کیا انسان کا برائی کی طرف رغبت کرنا، الله تعالی کے اراده سے هوتا هے؟

اس سوال کا مناسب جواب، اس وقت زیاده آسانی سے اور بهتر انداز میں دیا جا سکے گا جب هم مذکوره آیت سے پهلے آنے والی آیتوں کو اور اسی طرح اس آیت سے ملتی جلتی آیات جو دوسری سورتوں میں آئی هیں مثال کے طور پر سورة دھر (انسان) کی انتیسویں اور تیسویں آیتیں اور سورة مزمل کی انیسویں آیت کا اجمالی طور پر جائزه لے نهیں لیتے. لهذا هم ان تین قسموں کی آیتوں کے بارے میں تحقیق پیش کرتے هیں:

۱. سوال میں پوچھی گئی آیت، سورة تکویر جو مکی سورتوں میں سے هے، کی انتیسویں آیت هے. اس آیت سے پهلے والی دو آیتیں: «ان ھو الا ذکر للعالمین. لمن شاء منکم ان یستقیم» هیں. ان میں الله تعالی ارشاد فرما رها هے که «یه قرآن کا ذکر دنیاوالوں کے لئے سبق کے علاوه کچھ نهیں. آپ لوگوں میں سے هر اس شخص کے لئے جو بھی راه راست پر چلنا چاهے». اور اس کے بعد انتیسویں آیت میں فرمایا هے: «و ما تشأٶون الا ان یشاء الله رب العالمین» (اور جب تک الله تعالی جو دنیاوالوں کا رب هے، اراده نهیں کرے گا، تم بھی کسی چیز کا اراده نهیں کر سکتے)[1].

مذکوره آیتوں کا خلاصه یه بنے گا که قرآن کریم جو حق تعالی کی کلام هے، (نه که شیطان رجیم کی کلام: «و ما ھو بقول شیطان رجیم» (تکویر، ۲۵)، یه دنیا والوں کے لئے وعظ اور ذکر اور تذکر کے سوا کچھ نهیں). هاں البته جو خود چاهے گا که راه مستقیم پر چلے، اس کے لئے وعظ اور تذکر هو گا.

یهاں پر ممکن هے مخاطبین کے ذهن میں یه سوال پیدا هو که مذکوره آیت یعنی: «لمن شاء منکم ان یستقیم» فرما رهی هے که استقامت کو چاهنا اور سیدھے راستے پر چلنا اور الله تعالی کا راسته اختیار کرنا اور طاعت اور عبودیت پر باقی رهنا، مستقل طور پر خود انسان کے هاتھ میں هے یعنی اگر چاهیں گے تو سیدھے راستے پر چلیں گے اور اگر نه چاهیں گے تو …. لهذا الله تعالی وه استقامت جو ان سے چاهتا هے ان کا محتاج هے! اسی وجه سے اور اسی توهم کو دور کرنے کی خاطر، الله تعالی فرماتا هے ان کی مشیت (اراده)، الله تعالی کی مشیت اور اراده پر مبنی هے. وه استقامت کو نهیں چاهیں گے (چاهنے کی اجازت اور اس پر طاقت هی نهیں رکھتے) مگر یه که الله تعالی چاهے که وه استقامت کریں![2]

دوسرے الفاظ میں، انسان کے اختیاری کام (حتی که خود انسان کا اراده بھی) بالواسطه اور الله تعالی کی طرف سے اراده کیے جانے کی وجه سے، الله تعالی کا مطلوب اور مراد هوتا هے اور حضرت حق تعالی کی ذات مقدس نے یه اراده فرمایا هے که انسان اپنے «اختیاری» کام بھی جو خود انسان کے ارادے اور اختیار پر منحصر هوتے هیں، وه بھی اپنے هی ارادے سے انجام پائیں. البته ان آیات میں، ایسے افراد کے بارے میں گفتگو هو رهی هے جو الله تعالی کے راستے میں اور نجات اور سعادت پانے کے لئے قدم بڑھانا چاهتے هیں، لیکن قرآن کا پیغام صرف انهی لوگوں کے لئے مختص نهیں هے اور تمام انسان، قرآن کی دعوت میں شامل هیں.

