كیوں شیعہ اصحاب پیغمبركا احترام نھیں كرتے؟

كیوں شیعہ اصحاب پیغمبركا احترام نھیں كرتے؟

كیوں شیعہ حضرات اصحاب پیغمبركا احترام نھیں كرتے؟ اھل سنت كے نزدیك مقبول نظریہٴ ”عدالت صحابہ“ كی ردّ میں ان كی كیا دلیل ھے؟

دونوں مذھب كے لحاظ سے صحابی كی تعریف

مذھب خلفاء كے لحاظ سے صحابی كی تعریف

ابن حجر ،كتاب اصابة كے مقدمہ میں صحابی كی تعریف كرتے ھوئے كھتے ھیں:

”صحابی اس شخص كو كھتے ھیںجس نے ایمان كی حالت میں پیغمبر اكرم (ص) كا دیدار كیا ھو اور دنیا سے مسلمان اٹھے۔ اور ایسے ھی شخص كو صحابی كھا جاتا ھے؛ چاھے پیغمبر اكرم (ص) كی بزم میں ایك طولانی مدت تك رھا ھو یا كچھ دنوں كے لئے بزم پیغمبر كا شرف حاصل كیا ھو، اور چاھے پیغمبر اكرم (ص) سے كوئی حدیث سنی ھو اور اس كی روایت كی ھویا نہ، اور چاھے پیغمبر اكرم (ص) كے ساتھ مشركین سے جنگ كی ھو یا نہ، یھاں تك كہ صرف آنحضرت (ص) كو ایك بار دیكھنا كافی ھے، اگرچہ آپ كی بزم میں شركت نہ كی ھو، یا یہ كہ آنحضرت (ص) كی خدمت میں حاضر ھوا لیكن كسی وجہ سے یا نا بینائی كی وجہ سے آنحضرت (ص) كو نہ دیكھ پایا ھو۔ 1

ابن حجر ایك دوسری جگہ درج ذیل عنوان كے تحت لكھتے ھیں:

”ایسا قاعدہ جس كے تحت بھت سے افراد كو صحابی مانا جاسكتا ھے“ :

جنگوں اور فتوحات میں گزشتہ افراد كی یہ رسم تھی كہ لشكر كی سرداری اپنے صحابی كے علاوہ كسی كو نھیں دیا كرتے تھے، ۔۔۔ ہجرت كے دسویں سال مكہ اور طائف میں كوئی ایسا شخص نہ تھا جس نے اسلام قبول نہ كیا ھو اور رسول اكرم (ص) كے ساتھ حجة الوداع میں شركت نہ كی ھو، آنحضرت (ص) كی زندگی كے آخری دنوں میں مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج كے قبیلوں میں سے بھی ایسا كوئی شخص نھیں تھا جو مسلمان نہ ھوا ھو، جبكہ پیغمبر اكرم (ص) با حیات رھے مذكورہ افراد میں سے كسی نے بھی اعلاناً كفر كا اظھار نہ كیا اور وہ كافر نھیں رھے۔ 2

اگر ھماری كتاب ”ایك سو پچاس جعلی اصحاب“ كا مطالعہ كریں تو صحابی كی تعریف اور اس طریقہ سے تاریخ اسلام ،احادیث اور سنت رسول كے سلسلہ میں پہنچنے والا نقصان اسی بے توجھی اور لاپرواھی كا نتیجہ ھے۔

مذھب اھل بیت كے لحاظ سے صحابی كی تعریف

صحابی كی تعریف میں مذھب اھل بیت علیھم السلام وھی كھتا ھے جو عربی لغات میں بیان ھوا ھے، جیسے درج ذیل تعریف:

لفظ ”صاحب“ (جس كی جمع ”صحب“، ”اصحاب“،”صحاب“ اور ”صحابہ“ ھے) كے معنی ھمدم، ھمراہ، رفیق، دوست اور ایك ساتھ زندگی كرنے والے كے ھیں، اور یہ لفظ اس وقت استعمال ھوتا ھے كہ جب دو افراد ایك طولانی مدت تك ایك ساتھ زندگی بسر كرتے ھوں، اور اصولی طور پر طولانی مدت تك ایك ساتھ زندگی كرنے والے پر مصاحبت كا صدق ھوتا ھے۔ 3

چونكہ مصاحبت دو افراد كے درمیان ھوتی ھے، لہٰذا لفظ ”صاحب“ ھمیشہ اپنے بعد والے كی طرف اضافہ ھوتا ھے، جیسا كہ قرآن كریم میں بھی بیان ھوا ھے: ”یا صاحب السجن“ (اے میرے قیدی ساتھی) ، اور ”اصحاب موسیٰ“ (جناب موسیٰ علیہ السلام كے یار و یاور) كہ یھاں لفظ ”صاحب“ اور ”اصحاب“ ، ”سجن“ اور موسیٰ كی طرف مضاف ھوئے ھیں۔

اسی طرح پیغمبر اكرم (ص) كے زمانہ میں بھی آنحضرت كے ساتھ زندگی كرنے والوں كو ”صاحب رسول خدا“ اور ”اصحاب رسول خدا“ كھا جاتا تھا، لفظ ”صاحب“ اور ”اصحاب“ ،”رسول خدا“ كی طرف اضافہ كیا جاتا تھا۔

اسی طرح ”اصحاب بیعة الشجرة“ (عہد شجرہ كے ساتھی) اور ”اصحاب الصفة“ (صفہ میں رہنے والے) كھا جاتا تھا، ان میں لفظ اصحاب ”بیعت الشجرہ“ اور ”صفہ“ كی طرف اضافہ ھوئے ھیں۔

پیغمبر اكرم (ص) كے زمانہ میں لفظ ”صاحب“ اور ”اصحاب“ پیغمبر اكرم (ص) كے ساتھیوں كے لئے خاص نام نھیں تھا؛ بلكہ بعد میں مذھب خلفاء كے تابع مسلمانوں نے آنحضرت (ص) كے ساتھیوں كو ”صحابی“ یا ”اصحاب“ كا نام دیا، لہٰذا یہ نام مسلمانوں كے ذریعہ ركھا گیا ھے اور ”متشرعہ“ كی ایك اصطلاح ھے، اسلامی اسم گزاری سے اس كا كوئی تعلق نھیں ھے۔

مذھب خلفاء میں صحابی كی شناخت كا طریقہ

اصحاب پیغمبر اكرم (ص) كی سوانح حیات لكھنے والے موٴلفین نے مذھب خلفاء میں صحابی كی تعریف اور شناخت صحابی میں خاص قاعدہ بیان كیا ھے، جیسا كہ ابن حجر اپنی كتاب اصابہ میں كھتے ھیں:

”گزشتہ دینی رھبروں كی گفتگو جس كے ذریعہ صحابیت كی پہچان ھوتی ھے، ابن ابی شیبہ كی اپنی كتاب میں منقول ایك روایت ھے : (جس كی سند میں كوئی مشكل نھیں ھے) گزشتہ افراد كی یہ رسم تھی كہ صحابی كے علاوہ كسی غیر كو لشكر كی سرداری نھیں دیا كرتے تھے“۔ 4

لیكن یہ روایت (جس كی سند میں بھی كوئی مشكل نھیں ھے ) جس كو طبری اور ابن عساكر نے اپنی سند كے ذریعہ سیف بن عمر، ابوعثمان، خالد اور عبادہ سے نقل كی ھے، یہ ھے:

”سرداران لشكر اصحاب میں سے انتخاب ھوتے تھے؛ مگر كوئی ایسا صحابی نہ ھو جو اس فریضہ كو انجام دے سكے۔ 5

طبری ایك دوسری روایت سیف بن عمر سے نقل كرتے ھیں:

”اگر حضرت عمر اصحاب كے درمیان كسی ایسے شخص كو دیكھتے تھے جو جنگ میں سرداری كے فرائض كو بخوبی انجام دے سكتا تھا تو اس كے انتخاب سے گریز نھیں كرتے تھے لیكن اگر كوئی ایسا شخص اصحاب میں نہ ملتا تھا تو تابعین میں نیك شخص كو انھیں خصوصیات كے ساتھ انتخاب كیا كرتے تھے، لیكن جن لوگوں نے ارتداد كی جنگوں6 میں مسلمانوں كے ساتھ شركت كی ھو ان كو یہ امید نھیں ھوتی تھی“۔ 7

