا خوف کرو۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت کو اس کے گھر اور مکان سے نکال کر اپنے گھروں اور مکانوں میں منتقل نہ کرو۔ اس حاکمیت کے حقدار شخص کو اس مقام اور حق سے محروم نہ کرو جو اسے لوگوں کے درمیان حاصل ہے۔ کیونکہ اے گروہ مہاجرین! جب تک ہم اہل بیت کے درمیان کوئی قاری قرآن، فقیہ دین اور سنت رسول(ص)کا عالم موجود ہو تب تک ہم اس امارت کے تم سے زیادہ حقدار ہیں اور اللہ کی قسم ان صفات کا حامل انسان ہمارے درمیان موجود ہے۔ پس خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو ورنہ حق سے دور ہو جاؤ گے۔
بشیر ابن سعد نے کہا:

اے علی(ع)! اگر انصار ابو بکرکی بیعت سے قبل آپ کا یہ کلام سنتے تو آپ کے بارے میں دو آدمیوں کے درمیان بھی اختلاف نہ ہوتا لیکن اب وہ بیعت کر چکے ہیں۔ پھر حضرت علی مرتضیٰ(ع) اپنے گھر چلے گئے اور بیعت نہیں کی۔

اس واقعے کو ابو بکر جوہری نے نقل کیا ہے جیسا کہ شرح ابن ابی الحدید ج۶ ص۲۸۵ میں مذکور ہے۔ابو بکر جوہری نے یہ بھی روایت کی ہے کہ ان دونوں (حضرت علی مرتضیٰ(ع) اور حضرت زبیر) کے ساتھ جو کچھ روا رکھا گیا۔ حضرت سیدہ فاطمہ(ع) نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ پس وہ گھر کے دروازے پر کھڑی ہو گئیں اور فرمایا:

یا ابا بکر ما سبرع ما اغر تم علیٰ اہل البیت رسول الله والله لا اکلم عمر جتی القی الله۔ 10

اے ابو بکرتم لوگوں نے کس قدر جلد اہل بیت پر دھاوا بول دیا۔ خدا کی قسم! میں تادم مرگ عمرسے بات نہ کروں گی۔ ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ فاطمہ روتی چلاتی باہر نکلیں لیکن ان کا راستہ روکا گیا۔

پس حضرت فاطمہ زہراء(ع) باہر نکلیں اور فرمایا:

والله لتخر جن اولا کشفن شعری ولا عجن الی الله فخر جوا و خرج من کان فی الدار۔ 11

اللہ کی قسم تم لوگوں کو یہاں سے نکلنا ہوگا ورنہ ضرور اپنے بال کھول دوں گی اور خدا کے حضور فریاد کروں گی۔ یہ سن کر وہ نکل گئے اور گھر میں موجود دوسرے لوگ بھی نکل گئے۔

جب سقیفہ بنی ساعدہ میں ابو بکرکی بیعت ہوئی اور منگل کے دن دوبارہ بیعت ہوئی تو حضرت علی(ع) باہر نکلے اور فرمایا:

تم نے ہمارے معاملے کو خراب کر دیا ہے۔ تم نے نہ مشورہ کیا اور نہ ہمارے حق کی رعایت کی۔ حضرت ابوبکربولے۔ ہاں لیکن مجھے فساد کا خوف ہوا۔12

کچھ لوگ حضرت علی(ع) کے پاس آئے اور آپ کو بیعت لینے کو لئے کہا۔ آپ نے کہا:

کل صبح سر تراش کر میرے پاس آجانا لیکن تین افراد کے سوا دوسرے دن کوئی نہیں آیا۔13

اس کے بعد حضرت علی(ع) نے سیدہ فاطمہ(ع) کو ایک گدھے پر سوار کیا اور ان کو لے کر انصاریوں کے گھروں میں گئے۔ حضرت علی(ع) ان سے مدد طلب کر رہے تھے اور فاطمہ(ع) بھی ان سے حضرت علی(ع) کی مدد کرنے کے لئے کہہ رہی تھیں لیکن وہ جواب دیتے تھے:

اے دختر رسول(ص) ہم اس شخص کی بیعت کر چکے ہیں۔ اگر آپ کے ابن عم حضرت ابوبکر سے پہلے ہماری طرف سبقت کرتے تو ہم ان سے منہ نہ موڑتے۔
حضرت علی(ع) نے کہا:

کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میت کو ان گھر میں تجہیز و تکفین کے بغیر چھوڑ کر باہر نکل جاتا اور حاکمیت کے مسئلے پر لوگوں سے جھگڑتا رہتا؟
تب حضرت فاطمہ(ع)نے کہا:

ابو الحسن (حضرت علی(ع)) نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا اور ان لوگوں نے وہ کچھ کیا جس کا حساب خدا ان سے لے گا۔ 14

معاویہ نے حضرت علی کے نام اپنے خط میں اسی بات کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا:

”مجھے یاد ہے کہ جس دن حضرت ابوبکر کی بیعت ہوئی اس دن آپ اپنی گھر والی کو رات کے وقت ایک گدھے پر سوار کر کے اور اپنے ہاتھوں کو اپنے دونوں بیٹوں حسن اورحسین کے ہاتھوں میں پکڑا کر نکلے تھے۔ پھر آپ نے اہل بدر اور سابقین میں سے ہر ایک سے اپنی مدد کے لئے کہا تھا۔ آپ اپنی بیوی کے ہمراہ ان سب کے پاس چل کر گئے تھے اور اپنے دونوں بیٹوں کا بھی سہارا لیا تھا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی کے مقابلے کے لئے ان سے نصرت طلب کی تھی لیکن چار یا پانچ افراد کے علاوہ ان میں سے کسی نے آپ کی حامی نہیں بھری۔ مجھے اپنی جان کی قسم اگر آپ حق پر ہوتے تو وہ آپ کی حمایت کرتے لیکن آپ کا دعوی باطل تھا۔ آپ نے ایسی بات کی جسے کوئی نہ جانتا تھا اور ایسی خواہش کی جو پوری نہ ہو سکے۔ آپ لاکھ بھول جائیں لیکن مجھے آپ کی وہ بات یاد رہے گی جو آپ نے ابو سفیان سے اس وقت کی تھی جب اس نے آپ کو اکسانے اور آپ کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی تھی۔ آپ نے کہا تھا: اگر مجھے ان لوگوں میں سے چالیس ارادے کے پکے افراد مل جاتے تو میں مخالفین کا مقابلہ کرتا15