۲. دوسری آیت جو مذکوره آیت (یعنی سورة تکویر کی ۲۹ آیت) سے بعض لحاظوں سے مماثلت رکھتی هے، سورة دھر کی ۳۰ آیت (اور اس سے ما قبل آیات) هے. اس سورة کی ۲۹ اور ۳۰ آیت میں فرمایا هے: «ان ھذه تذکرة فمن شاء اتخذ الی ربه سبیلا. و ما تشاٶن الا ان یشاء الله…» (یه (آیتیں) وعظ هیں، تا که جو بھی چاهے الله تعالی کا راسته منتخب کر لے اور جب تک الله تعالی اراده نهیں فرمائے گا، (تم) اراده نهیں کر سکتے…»[3]

سورة دھر (انسان) کے خاتمه پر آنے والی ان آیات کا سیاق، مکی سیاقات کی طرح سے معلوم هوتا هے، اور اگر اس نظریه کو مانا جائے، تو اس سورة کی پهلا حصه، مدنی اور آخری حصه (آخری نو آیتیں) مکی هوں گی[4].

اس آیت یعنی «ان ھذه تذکرة …» کی وضاحت، اس مقاله کے تیسرے حصے میں آئے گی. لیکن «و ما تشاٶن … » والی آیت کا مفهوم اور مراد، سورة تکویر کی ۱۹ آیت کی طرح هی هے. یه جو الله تعالی نے پهلے نفی کی هے (و ما تشاٶن …) اور اس کے بعد استثناء (الا ان یشاء …» لا کر، اپنی کلام کو مکمل فرمایا هے، ایک طرف سے یه بیان کرنا چاه رها هے که انسان کی مشیت (ارادے) کا تحقق، الله تعالی کی مشیت اور ارادے کے تحقق پر مبتنی هے. لهذا الله تعالی کی مشیت اس بندے کی مشیت سے متعلق هونے کے ناطے، اس کے کام میں مٶثر هے، اور یه مستقل اور براه راست طریقے سے، اس کے کام سے متعلق نهیں هے. اب اس اعتراض کا کوئی جواز نهیں بن سکتا که انسان کے اراده کا تو کوئی اثر هی نهیں، اور جو کچھ بھی یه انسان کر رها هے، وه تو اس میں بے اختیار هے! اسی لیے اگر انسان کوئی برا کام کرے گا یا اگر اس نے برے کام کا اراده بھی کیا هے تو یه سب الله تعالی کے براه راست ارادے کی وجه سے هو رها هے، لهذا برے افعال کو الله تعالی کی طرف منسوب کرنا صحیح هو گا.

دوسری طرف سے، یه سمجھا رها هے که انسان بھی جو کام کرنا چاهتا هے، اس میں بالکل مستقل نهیں هے اور اس کے ارادے کا دارو مدار الله تعالی کے ارادے سے هے. هاں البته بندے کے اختیاری کاموں کو اس کے «اختیار» کی طرف نسبت دینی، چاهے یه اراده اور اختیار، کسی دوسرے کے ارادے اور اختیار سے منسوب نهیں هے.

نتیجتة، بندے کی مشیت اور اراده، الله تعالی کی مشیت اور ارادے سے منسلک هے اور الله تعالی کے اذن (اذن تکوینی) کے بغیر، اس میں کوئی تاثیر نهیں هو گی؛ کیونکه ابتدا سے هی انسان کا وجود، الله تعالی کی طرف سے هے، اور خواه نا خواه اس کا اراده بھی، اسی وجود عطا کرنے والی هستی کی طرف سے هو گا.