مذھب خلفاء میں شناخت اصحاب كے طریقہ كی ردّ

مذكورہ دو روایتوں كا مصدر و منبع سیف بن عمر تمیمی ھے جس پر جھوٹ بولنے اور زندقہ (كافر) ھونے كا الزام ھے 8 سیف نے اس قاعدہ كو ابوعثمان سے اور اس نے خالد اور عبادہ سے نقل كیا ھے، سیف بن عمر نے اپنی روایتوں میں ان كو یزید بن اسید الغسانی كے نام سے یاد كیا ھے اور یہ نام جعلی روایوں كے ناموں میں سے ھے جس كا باھر كی دنیا میں كوئی وجود نھیں ھے۔ 9

لیكن اس طرح كی روایت كرنے والے راویوں كے حالات زندگی كچھ بھی ھوں اتنے اھم نھیں ھیں؛ كیونكہ یہ روایت تاریخی مسلم حقائق سے تناقض اور ٹكراؤ ركھتی ھے ، ذیل میں ھم ان كی طرف اشارہ كرتے ھیں:

ابو الفرج اصفھانی اپنی كتاب اغانی میں تحریر كرتے ھیں:

امروٴ القیس حضرت عمر كے زمانہ میں اسلام لایا اور خلیفہ نے اسی مجلس میں حتی ایك ركعت نماز پڑھنے سے پھلے اس كو (ایك مخصوص علاقہ كی) ولایت اور حكومت دیدی۔ 10

اصفھانی اس واقعہ كی تفصیل عوف بن خارجہٴ مری كی زبانی یوں نقل كرتے ھیں:

”ایك روز حضرت عمر كی خلافت كے زمانہ میں ان كے پاس بیٹھا ھوا تھا، دیكھا كہ ایك شخص آیا جس كے سر كے دونوں طرف صرف تھوڑے تھوڑے بال دكھائی پڑتے تھے، اس شخص كے پیرو میں بھی كچھ ٹیڑھا پن تھا، اس كے پیر وں كی انگلیاں اندر كی طرف تھیں اور پیروں كے تلوے بھی تقریباً ایڑی كے برابر تھے، وہ لوگوں كی بھیڑ كو چیرتا ھواان كے سروں كے اوپر سے گزرتا ھوا آگے آیایھاں تك حضرت عمر كے پاس پھونچ گیا، اور اس كو خلافت كے آداب كے مطابق سلام كیا، چنانچہ حضرت عمر نے اس سے سوال كیا: تو كون ھے؟ اس نے جواب دیا: میں ایك عیسائی ھوں ، میرا نام امروٴ القیس بن عدی كلبی ھے، حضرت عمر نے اسے پہچان لیا، اور كھا: ٹھیك ھے ، تم مجھ سے كیا چاھتے ھو؟ امروٴ القیس نے جواب دیا: میں مسلمان ھونا چاھتا ھوں، چنانچہ حضرت عمر نے اس كو اسلام كا كلمہ پڑھوایا اور اس نے اسلام قبول كیا، اس كے بعد حضرت عمر نے حكم دیا كہ اس كے لئے ایك نیزہ حاضر كیا جائے، نیزہ حاضر كیا گیا اس پر ایك پرچم باندھا اور امروٴ القیس كو دیا اور شام كے ”قضاعہ“ 11 نامی علاقہ كی حكومت بھی دیدی۔

امروٴ القیس نے افتخار كے ساتھ اپنے ھاتھ میں پرچم لیا اور اپنے سر پر گھمایا، اور پھر اپنی حكومت كی جگہ روانہ ھو گیا 12

اسی طرح حضرت عمر كی طرف سے”علقمة بن علاثة كلبی“ كا حوران 13كی حكومت دینے كا واقعہ اس كے مرتد ھونے كے بعد بھی مذكورہ دعویٰ كے بالكل مخالف ھے، ”اغانی اصفھانی“ میں ”علقمة بن علاثة كلبی“ كی سوانح حیات میں بیان كرتے ھیں:

”علقمة بن علاثة كلبی“ نے پیغمبر اكرم (ص) كے زمانہ میں اسلام قبول كیا اور آپ كی صحبت كا شرف بھی حاصل كیا، لیكن حضرت ابوبكر كی خلافت كے زمانہ میں مرتد (كافر) ھوگیا، چنانچہ اسے گرفتار كرنے كے لئے حضرت ابوبكر نے خالد بن ولید كو بھیجا، لیكن ”علقمہ“ اس كے ھاتھوں سے نكل بھاگا، ایك مدت بعد علقمہ نے معذرت چاھتے ھوئے دوبارہ اسلام قبول كیا۔ 14

ابن حجر نے اپنی كتاب ”اصابہ“ میں تحریر كیا ھے:

علقمہ نے خلافت حضرت عمر كے زمانہ میں شراب پی اور حضرت عمر نے اس پر حد جاری كی، علقمہ حد كھانے كے بعد مرتد ھوگیا اور ”روم“ كی طرف بھاگ نكلا، روم كے بادشاہ نے اس كا پرُجوش استقبال كیا اور اس سے سوال كیا:

كیا تم عامر بن طفیل كے چچازاد بھائی نھیں ھو؟ علقمہ كو یہ بات بھت بری لگی اور بادشاہ كے جواب میں كھا: ایسا لگتا ھے كہ تم مجھے عامر سے ہٹ كر نھیں پہچانتے! 15

علقمہ اس كے بعد شرمندہ اور پریشان ھوكر روم چھوڑ كر مدینہ آیا اور پھر سے اسلام قبول كیا۔

لیكن اس كو حكومت ملنے كے سلسلہ میں اصفھانی اور ابن حجر دونوں نے بیان كیا ھے، چنانچہ اصفھانی تحریر كرتے ھیں:

علقمہ (جو خالد بن ولید كے دوستوں میں سے تھا) مرتد ھونے كے بعد مدینہ واپس آیا، اور رات كے اندھیرے میں لوگوں كی نگاھوں سے بچ كر مسجد میں وارد ھوا اور ایك گوشہ میں چھپ گیا، كچھ دیر بعد حضرت عمر بن خطاب مسجد میں گئے اور علقمہ كو سلام كیا، خلیفہ جو خالد بن ولید سے بھت زیادہ شباھت ركھتا تھا، جس كی وجہ سے رات كی تاریكی میں علقمہ كو دھوكہ ھوااور اس كو ایسا محسوس ھوا كہ یہ آنے والا شخص خالد بن ولید ھے، چنانچہ اس سے گفتگو ھونے لگی اور اس سے سوال كیا:

آخر كار تجھے عہدہ سے برخواست كردیا؟ حضرت عمر جو علقمہ كی غلطی كی طرف متوجہ ھوچكے تھے، اس كی باتیں سننے كے لئے ھوشیاری سے خالد كی آواز میں جواب دیا : ھاں ایسا ھی ھے! علقمہ نے متاثر انداز میں كھا: یہ سب تجھ سے رقابت اور حسادت كی وجہ سے ھے! حضرت عمر نے موقع كو مناسب سمجھا اور ھوشیاری سے پوچھا: تو میری كیا مدد كرسكتا ھے تاكہ اس سے بدلہ لے سكیں؟ علقمہ نے بھت جلد جواب دیا: میں خدا كی پناہ مانگتا ھوں، حضرت عمر ھمارے حاكم ھیں اور اس كے خلاف كوئی كام كرنے كا حق نھیں ھے لہٰذا میں ان كی مخالفت نھیں كروں گا! اس گفتگو كے بعد حضرت عمر (یا علقمہ كے گمان كے مطابق خالد) مسجد سے اٹھے اور باھر نكل گئے۔

