عورت کی میراث کس صورت میں مرد کی برابر هوتی هے ؟

عام طور سے دو صورتوں میں مر اور عورت ترکه میں برابر هیں :

الف : ماں باپ بچے کے ترکه میں برابر هیں [1] سوائے چند صورتوں میں :

1. اگر میت کے وارث فقط ماں باپ هوں تو ترکه تین حصوں میں تقسیم هوگا ، دوحصه باپ کو ملے گا ، ایک حصه ماں کو ملے گا لیکن اگر میت کے دو بھائی یا چار بهنیں ، یا ایک بھائی اور دو بهنیں هوں جو سب کے سب باپ کی طرف سے هوں یعنی ان کا باپ اور میت کا باپ ایک هی هو، چاهے ان کی ماں ایک هو یا نه هو اور اگر میت کے ماں باپ زنده هوں توان ( بھائی بهنوں ) کو ترکه نهیں ملے گا لیکن ان کے هوتے هوئے میت کی ماں کو چھٹا حصه ملے گا اور باقی باپ کو دیا جایئگا [2] ۔

2. اگر میت کے وارث صرف ماں باپ اور ایک بیٹی هوں ، اور میت کے دو بھائی یا چار بهن یا ایک بھائی اور دو بهن باپ کی طرف سے هوں تو ترکه کو چھه حصوں میں تقسیم کریں گے ۔ ماں باپ کو ایک ایک حصه ملے گا اور بیٹی کو تین حصه ملے گا باقی ایک حصه کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصه باپ کو دیں گے اور تین حصه بیٹی کو دیا جائے گا مثال کے طور پر اگر میت کے ترکه کو 24 حصوں میں تقسیم کریں گے تو 15 حصه بیٹی کو ملے گا 5 حصه باپ کو اور 4 حصه ماں کو ملے گا [3] ۔

ب: اگر مرد اور عورت میت کے نانهالی رشته دار هوں تو دونوں برابر سے میراث پائیں گے اور اس کے بهت سے مصداق هیں منجمله :

1. ماں کی طرف سے بھائی ، بهن [4]

2. ماں کی طرف سے بھائی اور بهن کے بچے[5]

3. ماں کی طرف سے چچا اور پھوپھی[6]

4. ماموں اور خاله (باپ یا ماں کی طرف سے یا دونوں کی طرف سے ) [7]

البته آخری دو صورتوں (تین یا چار) میں احتیاط واجب یه هے که ترکه کی تقسیم کے سلسله میں آپس میں صلح کر لیں [8]

لیکن آپ کا یه سوال که جس معاشرے میں زیاده تر عورتیں کام کاج کرتی هیں کیا وهاں مرد اور عورت کی میراث برابر هے ؟ یه سوال مبهم هے

اگر آپ کا مقصد یه هے که معاشرے میں عورتیں زیاده تر کام کاج کرتی هیں اور مستقل طور پر کمائی کرتی هیں گھر والوں کا خرچ بھی ان کے ذمه نهیں هے وه کس طرح ترکه میں مرد کے برابر حصه لیں گی ؟

اس کا جواب یه هے که اوّلاً : مساوات کے موارد بهت کم هیں اور بهت هی کم ایسا اتفاق هوتا هے ۔

دوسرے : بعض موارد میں مرد اور عورت کی میراث برابر هونا الام کے ضعف یا کمتری کی علامت نهیں هے بلکه یه خود دین کے کامل هونے کی نشانی هے جس کے نتیجه میں عورتیں اپنے بنیادی کردار جو که بچوں کی تربیت هے ، کی ادائگی میں بڑھ چڑھ کر حصه لیں ۔

اور اگر سوال کا مقصد یه هے که عورتوں کی حیثیت مرد کے برابر هے اور وه بھی گھر میں کمانے والی شمار هوتی هیں اور ان کا فقدان پورے گھر پر کاری ضرب هے پھر بھی کیا وه مردوں کے برابر میراث نهیں پایئں گی ؟