۳. سورة مزمل کی آیت نمبر ۱۹ میں ارشاد هوا هے: «ان ھذه تذکرة فمن شاء اتخذا الی ربه سبیلاً» جو بعینه سورة دھر کی آیت نمبر ۲۹ میں بھی دهرائی گئی هے. «ھذه» کی ضمیر کا اشاره گذشته آیات کی طرف پلٹتا هے جو موعظه اور پرهیز دلا رهی هیں اور ان آیات کا اس سورة کے مکی هونے سے خاصا تناسب هے. خاص طور پر یه بات قابل غور هے که یه آیات اس سورة میں سے هیں جو بعثت کے ابتدائی ایام میں نازل هوئی هے. یا سورة دھر میں «ھذه» کی ضمیر کا اشاره ایسی آیات کی طرف هے جو شب بیداری اور رات کو تهجد پڑھنے کے بارے میں هیں، جیسا که سورة دھر میں، نماز تهجد کو بنده کے لئے الله تعالی کی طرف هدایت حاصل کرنے کا خاص ذریعه بتایا هے.

بهر حال چاهے سورة مزمل اور دھر میں جهاں پر آیات (یا نماز تهجد) کو ایسے افراد کے لئے «تذکره» هونے کی بات کی هے جو الله تعالی کا قرب حاصل کرنا چاهتے هیں (اتخاذ سبیل) اور چاهے سورة تکویر میں جهاں پر قرآن کریم اور الله تعالی کی کلام کو سب دنیا والوں کے لئے اور ایسے مٶمنوں کے لئے جو راه راستت پر ره کر اسی پر گامزن هونا چاهتے هیں «شاء ان یستقیم»، ان کے لئے «ذکر» قرار دیا هے، ایک طرف سے، الله تعالی کا یه پیغام بهت واضح اور آشکار هے که الله تعالی کا قرب و جوار حاصل کرنے اور حق کے راستے پر چلنے کا طریقه صرف قرآن اور الله تعالی کی هدایت اور مشیت کے علاوه غیر ممکن هے، اور دوسری طرف سے، یه واضح کر رها هے که حتی که الهی اور رحمانی مقاصد اور ارادے بھی، صرف اسی کی عنایت اور ارادے سے هو سکتے هیں اور اگر اس ذات اقدس کا فضل، احسان، کرم اور امتنان نه هوتا تو، کسی بھی دوسری چیز یا کسی فرد کا وجود یا نور نهیں هے؛ کیونکه «الله نور السموات و الارض[5]» اور «قابل» اور «قابلیت» دونوں اسی کی دین هیں. اسی وجه سے حکماء (فلاسفروں) کا کهنا هے که : «القابل من فیضه الاقدس»[6].

 

داد حق را قابلیت شرط نیست

بلکه شرط قابلیت داد اوست

 

ان تین قسم کی آیات اور بهت سی دوسری قرآن کی آیتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ دیں تو «توحید افعالی» سمجھ میں آتی هے. اور جب تمام طاعات اور عبادات میں انسان کا اراده اور مشیت، الله تعالی کے ارادے کے تابع اور اس پر مبتنی هو اور الله تعالی کا علم بھی اس کے علم پر حاوی هو، تو انسان کے افعال اور اس کے آثار جو بھی هوں گے وه سب الله تعالی هی کے افعال اور آثار کهلائیں گے. اور نه صرف اس کی طرف سے تیر پھینکنا، الله تعالی کی طرف سے تیر پھینکنا هو گا (و ما رمیت اذ میت، لکن الله رمی[7]»، بلکه اپنے باقی تمام افعال کو بھی الله تعالی کی طرف سے سمجھے گا «کل من عند الله[8]» و «لا عطاء الا عطاٶه[9]». اپنے وجود کو بھول کر اپنی «انانیت» کو چھوڑ دے گا اور الله تعالی کے اسماء و صفات کا مظهر بن جائے گا.

 

گفت نوح اے سرکشان، من، من نیم

من ز جان مردم، به جانان باقیم

 

چون ز جان مردم، به جانان زنده ام

نیست مرگم، تا ابد پاینده ام

 

چون بمردم از حواس بوالبشر

حق مرا شد سمع و ادراک و بصر

 

چونکه من، من نیستم، این دم ز «ھو»ست

پیش این دم، هر که دم زد، کافر اوست

 

گر نبودی نوح را از حق یدی

پس جهانی را چسان بر هم زدی[10]؟

 

دھیان رکھنا چاهئے که، اس بات کا معنی جبر یا جبر و تفویض کی ترکیب و … هر گز نهیں[11]، بلکه ایک بسیط معنی اور ایک بهت عظیم و بلند حقیقت هے اور انسان کی مشیت اور اس کا اراده بالکل جیسے خود اس کا اپنا اراده هوتا هے، بعینه الله تعالی کا اراده بھی هوتا هے.