دوسرے دن حضرت عمر كے یھاں دربار لگا، خالد بن ولید بھی علقمہ كے ساتھ آیااور ایك جگہ بیٹھ گیا، كافی دیر گزر گئی اور ایك مناسب موقع پر حضرت عمر نے علقمہ كی طرف رخ كیا اور سوال كیا: یہ سب باتیں تو نے خالد سے كھی ھیں؟ علقمہ نے جیسے ھی یہ سنا پریشان ھوگیا اور رات كی باتیں یاد آئیں، فوراً ھی خالد سے كھا: ابو سلمان! كیا تو نے عمر سے كچھ كھا ھے؟ خالد نے جواب دیا: وائے ھو تجھ پر، خدا كی قسم میں عمر سے پھلے آكر نھیں ملا ھوں بلكہ میں بھی تیرے ھی ساتھ آیا ھوں، اور تھوڑی خاموشی كے بعد اس طرح اپنی بات كو آگے بڑھایا: كھیں تو نے مجھ سے پھلے عمر سے تو ملاقات نھیں كرلی ھے؟! اور میرے دھوكہ میں اس سے گفتگو كر ڈالی ھو؟! علقمہ (جس پر حقیقت مكمل واضح ھوچكی تھی) نے كھا: جی ھاں! حقیقت ایسے ھی ھے،اس موقع پر حضرت عمر كی طرف رخ كیا اور خلیفہ سے سوال كیا: اے امیر المومنین! آپ نے تو خیر و سلامتی كے علاوہ كچھ نھیں سنا، كیا ایسا نھیں ھے؟ عمر نے كھا: ھاں ایسا ھی ھے، كیا تم چاھتے ھو كہ ”حوران“ كی حكومت تمھیں دیدوں؟ علقمہ نے جواب دیا:ھاں كیوں نھیں! اس موقع پر خلیفہ نے حوران كی حكومت اس كے حوالہ كردی، اور علقمہ آخر عمر تك وھاں كا حاكم رھا اور وھیں اس كا انتقال ھوا۔

ابن حجر اس واقعہ كے آخر میں اور اس جملہ كو نقل كرنے كے بعد كہ ”حضرت عمر نے حوران كی حكومت علقمہ كو دی“ تحریر كرتے ھیں: عمر نے كھا: اگر میرے طرفدار تیری طرح ھوں تو میرے نزدیك دنیا كی ھر چیز سے زیادہ سے قیمتی ھے۔

قارئین كرام!ھم نے جو كچھ اس سلسلہ میں بیان كیا: تمام ھی تاریخی حقائق تھے، لیكن اس كے باوجود مذھب خلفاء كے علماء نے جو كچھ روایتیں كی ھیں انھیں كو سند قرار دیا ھے اور اسی كو صحابی كی پہچان كا قاعدہ بنالیا جس كے نتیجہ میں بھت سے لوگوں كو مثل سیف بن عمر جو زندیق كے نام سے مشھور تھا اس كو رسول اكرم (ص) كے واقعی اصحاب كی فھرست میں لاگھڑا كیا، جس كی تفصیل ھم نے ”ایك سو پچاس جعلی صحابہ“ نامی كتاب میں تفصیل كے ساتھ بیان كی ھے۔

اب جبكہ دونوں مذھب كے لحاظ سے صحابی كی شناخت اور تعریف كے سلسلہ میں میں نظریات معلوم ھوگئے تو اب ھم دونوں مذھب كے لحاظ سے ”عدالت صحابہ“ كے بارے میں بحث و گفتگو كرتے ھیں:

عدالت صحابہ، دونوں مذھب كی نگاہ میں

1۔ عدالت صحابہ مذھب خلفاء كی نگاہ میں

مذھب خلفاء كے تابع لوگ تمام ھی اصحاب رسول اكرم (ص) كو عادل مانتے ھیں، اور انھیں لوگوں سے اسلامی تعلیمات اور احكام كو حاصل كرتے ھیں۔

امامِ جرح و تعدیل حافظ ابو حاتم رازی 16 مذھب خلفاء میں علم درایہ اور علم حدیث كے گرانقدر دانشور اپنی كتاب كے مقدمہ میں ”عدالت صحابہ“ كے حوالہ سے یوں تحریر كرتے ھیں:

”پیغمبر اكرم (ص) كے اصحاب وہ لوگ ھیں جو نزول وحی اور نزول قرآن كے شاہد اور گواہ ھیں، یہ حضرات تاویل اور تفسیر سے اچھی طرح واقف ھیں، خداوندعالم نے ان حضرات كو اپنے پیغمبر (ص) كا ھمدم، ان كا ناصر و مددگار، ان كے دین كو قبول كرنے والوں كے عنوان سے منتخب كیا ھے اور ان كو اپنے پیغمبر (ص) كی مصاحبت سے سرفراز فرمایا اور ھمارے لئے رھبر قرار دیا، جن چیزوں كی پیغمبر اكرم (ص) نے خداوندعالم كی جانب سے تبلیغ كی ھے (جو سنتیں قائم كی ھیں، جو قوانین نافذ كئے ھیں، جو احكام جاری كئے ھیں، جو فیصلہ كئے ھیں، جن كو حلال قرار دیتے ھوئے ان كا حكم دیا اور جن كو حرام قرار دیتے ھوئے ا ن سے روكا ھے) انھوں نے ان تمام چیزوں كو اپنے تمام وجود سے حاصل كیا ھے اور ان كو ذہن نشین كیا ھے اور دین میں فقیہ اور دانشور ھوگئے ھیں۔ یہ حضرات خداوندعالم كے امر و نھی كی مراد اور مقصود كو پیغمبر اكرم (ص) كی صحبت كی بركت سے اور آنحضرت (ص) كی تفسیر قرآن پر نظارت كی بدولت جانتے تھے اور قرآن مجید كے معنی و مفھوم كو سمجھنے كی بھترین صلاحیت ركھتے تھے، خداوندعالم نے چونكہ ان كو انتخاب كیا ان كو امت كی رھبری كا امتیاز بخشا، ان پر منت اور احسان كیا، ان سے شك و تردید، جھوٹ اور غلطی، بدگمانی، خودپسندی اور عیب جوئی سے دور ركھا اور ان كو ”امت كے عادلوں“ كا نام دیا جیسا كہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

” وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ “ 17

”اور ھم نے تم كو درمیانی امت قرار دیا ھے تاكہ تم لوگوں كے اعمال كے گواہ رھو“۔

اور رسول خدا (ص) نے خدا كی طرف سے ”وسطاً“ كی تفسیر ”عادل“ كئے ھیں، اسی وجہ سے تمام اصحاب پیغمبر (ص)اس امت كے عادل ،ھم كو راہ مستقیم دكھانے والے رھبر ، دینی امور میں ھم پر خدا كی حجت اور قرآن و سنت پیغمبر (ص) كے حامل ھیں۔ خداوندعالم نے حكم دیا ھے كہ ان سے تمسك كریں اور ان كے نقش قدم پر چلیں،نیز خداوندعالم نے مقرر فرمایا كہ ھم ان حضرات كو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیںاور انھیں كے بتائے ھوئے راستہ پر چلیں، جیسا كہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

((وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی)) 18 19

” اور جو شخص بھی ہدایت كے واضح ھوجانے كے بعد رسول سے اختلاف كرے گا اور مومنین كے راستہ كے علاوہ كوئی دوسرا راستہ اختیار كرے گا تو اسے ھم اُدھر ھی پھیر دیں گے“۔

اورھم متعدد احادیث میں پڑھتے ھیں كہ رسول اكرم (ص) نے لوگوں كو اس بات كی ترغیب دلائی كہ ان كی باتوں كی تبلیغ میں كوشش كریں اور اپنے اصحاب كو مخاطب قرار دیتے ھوئے ان كے لئے دعا فرمائی:

”نَضَّرَ اللّہُ امْرِء اً سَمِعَ مَقٰالَتِي فَحَفِظَہٰا وَ َوعٰاھا، حَتَّیٰ یُبَلِّغُہَا غَیْرَہُ“۔

”خداوندعالم اس شخص كی حفاظت فرمائے جو میری باتوں كو سنے اور ان كو ذہن نشین كرلے تاكہ دوسرے تك پہنچائے“۔

نیز ایك حدیث كے ضمن میں فرمایا:

فلیبلغ الشاہد منكم الغائب۔

” اے حاضرین! میری ان باتوں كو غائبین تك پہنچانا“۔

نیز آپ ھی كا فرمان ھے:

”بلغو عنی ولو آیة، و حدثوا عنی و لا حرج“۔

”میری طرف سے سنی ھوئی حتی ایك آیہ قرآن ھی دوسروں تك پہنچاؤ، اور تمھیں كسی بات كی پروا نھیں ھونا چاہئے“۔

پس رسول خدا (ص) كے اصحاب (جن سے اللہ راضی ھوجائے) تمام شھروں اور دیھاتوں میں پھیل گئے ، جنگوں اور كامیابیوں میں شریك رھے، حكومتی عہدوں پر قضاوت اور فیصلوں كی ذمہ داری نبھاتے رھے، یہ حضرات جب اپنے شھروں میں جاتے تھے یا دوسری جگہ سكونت اختیار كرتے تھے یھاں تك كہ اگر كھیں (چند روز كے لئے) قیام بھی كرتے تھے، تو پیغمبر اكرم (ص) سے سنی ھوئی احادیث كو لوگوں كے سامنے بیان كرتے تھے اور ان كو نشر كرنے كی ھر ممكن كوشش كرتے تھے 20 اور اگر لوگ سوال كرتے تھے تو جو جواب رسول خدا (ص) اس سلسلہ میں دیتے تھے یا اس طرح كے سوالوں كا جو جواب ھوتا تھا اسی كے پیش نظر جواب دیتے تھے اور اپنا نظریہ اور فتویٰ بیان كرتے تھے، نیز اپنی پاك نیت اور رضائے الٰھی كے لئے خود كو اس كے لئے آمادہ كرركھا تھاكہ واجبات الٰھی، احكام الٰھی اور سنت رسول (حلال و حرام) لوگوں كو سكھائیں، یہ حضرات ایسے تھے تب ھی تو خداوندعالم نے ان كو اپنے طرف دعوت دی ، (خداوندعالم ان پر اپنی رحمت و مغفرت نازل فرمائے) 21

ابن عبد البر بھی كتاب استیعاب كے مقدمہ میں لكھتے ھیں:

تمام ھی اصحاب كی عدالت ثابت اور طے شدہ ھے۔

اس كے بعد اصحاب كرام خصوصاً مومنین صحابہ كے بارے میں وارد ھونے والی آیات و احادیث كو بیان كرتے ھیں ، جیسے كہ ابو حاتم رازی كے حوالہ سے بھی نقل كی گئی ھیں 22

ابن اثیر بھی اپنی كتاب ”اسد الغابہ“ كے مقدمہ میں تحریر كرتے ھیں:

سنن كی كتابیں جن كا محور احكام كی تفصیل اور حلال و حرام سے آگاھی نیز دوسرے دینی امور ان میں بیان ھوئے ھیں، یہ اسی وقت قابل قبول ھیں كہ ان كے رجال اور راوی نیز ان كی سند پھلے سے جانی پہچانی ھوں ، اور ان سے پھلے اصحاب رسول (ص) كی شناخت ضروری ھے كیونكہ اگر كوئی شخص اصحاب رسول اكرم (ص) كو نا پہچانے تو دوسرے افراد كو نھیں پہچان سكتا، لہٰذا اصحاب رسول كو نسب اور ان كی بیوگرافی كے لحاظ سے پہچاننا چاہئے۔۔۔۔

اصحاب رسول (ص) ،حدیث و سنت كے دوسرے روایوں سے تمام چیزوں میں برابر ھیں؛ مگر جرح و تعدیل اور اعتراض و اشكال وغیرہ میں، كیونكہ وہ (اصحاب) سب كے سب عادل ھیں ان پر اعتراضات نھیں كیا جاسكتا اور ان كے عیب تلاش نھیں كئے جاسكتے۔ 23

حافظ حدیث، ابن حجر اپنی كتاب ”اصابہ“ كی تیسری فصل كے مقدمہ میں عدالت صحابہ كے بارے میں تحریر كرتےھیں:

اھل سنت كا عقیدہ یہ ھے كہ تمام اصحاب رسول (ص)عادل تھے اور اس سلسلہ میں كوئی بھی مخالف نھیں ھے مگر اھل بدعت كے كچھ بے اھمیت لوگ۔۔۔ 24

امام اھل حدیث ابوزرعہ سے بھی منقول ھے:

اگر كوئی شخص كسی بھی صحابی رسول (ص) كے سلسلہ میں عیب جوئی یا ان كی برائی كرے تو معلوم ھونا چاہئے كہ ایسا شخص زندیق ھے۔ 25

كیونكہ ھم جانتے ھیں كہ رسول خدا (ص)، قرآن اور جو كچھ قرآن میں ھے سب حق اور صحیح ھے اور یہ تمام چیزیں اصحاب كے ذریعہ ھی ھم تك پہنچی ھیں، لہٰذا جو لوگ اصحاب رسول پر اعتراض تراشی كرتے ھیںان كا مقصد یہ ھے كہ ان تمام مدارك او رمطالب سے ھمارے گواھوں كا خاتمہ كردیں، جس كے نتیجہ میں قرآن اور سنت كو باطل اور بے اعتبار قرار دیدیں۔ جبكہ زندیق سب سے زیادہ اس بات كے مستحق ھیں كہ ان كو مورد تنقید قرار دیا جائے اور ان كو برا بھلا كھا جائے۔ 26

قارئین كرام! اب تك ھم نے عدالت صحابہ رسول (ص) كے بارے میں جو كچھ بیان كیا وہ اھل سنت كے نظریہ كے مطابق تھا، اب ھم عدالت صحابہ كے بارے میں مذھب اھل بیت علیھم السلام كا نظریہ پیش كرتے ھیں۔

2۔ عدالت صحابہ كے بارے میں مذھب اھل بیت كا نظریہ

مذھب اھل بیت علیھم السلام قرآن كریم كی پیروی كرتے ھوئے اس بات كا معتقد ھے كہ پیغمبر اكرم (ص) كے اصحاب میں كچھ پاك نیت اور مومن اشخاص بھی تھے جن كی خداوندعالم نے تعریف و تمجید كی ھے اور ان كو نیك نامی سے یاد كیا ھے، مثال كے طور پر بیعت شجرہ كے سلسلہ میں ارشاد ھوتا ھے:

(( لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّكِینَةَ عَلَیْہِمْ وَاٴَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا)) 27

”یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ھوگیا جب وہ درخت كے نیچے آپ كی بیعت كر رھے تھے پھر اس نے وہ سب كچھ دیكھ لیا جو ان كے دلوں میں تھا تو ان پر سكون نازل كردیا اور انھیں اس كے عوض قریبی فتح عنایت كردی“۔

خداوندعالم نے اپنی تعریف كو مخصوص كیا ھے ان مومن اصحاب سے جو بیعت شجرہ میں شریك تھے 28 اور منافقین كے شامل حال نھیں ھے جیسے عبد اللہ بن اُبیّ و اوس بن خولی جو وھاں موجود تھے۔

اسی طرح قرآن كی پیروی كرتے ھوئے یہ عقیدہ ركھتے ھیں كہ انھیں اصحاب رسول (ص) كے درمیان بعض منافقین بھی تھے جن كے سلسلہ میں خداوندعالم نے متعدد آیات میں مذمت كی اور ان كو بُرا كھا، جیسا كہ ارشاد ھوتا ھے:

(( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنْ الْاٴَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ اٴَہْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلَی عَذَابٍ عَظِیمٍ)) 29

”اور تمھارے گرد دیھاتیوں میں بھی منافقین ھیں، اور اھل مدینہ میں بھی ھیں، جو نفاق میں ماھر ھیں اور سركش ھیں، تم ان كو نھیں جانتے ھو لیكن ھم خوب جانتے ھیں، عنقریب ھم ان پر دوھرا عذاب كریں گے اس كے بعد یہ عذابِ عظیم كی طرف پلٹا دئے جائیں گے“۔