اس کے جواب میں کهنا پڑے گا که : اسلام کی نظر میں اخلاقی اور مذهبی پهلو کی رعایت کرتے هوئے عورتوں کا گھر سے باهر کام کرنا هر چند منع نهیں هے لیکن اسلام نے معاشرے کے بنیادی اور اهم مسائل کی خاطر گھر کے اندر کام کرنے اور گھر کے اندر کی مشکلوں کو حل کرنے کے سلسله میں عورتوں کی تشویق کی هے [9] اور عورتوں کے جذبات و نفسیات سے یهی سازگار بھی هے اور مستقبل میں معاشرے کی ترقی اور بهتری بھی اسی میں هے ۔

کل کی دنیا انھیں لوگوں سے هے جو آج بچے هیں اور ماں کی آغوش میں پروان چڑھ رهے هیں حقیقت میں معاشرے میں عورتوں کا کردار بنیادی کردار هے یعنی معاشرے کی بنیادیں عورتوں کے ذریعه ڈالی جاتی هیں ، اسی اهم کردار کی ادائگی کی خاطر ان سے گھر کے باهر کی ذمه داری کا مطالبه نهیں کیا گیا هے اور اسی وجه سے گھر کا خرچ مردوں کے ذمه هے فطری بات هے که ایسے میں مرد کی میراث زیاده هوگا [10] ۔

نتیجه یه که اگر اسلام کے مختلف احکام اور متعدد قوانین کو ایک دوسرے کے ساتھ دیکھا جائے تو همیں یه معلوم هوجائے گا که اگر عورت کی میراث مرد کے نصف قرار دی گئی هے یا کچھ جگهوں پر مساوی هے تو یه سب کچھ حکمت کی بنیاد هر هے ۔

اگر اسلامی نظام میں عورت کی میراث نصف هے تو گھر کے خرچ کی ذمه داری بھی اس پر نهیں هے اور اگر کهیں برابر قرار دی هے تو کسی دوسری وجه سے هے جیسے مادری کردار کے ادا کرنے میں عورتوں کی دل جوئی کرنا و غیره ۔

بهر حال اب تک جو کچھ بھی بیان کیا گیا هے وه حکمت کی حد میں هے نه که علت و سبب یعنی ایسا نهیں هے که عورت کی میراث مرد کے برابر نه هونے کا سبب فقط مرد کی جانب سے گھر کا خرچ فراهم کرنا هو ، شاید اس طریقه کار کے تبدیل هونے کی صورت میں حکم بھی بدل جائے اور عورت کی میراث مرد کے برابر هو جائے ۔



[1]  توضیح المسائل مراجع ، ج 2 ، مسائل 2734 ۔2735 ۔ 2736 ۔2737 ۔ 2738

[2]  همان ، م 2732 ۔

[3]  همان ، م 2733 ۔

[4]  همان ، م 2743 ۔ 2744 ۔ 2745

[5]  همان ، م 2749

[6]  همان ، م 2757

[7]  همان ، م 2759

[8]  همان ، م 2757 ۔2759

[9]  نمونه کے طور پر اس تاریخی واقعه کو ملاحظه فرمایئے : جب رسول خدا صل الله علیه و آله وسلم نے حضرت علی علیه السلام اور حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها کے گھر کے کام کو تقسیم کیا تو فرمایا : گھر کا کام زهرا سلام الله علیها کے ذمه هے اور گھر سے باهر کے امور علی کے ذمه هیں تو حضرت فاطمه نے فرمایا : خدا کے سوا کسی کو نهیں معلوم که اس طرح کام تقسیم کئے جانے سے میں کس قدر مسرور و خوش هوں ، بحار الانوار ، ج 34 ، ص 31-81 ؛ وسائل الشیعه ، ج 14 ، ص 123 ؛ تفسیر البرهان ، ج 1 ، ص 282 ۔

[10]  مزید معلومات کے لئے دیکھئے : سوال نمبر 116 ، اسلامی فقه میں مرد اور عورت کی میراث میں فرق ( سائٹ : 2207 )

تبصرے
Loading...