منابع اجتهاد کے مشترک هو نے کے باوجود ، کئی مشترک مسائل میں بعض مجتهدین کے در میان اختلاف کی وجه کیا هے؟

“جهد” میں جیم پر فتحه [1]کے ساتھـ ، لغت میں اجتهاد سختیوں کو بر داشت کر نے کے معنی میں اور ” جهد” میں جیم پر ضمه [2]کے ساتھـ قدرت و توانائی کے معنی میں هے اور فقها کی اصطلاح میں ” اجتهاد” منابع و ادله سے حکم شرعی کو اتخاذ کر نے میں استنباط حاصل کر نے کے لئے علمی تلاش و کو شش کو زیاده سے زیاده استعمال کر نا هے- اس لئے، مجتهدین کے در میان نظریه و فتوی میں اتفاق حسب ذیل چند امور کی بناء پر ممکن هے:

١- منابع اجتهاد میں وحدت و اشتراک-

٢- اجتهاد کے لئے ضروری مقدماتی علوم میں مبانی کی وحدت-

٣- منابع اجتهاد سے واحد نتیجه حاصل کر نا-

٤- موضوع کو دقیق صورت میں تعین و تشخیص کر نا اور اس پر اتفاق نظر-

شیعه فقه میں اگر چه منابع اجتهاد ( قرآن ، سنت وعقل) تمام مجتهدین کے در میان مشترک هیں اور سب انھیں قابل اعتبار جانتے هیں- لیکن ان منابع سے نتیجه حاصل کر نے اور ان سے استفاده کر نے کے لئے کئی دوسرے علوم جیسے :عربی ادبیات، معصوم کے زمانه میں رائج عرفی محاورات سے آشنائی حاصل کر نا، منطق، اصول فقه ، علم رجال، قرآن و حدیث [3] سے آگاهی وغیره کی ضرورت هو تی هے، که هر فقیه کوان علوم کی آگاهی حاصل کر نےکے علاوه ان کے تمام مسائل میں ماهر هو نا چاهے تاکه اجتهاد کے منابع سے نتیجه حاصل کر نے میں ان علوم سے استفاده کر سکے- مثال کے طور پر احادیث و روایت سے استفاده کر نے کے لئے ممکن هے- ایک مجتهد علم رجال میں قبول کئے گئےمبانی پر، سند کے لحاظ سے ایک روایت کو ناقابل اعتماد جان لےاور اس پر استناد نه کرے اور اس مسئله میں اس روایت کے علاوه کوئی دوسری روایت اور دلیل پیدا نه کر سکے ، لهذا یه فقیه اس مسئله میں فتوی نهیں دے سکتا هے – جبکه بعض دوسرے مجتهدین اسی روایت کی سند کو صحیح جانتے هوئے ، اس پر اسناد کر کے فتوی دیتے هیں – اسی طرح تمام مجتهدین کی استعداد اور تجزیه وتجلیل کی توا نائی یکساں نهیں هوتی هے – اس بنا پر ممکن هے مجتهدین میں سے هر ایک آیات و روایات سے جدا گانه نتیجه حاصل کر لے – اسی طرح ممکن هے ایک مجتهد ایک خاص اور معین چیز کو ایک خاص حکم کے لئے موضوع اور مصداق جان لے، جبکه دوسرا مجتهد یه نظریه نه رکھتا هو-

مذکوره موارد میں سے هر ایک مسئله جدا گانه طور پر مجتهد کے فتوی میں اختلاف کا سبب بن سکتا هے، لیکن اس کے باوجود مجتهدین کے در میان فتوی میں اختلافات کے موارد بهت کم هیں وه بھی اکثر مسائل کے جزئیات میں هیں – لیکن اکثر مسائل میں ، که مجتدین کی توضیح المسائل میں تقریباً ٣٠٠ مسئلے هو تے هیں، اور ان کے علاوه بے شمار جدید اور استفتاآ ت پر مشتمل مسائل هیں، اور یه مسائل وقت کے تابع اور انسانوں کی ضرورتوں کے مطابق هو تے هیں ، ان میں مجتهدین اتفاق نظر رکھتے هیں اور یکساں فتوی دیتے هیں-



[1]  – النھایۃ ، ج١، ص٣١٩-

[2] – ایضاً-

[3] – ملاحظه : ھادوی تھرانی، مھدی، مبانی کلامی اجتهاد ص١٩ و ٢٠-

تبصرے
Loading...