اصحاب كے درمیان كچھ ایسے بھی لوگ تھے جو حرم پیغمبر پر غیر اخلاقی تھمت لگاتے تھے خدا نے ان كے تھمت لگانے كے سلسلہ میں ان كے چھرہ سے نقاب ہٹادی ، (كہ ھم اس طرح كی باتوں سے خدا كی پناہ مانگتے ھیں)۔ 30

اور ان لوگوں كے درمیان كچھ ایسے بھی لوگ تھے جن كے دلوں كے راز كو خداوندعالم فاش كررھا ھے، جیسا كہ سورہ جمعہ میں ارشاد ھوتا ھے:

((وَإِذَا رَاٴَوْا تِجَارَةً اٴَوْ لَہْوًا انفَضُّوا إِلَیْہَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا)) 31 32

” (اور اے پیغمبر ) یہ لوگ جب تجارت یا لھو و لعب كو دیكھتے ھیں تو اس كی طرف دوڑ پڑتے ھیں اور آپ كو تنھا كھڑا چھوڑ دیتے ھیں “۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب پیغمبر اكرم (ص) جمعہ كے روز مسجد میں خطبہ دے رھے تھے۔

نیز اصحاب كے درمیان وہ لوگ بھی تھے جوجنگ تبوك سے واپسی میں 33 ”ھرشی نامی پھاڑی كی چوٹی“ سے یا ایك قول كی بنا پر حجة الوداع كے موقع پر پیغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنا چاھتے تھے، اور اس سلسلہ میں اپنے منصوبہ پر عمل بھی كیا (لیكن ناكام رھے)

ان سب كے علاوہ رسول اكرم (ص) كی مصاحبت كا اگر رسول اكرم (ص) كی ھمسری (زوجیت) سے موازانہ كیا جائے تو ھمسری كا درجہ مصاحبت سے بالاتر ھے، كیونكہ ھمسری مصاحبت اور صحابیت كی بالاترین درجہ پر ھے جن كو خطاب كرتے ھوئے خداوندعالم خطاب فرماتا ھے:

((یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَاٴْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَیِّنَةٍ یُضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیرًا ۔وَمَنْ یَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِہَا اٴَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَاٴَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا كَرِیمًا ۔ یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاٴَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ۔۔۔)) 34

”اے زنانِ پیغمبر! جو بھی تم میں سے كھلی ھوئی برائی كا ارتكاب كرے گی تو اس كا عذاب بھی دُھرا كردیا جائے گا اور یہ بات خدا كے لئے بھت آسان ھے۔ اور جو بھی تم میں سے خدا اور رسول كی اطاعت كرے اور نیك اعمال كرے تو اسے دھرا اجرا عطا كریں گے، اور ھم نے اس كے لئے بھترین رزق فراھم كیا ھے۔ اے زنانِ پیغمبر! تم اگر تقویٰ اختیار كرو تو تمھارا مرتبہ كسی عام عورت جیسا نھیں ھے۔۔۔“۔

جن میں سے دو كے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:

((إِنْ تَتُوْبَا إلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا وَ إِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْہِ فَإِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَولَاہُ وَ جَبْرِیْلُ وَ صَالِحُ المُوٴمِنِیْنَ وَ الْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَہِیْرٌ)) 35

”اب تم دونوں توبہ كرو كہ تمھارے دلوں میں كجی پیدا ھوگئی ھے ورنہ اگر اس كے خلاف اتفاق كرو گی تو یاد ركھو كہ اللہ اس كا سرپرست ھے اور جبرئیل اور نیك مومنین اور ملائكہ سب اس كے مددگار ھیں“۔
یھاں تك كہ ارشاد ھوتا ھے:

(( ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاٴةَ نُوحٍ وَّ اٴمْرَاٴةَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدِیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَّالِحِیْنَ، فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ۔ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِیْنَ آمَنُواامْرَاٴةَ فِرْعُونَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدكَ بَیْتاً فِی الجَنَّةَ ۔۔۔ وَ مَریَمَ بْنَتَ عِمْرَانَ اللَّتِی۔۔۔)) 36

”خدا نے كفر اختیار كرنے والوں كے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط كی مثال بیان كی ھے كہ یہ دونوں ھمارے نیك بندوں كی زوجیت میں تھیں لیكن ان سے خیانت كی تو اس زوجیت نے خدا كی بارگاہ میں كوئی فائدہ نھیں پہنچایا اور ان سے كہہ دیا گیا كہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ھونے والوں كے ساتھ داخل ھوجاؤ، اور خدا نے ایمان والوں كے لئے فرعون كی زوجہ كی مثال بیان كی ھے كہ اس نے دعا كی كہ پروردگارا! میرے لئے جنت میں ایك گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس كے كاروبار سے نجات دلادے۔۔۔ اور مریم بنت عمران كی مثال جس نے اپنی عفت كی حفاظت كی۔۔۔“۔

پیغمبر اكرم (ص) روز قیامت انھیں اصحاب میں سے كچھ كے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں:

”و انہ یجاء برجال من امتي فیوٴخذ بھم ذاتَ الشمالِ، فاقول: یاربِّ اصحابى، فیقال: انك لاتدری ما احدثوا بعدك، فاقول كما قال العبد الصالح: ((وَكُنتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فِیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی كُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْہِمْ)) 37 فیقال ان ھوٴلاء لم یزالوا مرتدّین علی اعقابھم منذُ فارقتھم“۔ 38

”روز قیامت میری امت كے كچھ جانے پہچانے اصحاب كو لایا جائے گا اور ان كو برے لوگوں كے پاس قرار دیا جائے گا، اس موقع پر میں كھوں گا: پالنے والے! یہ تو میرے اصحاب ھیں! اس موقع پر آواز آئے گی: آپ كو نھیں معلوم، انھوں نے آپ كے بعد كیا كیا ھے! چنانچہ میں اس موقع پر عبد الصالح كی بات كو دھراؤں گا: ”میں جب تك تمھارے درمیان تھا تمھارا ناظر اور شاہد تھا اور جب تو نے مجھے ان كے درمیان سے اٹھالیا تو تو خود ناظر و شاہد تھا“، اس وقت مجھے بتایا جائے گا كہ یہ لوگ آپ كے فوراً بعد ھی مرتد ھوگئے، اور اپنے پرانے زمانہ كی طرف پلٹ گئے“۔

اور ایك دوسری روایت میں بیان ھوا ھے:

حوض كوثر پر میرے كچھ اصحاب كو لایا جائے گا، اور جب میں ان كو پہچان لوں گا تو ان كو میرے پاس سے دور كردیا جائے اور میں اس موقع پر كھوں گا: پالنے والے! یہ تو میرے اصحاب ھیں! خطاب ھوگا: آپ كو نھیں معلوم ان لوگوں نے آپ كے بعد كیا كیا كارنامے انجام دئے ھیں! 39

اسی طرح صحیح مسلم میں بھی بیان ھوا ھے كہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

حوض كوثر پر كچھ میرے ساتھیوں اور ھمدموں كو لایا جائے گا، اور جب میں ان سب میں سے ایك ایك كو پہچان لوں گا تو ان كو مجھ سے الگ كركے دور كردیا جائے گا، اس موقع پر میں اصرار كرتے ھوئے كھوں گا: پالنے والے!یہ تو میرے اصحاب ھیں! اس موقع پر آواز قدرت آئے گی: آپ كو نھیں معلوم انھوں نے آپ كے بعد كیا كیا ھے! 40

مومن اور منافق كی شناخت كا طریقہ

چونكہ رسول اكرم (ص) كے اصحاب كے درمیان ایسے منافق بھی تھے جن كو خدا كے علاوہ كوئی نھیں جانتا تھا، جیسا كہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، 41 ام سلمہ، 42 عبد اللہ بن عباس، 43 ابوذر غفاری، 44 انس بن مالك، 45 اور عمران بن حصین 46 سے منقول روایتوں میں بیان ھوا كہ رسول خدا (ص) نے مومن اور منافق كی پہچان كا طریقہ حضرت علی علیہ السلام كی دوستی كو قرار دیتے ھوئے فرمایا ھے: ”علی علیہ السلامكو كوئی دوست نھیں ركھے گا مگر مومن، اسی طرح كوئی دشمن نھیں ركھے گا مگر منافق“۔