وہ صحابہ کرام جنہوں نے حضرت ابو بکرکی بیعت نہیں کی

۱۔ حضرت فروہ بن عمرو انصاری بدری

انہوں نے حضرت ابو بکرکی بیعت نہیں کی۔ یہ صحابی رسول(ص) ہر جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رکاب میں جہاد کرنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو گھوڑے دئیے تھے۔ یہ اپنے نخلستان سے ہر سال ایک ہزار اونٹ کے بوجھ کھجوریں بطور صدقہ دیتے تھے۔ یہ اپنے قبیلے کے سردار تھے اور حضرت علی(ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ جنگ جمل میں حضرت علی(ع) کے ساتھ تھے۔

محدثین نے حضرت ابو بکر کی بیعت میں اعانت کرنے والے بعض انصاریوں کو ان کی طرف سے سرزنش کا ذکر بھی کیا ہے۔16

۲۔ خالد بن سعید اموی

یہ صنعاء (ملک یمن) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عامل تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ اور ان کے دو بھائی ابان و عمر اپنے عہدے کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ پس ابوبکرنے پوچھا۔

تم لوگ اپنے عہدوں کو چھوڑ کر کیوں واپس آگئے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمال سے زیادہ کام کا حقدار اور کون ہوسکتا ہے؟ اپنے کاموں پر واپس چلے جاؤ۔ وہ بولے ہم احیحہ کی اولاد ہیں، ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کے لئے کام نہیں کریں گے۔ 17

خالداور ان کے بھائی ابان نے ابو بکرکی بیعت میں تاخیر سے کام لیا۔ خالد نے بنی

ہاشم سے کہا کہ آپ لوگ بلند قامت درخت اور پاکیزہ ثمر ہیں۔ ہم آپ کے پیروکارہیں۔ 18خالدنے حضرت ابو بکرکی بیعت سے دو ماہ تک پہلو تہی کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عامل بنایا تھا اور اس کے بعد مجھے معزول نہیں کیا، یہاں تک کہ آپ(ص) کی وفات ہو گئی۔ ایک بار حضرت علی(ع) بن ابی طالب اور حضرت عثمان سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا۔

اے عبد مناف کی اولاد۔ آپ لوگ اس بات پر راضی ہو گئے کہ آپ کی امارت پر دوسرے لوگ قبضہ کر لیں۔ رہے ابو بکرتو انہوں نے کسی کے حق خلافت ہونے کی پرواہ نہیں کی اور ان کے بعد رہے حضرت عمر تو انہوں نے خلافت کے معاملے میں کینہ و بغض سے کام لیا۔ 19
اور وہ حضرت علی کے پاس آئے اور کہنے لگے :

آئیے میں آپ کی بیعت کروں۔ اللہ کی قسم لوگوں میں کوئی شخص آپ سے زیادہ منصب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل نہیں ہے۔ 20
۳۔ حضرت سعدبن عبادہ انصاری

کتب تاریخ میں ہے کہ کچھ دن تک حضرت سعدکو کچھ نہیں کہا گیا۔ اس کے بعد ان کو یہ پیغام دیا گیا کہ آپ آئیں اور حضرت ابو بکر کی بیعت کر لیں کیونکہ اکثر لوگ ان کی بیعت کر چکے ہیں اور آپ کی قوم کے کچھ لوگ بھی بیعت کر چکے ہیں۔ حضرت سعدنے جواب دیا۔

خدا کی قسم میں ہرگز بیعت نہیں کروں گا، یہاں تک کہ اپنے ترکش میں موجود سارے تیر تمہاری طرف نہ چلاؤں، اپنے نیزے کی نوک کو خون سے رنگین نہ کر لوں، اپنے ہاتھ کی پوری قوت کے ساتھ تمہارے اوپر تلوار کی ضربت نہ لگاؤں، اپنے گھر والوں کے ہمراہ اور اپنی قوم کے وفادار افراد کی معیت میں تمہارے ساتھ جنگ نہ کروں۔ اللہ کی قسم اگر جن و انس مل کر تمہاری حمایت کریں تب بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ اپنے رب ذوالجلال کے پاس حاضر ہو جاؤں اور اپنا حساب کتاب معلوم کر لوں۔ 21
جب حضرت ابو بکرکو یہ خبر دی گئی تو عمرنے کہا

اس کو نہ چھوڑو یہاں تک کہ وہ بیعت کر لے۔
لیکن بشیر ابن سعد نے کہا

اس نے لجاجت سے کام لے کر انکار کیا ہے۔ وہ تمہاری بیعت کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قتل ہو جائے۔ اور وہ قتل نہیں ہو گا جب تک اس کے ساتھ اس کا بیٹا، اس کے گھر والے اور اس کی قوم کے کچھ لوگ قتل نہ ہوجائیں۔ پس اس سے دستبردار ہو جاؤ۔ اس دستبردار ہونے میں آپ کا نقصان نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ایک فرد ہی تو ہے۔

پس انہوں نے بشیر ابن سعد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے حضرت سعد بن عبادہکو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور اس کے روئیے پر اسے نصیحت کی۔ حضرت سعدان کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ نہ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ حج نہیں کرتے تھے۔ نہ ان کی مشغولیت میں ان کے ساتھ مشغول ہوتے تھے۔ وہ اسی روش پر چلتے رہے حتی کہ حضرت ابو بکر کی وفات ہوئی اور ان کے بعد حضرت عمرجانشین بن گئے۔ 22