 

از صفات می و لطافت جام

در ھم آمیخت رنگ جام و مدام

 

ھمه جام است و نیست گوئی می

یا مدام است و نیست گوئی جام[12]

 

اوپر بتائے گئے مطالب کو دوسری طرح سے یوں بیان کیا جا سکتا هے: الله تعالی کی مشیت یا «ذاتی» هوتی هے اور یا «فعلی». «ذاتی اراده» وه هوتا هے جو الله تعالی کی ذات اقدس میں محقق هوتا هے اور الله تعالی کی باقی صفات کے ساتھ عینیت رکھتا هے. یه الله تعالی کا ذاتی اراده وهی الله تعالی کا علم هی هے اور انسان کے ارادے کے بارے میں جو معنی اور مفهوم بتایا جاتا هے، وه الله تعالی کے ارادے کے بارے میں صحیح نهیں هے. الله تعالی کے ذاتی ارادے میں خارجی موجودات اور عینی حقائق پر حاکم نظام کے ساتھ کسی قسم کا بھی رابطه اور لحاظ، موجود نهیں هے[13].

«فعلی اراده» الله تعالی کا وه اراده هے جو مقام فعل اور جهان خارج کے موجودات کے ساتھ مرتبط هوتا هے جو یه خارجی جهان الله تعالی کی مقدس ذات کے ارادے کی تجلی هی هے.

الله تعالی کا فعلی اراده کبھی تشریع کی صورت میں یعنی عام طور پر عوام کی هدایت کے لئے اور مٶمن انسانوں کے لئے خاص طور پر رسولوں کو ارسال کر کے اور کتابیں نازل کر کے محقق هوتا هے. یوں الله تعالی کے تشریعی ارادے میں، یه قوانین، فرامین اور نواھی، وهی الله تعالی کا «راسته» اور «صراط» اور «تشریعی سبیل» هیں[14].

اور کبھی یهی فعلی اراده، تکوین میں هوتا هے (یعنی تکوینی اراده). جو الله تعالی کی طرف سے اس دنیا کو خلق کرنا اور الله تعالی کی عینی قضا و قدر اور اسی طرح الله تعالی کے علم کا خارجی اور عینی تحقق هے. اور نظام احسن (عنایت) اور حکمت الهی کے مطابق تمام موجودات نے، الله تعالی کے «تکوینی اذن» سے، عدم اور ظلمت کی دنیا سے نکل کر وجود اور نور کی دنیا میں قدم رکھا هے (چاهے ان کا اصلی اور جوهری اور عینی وجود، یا ان کے وجود کے آثار اور عوارض و لوازم) جیسا که اراده و غیره ….

لهذا یه کهنا بجا هو گا که: نه تو الله تعالی کے ذاتی ارادے میں کوئی دوسرا اراده موجود هے، جو الله تعالی کے ارادے میں تبدیلی کر سکتا هو، اور نه هی اراده فعلی اور تکوینی کے مرحلے میں کوئی دوسرا موجود، وجود رکھتا هے جو الله تعالی کے ارادے کے سامنے یا الله تعالی کے تکوینی اذن اور ارادے کے بغیر، مستقلاً متحقق هو سکتا هو.

انسانوں کو اسی فعلی ارادے اور تکوینی اذن کے مطابق، مختار، مرید اور مأذون خلق کیا گیا هے اور راه حق اور کمال و سعادت یا اس کے بر عکس باطل کی راه اور غی و شقاوت کو انتخاب کرنے میں آزاد اور مختار هیں. «انا ھدیناه السبیل اما شاکراً و اما کفوراً[15]» اور «و ھدیناه النجدین[16]» اور «قد تبین الرشد من الغی[17]».