حدیث پیغمبر اكرم (ص) كے زمانہ میں خاص و عام كی زبان پر تھی، كہ جناب ابوذر غفاری كھتے ھیں:

”ما كنا نعرف المنافقین الا بتكذیبھم الله و رسولہ و التخلف عن الصلوات و البغض لعلي بن ابي طالب“۔

”یعنی ھم منافقین كو خداورسول كی تكذیب اور نماز سے منھ موڑنے نیز حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی كے ذریعہ پہچانتے تھے“۔ 47

ابو سعید خدری 48 كھتے ھیں:

”ھم گروہ انصار ،منافقین كو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام كی دشمنی سے پہچانتے تھے“۔

اسی طرح عبد اللہ بن عباس بھی كھتے ھیں:ھم پیغمبر اكرم (ص) كے زمانہ میں منافقین كی پہچان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام كی دشمنی سے كیا كرتے تھے۔ 49

جابر بن عبد اللہ انصاری 50 بھی اس طرح بیان كرتے ھیں: ”ھم منافقین كو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی كے علاوہ نھیں پہچانتے تھے (یعنی جو بھی حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی كرتا ھے اس كو منافق سمجھتے تھے۔)

قارئین كرام! آپ ھی فیصلہ فرمائیں كہ ان تمام روایات كے پیش نظر جن میں حضرت علی علیہ السلام كی دشمنی كو منافقین كی پہچان قرار دیا گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام كے بارے میں پیغمبر اكرم (ص) نے فرمایا: ”اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ“، 51 (پالنے والے علی سے دوستی كرنے والے سے دوستی ركھ، اور علی سے دشمنی كرنے والے سے دشمنی ركھ) لہٰذا اھل بیت علیھم السلام كے ماننے والے بھت زیادہ احتیاط كرتے ھیں كہ دینی احكام اور دینی قوانین كو ان اصحاب سے نہ لیں جو حضرت علی علیہ السلام كے دوست نھیں تھے بلكہ آپ كے دشمن تھے ، یا دوسرے الفاظ میں یوں كھیں كہ دینی احكام ان صحابہ سے نہ لیں جو منافق تھے اور جن كو خدا كے علاوہ كوئی نھیں جانتا۔

1. اصابة، ج ۱، صفحہ ۱۰۔مرحوم شھید ثانی نے بھی اپنی كتاب درایہ میں صحابی كی تعریف اسی طرح كی ھے: ” الصحابی من لقی النبی (صلّی الله علیہ و آلہ) موٴمناً بہ ومات علی الاسلام“، (صحابی وہ ھے جس نے ایمان كی حالت میں پیغمبر اكرم (ص) كی زیارت كی ھو اور آخر عمر تك اسلام پر باقی رھے۔)

2. اصابة، ج ۱، صفحہ ۱۰ و۱۳۔

3. رجوع فرمائیں: مفردات راغب اور لسان العرب، مادہ ( صحب) ۔

4. الاصابة، ج ۱، صفحہ ۱۳۔

5. تاریخ طبری، ج ۱، صفحہ ۲۱۵۱۔

6. اھل یمامہ و تابعین مسلیمہ كذّاب كے ساتھ جنگ كو ”ارتداد كی جنگ“ سے یاد كیا جاتا ھے۔

7. تاریخ طبری، ج ۱، صفحہ ۲۴۵۷۔ ۲۴۵۸۔

8. سیف بن عمر تمیمی كی سوانح حیات كے سلسلہ میں رجوع فرمائیں: عبد اللہ بن سبا، ج ۱۔

9. رجوع فرمائیں: عبد اللہ بن سبا، ج ۱، صفحہ ۱۱۷۔ موٴلف نے كتاب ”رواة مختلقون“ (غیر مطبوع) میں بھی اس مسئلہ پر بحث كی ھے۔

10. اغانی، ج ۱۴،صفحہ۱۵۸۔

11. ”قضاعہ“بڑے قبائل كے مجموعہ كا نام ھے، جس میں حیدان، بھراء، بلی اور جھینہ وغیرہ شامل ھیں جس كی تفصیل ابن حزم نے اپنی كتاب انساب صفحہ ۴۴۰۔ ۴۶۰، میں بیان كی ھے، ”قضاعہ“ كا مركز پھلے شحر، اس كے بعد نجران اور شام ھوا ھے، ان قبیلوں كا رقبہ بھت وسیع ھے جو شام، حجاز اور عراق تك پھیلا ھوا ھے،رجوع كریں: معجم قبائل العرب، لفظ ”قضاعہ“ج ۳، صفحہ ۹۵۷۔

12. الاغانی، ج ۱۴، صفحہ ۱۵۷۔ ابن حزم نے اس كا خلاصہ ”جمھرہ“ صفحہ ۲۸۴ میں بیان كیا ھے۔

13. حوران دمشق اسٹیٹ كے ایك وسیع علاقہ میں ھے جس میں بھت سے دیھات اور قصبات ھیں نیز یھاں كی بھترین زراعتی زمین ھے، معجم البلدان، ج ۲، صفحہ ۳۵۸۔

14. الاغانی، ج ۱۵، صفحہ ۵۶۔

15. الاصابة، ج ۲، صفحہ ۴۸۹ تا ۴۹۶ ۔،یہ بات قابل ذكر ھے كہ علقمہ اور اس كے چچازاد بھائی عامر كے درمیان ایك واقعہ پیش آیا جس میں ایك دوسرے كو بھت ھی نازیبا اور عفت كے منافی الفاظ كھے گئے، جس كے بیان سے قلم شرماتا ھے، لیكن بعض مورخین منجملہ اصفھانی نے كتاب اغانی، ج ۱۵، صفحہ ۵۰ تا ۵۵ میں اور ابن حزم نے كتاب جمھرة، صفحہ ۲۸۴ میں اس كو بیان كیا ھے، قارئین كرام !مزید آگاھی كے لئے مذكورہ كتابوں كو دیكھ سكتے ھیں،بادشاہ روم سے علقمہ كی ناراضگی بھی علقمہ اور عامر كے درمیان ھونے والے واقعات كی طرف اشارہ كرنے كی وجہ سے ھوئی تھی (مترجم فارسی)

16. ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم رازی (متولد ۳۲۷ھ) كی مشھور و معروف كتاب ”تقدمة المعرفة لكتاب الجرح و التعدیل“ ھے، یہ كتاب۱۳۷۱ھ میں حیدر آباد دكن سے چھپ چكی ھے۔

17. سورہ بقرہ، آیت ۱۴۳۔

18. سورہ نساء، آیت ۱۱۵۔

19. قابل ذكر ھے كہ مذھب اھل بیت علیھم السلام كے ماننے والے اس بات كے معتقد ھیں كہ مذكورہ آیت میں ”موٴمنین“ سے مراد اصحاب ھیںجیسا كہ آیہ شریفہ میں بھی اس بات كی وضاحت كی گئی ھے نہ ھر كوئی دوسرا شخض، ھم انشاء اللہ بعد میں مزید تفصیل بیان كریں گے۔

20. قارئین كرام!ھم بعد میں بیان كریں گے كہ مذھب خلفاء نے احادیث رسول (ص) كے منتشر نہ ھونے خصوصاً ان كے نہ لكھے جانے كے سلسلہ میں (پھلی ہجری صدی كے آخری حصہ تك) اپنی پوری طاقت صرف كردی۔

21. جرح و تعدیل، صفحہ ۷ تا ۹۔

22. ابو عمر یوسف بن عبد اللہ،محمد بن عبد البر النمری القرطبی المالكی كے پوتے ھیں ( ۳۶۸ھ۔ ۴۶۳ھ) ،جن كی مشھور و معروف كتاب ”الاستیعاب فی اٴسماء الاٴصحاب“ ھے۔

23. اسد الغابة فی معرفہ الصحابة، ج ۱، صفحہ ۳۔

24. الاصابة فی تمییز الصحابة، ج ۱، صفحہ ۱۷ تا ۲۲۔

25. اے كاش ھمیں معلوم ھوجاتا كہ امام اور مشھور فقیہ ابوزرعہ ان اصحاب رسولكے سلسلہ میں كیا نظریہ ركھتے ھیں جو منافق تھے؟!