حضرت عمرنے خلافت سنبھالی تو ایک دفعہ مدینہ میں کسی راستے پر دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا تو حضرت عمرنے کہا
اے سعد!
سعدنے کہا
اے عمر!
حضرت عمر نے کہا
تو نے وہ بات کی تھی؟
حضرت سعد نے جواب دیا

ہاں میں وہ ہوں۔ اب تو حکومت آپ کو مل گئی ہے۔ واللہ تمہارا ساتھی ہمارے نزدیک تم سے زیادہ محبوب تھا۔ میں تمہارے قریب رہ کر تنگ آچکا ہوں۔

حضرت عمرنے جواب دیا :

جو شخص کسی کے قرب سے تنگ آجائے اسے وہاں سے چلا جانا چاہیے۔
حضرت سعدنے کہا:

میں اس بات کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔ میں اس کی طرف چلا جاؤں گا جو تم سے بہتر ہے۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد حضرت عمرکی خلافت کے اوائل میں انہوں نے شام میں انتقال کیاالخ۔ 23

مشہور موٴرخ بلاذری کی روایت ہے کہ حضرت سعدبن عبادہ نے حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی اور شام چلے گئے۔پس حضرت عمرنے ایک شخص کو ان کی طرف بھیجا اور کہا

سعدکو بیعت کی دعوت دو اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کرو۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔پس وہ شخص شام چلا گیا۔ اس نے حضرت سعد کو حوارین میں ایک چاردیواری کے اندر پایا۔ وہاں اس نے حضرت سعدکو بیعت کی دعوت دی۔ حضرت سعد نے کہا:

میں کسی قریشی کی بیعت ہرگز نہیں کروں گا۔
وہ شخص بولا۔
پس میں تجھے قتل کروں گا۔
انہوں نے کہا

اگرچہ تم مجھے قتل ہی کر دو (میں بیعت نہیں کروں گا)۔
کہنے لگا

کیا آپ اس دائرے سے خارج ہوتے ہو جس میں ساری امت داخل ہو گئی ہے؟
انہوں نے کہا

بیعت کے دائرے سے تو میں خارج رہوں گا۔ تب اس نے ایک تیر حضرت سعدپر چلایا اور انہیں قتل کر دیا۔ 24

تبصرہ العوام میں مذکور ہے۔ انہوں (حکمرانوں) نے محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیجا۔ اس نے ایک تیر سے حضرت سعدکو شہید کردیا۔ 25

حافظ ابن عبد ربہّ کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ پر تیر چلایا گیا وہ ان کے بدن کے اندر پیوست ہو گیا یوں وہ شہید ہو گئے۔ پس ان پر جنونے گریہ کیا اور کہا

وقتلنا سید الخزرج سعد بن عبادہ و رمیناہ بسھمین فلم نخطئی فوادہ۔

ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا۔ ہم نے دو تیروں سے اس کو نشانہ بنایا اور تیر دل میں ہی رہ گیا۔ 26
حضرت عمرکی خلافت اور بیعت

حضرت ابوبکرنے حضرت عثمانکو تنہائی میں بلایا اور کہا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ مسلمانوں کے نام ابو بکر ابن ابی قحافہ کی وصیت ہے۔ اما بعد۔

راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد ان پر بے ہوشی کا دورہ پڑا اور اپنے آپ سے بے خبر ہو گئے۔ پس حضرت عثماننے لکھا:

اما بعد بہ تحقیق میں عمربن خطاب کو تمہارا خلیفہ بناتا ہوں۔ میں نے تمہاری بھلائی کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔

اس کے بعد ابو بکرکو ہوش آ گیا اور کہا۔ پڑھ کر سناؤ۔ پس حضرت عثمان نے پڑھ کر سنایا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکرنے تکبیر کہی اور کہا:

میرے خیال میں تمہیں یہ خوف لاحق ہو گیا ہے کہ اگر میں بے ہوشی کی حالت میں مر جاتا تو لوگ اختلاف کا شکار ہو جاتے۔
عثمان نے کہا: ہاں
حضرت ابوبکرنے کہا:

خدا تمہیں اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے جزائے خیر دے۔
یوں حضرت ابوبکرنے مذکورہ جملے کو برقرار رکھا۔

اس سے قبل حضرت عمرسے منقول ہے۔ وہ لوگوں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ اور ان کے ساتھ حضرت ابو بکرکا غلام شدید بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ
میں وہ تحریر تھی جس میں عمرکو خلیفہ بنانے کا حکم تھا۔ حضرت عمرکہہ رہے تھے

ایہا الناس خلیفہ رسول(ص) کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ بہ تحقیق وہ کہتے ہیں کہ میں نے تمہاری خیر خواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 27

ابو حفص (عمر) کے اس موقف اور اس موقف میں کس قدر فاصلہ ہے جو رسول اللہ کی طرف سے وصیت کی تحریر کے سلسلے میں اس نے اختیار کیا تھا۔
شوریٰ اور بیعت عثمان

جب حضرت عمر(قاتلانہ حملے میں) زخمی ہو گئے تو ان سے کہا گیا کہ اگر آپ کسی کوخلیفہ بناتے تو بہتر ہوتا۔ پس انہوں نے کہا:

اگر ابو عبیدہجراح زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ بناتا اور اگر اللہ مجھ سے سوال کرتا تو میں جواب دیتا، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے کہ بیشک وہ اس امت کا امین ہے اور اگر ابوحذیفہ کا غلام ”سالم“زندہ ہوتا تو میں اسے خلیفہ بناتا۔ اگر میرا رب مجھ سے استفسار کرتا تو میں کہتا۔ میں نے تیرے نبی(ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ سالم خدا سے بے حد محبت کرتا ہے۔ 28

لوگوں نے کہا۔ اے امیر المومنین! اگر آپ وصیت فرماتے تو اچھا ہوتا۔ کہا:

تم لوگوں سے گفتگو کے بعد میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایک ایسے شخص کو تم لوگوں کی ذمہ داری سونپوں جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں حق پر چلا سکے گا (اور علی(ص) کی طرف اشارہ کیا) اس کے بعد میں نے سوچا کہ میں اسے زندگی میں برداشت کر سکتا ہوں نہ مرنے کے بعد۔

بلاذری نے انساب الاشراف میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمرنے کہا۔ حضرت علی(ع)، عثمان، طلحہ،زبیر،عبدالرحمنبن عوف اور سعدابن ابی وقاص کو میرے پاس بلاؤ۔ پھر حضرت عمرنے سوائے علی(ع) اور حضرت عثمانکے ان میں سے کسی سے گفتگو نہیں کی اور کہا:

یاعلی(ع)! شاید یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی قرابت، دامادی کے رشتے اور آپ کے خداداد علم و دانش پہچان لیں گے۔ اگر یہ امارت آپ نے سنبھالی تو اس معاملے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
اس کے بعد حضرت عثمانکو بلا کر کہا:

اے عثمان! شاید یہ لوگ عمر کے لحاظ سے تیری بزرگی کا خیال رکھیں گے۔ اگر تو نے یہ منصب سنبھالا تو اللہ سے ڈرو اور ابو معیط کی آل کو لوگوں کی گردنوں پر سوار مت کرنا۔
اس کے بعد کہا: صہیبکو میرے پاس بلاؤ۔ جب اسے بلایا گیا تو کہا:

تین دن تک لوگوں کی امامت (نماز میں) کرتے رہو۔ اس دوران اس گروہ کو چاہیے کہ وہ بند کمرے میں مشورہ کریں۔ اگر یہ لوگ آپس میں ایک شخص پر اتفاق کر لیں تو پھر مخالفت کرنے والے کی گردن اڑا دو۔
جب وہ لوگ حضرت عمرکے پاس سے نکلے تو حضرت عمرنے کہا:

اگر ان لوگوں نے امارت اجلح (وہ جس کے سر کے دونوں جانب بال گرے ہوئے ہوں ) کو دے دی تو وہ ان کو صحیح راستے پر چلائے گا۔ 29

ریاض النضرہ ج۲ ص ۷۲ میں مذکور ہے کہ اسے امام نسائی نے نقل کیا ہے اس کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت عمرنے کہا:

اگر یہ لوگ امر خلافت اصیلع (ایسا شخص جس کے سر کے اگلے حصے کے بال گر چکے ہوں) کے سپرد کریں تو اگرچہ اس کی گردن پر تلوار رکھ دی جائے وہ لوگوں سے حق پر کیسے عمل کروا سکے گا۔
محمد بن کعب نے کہا

جب اس کے بارے میں یہ جانتے ہو تو پھر امارت اس کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے؟
جواب دیا۔

اگر میں نے ان کو نظر انداز کر دیا تو کیا ہوا مجھ سے بہتر لوگوں نے بھی ان کو نظرانداز کر دیا تھا۔

 

بلاذری نے انساب الاشراف ج۵۔ ص۱۷ میں نقل کیا ہے

کہ حضرت عمرکے پاس بات چلی کہ وہ کس کو خلیفہ بنائیں گے۔ کسی نے پوچھا۔ حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہا۔ اگر اس کو خلیفہ بناؤں تو وہ ابی معیط کی اولاد کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کریں گے۔ کہا گیا۔ تو پھر زبیر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہا۔ وہ خوشی کے وقت مومن اور غصے کے وقت کافر ہے۔ کہا گیا۔ تو پھر طلحہ؟ کہا۔ وہ مغرور اور نخوت پسند ہے۔ پوچھا گیا۔ اور سعد؟ بولے۔ وہ گھڑسواروں کے دستے اور بہت ساری بستیوں کا مالک ہے۔ سوال ہوا۔ عبدالرحمانکے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہا۔ اگر وہ اپنی بیوی پر حکم چلا سکے تو یہی اس کے لئے کافی ہے۔

بلاذری نے انساب الاشراف کی جلد ۵ ص۱۸ میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمرنے ضربت کھانے کے بعد عبداللہ بن جدعان کے غلام صہیب کو حکم دیا کہ وہ مہاجرین و انصار کے عمائدین کو ان کے پاس جمع کرے۔ جب یہ لوگ آ گئے تو کہا:

میں نے تمہاری امارت کو مہاجرین اولین کے چھ افراد پر مشتمل شوری کے حوالے کیا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے وقت راضی تھے۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ آپس میں ایک شخص کو تمہاری قیادت کے لئے منتخب کریں۔

حضرت عمرنے ان کے نام بھی بتا دئے۔ اس کے بعد ابو طلحہ زید بن سہل خزرجی سے کہا

انصار کے پچاس افراد منتخب کر لو جو آپ کے ساتھ رہیں۔ جب میری وفات ہو جائے تو ان چھ افراد کو ترغیب دو کہ وہ آپس میں کسی کو اپنے اور امت مسلمہ کے لئے امیر منتخب کریں او ر اس کام میں تین دن زیادہ تاخیر نہ کیجئے۔

پھر صہیب کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز جماعت پڑھاتا رہے، یہاں تک کہ وہ کسی کی امامت پر اتفاق کر لیں۔ اس وقت طلحہبن عبید اللہ سراة میں اپنے اموال کے پیچھے گئے ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرنے کہا

اگر طلحہتین دن کے اندر آجائے تو ٹھیک ورنہ ان کا انتظار نہ کرو اور کام کو نمٹا دو اور حتمی شکل دو۔ پھر اس شخص کی بیعت کرو جس پر تمہارا اتفاق ہو اور جو شخص تمہاری مخالفت کرے اس کی گردن اڑا دو۔