الله تعالی کے اسی تکوینی ارادے اور اذن و مشیت اور اسی اختیار کی وجه سے الله تعالی کی مخلوقات (انسان) یا الله تعالی کے فرامین سے پیروی کر کے اسی کے آستان پر سجده ریز اور تابع بن جاتا هے اور الله تعالی کے تشریعی ارادے (شریعت) کی وجه سے هی سعادت اور دوام رکھنی والی جنت کی راه پر گامزن هو جاتا هے (یهاں پر اراده تکوینی اور تشریعی میں ھماهنگی اور یکسانیت موجود هے) یا الله تعالی کے تشریعی ارادے کی مخالفت کرتا هے اور شقاوت اور جهنم کی آگ میں داخل هو جاتا هے. (یهاں پر الله تعالی کے تکوینی اور تشریعی ارادے میں هماهنگی اور یکسانیت نهیں هے).

دوسرے لفظوں میں، اگرچه الله تعالی کے تکوینی ارادے میں نیکی اور برائی، دونوں میں آزادی هے لیکن حق تعالی کا تشریعی اراده یه هے که اس کا بنده نیک کام (یعنی حسنات) کو انجام دیں اور اس کے بر عکس برے اور مذموم کاموں (سیئات) سے پرهیز کی جائے.

حضرت امام رضا (ع) نے، حضرت امام جعفر صادق (ع) کی اس کلام «لا جبر و لا تفویض، بل امر بین الامرین» کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یوں فرمایا هے: «… جس کام پر حکم اور فرمان دیا گیا هے، اس کو انجام دینے اور جس کام سے منع اور روکا گیا هے ان دونوں کو انجام دینے یا ترک کرنے کا راسته کھول دیا گیا هے اور اس کا امکان موجود هے.» راوی کهتا هے: «میں نے امام سے دریافت کیا، کیا اس کام میں الله تعالی کا اراده اور اس کی مشیت بھی شامل هے؟ حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا: «طاعات اور عبادات میں الله تعالی کا اراده اور مشیت شامل هے، ان کا حکم دیا گیا هے، اس میں الله تعالی کی رضایت اور معاونت بھی شامل هے، لیکن گناهوں کے بارے میں الله تعالی کی مشیت اور اراده، ان سے منع کرنا اور روکنا هے اور ان کو انجام دینے والوں کے لئے عذاب اور خذلان هو گا، …»[18].

 

نتیجه:

انسان کا برائی اور تباه کاریوں کی طرف رغبت رکھنا، الله تعالی کے ارادے اور اس کے تکوینی اذن کے بغیر ممکن نهیں هے اور الله تعالی کے ارادے کے بغیر دنیا (جو انسان کی سوچ اور اراده و غیره کو بھی شامل هے) کا کوئی کام بھی واقع نهیں هو سکتا، هاں البته! الله تعالی کا اراده یهی هے که انسان آزاد هے اور وه اپنے ارادے (چاهے نیک اعمال کا هو یا برے اعمال کا) میں مختار هے. اور اس کا نه صرف الله تعالی کے مقاصد اور اهداف سے کوئی ٹکراٶ نهیں، بلکه کمال، سعادت، قرب، ذات حق تعالی کی لقائے یا اس کے بر عکس، نقصان، شقاوت اور حق تعالی کی ذات سے دوری اور جدائی کا یهی واحد راسته هے اور جنت و دوزخ کا تعین صرف تکلیف (فرمانبرداری یا نافرمانی کرنے) سے ممکن هے اور انسان کو مکلف کرنے کا دارومدار اس کے اختیار اور اراده پر هے. الله تعالی نے اندرونی ذریعه (یعنی عقل اور فطرت) اور اسی طرح بیرونی ذریعوں (یعنی انبیاء کو بھیج کر اور آسمانی کتابیں نازل فرما کر اور اسی طرح ائمه معصومین کی هدایت) سے نعمتوں میں داخل هونے اور نقمت اور بدبختی سے بچنے کے امکانات کا انتظام فرمایا هے. اور همیشه سے جنت اور دوزخ، سعادت اور شقاوت، ملائکه اور شیطان و غیره … کے راسته بالکل علیحده رهے هیں اور رهیں گے.

