کیا جانی خطره هو نے کی صورت میں بهی عتبات عالیات کا سفر حرام نهیں هے؟

ائمه اطهار علیهم السلام کی مقدس قبروں کی زیارت کے لئے عتبات عالیات کا سفرکرنا ایک بهت هی پسندیده اور ائمه طاهرین علیهم السلام کی طرف سے تاکید اور سفارش کیاگیا کام هے – کیو نکه دشمنان اهل بیت (ع) نے همیشه اهل بیت علیهم السلام کے نام ، یاد اور آثار کو مٹانے کی کوشش کی هے اور شیعوں و محبان اهل بیت علیهم السلام نے ان هی مسافرتوں اور زیارتوں کے ذریعه هی دشمنوں کے منصوبوں اور سازشوں کو ناکام بنا کر رکهدیا هے اور عام طور پر یه مسافرتیں اور زیارتیں خطرات سے خالی نهیں تهیں-

اس لئے اگر یه سفر جانی خطره کا سبب بن جائے تو اس صورت میں همیشه اس سفر کے ضررو نقصان کی مقدار کا اس کے اسلام ، تشیع ،نام و یاد اور آثار ائمه علیهم السلام کی ضرورت اور اهمیت کے ساتھـ موازنه کرنا چاهئے اور ان آثار کی جان کی حفاظت کی به نسبت اهمیت اور اولویت هو نے کی صورت میں اس سفر کا اقدام کر نا چاهئے، جیسا که پوری تاریخ میں شیعوں نے عمل کیا هے-

تاریخ میں آیا هے که متوکل عباسی حضرت امام حسین علیه السلام کے زائرین کا دایاں هاتھـ کاٹ کر ان کو سزا دیتا تھا تا که کوئی امام حسین علیه السلام کی زیارت کو جانے کی جرات نه کرے، لیکن شیعوں نے اس سزا کو خنده پیشانی سے قبول کیا اور یهاں تک که ایسے افراد میں سے بعض نے اپنے دونوں هاتھـ اس راه مین فداکئے اور دشمن کو شکست دیدی-

یه اقدامات ، ایسے حالات میں لازم اور ضروری تهے، جب تشیع کا زنده رهنا امام حسین علیه السلام کی زیارت پر جانے پر منحصر تها –اگر آج مکتب اهل بیت علیهم السلام کا اگرکوئی اثر باقی بچا هے تو بیشک یه ان هی لوگوں کی قربانیوں ، ایثار اور فداکاریوں کا نتیجه هے-

بهر حال فقهی لحاظ سے ، بحرانی اور نا گفته به حالات میں عتبات عالیات کا سفر تشخیص موضوع کے عنوان سے مربوط ایک موضوع هے اور اگر یقین کے ساتھـ ثابت هو جائے که عتبات عالیات کا سفر اسلام کے تحفظ کے لئے ضروری هے ، تو اس صورت میں اس سفر پر جاسکتے هیں-

لیکن آج جبکه مکتب تشیع کافی پهیل چکا هے، اس لئے اس قسم کی ضرورت کا احساس نهیں کیا جاتا هے ، واضح هے که اس قسم کی مسافرتیں اسلامی جمهوریه ایران کے حکام کے ساتھـ هم آهنگی کے بعد انجام پانی چاهئے-

پس ،اگر ملک کی سرحد کو عبور کر نا اسلامی جمهوریه ایران کے قانون کی خلاف ورزی شمار هوتی هو اور حالات ایسے هوں که مراجع عظام میں سے کسی ایک نے سفر کے جائز نه هو نے کا حکم دیکر اسے ممنوع قرار دیا هو، تو ایسے افراد کا سفر، معصیت کا سفر هو گا[1]

مقام معظم رهبری حضرت آیت الله العظمی خامنه ای (مدظله العالی) نے اس قسم کے افراد کی نماز کے بارے میں فر مایا هے : ” جب قوانین کے خلاف هو ، ان کی نماز اس سفر اور اس کے مانند مسافرتوں کے دوران پوری اور مکمل هو گی ، کیونکه یه سفر معصیت کا سفر هے، توضیح المسائل کی کتابوں میں سفر معصیت میں نماز پوری پڑهنے کا فتوی دیا گیا هے[2]

لیکن جن زائرین کا سفر قوانین کے خلاف نه هو اور اس میں ایک بڑے خطرے کا خوف بهی نه هو اور وه عتبات عالیات کی زیارت کے لئے گئے هوں، اگر اتفاق سے کوئی حادثه پیش آئے اور ظالموں کے هاتهوں قتل کئے جائیں ، تو وه مظلوم هیں اور ان کے لئے بڑا ثواب هے-



[1] – حضرت امام خمینی (رح) ، مقام معظم رهبری اور دوسرے تمام مراجع عظام کے مطابق اسلامی جمهوریه ایران کے مقدس نظام کے قوانین کی خلاف ورزی کر نا شرعاً جائز نهیں هے اور حرام هے-

[2] – قم میں مقام معظم رهبری حضرت آیت الله العظمی خامنه ای کے دفتر سے سوال و جواب کے شعبه سے فون پر حاصل کیاگیا جواب-

تبصرے
Loading...