طلحہکی تلاش میں ایک آدمی بھیجا گیا تاکہ وہ انہیں ترغیب دے اور جلدی آنے کے لئے کہے۔ لیکن وہ حضرت عمرکی وفات اور حضرت عثمانکی بیعت کے بعد مدینہ پہنچے اور وہ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے گئے۔ میرے جیسے شخص پر کوئی بات ٹھونسی جائے؟پس حضرت عثمانان کے پاس آئے تو طلحہنے حضرت عثمانسے کہا۔ اگر میں رد کردوں تو کیا تم بھی اسے چھوڑ دو گے؟ کہا۔ ہاں بے شک میں اس امر کی تائید کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر ان کی بیعت کر لی۔ عقد الفرید ج۳ ص۷۳ میں بھی قریب قریب یہی درج ہے۔ نیز مذکورہ کتاب کے ص۲۰ میں مذکور ہے۔ کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے کہا۔

میں ڈرتا رہا کہ کہیں یہ مسئلہ بگڑ نہ جائے، یہاں تک کہ طلحہنے جو اقدام کرنا تھاکر لیا۔ اس کے بعد حضرت عثمان ہمیشہ طلحہکا احترام کرتے رہے یہاں تک کہ آپ محصور ہو گئے۔ اس وقت طلحہکا رویہ حضرت عثمانکے خلاف سب سے زیادہ سخت تھا۔

بلاذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف کے ص۱۸ میں ابن سعد کی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ حضرت عمرنے کہا :

اکثریتی فیصلے کو قبول کرنا اقلیت پر ضروری ہے۔ پس جو شخص تمہاری مخالفت کرے اس کی گردن اڑا دو۔

بلاذری نے اسی کتاب کے ص۱۹ میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمرنے اراکین شوری کو حکم دیا:

وہ تین دن باہمی مشورہ کریں۔ اگر دو افراد ایک شخص کی حمایت کریں مگر دو دوسرے اسی شخص کی مخالفت کریں تودو بارہ مشورہ کر لیں پس اگر چار ارکان ایک شخص پر اتفاق کریں اور ایک شخص مخالفت کرے تو چار کی بات مانی جائے اور اگر تین تین ہو جائیں تو پھر وہ ان تین افراد کے فیصلے کے تابع ہوں گے جن میں عبد الرحمنابن عوف ہو کیونکہ وہ اپنے دین کے معاملے میں قابل اعتماد ہے اور مسلمانوں کے امیر کے انتخاب میں اس کی رائے امانتداری پر مبنی ہو گی۔

العقد الفرید ج۳ ص۷۴ میں بھی قریب قریب یہی بیان ہوا ہے۔ بلاذری نے ہشام ابن سعد سے اس نے زید بن اسلم سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمرنے کہا۔ اگر رائے دینے والے تین تین پر مشتمل دو حصوں میں بٹ گئے تو عبدالرحمانبن عوف والے گروہ کی بات تسلیم کرو ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ جیسا کہ ابن سعد نے طبقات ج۳ ص۴۳ میں اسے نقل کیا ہے۔

تاریخ یعقوبی ج۲، ص۱۶۰ اور بلاذری کی انساب الاشراف ج۵، ص۱۵ میں مذکور ہے کہ حضرت عمرنے کہا:

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابو بکرکی بیعت اچانک اور سوچے سمجھے بغیر ہو گئی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے برے عواقب سے بچایا اور یہ کہ عمرکی بیعت بغیر مشورے کے ہوئی۔ اب میرے بعد کا مسئلہ مشورے سے حل ہو گا۔ جب چار ایک طرف ہو جائیں تو باقی ماندہ دو کو چاہئے کہ ان کی بات مانیں۔ لیکن تین ایک طرف اور تین دوسری طرف ہو جائیں تو عبدالرحمان بن عوف کی رائے سنو اور اس پر عمل کرو۔ اور اگر عبدالرحماناپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارے تو اس کی اطاعت کرو۔

محمد ابن جبیرسے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمرنے کہا:

اگر عبدالرحمانبن عوف اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارے تو تم لوگ بھی اس کی بیعت کرو۔ جو شخص انکار کرے اس کی گردن اڑا دو۔ 30

ان ساری باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمرنے نامزدگی کا اختیار عبدالرحمانبن عوف کو دے رکھا تھا۔ اور ان کے ساتھ یہ طے کر لیا تھا کہ وہ سیرت شیخین پر عمل کو بیعت کی شرط قرار دیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ حضرت علی(ع) ابن ابی طالب قرآن اور سنت رسول(ص) کی صف میں سیرت شیخین کی ملاوٹ کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت عثمان اس شرط کی موافقت کریں گے۔ اس لئے عثمان کی بیعت ہو جائے گی اور حضرت علی(ع) ان کی مخالفت کریں گے وہ تلوار کی نذر ہو جائیں گے۔ ہمارے اس دعوے کی دلیل مذکورہ عرائض کے علاوہ طبقات ابن سعد میں سعید بن العاص سے مروی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

سعید بن عاص حضرت عمرکے پاس آئے تاکہ اپنے مکان میں توسیع کے لئے ان سے زمین میں اضافے کامطالبہ کریں۔ انہوں نے صبح کی نماز کے بعد آنے کا وعدہ دیا اور مقررہ وقت پر ان کے گھر آئے۔ سعید کا بیان ہے کہ حضرت عمرنے میرے لئے زمین میں اضافہ کیا اور اپنے دونوں پیروں سے لکیر کھینچی۔ میں نے کہا۔ اے امیر المومنین میرے لئے مزید اضافہ کریں کیونکہ میرے اہل و عیال ہیں۔ انہوں نے کہا تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ میرے بعد امارت اس شخص کو ملے گی جو تجھ سے صلہ رحمی کرے گا اور تیری حاجت بر لائے گا۔ البتہ اس راز کو چھپائے رکھنا۔ سعید کہتے ہیں کہ میں حضرت عمرکی خلافت کے دوران صبر کرتا رہا یہاں تک کہ حضرت عثمانشوری کے ذریعے خلیفہ بن گئے۔ عثماننے میرے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی کی میری حاجت بھی پوری کی اور اپنی امانتوں میں مجھے شریک قرار دیا۔