مذکوره آیات کی تفسیر اور تاویل میں خاندان عصمت و طهارت علیھم السلام کی طرف سے بهت ساری روایتیں نقل کی گئی هیں، اختصار کو مد نظر رکھتے هوئے ان روایات کو نقل نهیں کر رهے، مزید تفصیلات جاننے کے خواهشمند حضرات روائی کتب اور تفاسیر کو ملاحظه فرما سکتے هیں[19].

قابل ذکر نکته یه هے که الله تعالی اور انسان کے ارادے کی بحث اور ان کا جبر و اختیار، امر بین الامرین، بندوں کے افعال کے مخلوق هونے جیسی بحثوں سے رابطے، و غیره … مشیت الله اور اس کی قسمیں، مشیت اور ارادے میں فرق و … کے بارے میں بهت وسیع بحث کی ضرورت هے. اس بحث کے سلسلے میں آیات و روایات اور تفاسیر، عقائد، فلسفه اور عرفان کی کتابوں میں اور اسی طرح مسلمان علماء اور دانشوروں کی کلام اور الهی معارف میں سیر حاصل بحث کی گئی هے.

اپنے کلام کے اختتام پر، اس نکتے کو ذکر کر دینا مفید محسوس هو رها هے که بعض لوگوں نے «مشیت اور چاهنے» کو «رضایت» کے معنی میں تفسیر اور تبیین کی هے اور «رضایت» کے مفهوم اور اس کی اهمیت اور اس کے انواع و اقسام اور اس کے مراتب کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی هے. اس معنی میں که الله تعالی کے ساتھ انس و الفت رکھنے ایک نتیجه اس کی «رضایت» کو حاصل کرنا هے اور «رضا» کی منزلت تو مقربین کی اعلیٰ منازل میں سے هے[20]. «راضی» وه هوتا هے جو «الله تعالی کی مرضی» کے علاوه کچھ بھی نهیں چاهتا اور اس کا اراده الله تعالی کے ارادے میں ڈھلا هوا هوتا هے[21].

اس فرد کا اراده وهی هوتا هے جو دنیا پر خدائی کرنے والے الله کا اراده هوتا هے. اور جو بھی «مقام رضا» پر پهونچ جاتا هے، فی الواقع اس نے بندگی اور عبودیت کے تمام مراتب کو حاصل کر لیا هوتا هے. «… والرضا اسم یجتمع فی معانی العبودیة[22]»

گربار عشق او به «رضا» می کشی چه باک

خاور به جا نبود و یا باختر نبود[23]

رضا کے بارے میں شرح گلش راز میں علامه «لاهیچی» یوں رقمطراز هیں: «منزل رضا کی حقیقت یه هے اپنی رضایت سے نکل کر اپنے محبوب کی رضایت کو حاصل کرنا هوتا هے اور جو کچھ الله تعالی نے اس کے لئے مقدر فرمایا هو اس کو دل و جان سے قبول کر لینا، ایسا که کچھ بھی الله تعالی کی رضایت اور ارادے کے سوا نه رکھتا هو کیونکه «و ما تشاٶون الا ان یشاء الله»، اور حقیقت میں راضی صرف اسی فرد کو کها جا سکتا هے جو الله تعالی کی تقدیرات پر کسی قسم کا اعتراض نه رکھتا هو.[24]»

اس تفسیر اور نظریه کو مانتے هوئے، حقیقی عبد اور بنده، اور مجذوب سالک (اس راه پر چلنے والا) اور سچا محبت کرنے والا، کبھی بھی ایسی چیز کا اراده نهیں کرے گا، جس میں اپنے معبود اور اپنے محبوب کی رضایت شامل نه هو، اور الله تعالی کا اراده نیکی، خوبصورتی اور طهارت کے علاوه، کچھ بھی نهیں هے، یه اراده کبھی بھی برائی اور خباثت کا نهیں هو سکتا.

لیکن مذکوره آیات میں سے جو کچھ لفظ «مشیت» سے سمجھ میں آتا هے، وه مفهوم «رضایت» سے الگ هے، اگرچه کسی اور بحث اور کسی دوسری جگه پر ان دونوں لفظوں کے درمیان ترادف بھی پایا جا سکتا هے.