26. اصابہٴ ابن حجر، ج ۱، صفحہ ۱۸۔ابن حجر ،ابو زرعہ كی معرفی كرتے ھوئے كھتے ھیں: امام حافظ اور مشھور ثقہ راویوں كے گیارھویں طبقہ میں سے ھیں جن كا انتقال۲۶۴ھ میں ھوا، اور صاحبان صحاح جیسے مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ان سے روایت كی ھے، ابوزرعہ كی سوانح حیات كے سلسلہ میں تقریب التہذیب، ج ۲، صفحہ ۵۳۶، نمبر ۱۴۷۹ میں دیكھیں۔

27. سورہ فتح، آیت ۱۸۔

28. بیعت شجرہ كا واقعہ ”مغازی واقدی“ میں ۶۰۴، اور خطط مقریزی ص ۲۹۱ میں بیان ھوا ھے۔

29. سورہ توبہ، آیت ۱۰۱۔

30. ”داستان افك“ كی طرف اشارہ ھے جو سورہ نور كی آیت ۱۱ تا ۱۷ جناب عائشہ كی پاكدامنی بقول خود، یا جناب ماریہ كی پاكدامنی دوسروں كے بقول، نازل ھوئی ھیں۔

31. سورہ جمعہ،آیت ۱۱ ۔

32. مسند احمد بن حنبل، ج ۵، صفحہ ۳۹۰ و ۴۵۳؛ صحیح مسلم، ج ۸،صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۳، باب صفات المنافقین؛ مجمع الزوائد، ج ۱، صفحہ ۱۱۰ و ج ۶،صفحہ ۱۹۵، مغازی واقدی، ج ۳، صفحہ۱۰۴۲؛امتاع مقریزی، صفحہ۴۷۷؛الدر المنثور سیوطی، ج ۳، صفحہ۲۵۸ تا ۲۵۹،سبھی نے آیہٴ (( وَہَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا )) (سورہ توبہ، آیت ۷۴) كے ذیل میں اس واقعہ كو نقل كیا ھے۔

33. مذھب اھل بیت علیھم السلام كے ماننے والے حجة الوداع سے واپسی پر پیغمبر اكرم (ص) كے ساتھ میں ھونے والی اس سازش كا رد عمل غدیر خم كا واقعہ مانتے ھیں،رجوع فرمائیں: بحار الانوار، ج ۲۸، صفحہ ۹۷۔

34. سورہ احزاب ،آیت۳۰ تا ۳۲۔

35. سورہ تحریم ، آیت ۴۔

36. سورہ تحریم، آیت ۱۰ تا ۱۲ ۔

37. سورہ مائدہ،آیت۱۱۷

38. صحیح بخاری، در تفسیر سورہٴ مائدہ، باب و كنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی ۔۔۔ وكتاب الانبیاء، باب و اتخذ اللہ إبراھیم خلیلا؛ صحیح ترمذی، ابواب صفة القیامة، باب ما جاء فيشاٴن الحشر وتفسیر سورہٴ طہ۔

39. صحیح بخاری، كتاب الرقاق، باب في الحوض، ج ۴، صفحہ ۹۵ و كتاب الفتن، باب ما جاء في قول اللہ تعالی:و اتقوافتنة لا تصیتن الذین۔۔۔؛ سنن ابن ماجہ، كتاب مناسك،باب الخطبة یوم النحر، ح ۵۸۳۰؛ مسند احمد، ج ۱ ، صفحہ ۴۵۳ و ج۳، صفحہ ۲۸ و ج ۵، صفحہ ۴۸۔

40. صحیح مسلم، كتب الفضائل، باب اثبات حوض نبینا،ج ۴، صفحہ ۱۸۰۰، ح ۴۰۔

41. مستدرك، ج ۳، صفحہ ۴۸۳،فصول المھمة ، المناقب، ج ۳، صفحہ ۷، مولفہ ابن مغازلی شافعی ، نور الابصار، صفحہ۶۹، مولفہشبلنجی كی روایتوں كے مطابق امیر المومنین علیہ السلام۱۳/ رجب۳۰ عام الفیل كو خانہ كعبہ میں پیدا ھوئے، مھاجرین اور انصار نے ۳۵ھ میں آپ كی خلافت پر بیعت كی، اور ابن ملجم مرادی نے ۱۹ویں ماہ رمضان۴۰ھ كو مسجد كوفہ كی محراب میں آپ كے سر مبارك پر ایك ضرب لگائی اور اسی مھینہ كی ۲۱ویں كو آپ كی شھادت واقع ھوئی، صاحبان صحاح نے آپ سے ۵۳۶ /احادیث اور روایات نقل كی ھیں آپ كی زندگی كے حالات كتاب استیعاب،اسد الغابہ، اصابہ، اور جوامع السیرة ج۵، ص ۲۷۶ میں بیان ھوئے ھیں،منافقین كی شناخت كے بارے میں آپ كی روایت درج ذیل كتابوں میں موجود ھے: صحیح مسلم، ج ۱، صفحہ ۶۱، باب الدلیل علی اٴن حب الانصار و علي من الایمان وبغضھم من علامات النفاق؛ صحیح ترمذی، ج ۱۲، صفحہ ۱۷۷، باب مناقب علی؛سنن ابن ماجہ؛مقدمہٴ باب حادی عشر؛ سنن نسائی، صفحہ ۲۷۱، باب علامة الموٴمن و باب علامة المنافق از كتاب الایمان وشرائعہ؛خصائص نسائی، صفحہ۳۸؛مسند احمد، ج ۱، ص ۸۴ و ۹۵ و ۱۲۸؛ تاریخ بغداد، ج ۲، صفحہ ۲۵۵ و ج ۸، صفحہ ۴۱۷ و ج ۱۶، صفحہ ۴۲۶؛ حلیة الاولیاء ابو نعیم، ج ۴، صفحہ ۱۸۵ (صاحب كتاب نے اس حدیث كو صحیح اور متفق علیہ بتایا ھے)؛ تاریخ الاسلام ذھبی، ج ۲، صفحہ ۱۹۸؛تاریخ ابن كثیر، ج ۷، صفحہ ۳۵۴؛استیعاب، ج ۲، صفحہ ۴۶۱؛ اسد الغابة، ج ۴، صفحہ۲۹۲؛كنز العمال، ج ۱۵، صفحہ۱۰۵؛ الریاض النضرة، ج ۲، صفحہ ۲۸۴؛ المناقب ، ابن المغازلی، صفحہ ۱۹۰، ح ۲۵۵۔

42. ام سلمہ، كا نام ہند دختر ابی امیة بن مغیرہ، قرشی مخزومی تھا، پیغمبر اكرم (ص) كی زوجیت میں آنے سے پھلے یہ ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی كی زوجیت میں تھیں، جو دونوں صدر اسلام میں اسلام سے مشرف ھوئے تھے، انھوں نے پھلے حبشہ اور مدینہ كی طرف ہجرت كی،ابوسلمہ جنگ احد میں زخمی ھوئے جس كی بنا پر ہجرت كے تیسرے سال ان كا انتقال ھوگیا،ام سلمہ كے بھت سے بچے تھے رسول خدا (ص)نے ان كو اپنی سر پرستی میں لے لیا، ام سلمہ كی وفات شھادت امام حسین علیہ السلام كے بعد ۶۱ھ میں ھوئی، صاحبان صحاح نے ان سے ۳۷۸ /احادیث اور روایات نقل كی ھیں، ام سلمہ اور ابوسلمہ كی سوانح حیات اسد الغابہ، اور جوامع السیرة ص ۲۷۶، تقریب،ج ۲، صفحہ ۶۱۷ میں بیان ھوئی ھے، منافقین كے بارے میں ام سلمہ كی روایت درج ذیل معتبر كتابوں میں بیان ھوئی ھے: سنن ترمذی، ج۱۳، ص۱۶۸؛ مسند احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۹۲؛ استیعاب، ج۲، ص۴۶۰؛ تاریخ ابن كثیر، ج۷، ص۳۵۴؛ كنز العمال، ج۶، ص۲۹۲ ۔