بنابریں حضرت عمرنے سعید کو بتا دیا تھا کہ ان کے بعد سعید کا رشتہ دار یعنی عثمانخلیفہ ہوں گے اور اس سے یہ بھی کہا کہ اس راز کی حفاظت کرے۔ اس گفتگو سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ حضرت عثمانکی خلافت کا مسئلہ حضرت عمرکی زندگی میں طے ہو چکا تھا اور چھ افراد پر مشتمل مشاورتی کونسل کی تعیین اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا ایک طریقہ تھا تاکہ سب راضی ہو جائیں۔

شوریٰ سے متعلق حضرت علی(ع) کا موٴقف

حضرت علی(ع) جانتے تھے کہ خلافت آپ سے چھینی گئی ہے لیکن پھر بھی آپ نے شوری میں شرکت کی تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ حضرت علی(ع) نے خود ہی خلافت چھوڑ دی تھی۔ حضرت علی(ع) کو اپنے خلاف ہونے والی ملی بھگت کا علم تھا۔ اس کی ایک دلیل درج ذیل روایت ہے۔ جسے بلاذری نے بھی اپنی کتاب انساب الاشراف (ج۵۔ ص ۱۹) میں نقل کیا ہے۔ روایت یہ ہے کہ حضرت علی(ع) نے اپنے چچا عباس سے حضرت عمر کے اس قول:

ان حضرات کو چاہیے کہ عبدالرحمان بن عوف جن کے ساتھ ہو ان کے ساتھ دیں۔
کی شکایت کی اور کہا:

اللہ کی قسم ہم اس امارت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

جناب عباس نے کہا:

اے بھتیجے! آپ نے کیونکر یہ بات کی ہے؟
کہا:

سعد، اپنے چچازاد بھائی عبدالرحمانکی مخالفت نہیں کرے گا اور عبدالرحمانحضرت عثمان جیسا اور ان کا بہنوئی ہے۔ یہ دونوں یقینا ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اگر طلحہ اور زبیر میرا ساتھ دیں تب بھی مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ عبدالرحمن ابن عوف دوسرے تینوں میں شامل ہوں گے۔

ابن الکلبی کہتے ہیں کہ عبدالرحمانبن عوف جو ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کے شوہر ہیں اور ام کلثوم کی ماں اروی بنت کریز ہے جو حضرت عثمانکی ماں ہے۔ اسی بنا پر ان کو بہنوئی کہہ کر یاد کیا ہے۔ عقد الفرید ج۳ ص۷۴ میں بھی اسی سے ملتا جلتا واقعہ مذکور ہے۔

مذکورہ بالا کتاب کے ص۲۱ میں منقول ہے کہ جب عمردفن ہوئے تو شوری کے اراکین (جن کی سرپرستی طلحہ کر رہے تھے) نے کوئی اقدام نہ کیا اور بیٹھے رہے۔ جب صبح ہوئی تو ابو طلحہ نے ان کو تبادلہ خیال کے لئے دار المال میں طلب کیا۔ یاد رہے کہ حضرت عمرقاتلانہ حملہ ہونے کے چوتھے دن بروز اتوار دفن ہوئے۔ صہیب ابن سنان نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جب عبدالرحماننے ان لوگوں کی کھسر پھسر، لے دے اور کھینچا تانی دیکھی تو ان سے کہا:

حضرات میں اپنے آپ اور سعد کو مقابلے سے خارج کرتا ہوں بشرطیکہ مجھے آپ چاروں میں سے ایک کو منتخب کرنے کا حق مل جائے کیونکہ سرگوشیوں کا سلسلہ کافی طویل ہو چکا اور لوگوں کی پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ اپنے خلیفہ و امام کو پہچان لیں اور اس کے منتظر مختلف علاقوں کے لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں کو واپس جانا ہے۔ انہوں نے اس کی تجویز کا جواب دیا کہ سوائے حضرت علی(ع) کے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس پر غور کرتا ہوں۔

پھر ابو طلحہ آیا تو عبدالرحماننے اسے اپنی پیشکش اور حضرت علی(ع) کے سوا باقی اراکین کے مثبت جواب کے بارے میں بتایا۔ پس ابو طلحہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے پاس آیا اور کہا:

اے ابوالحسن بیشک ابو محمد آپ کا اور دیگر مسلمانوں کا خیرخواہ ہے۔ آپ اس کی کیوں مخالفت کرتے ہیں جبکہ وہ خود امارت سے دستبردار ہو چکا ہے؟ بنابریں وہ کسی دوسرے کا گناہ اپنے ذمے نہیں لے گا۔

حضرت علی نے عبدالرحمان بن عوف کو قسم دلائی کہ وہ ذاتی خواہشات کی طرف نہیں جائے گا، حق کو ترجیح دے گا، امت مسلمہ (کے مفادات) کے لئے سعی کرے گا اور رشتہ داری و قرابت کا پاس نہیں کرے گا۔ عبدالرحماننے قسم کھائی۔ تب حضرت علی نے فرمایا: سوچ سمجھ کر صحیح فیصلہ کیجئے۔ یہ واقعہ دارالمال میں پیش آیا جسے دار المسور بن مخرمہ بھی کہتے ہیں: عبدالرحماننے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے تنہائی میں ملاقات کی اور کہا:

ہم آپ کے اوپر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں کہ اگر یہ امارت آپ کے حوالے کر دی جائے تو آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب، نبی(ص) کی سنت اور ابوبکر و عمر کی سیرت پر عمل کریں گے۔
آپ نے جواب دیا:

میں تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو حتی المقدور اپناؤں گا۔

اس کے بعد عبدالرحمانتنہائی میں حضرت عثمانسے ملا اور کہا:

ہم آپ کے اوپر اللہ کو گواوہ ٹھہراتے ہیں کہ اگر یہ امارت آپ کو دی جائے تو ہمارے درمیان اللہ کی کتاب، رسول اللہ کی سنت اورابوبکر و عمر کی سیرت پر عمل کریں گے۔
عثماننے کہا:

میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے درمیان اللہ کی کتاب، رسول(ص) کی سنت اور ابوبکر و عمر کی سیرت کے مطابق عمل کروں گا۔

اس کے بعد اس نے دوبارہ حضرت علی سے خلوت کی اور پہلی بات دہرائی۔ حضرت علی نے اسے پہلے کی طرح جواب دیا۔ پھر عثمانسے (دوبارہ) خلوت کی اور پہلی بات دہرائی اور انہوں نے پہلے کی طرح جواب دیا۔ اس کے بعد پھر حضرت علی کے ساتھ خلوت میں ملا اور مثل سابق بات کی۔ آپ نے جواب دیا:

اللہ کی کتاب اور سنت رسول(ص) کی موجودگی میں کسی اور کی سیرت کی ضرورت نہیں۔ تمہاری کوشش یہ ہے کہ اس امارت سے مجھے محروم کر دیا جائے۔

اس کے بعد عبدالرحمانپھر عثمان سے تنہائی میں ملا اور سابقہ بات دہرائی اور عثمان نے پھر وہی جواب دیا۔ پھر اس نے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ یعنی حضرت عثمانکی بیعت کر لی۔31

دوسری روایت یہ ہے کہ جب عبدالرحماننے تیسرے دن عثمان کی بیعت کی تو حضرت علی نے عبدالرحمان سے کہا:

تو نے اسے ہمیشہ کے لئے عثمانکو بخش دیا ہے۔ یہ پہلا دن نہیں کہ تم لوگوں نے ہم پر زیادتی کی ہو۔ اب صبر و جمیل کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ تمہاری باتوں کے مقابلے میں اللہ ہی مددگار ہے۔ بخدا تو نے عثمان کو امارت اس لئے دی تاکہ وہ اسے تیری طرف لوٹائے اور اللہ (بندوں کے) کسی نہ کسی کام کی تدبیر میں ہے۔ 32

حضرت علی بن ابی طالب(ع) کی بیعت

حضرت عثمانقتل ہو گئے تو مسلمانوں کو اپنی امارت دوبارہ مل گئی اور وہ تمام سابقہ بیعتوں کی زنجیروں سے آزاد ہو گئے۔ وہ علی ابن ابی طالب(ع) کے پاس امنڈ آئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں۔ 33 صحابہ کرام آپ کے پاس آئے اور بولے۔

حضرت عثمانقتل ہو چکے ہیں اور لوگوں کے لئے کسی امام کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ آج ہم اس امارت کے لئے آپ سے زیادہ مناسب کسی کو نہیں پاتے۔ نہ کوئی شخص سابقہ خدمات کے لحاظ سے آپ سے مقدم ہے نہ کوئی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت میں آپ سے قریب تر ہے۔ اللہ کی قسم جب تک ہم آپ کی بیعت نہ کریں گے دم نہ لیں گے۔
فرمایا:

بیعت مسجد میں ہونی چاہیے کیونکہ میری بیعت خفیہ نہیں ہوگی۔

لوگ قتل عثمانکے بعد کئی بار آپ کے پاس گئے۔ آخری بار انہوں نے آپ سے کہا:

قیادت کے بغیر لوگوں کی اصلاح حال نہیں ہو سکتی اور کافی دیر ہو چکی ہے۔ آپ نے ان سے کہا۔ تم لوگ باربار میرے پاس آتے رہے ہو۔ اب میں تم سے ایک بات کرتا ہوں اگر تم اس کو قبول کر لو تو میں بھی تمہاری بات قبول کروں گا۔ ورنہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کہنے لگے۔ انشااللہ ہم آپ کی بات قبول کریں گے۔ آپ آئے اور منبر پر تشریف لے گئے اور لوگ آپ کے حضور جمع ہو ئے۔ تب آپ نے کہا۔ مجھے تمہاری امارت پسند نہ تھی لیکن تم لوگ اس بات پر مصر ہو کہ میں تمہاری امارت قبول کروں۔ آگاہ رہو کہ تمہارے اموال کی چابی میرے پاس ہے۔ مجھے اس سے ایک درہم بھی لینے کا حق نہیں ہے۔

کیا تم اس سے راضی ہو؟ بولے۔ ہاں۔اس کے بعد آپ نے فرمایا۔اے اللہ ان لوگوں کے اوپر گواہ رہنا۔ پھر اس بات پر ان لوگوں سے بیعت لی۔34

اسلام کے ابتدائی دور میں قیام حکومت سے مربوط تاریخی حقائق کے مطالعے کے بعد اب ہم خلافت و امامت کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کے نظریات پر بحث کریں گے۔ ابتداء مکتب خلفاء کی آراء سے کریں گے۔

 

حوالہ جات

۱ مسند امام احمد ج۱ صفحہ ۵۵، تاریخ طبری ج۲ صفحہ ۴۶۶، اسد الغابہ ج۲ صفحہ ۱۲۴، البدایہ و النھایہ ج۵ صفحہ ۲۴۶، صفة الصفوة لابن جوزی ج۱ صفحہ ۹۷، تاریخ الخلفا للسیوطی صفحہ ۴۵ مبابعة ابی بکر کے تحت، تیسیر الوصول ج۲ صفحہ ۴۱ طبع قاہرہ
۲ الریاض النضرہ ج۱ صفحہ ۱۶۷، تاریخ الخمیس ج۱ صفحہ ۱۸۸، العقد الفرید ج۳ صفحہ ۶۴، تاریخ ابو الفداء ج۱ صفحہ ۱۵۶، الروض المناظر لا بن شحنہ حنفی بر حاشیہ تاریخ کامل صفحہ ۱۱۲، شرح ابن ابی الحدید ج۱ صفحہ ۱۳۴، سیرہ جلبیہ صفحہ ۳۹۴،۳۹۷۔