اس هحث کو مزید تفصیل اور گهرائی سے کھولا جا سکتا هے، اور یه امکان بھی موجود هے که جبر و اختیار اور الله تعالی کی مشیت اور رضا و … کے بارے میں موجود مختلف نظریوں کے بارے میں بحث و تحقیق کی جائے، خواهش یا ضرورت محسوس هونے کی صورت میں اطلاع دیجئے تا که اس سلسلے میں قدم اٹھایا جائے.



[1] . فولاد وند، محمد مهدی، ترجمه قرآن کریم، ص ۵۸۶

[2] . دیکھئے، طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج ۲۰، ص ۲۲۰-۲۲۱.

[3] . ترجمه قرآن کریم، ص ۵۸۰

[4] . المیزان، ج ۲۰، ص ۱۲۰، ۱۳۱، ۱۴۰.

[5] . سابقه حواله، ص ۶۹.

[6] . آشتیانی، میرزا مهدی، تعلیقه بر شرح منظومه، حکمت، ص ۲۷.

[7] . انفال/ ۱۷.

[8] . نساء/78.

[9] . دعاء جوشن کبیر، ۵۵واں حصه.

[10] . حاجی سبزواری، ملا هادی، شرح الاسماء، ص ۱۷۰.

[11] . اس سلسلے میں ان موضوعات کو بھی ملاحظه فرمائیے: انسان اور اختیار؛ الله تعالی کا اراده اور انسان کے اعمال؛ امر بین الامرین.

[12] . فخرالدین جامی، دیوان اشعار، ص ۲۲۴.

[13] . الله تعالی کے ذاتی ارادے کے بارے میں بهت بحث کی جا چکی هے، بعض حکماء (فلاسفر) الله تعالی کے ذاتی اور … ارادے کا انکار کرتے هیں. دیکھئیے: نهایة الحکمة، ص ۲۹۶- ۳۰۶، ۳۰۷؛ اسفار، ج ۶، ص ۳۰۷-۳۶۸ ۳۷۹- ۴۱۳، ج ۲، ص ۱۳۵-۱۳۶، ج ۶، ص ۳۸۴-۳۸۵ اور …

[14] . دیکھئیے: آموزش عقائد، محمد تقی مصباح یزدی، ص ۸۷-۹۰ اور ۱۶۴-۱۶۶، اسی مٶلف سے، آموزش فلسفه، ص ۴۲۱-۴۲۸؛ پھر وهی مٶلف، معارف قرآن، ۱-۳، ص ۱۳۳-۱۴۶، ۱۹۵-۲۰۲.

[15] . انسان/ ۳.

[16] . بلد/ ۱۰.

[17] . بقره/ ۲۵۶.

[18] . عطاردی، شیخ عزیزالله، مسند الامام الرضا (ع)، ج ۱، ص ۳۷.

[19] . دیکھئیے: صدوق، توحید، باب ۵۵، باب المشیة و الارادة؛ بحارالانوار، ج ۴، ص ۱۳۴-۱۵۲، ج۵، ص ۸۴-۱۳۵، ج ۲۵، ص ۳۳۶، ج ۵۲، ص ۵۰؛ تفسیر صافی، ج ۲، ص ۷۷۵، ۷۹۳؛ المیزان، ج ۲۰، ص ۱۴۳،۱۴۴؛ کافی، ج ۱، ص ۶۵-۷۰.

[20] . دیکھئے: عبدالرزاق کاشانی، شرح منازل السائرین، ص ۲۰۹.

[21] . دیکھئے: امام خمینی (ره)، شرح چهل حدیث، ص ۲۱۷.

[22] . مصباح الشریعة، باب ۸۶، ص ۱۸۲.

[23] . فرهنگ دیوان امام خمینی (ره)، ص ۱۶۳؛ امام خمینی (ره)، دیوان، ص ۱۰۷ (سلطان عشق)

[24] . لاهیجی، عبدالرزاق، شرح گلشن راز، ص ۳۲۵.

تبصرے
Loading...