43. عبد اللہ بن عباس ، عبد المطلب كے پوتے اور پیغمبر اكرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام كے چچا زاد بھائی ھیں، ہجرت كے موقع پر آپ كی عمر تین سال كی تھی، ان كا انتقال۶۸ھ میں طائف میں ھوا، صاحبان صحاح نے ان سے ۱۶۶۰/ احادیث اور روایات نقل كی ھیں، ان كی سوانح حیات اسد الغابہ ،اصابہ اور جوامع السیرة ص ۲۷۶ میں بیان ھوئی ھے۔

44. ابوذر غفاری، آپ كا نام جندب یا برید تھا، وہ جنادة یا عبد اللہ اور یا السكن كے فرزند تھے، ابوذر اسلام میں سبقت كرنے والوں میں سے اور ہجرت كرنے والوں میں آخری افراد میں سے ھیں، آپ جنگ بدر كی بعد والی جنگوں میں شركت كرتے رھے ، اورآپ نے خلیفہ سوم حضرت عثمان كے حكم سے ”ربذہ“ كی طرف جلا وطن ھونے كے بعد۲۳ھ میں وفات پائی، صاحبان صحاح نے ان سے ۲۸۱/ احادیث اور روایات نقل كی ھیں، ان كی سوانح حیات تقریب،ج ۲، صفحہ ۴۲۰، وجوامع السیرة، صفحہ۲۷۷؛ اور كتاب عبد اللہ بن سبا كی دوسری جلد میں بیان ھوئی ھے۔

45. انس بن مالك ، انصاری خزری، نے خود فرمایا ھے كہ میں نے دس سال تك رسول خدا (ص) كی خدمت كی ھے، انس بن مالك واقعہ غدیر كی گواھی چھپانے كی وجہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام كی بد دعا كی وجہ سے برص كی بیماری میں مبتلا ھوئے، جس كو عمامہ سے نھیں چھپاسكتے تھے، یہ مطلب كتاب اعلاق النفسیہ ص ۱۲۲/ میں بیان ھوا ھے اور جس كی تفصیل ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ج۴، ص۳۸۸ میں بیان كی ھے، انس بن مالك نے۹۰ھ میں بصرہ میں انتقال كیا، صاحبان صحاح نے ان سے ۲۲۸۶/ احادیث اور روایات نقل كی ھیں، منافقین كی شناخت كے بارے میں ان كی روایت كنز العمال، ج۷، ص۱۴۰ میں بیان ھوئی ھے۔

46. ابو نجید، عمران بن حصین خزاعی كعبی، فتح خیبر میں اسلام لائے، اور آنحضرت (ص) كی صحبت اختیار كی، عمران بن حصین نے مسند قضاوت پر بیٹھ كر كوفہ میں قضاوت كے فرائض انجام دئے، اور۵۲ھ میں كوفہ میں وفات پائی ، صاحبان صحاح نے ان سے ۱۸۰، احادیث اور روایات نقل كی ھیں، منافقین كی شناخت كے بارے میں ان كی روایت كنز العمال، ج۷، ص۱۴۰ میں بیان ھوئی ھیں اور ان كی سوانح حیات كتاب التقریب،ج ۲، صفحہ ۷۲، وجوامع السیرة، صفحہ۲۷۷،میں بیان ھوئی ھے۔

47. مستدرك علی الصحیحین، ج ۳، صفحہ ۱۲۹؛كنز العمال ،ج ۱۵، صفحہ ۹۱ ۔

48. ابو سعید خدری ، سعد بن مالك بن سنان خزرجی ھیں، انھوں نے جنگ خندق اور اس كے بعد ھونے والی جنگوں میں شركت كی ھے، ان كا انتقال مدینہ منورہ میں ۶۳، یا ۶۵ھ ، یا ۷۶ھ میں ھوا، صاحبان صحاح نے ان سے ۱۱۷۰/ احادیث اور روایات نقل كی ھیں، ان كی سوانح عمری اسد الغابة،ج ۲، صفحہ ۲۸۹؛ التقریب، ج ۱، صفحہ ۲۸۹؛ جوامع السیرة، صفحہ ۲۷۶ میں بیان ھوئی ھے، اور منافقین كی شناخت كے بارے میں ان كی حدیث صحیح ترمذی، ج ۱۳، صفحہ ۱۶۷، اور حلیة ابو نعیم، ج۶، صفحہ ۲۸۴، میں بیان ھوئی ھے۔

49. تاریخ بغداد، ج ۳، صفحہ ۱۵۳ میں تحریر ھے كہ ابن عباس نے ابن مسعود كے پاس آیہ شریفہ: ((یعجب الزراع لیغیظ بھم الكفار)) كی تلاوت كی، اور كھا اس سے مراد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ھیں۔

50. جابر بن عبد اللہ بن عمرو انصاری سلمی ھیں ، باپ اور بیٹے دونوں رسول اكرم (ص) كے صحابی تھے، جناب جابر نے اپنے والد كے ساتھ ”بیعت عقبہ“ میں شركت كی، اور پیغمبر اكرم (ص) كے ساتھ ۱۷/ جنگوں میں شریك رھے، نیز جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام كے ساتھ رھے،ان كا انتقال۷۰ھ كے بعد ھوا ، صاحبان صحاح نے ان سے ۱۵۴۰/ احادیث اور روایات نقل كی ھیں، ان كی سوانح عمری، كتاب اسد الغابة،ج ۱، صفحہ ۲۵۶ تا ۲۵۷؛ التقریب، ج ۱، صفحہ ۱۲۲ اور جوامع السیرة، صفحہ ۲۸۴ میں بیان ھوئی ھے، منافقین كی شناخت كے بارے میں ان كی حدیث كتاب استیعاب، ج۲، ص۴۶۴؛ ریاض النضرة ،ج۲، ص۲۸۴، اور تاریخ ذھبی، ج۲، ص۱۹۸ میں اس طرح نقل ھوئی ھے: ”ھم منافقین كو علی بن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی كے علاوہ نھیں پہچانتے تھے ؛ اور مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۳۳ میں اس طرح عبارت شروع ھوتی ھے كہ ھم گروہ انصار منافقین كو علی بن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی كے علاوہ نھیں پہچانتے تھے ۔

51. صحیح ترمذی، ج۱۳، ص۱۶۵؛ باب مناقب علی؛ سنن ابن ماجہ، باب فضل علی، حدیث ۱۱۶؛ خصائس نسائی، ص۴،۳۰؛ مسند احمد بن حنبل، ج۱، ص۸۴، ۸۸، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۵۲، ۳۳۰، اور جلد ۴، ص۲۸۱، ۳۶۸، ۳۷۰، ۳۷۲، نیز ج۵، ۳۰۷، ۳۴۷، ۳۵۰، ۳۵۸، ۳۶۱، ۳۶۶، ۴۱۹، ۵۶۸؛ مستدرك الصحیحین، ج۲، ص۱۲۹، ج۳، ص۹؛ ریاض النضرة، ج۲، ص۲۲۲ تا ۲۲۵؛ تاریخ بغداد، ج۷، ص۳۷۷، ج۸، ص۲۹۰، ج۱۲، ص۳۴۳؛ نیز یہ حدیث دوسری بھت سی كتابوں میں موجود ھے۔
 

http://shiastudies.com/ur/453/%d9%83%db%8c%d9%88%da%ba-%d8%b4%db%8c%d8%b9%db%81-%d8%a7%d8%b5%d8%ad%d8%a7%d8%a8-%d9%be%db%8c%d8%ba%d9%85%d8%a8%d8%b1%d9%83%d8%a7-%d8%a7%d8%ad%d8%aa%d8%b1%d8%a7%d9%85-%d9%86%da%be%db%8c%da%ba-%d9%83/

تبصرے
Loading...