شاگرد کے معلم کے بارے میں فرائض اور حقوق اور بر عکس کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا هے :
اوّل : معلم کے اپنے شاگرد کے بارے میں فرائض اور حقوق :
یه دو قسم کے هوسکتے هیں :
الف : اخلاقی اور تر بیتی فرائض ، جوحسب ذیل هیں :
١- شاگرد کی به نسبت مهربانی اور محبت[1]–
٢- اپنے شاگردوں کے ساتھـ نرم روی و فروتنی سے پیش آنا[2]–
٣- طالب علموں اور شاگردوں کے حالات کے بارے میں مهر بانی کا مظاهره کرنا[3]–
٤- شاگرد کے نام اور اس کے کوائف سے آگاه هونا[4]–
٥- شاگرد کی شخصیت کا احترام اور اس کے افکار کی اهمیت کا اعتراف کرنا[5]–
٦- شاگردوں سے محبت اور توجه کر نے میں مساوات کی رعایت کرنا[6]ا-
٧- شاگردوں کے تجربوں کی رعایت کرنا اور( علم وشائستگی میں) ان کے محاسن کی طرف توجه کرنا[7]–
٨- شاگردوں کو شائسته معلمین کی معرفی کرنا[8]–
٩- ادب اور شائستگی کے ساتھـ نشست برخاست کرنا[9]–
١٠- درس کے دوران سنجید گی اور وقار کا مظاهره کرنا[10]–
١١- شاگردوں میں ذمه داری اور نظم وضبط کی حس کو ایجاد کرنا[11]–
١٢- شاگرد کے ساتھـ نرمی اور مهر بانی سے پیش آنا اور اس کے سوالات کا اهتمام کر نا[12]–
١٣- نئے شاگردوں کے ساتھـ محبت وهمدردی اور خنده پیشانی سے پیش آنا[13]–
١٤- جن مسائل پر عبور نه رکهتا هو ان کے بارے میں لاعلمی کا اعتراف کرنا[14]ا-
١٥- درس کو ختم کر نے سے پهلے اپنی لغزشوں اور غلطیوں کے بارے میں تذکر دینا[15]–
١٦- درس کو ختم کرنے کے بعد کلاس میں چند لمحه رکنا[16]–
١٧- شاگردوں کے لئے مانیٹرکا تعیّن کر نا[17]–
١٨- اخلاقی نصیحتوں اور دعا سے درس کو اختتام بخشنا[18]ا-
ب : علمی اور تعلیمی فرائض ،جوحسب ذیل هیں :
١-علمی و عملی لحاظ سے شاگردوں کو قدم به قدم آگے لے جانا[19]–
٢- شاگردوں میں علم ودانش کے بارے میں شوق وولوله ایجاد کر نا[20]–
٣- شاگردوں کی استعداد کی رعایت کرتے هوئے مطالب کو سمجهانے کی کوشش کرنا[21]–
٤- علوم کو پڑهانے کے دوران ان کے کلی ضوابط وقواعد کا ذکر کرنا[22]–
٥- شاگردوں کو علمی مشغلوں اور دروس کو دهرانے کی همت افزائی کرنا[23]–
٦- شاگردوں میں دقیق مسائل بیان کر نا اور ان سے سوالات کر نا[24]–
٧- شاگردوں کو اپنا درس سمجهانے میں بهترین قواعد اور طریقه کار سے استفاده
کر نا[25]–
٨- علوم ودانش کے منطقی قواعد کی رعایت کرنا[26]–
٩- مطالب کو بیان کر نے میں خلاصه اور اعتدال کی رعایت کر نا[27]–
١٠- کلاس کی مناسب فضا کی طرف توجه کر نا (هر قسم کے آزا ردهنده عوامل سے پرهیز کرتے هوئے[28])
١١- شاگردوں کی مصلحتوں کا خلیال رکهنا اور تدریس کے وقت کو معین کرنا[29]–
١٢- تدریس کے دوران آواز اور بیان کی طرف توجه رکهنا[30]ا-
١٣- درس کے کلاس کے نظم و انتظام کے تحفظ کی رعایت کرنا-
دوّم : شاگرد کے اپنے معلم کے بارے میں حقوق و فرائض ، جو حسب ذیل هیں :
١- استاد کی تعظیم کرنا اور علم ودانش کے مقام کی تجلیل کر نا[31]–