3 انساب الاشراف صفحہ ۳۹۴، ۳۹۷۔

4 تاریخ طبری ج۲ صفحہ ۶۱۹، مروج الآہب ج۱ صفحہ ۴۱۴، العقد الفرید ج۳ صفحہ ۶۹، کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۳۶، الامامة و السیاسة ج۱ صفحہ ۱۸، تاریخ الاسلام زہبی ج۱ صفحہ۱۸، تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۱۱۵

5 الریاض النضرة ج۱ صفحہ ۲۱۸، طبع ثانیہ مصر ۱۳۷۲ھ ، تاریخ الخمیس ج۲ صفحہ ۱۶۹ طبع موٴسسة شعبان بیروت، شرح ابن ابی الحدید ج۱ صفحہ ۱۳۲، ج۶ صفحہ ۲۹۳ طبع مصر۔

6 تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۱۰۲۶، الروض المناظر لابن شحنہ حنفی بر حاشیہ کامل ابن اثیر ج۱۱ صفحہ ۱۱۳، شرح ابن ابی الحدید ج۱ صفحہ ۱۳۴، العقد الفرید ج۳ صفحہ ۱۴۰، تاریخ ابوالغداء ج۱ صفحہ ۱۵۶۔

7 انساب الاشراف ج۱ صفحہ ۵۸۶، کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۴۰، الریاض النضرہ ج۱ صفحہ ۱۶۷، تاریخ الخمیس ج۱ صفحہ ۱۷۸، الروض المناظر لابن شحنہ حنفی بر حاشیہ تاریخ کامل ج۱۱ صفحہ ۱۱۳ طبع قدیم مصر

8 مروج الذھب ج۱ صفحہ ۱۰۰، ابن ابی الحدید ج۲۰ صفحہ ۴۸۱

9 تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ۱۲۶، تاریخ طبری ج۲ صفحہ ۴۴۳، ۴۴۴، عبقریة عمر از استاد محمودعقاد صفحہ ۱۷۳، الریاض النضرہ ج۱ صفحہ ۱۶۷، تاریخ الخمیس ج۱ صفحہ ۱۸۸ کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۲۸

10 کتاب السقیفہ لابی بکر جوہری صفحہ ۲۸، شرح ابن ابی الحدید ج۱ صفحہ ۱۳۴۔
11تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۱۲۶ طبع بیروت
12 مروج الذہب ج۱ صفحہ ۴۱۴، الامامة و السیاستہ ج۱ صفحہ ۱۲، ۱۴ طبع مصر
13تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۱۲۶، شرح ابن ابی الحدید ج۲ صفحہ ۴

14 کتاب السقیفہ ابو بکر الجوہری صفحہ ۲۹، الامامة و السیاسة ج۱ صفحہ ۱۲ طبع مصر۔

15 شرح ابن ابی الحدید ج۲ صفحہ ۶۷، صفین لنصربن مزاحم صفحہ ۱۸۲ طبع مصر

16 الاخبار الموفقیات صفحہ ۵۹۰ طبع بغداد۔ حضرت فروہبن عمرو انصاری بیعت عقبہ، جنگ بدر اور بعد والی تمام جنگوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر رہے (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ج۴ صفحہ ۱۷۸ طبع قاہرہ

17 ضرت خالدبن سعید بن عاص بن امیہ بن عبد شمس صحابی رسول ہیں۔ یہ حضرت ابو بکرسے پہلے مسلمان ہوئے تھے۔ آپ حبشہ کے مہاجرین میں شامل تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالدبن سعید اور ان کے بھائیوں کو قبیلہ مذحج کے صدقات کا کام پر معین فرمایا۔ (کتاب المعارف لابن قتیبہ صفحہ ۱۲۸، الاستیعاب ج۱ صفحہ ۳۶۸، الاصابہ ج۱ صفحہ ۴۰۲، اسد الغابہ ج۲ صفحہ ۸۲)

18 اسد الغابہ ج۲ صفحہ ۸۲،، شرح ابن ابی الحدید ج۲ صفحہ ۱۳۵ طبع اول مصر

19 تاریخ طبری ج۲ صفحہ ۵۸۶، تہذیب ابن عساکر ج۵ صفحہ ۵۱

20 تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۱۲۶ طبع بیروت

21 تاریخ طبری ج۳ صفحہ ۴۸۹، کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۳۴، علامہ حلبی نے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ان میں سے کسی کو سلام نہیں کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو سیرت حلبیہ ج۴ صفحہ ۳۹۷ طبع مصر۔

22 الریاض النضرہ ج۱ صفحہ ۱۶۸

23 طبقات ابن سعد ج۳ صفحہ ۱۴۵، تہذیب ابن عساکر ج۶ صفحہ ۹۰۔
24 انساب الاشراف ج۱ صفحہ ۵۸۹، العقد الفرید ج۳ صفحہ ۶۴

25 تبصرة العوام صفحہ ۳۲، مطبوعہ تہران، مروج الذہب ج۲ صفحہ ۳۰۱
26 العقد الفرید ج۴ صفحہ ۲۵۹
27 تاریخ طبری ج۵ صفحہ ۲۱۳

28 ہم نے ”العقد الفرید “ ج۴ صفحہ ۲۷۴، سے نہایت مختصر خلاصہ تحریر کیا ہے۔

29 طبقات ابن سعد ج۳ صفحہ ۲۴۷ طبع لیدن میں تقریباً یہی کچھ مذکور ہے علاوہ ازیں الاستیعاب اور منتخب کنز العمال مطبوعہ بر حاشیہ ج۴ صفحہ ۴۲۹ میں بھی موجود ہے۔
30 کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۶۰
31 تاریخ یعقوبی ج۱ صفحہ ۱۶۲ طبع بیروت

32 تاریخ طبری حوادث ۲۳ھ ج۳ صفحہ۲۹، کامل ابن اثیر ج۳ صفحہ ۳۷، العقد الفرید ج۳ صفحہ ۸۶ العسجدة الثانیة فی الخلفأ و تواریخھم۔

 

بیرونی رابط

تبصرے
Loading...