قرآن مجید کے کونسے سوره میں آیا هے که ” اعوذ با لله منالشیطان الرجیم” کو” بسم الله الرحمن الرحیم” سے پهلے پڑھنا چاهئے ؟

اسلام میں هر چیز کے لئے ، خاص کر قرآن مجید جیسى عظیم کتاب سے استفاده کرنے کے لئے خود قرآن مجید میں اس کى تلاوت اور اس کى آیات سے استفاده کرنے کے لئے کچھـ آداب و شرئط بیان کئے هیں جو حسب ذیل هیں :1ـ قرآن مجید کے خطوط کوباطهارت اور با وضو چھونا چاهئےـ قرآن مجید اس سلسله میں ارشاد فرماتا هے;” اس کو پاک و پاکیزه افراد کے علاوه کوئى چھو بھى نهیں سکتا هے” [1]یه تعبیر، ممکن هے که ظاهری پاکیزگی کی طرف اشراه هو، اور ممکن هے اس مطلب کی طرف بھی اشاره هو که ان آیات کے مطالب اور محتویٰ کو سمجھنا صرف ان لوگوں کے لئے ممکن هے که جو اخلاقی برائیوں سے پاک و منزه هوںیعنى، انسان کو ان برے صفات سے پاک هونا چاهئے جو اس کی حقیقت بین آنکھوں پر پرده ڈالتی هیں تا که جمال حق اور قرآن مجید کے حقائق کا مشاهده کرنے سے محروم نه هو جائے ـ2ـ قرآن مجید کی ” ترتیل” کی صورت میں تلاوت کی جانی چاهئے، یعنی رک، رک کر اور غور و فکر کے ساتھـ ـ [2]3ـ قرآن مجید کی تلاوت کو شروع کرتے وقت شیطان رجیم سے خداوند متعال کی پناه مانگنی چاهئے، چنانچه هم نے مذکوره آیات میں پڑھا هے که: ” لهذا جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان رجیم کے مقابله کے لئے الله سے پناه طلب کریں[3] ـایک روایت میں ملتا هے که امام صادق علیه السلام نے اس سوال کے جواب میں که هم کیسے اس حکم پر عمل کریں گے؟ او رکیسے کهیں؟ فرمایا که یوں کهو: ” استعیذ بالسمیع العلیم من الشیطان الرجیم”ایک دوسری روایت میں پڑھتے هیں که امام (ع) نے سوره حمد کی تلاوت کے دوران فرمایا: ” اعوذ بالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم و اعوذ بالله ان یحضرون” یعنی: ” میں شیطان رجیم سے خداوند شنوا و دانا کی پناه طلب کرتا هوں اور میرے پاس حاضر هو جانے سے اس کی پناه چاهتا هوں”لیکن یه که قرآن مجید کی تلاوت کے دوران، اعوذ بالله من الشیطان الرجیم” کو ” بسم الله الرحمن الرحیم” سے پهلے پڑھنا اس وجه سے هے که بسم الله الرحمن الرحیم ، قرآن مجید کا جزو هے، اسلئے متن قرآن میں داخل هونے سے پهلے اعوذ بالله کو پڑھنا چاهئے ـاس کے علاوه ایک روایت میں آیا هے که جبریل امین (ع) نے جو پهلى چیز پیغمبر اکرم صلی الله کو قرآن مجید کے بارے میں بتائے وه یه تھی: اے محمد! کهدو: استعیذ بالسمیع العلیم من الشیطان الرجیم اس کے بعد کهدو: “بسم الله الرحمن الرحیم * اقرا باسم ربک الذی خلق[4] “البته یه چناه چاهنا صرف لفظ وبات تک محدود نهیں هونا چاهئے بلکه انسان کی روح و جان کی گهرائیوں میں اثر کرنا چاهئے، اس طرح که انسان قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت شیطان صفتون سے دور رهے اور الٰهی صفتوں کے نزدیک هو جائے تا که کلام حق کو سمجھنے کی راه میں موجود موانع اس کى فکرسے دور هوجائیں اور حقیقت کے دل ربا جمال کو صحیح طور پر دیکھـ سکے ـ [5]اس بناپر قرآن مجید کی تلاوت کے آغاز پر شیطان سے خدا کى طرف پناه چاهنا ضرورى هے اور پورى تلاوت کے دوران یه حالت جاری رهنى چاهئے، اگر چه زبان پر نه هو ـ[1]  واقعه 79، لا یمسه الا المطهرون[2]  مزمل، 4، و رتل القرآن ترتیلا[3]  نحل 98، فاذا قرات القرآن فاستعذ بالله من الشیطان الرجیم[4]  مستدرک الوسائل ج 4، ص 265ـ4 الشیخ ابو الفتوح الرازی فی تفسیره عن عبدالله ابن عباس قال انه نزلت او اول ما قاله جبریل لرسول الله ص فی امر القرآن ان قال له یا محمد قل استعیذ یالسمیع العلیم من الشیطان الرجیم ثم قال بسم الله الرحمن الرحیم اقرا باسم ربک الذی خلق[5]  تفسیر نمونه، ج 11، ص: 401 و 402

تبصرے
Loading...