٢- استاد کے مقابلے میں تواضح، انکساری اور فروتنی کا مظاهره کرنا[32]ا-
٣- معلم کے ساتھـ آمرانه گفتگو کر نے سے پرهیز کرنا-
٤- معلم کو احترام کے ساتھـ یاد کرنا-
٥- استاد و معلم سے سر مشق حاصل کرنا-
٦- معلم کے نصائح اورتنبیهات کا شکریه اداکرنا-
٧- استاد کی ممکنه تیزی کو برداشت کرنا-
٨- معلم کی تشریف آوری کا انتظار کرنا-
٩- استاد کے کام میں رکاوٹ ڈالنے سے پرهیز کرنا-
١٠-استاد کے کلاس میں داخل هوتے وقت اپنے آپ کو منظم کرنا-
١١- تدریس کے وقت کو استاد پر زبردستی عائد نه کرنا-
١٢- استاد کے آرام میں ایجاد نه کرنا-
١٣- استاد کے سامنے شائستگی اور ادب کے ساتھـ بیٹهنا-
١٤- استاد کے سامنے اپنے حالات اوربرتاٶ کا خیال رکهنا-
١٥- معلم کے سامنے اپنی آواز بلند کر نے سے پرهیز کرنا-
١٦- معلم کی باتوں میں پائی جانے والی کمی کو اشاروں سے تلافی کرنا-
١٧- استاد کے سامنے سوالات کے جواب دینے میں سبقت حاصل نه کرنا-
١٨- استاد کی باتوں کو دقت اور غور سے سننا-
١٩- استاد کی وضاحتوں کا احترام کرنا-
٢٠-فضول اور وقت ضائع کر نے والے سوالات کو دهرانے سے پرهیز کرنا-
٢١- استاد سے موقع پر سوال کرنا-
٢٢- اچهے اور دلکش سوالات پیش کرنا-
٢٣- شرم وحیا کی وجه سے سوال کر نے سے اجتناب نه کرنا-
٢٤- مطالب کو نه سمجهنے کا جرات مندی سے اعتراف کرنا-
٢٥- هر حالت میں استاد کے احترام کا تحفظ کرنا-
٢٦- استاد کی برائی کر نے سے پرهیز کرنا[33]–
٢٧- استاد کے بارے میں هر قسم کے ناروالزام کا دفاع کرنا[34]–
٢٨- استاد کے عیبوں کی پرده پوشی کرنا اور اس کی خوبیوں کو بیان کر نا[35]–
٢٩- استاد کے دشمنوں سے نشست بر خاست نه کرنا اور اس کے دشمنوں سے دوستی نه کرنا[36]–
٣٠- خدا کی رضا کے لئے اس سے علم سیکهنا[37]–
٣١- درس کے کلاس میں خاموشی کی رعایت کرنا[38]–
اس سلسله میں مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے کتاب ” آداب تعلیم وتربیت در اسلام ” ترجمه ڈاکٹر سید محمد باقر حجتی کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-
[1] – شهید ثانی، منیۃ المرید،ص١٩٠-
[2] – ایضاً،ص١٩١و١٩٢-
[3] – ایضاً،ص١٩٤-
[4] – ایضاً،ص١٩٥-
[5] – ایضاً،ص١٩٩-
[6] – ایضاً،ص٢٠٨-
[7] – ایضاً،ص١٩٩-
[8] -ایضاً،ص٢٠٩-
[9] – ایضاً،ص٢٠٢-
[10] – ایضاً،ص٢٠٦-
[11] – ایضاً،ص٢١٤-
[12] – شهید ثانی ،منیۃ المرید ،ص٢١٤-
[13] – ایضاً،ص٢١٥ و٢١٤-
[14] – ایضاً،ص٢١٨-
[15] – ایضاً،ص٢٢٠-
[16] – ایضاً،ص٢٢٠-
[17] – ایضاً،ص٢١٩-
[18] -ایضاً،ص١٨٩-
[19] – ایضاً،ص١٨٩-
[20] – ایضاً،ص٢١١-
[21] – ایضاً،ص١٩٧-
[22] – ایضاً،ص١٩٨-
[23] – ایضاً،ص١٩٨-
[24] – ایضا،ص٢١١-
[25] – ایضاً،ص٢١٢-
[26] – ایضاً،ص٢١٢-
[27] – ایضاً،ص٢١٢-
[28] – ایضاً-
[29] – ابومنصور ،معالم الدین وملاذ المجتهد ین،ص٤٣-
[30] – ایضاً-
[31] -اابو منصور ،معالم الدین وملاذ المجتهدین ،ص٤٣-
[32] -ایضاً-
[33] -ایضاً-
[34] -ایضاً-
[35] -ایضاً-
[36] -ایضاً-
[37] -ایضاً-
[38] – ایضاً-