کیا یه بات درست نهیں هے که قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق اولیاے خدا کو نه خوف هوتا هے نه غم(یونس،۶۲) پھر روز جمعه کی دعا میں امام زمانه علیه السلام سے خطاب کرکے هم یه کیوں کهتے هیں :”السلام علیک ایها المهذب الخائف” یعنی سلام هو آپ پر اے خوف زده رهنے والے پاک باطن؟

خوف و هراس دو طرح کا رهتا هے ۔اچھّا اور پسندیده خوف اور برا و مذموم خوف۔غلط اور برا خوف الله کے بندوں کے لیئے کوئی معنی نهیں رکھتا ، یه زمانه کا خوف ،لوگوں کا خوف ،دشمن کا ڈر مختصر یه که مخلوقات کا ڈرا هے ۔

جناب ابوذر سے نقل هے که انهوں نے فرمایا :”پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم نے مجھے وصیت کی که خدا کی راه میں کسی بھی ملامت کرنے والے که ملامت سے نه ڈروں”[1] ۔ امام صادق علیه السلام سے روایت هے که انهوں نے فرمایا:” مومن خدا کے علاوه کسی سے بھی نهیں ڈرتا [2] ۔ قرآن کریم کا ارشاد هے :” یه صرف شیطان هے جو اپنی پیروی کرنے والوں کو(اپنی افواهوں اور بے بنیاد باتوں سے )

ڈراتا هے پس ان لوگوں سے نه ڈروں اور ﻤﺠﻬ سے ڈروں اگر ایمان رکھتے هو”[3]

اور جو خوف و هراس پسندیده اور قیمتی هے وه الله کے جلال و عظمت کا خوف هے ۔امام علی علیه السلام کا ارشاد هے :” خوف عارفوں کا لباس هے “[4] ۔حضرت رسول اکرم صل الله علیه وآله وسلم کا ارشاد هے :

“جو شخص خدا کی جتنی زیاده معرفت رکھتا هوتا هے اس سے اتنا هی خوف زده هوتا هے “[5] اسی وجه سے آن حضرت صل الله علیه وآله وسلم نے فرمایا :” خدا سے مرا خوف تم سب سے زیاده هے “[6] ۔اور اسی قیمتی ،پسندیده خوف کا ثمره و فائده یه هے که انسان خدا کی بارگاه میں پناه لے لیتا هے ۔

امیر المومنین علیه السلام نے فرمایا :” اگر مخلوقات سے ڈرتے هو تو ان سے بھاگتے هو لیکن اگر خالق سے ڈرتے هو تو اس کی پناه میں جاتے هو”[7]

 

خوف کے درجات:

خواجه عبد الله انصاری کے بقول: تواضع و فروتنی سے خوف پیدا هوتا هے ۔ارشاد پروردگار هے “و امّا مَن خافَ مَقامَ ربِّه” خوف در هے ، ڈر ایمان کا حصار هے ،تقوا کے لیئے تریاق (دوا) اور مومن کے لیئے اسلحه هے اور اس کی تین قسمیں هیں ،ایک خاطرو خیال هے دوسرا مقیم اور ره جانے والا هے اور تیسرا غالب هے ۔وه خوف جو خیالی هے اور آنے جانے والا هے ،دل میں آتا هے اور گذر جاتا هے ،وه پست قسم کا خوف هے که اگر وه نه هوتا تو ایمان نه هوتا که خوف کے بغیر سلامتی نهیں اور بے خوف کے پاس ایمان نهیں هے ۔ هر شخص کا ایمان اتنا هی هے جتنا اس کا خوف هے ۔ دوسرا خوف مقیم هے یعنی برابر رهتا هے ۔ یه بندے کو گناهوں سے روکتا هے ، اسے حرام سے دور رکھتا هے اور اس کی آرزوں اور تمناوں کو مختصر کرتا هے ۔تیسرا خوف غالب هے یه ترس مکر هے۔ یه وه ڈر هے جو حقیقی هے ۔اس سے اخلاق کی راهیں کشاده هوتی هیں اور اس کے ذریعه انسان غفلت سے دور رهتا هے ۔ مکر کی دس نشانیاں هے :بے رغبتی کی عبادت ،توبه کے بغیر گناه پر اصرار ،گناه کا در بند هونا ،علم جس کے ساﺗﻬ عمل نه هو ،بے اراده کی حکمت ،بد اخلاقی کی صحبت ،تضرع و زاری کا دروازه بند هونا، برے افراد کے ساﺗﻬ اٹھنا بیٹھنا اور ان سب سے بدتر یابنده کو بے یقین ایمان دیتا هے یابنده کو اس کے حواله کر دیتا هے ۔[8]

