میرے باپ فوت هو چکے هیں- انھوں نے اپنے پیچھے میرے، میرے ایک بھائی اور چھه بهنوں کے لئے ایک مکان چھوڑا هے- میں سب سے بڑا بھائی هوں اور میں نے اپنے باپ کی زندگی میں ان کے مکان میں اپنے پیسوں سے دو کمرے اضافه کئے هیں- کیا اِس وقت {والد کی وفات کے بعد} میں ان کے مال سے شرعاً وه رقم اٹھا سکتا هوں جو میں نے ان کے مکان کی تعمیر میں اپنے مال سے خرچ کی هے؟ اس کے بعد بچی رقم کو هم آپس میں تقسیم کریں؟ قابل ذکر بات یه هے که تمام بھائی بهن، میری بات کو مانتے هیں-

اس مسئله کے سلسله میں چند مفروضات قابل تصور هیں، جن کے مطابق جواب دیا جا سکتا هے:۱۔ مکان کی تعمیر کے سلسله میں خرچ کی گئی رقم اگر آپ نے اپنے باپ یا کسی رشته دار، جیسے، بھائی یا بهنوں کو بخش دی هو، تو اس صورت میں اسے واپس نهیں لے سکتے هیں، کیونکه رشته داروں میں سے کسی کو هدیه کی گئی چیز کو واپس نهیں لیا جا سکتا هے-امام خمینی رح فرماتے هیں: “اگر رشته داروں میں سے کسی کو جیسے باپ، ماں یا فرزند یا کسی دوسرے رشته دار کو کوئی چیز هدیه کے طور پر دی جائے اور اس هدیه کو وه وصول کرلے، تو هدیه کرنے والے کو اسے واپس لینے کا حق نهیں هے[1] -“۲۔ لیکن اگر آپ نے اس مکان پر خرچ کی گئی رقم اپنے باپ کو قرضه کے طور پر دی هو تو آپ اس رقم کا تقاضا کر کے اسے وراثت سے الگ کر سکتے هیں-۳۔ اگر آپ کا یه کام هدیه نهیں تھا، بلکه اس مکان کے حقیقی مالک یعنی آپ کے باپ نے آپ کو اجازت دی هو که اُن کے مکان میں دو کمروں کا اضافه کریں، اس معنی میں که زمین آپ کو نه بخشی گئی هو، بلکه اس میں صرف تصرف کرنے کی آپ کو اجازت دی هو، تو اس صورت میں اُن کے وارثوں کو اجازت دینے یا اسے مسترد کرنے کا حق پهنچتا هے، اگر انهوں نے اجازت دے دی که عمارت اپنی موجوده صورت میں باقی رهے، تو مشکل حل هو گئ هے اور اس مکان میں اضافه کئے گئے کمرے آپ کے هی هیں، لیکن اگر انهوں نے اجازت نهیں دی تو وه آپ سے کهه سکتے هیں که اپنے دو کمروں کو منهدم کر کے اس کے سامان کو اٹھا لے جائیں، کیونکه اس میں آپ کا تصرف آپ کے باپ کی اجازت سے تھا، اس لئے اگر مکان یا زمین کو کوئی نقصان پهنچا تو آپ اس کے ضامن نهیں هیں-لیکن اگر آپ کا تصرف آپ کے باپ کی اجازت سے نهیں تھا تو آپ کو نقصان پورا کرنا پڑے گا-چونکه یه مسئله قدرے پیچیده هے، اس لئے هماری نظر میں بهتر هے که مسئله کو اپنے بھائی بهنوں سے صلح و صفائی کے ذریعه حل کیا جائے تاکه سب کی رضامندی حاصل کی جا سکے یا یه که اپنے مرجع تقلید سے رابطه برقرار کر کے مسئله کے جزئیات کو اُن پر واضح کیجئیے تاکه وه آپ کو تفصیلی جواب دے سکیں-[1] امام خمینی، تحریرالوسیله، کتاب الهبه، مسئله ۸

تبصرے
Loading...