اس کی رضایت یه هے ؛حقیقت خوف یه هے که سالک اپنے مطلوب کے حصول سے نا امید یا کسی بری افتاد کے وقوع کا منتظر هوجائے ،اطمینان کی حالت سے خارج اور اضطراب میں مبتلا هوجائے ۔ سالک کے ارتقا کے لحاظ سے خوف کی تین قیسمیں هیں :

ایک عامه کا خوف : یه عذاب و عقوبت الٰهی کا خوف هے که چونکه سالک اپنے معبود کے سطوت و جلال سے آگاه هوگیا هے لهذا مضطرب و پریشان هے ۔ خداوند عالم فرماتا هے :” یَخافونَ یوما تتقلبُ فیهِ القلوبِ و الابصار ” وه اس دن سے ڈرتے هیں جس میں دل اور نگاهیں حیران و پریشان هیں ۔[9]

دوسرے متوسطین یعنی درمیان کے لوگوں کا خوف هے اور وه مکر الٰهی سے خوف هے که اهل مراقبه جو خدا کی بارگاه میں حضور کے ذوق سے آشنا هوگئے هیں ،اس میں مبتلا هیں که وه برابر اس خوف میں هیں که کهیں یه فیضان الٰهی تمام نه هوجائے اور بارگاه الٰهی میں حضور کی لذّت محو نه هوجائے ۔ اگر چه اس منزل سے واقف افراد خود شبهه میں مبتلا هیں که خود فیاض(یعنی خدا) سے دور هوگئے هیں اور فیض سے وابسته هوگئے هیں ۔ خداوند عالم فرماتا هے :” وَلِمن خافَ مقامَ ربِّه جَنَّتان”[10] خود خدا کے مقام قهر و کبریائی سے ڈرے اس کے لیئے دهری جنتیں هیں “۔

تیسرا خوف بزرگون اور اهل دل حضرات کا هے جو حریم الٰهی میں اس کے جمال کے عاشق هیں اور اس کے جمال کی زیبائی اور جلال کی رعنائی میں ایسے محو هوگئے هیں که اس کا جمال با کمال نے ناز کا جلوه اختیار کر رکھا هے اور خدائے عزیز و بے نیاز نے اپنی هیبت مقتول عشق پر طاری کردی هے اسی کی طرف سعدی شیرازی نے اشاره کیا هے که:

گر کسی وصف او زمن پرسد           بیدل از بی نشان چه گوید راز

عاشقان کشتگان معشوقند                       بر نیاید ز کشتگان آواز[11]

ترجمه اردو:

ﻤﺠﻬ سے پوچھے کوئی جو اس کا پتا          میں هو بیدل وه بے نشاں هے کهاں ؟

هیں  جو  عشاق  کشته  معشوق               جسم مقتول هے فغاں هے کهاں؟

پس خواص اور اولیاء کے حلات دوسروں کے حالات سے جدا هیں ۔ الله کی عنایت و جلال کا مشاهده اور اسمائے الٰهی کی تجلی ان کے دلوں پر برابر بڑھتی جاتی هے اور وه اس کی روحانی لذت میں غرق رهتے هیں ۔اس قسم کا خوف سوره یونس کی اس آیت سے ،جس میں کها گیا هے که :آگاه هوجاو که اولیائے خدا کو نه کوئی خوف هوتا هے اور نه کوئی غم ،کوئی ٹکڑاو نهیں رکھتا۔[12]

اسی وجه سے هم اپنے مولا و آقا اور امام زمانه کی بارگاه میں عرض کرتے هیں : سلام هو آپ پر ائے خوف زده پاک باطن اور حق کے جلال و جبروت سے خائف رهنے والے۔



[1] علامی مجلسی ،بحار الانوار ج71 ص360 ۔

[2] ری شهری محمد،میزان الحکمۃ،ج3 روایت نمبر 5258 ۔

[3] آل عمران ،175 ۔

[4] ری شهری محمد ،میزان الحکمۃ ،ج3 روایت نمبر5178 ۔

[5] ری شهری محمد ،میزان الحکمۃ ،ج3 روایت نمبر 5195 ۔

[6] نراقی ملا احمد،معراج السعادۃ ،باب چهارم ،صف پنجم ،مقام سوم،خوف الٰهی۔

[7] ری شهری محمد ،حسینی سید محمد،منتخ ب میزان الحکمۃ ،روایت نمبر2000 ۔

[8] انصاری خواجه عبد الله ،صد میدان ،میدان سی و سوم، ص 63 ۔

[9] نور ،37 ۔

[10] الرحمٰن ،46 ۔

[11] دامادی،سید محمد شرح مقالات اربعین ،یا مبانی سیر و سلوک عرفانی ،ص145 ۔

[12] امام خمینی (رح) ،شرح چهل حدیث،صص 230 ۔231 ۔

تبصرے
Loading...