عقد ام کلثوم کا افسانہ

عقد ام کلثوم کا افسانہ

عقد ام کلثوم کا افسانہاس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ جس قوم کی تاریخ صدیوں بعد لکھی جائے گی اس میں غلط واقعات، فرسودہ عقائد اور مہمل باتیں زر خرید راویوں کے حافظے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتے ہوتے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، کیونکہ ان حالات میں اکثر اصل واقعات نسخ ہو جاتے ہیں ، بلکہ اہل قلم کے کردار اور قلم کی رفتار پر وقتی مصلحتوں کی حکو مت ہوتی ہے، جس کی بنا پر ایسے ایسے افراد بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ،جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے مثلاً آپ علامہ جلال الدین سیوطی کو ہی لے لیجئے ، آپ کا علمائے اہل سنت کے محققین میں شمار ہوتا ہے، آپ نے نت نئے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ، لیکن جب بیسویں حدیث کہ جس میں حضرت عمر کی بنت علی ـ سے شادی کاتذکرہ ہواہے، نقل کیا ،تو بغیر کسی تنقید و تبصرہ کئے گزر گئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو قبول کرتے تھے ، جبکہ آپ نے اس رسالہ کو اہل بیت(ع) کے فضائل و مناقب میں لکھا ہے،لیکن اس بات سے غافل رہے ہیں کہ اس روایت سے خاندان رسالتمآب کی توہین ہوتی ہے ، چنانچہ اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے اسے رد فرمایا ہے، جیسے امام بیہقی ، دار قطنی اور ابن حجرمکی اپنی کتابوںمیں کہتے ہیں : یہ واقعہ غلط ہے ، کیونکہ حضرت علی نے اپنی صاحبزادیوں کو اپنے بھتیجوں سے منسوب کر رکھا تھا ، چنانچہ جب حضرت عمر ام کلثوم سے رشتہ لے کر گئے تو آپ نے کہا: ا ن کا رشتہ میں اپنے بھیتجوں سے طے کر چکا ہوں،یا امام ابن ماجہ اور ابن دائود کہتے ہیں: ام کلثوم دو تھیں ، ام کلثوم بنت راہب اور ام کلثوم بنت علی ان کی شادی محمد ابن جعفر طیار سے ہوئی ، اور ام کلثوم بنت راہب کے بارے میں تاریخ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ عمر کی زوجیت میں تھیں ۔ بہر کیف قارئین کی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس مسئلہ پر اختصار کے طور پر یہاں روشنی ڈالتے ہیں تاکہ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ علامہ جلال الدین سیوطی کی ذکر کردہ روایت کذب پر محمول ہے ،اورعلامہ اس سلسلے میں ایک بے سروپا افواہ کے شکار ہوئے ہیں : جناب ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب ـ کی عمر ابن خطاب سے شادی کا ہونا یا پھر خلیفہ کی منگنی ہونا، اس سلسلہ میں متعدد اقوال پائے جاتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے : ١۔ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی صاحبزادی نہیں تھیں بلکہ یہ ام کلثوم وہ ہیں جن کی حضرت نے پرورش کی تھی ۔٢۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شادی انجام کونہیں پہونچی تھی بلکہ عمر نے صرف شادی کرنے کی خواہش کی تھی جسے حضرت علی نے قبول نہیں کیا ۔ ٣۔ بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ عقد نکاح باقاعدہ ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی جس کی بنا پر عمر نا مراد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ۔ ٤۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے راضی و خوشی کے ساتھ ام کلثوم کی شادی خلیفہ سے کردی تھی اوررخصتی بھی ہوگئی تھی ۔ ٥ ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ـ نے خلیفہ کے جبر و اکرا ہ کی بناپر ام کلثوم کی شادی عمرکے ساتھ کر دی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اقوال ہیں جو آیندہ مباحث کے ضمن میں آئیں گے۔بعض اہل سنت بحث امامت میں اس واقعہ سے استدلال پیش کرتے ہیں کہ جناب ام کلثوم کی خلیفہ سے شادی ہونا اس با ت کو ظاہر کرتی ہے کہ امام علی ـ اور خلیفہ کے درمیا ن روابط بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور آپس میں کوئی رنجش نہیں تھی،بلکہ حضرت علی ـ حضر ت عمر کی خلافت کی تائید کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے عمر سے اپنی لڑکی بیاہ دی ، چنانچہ باقلانی نے اس واقعہ سے اسی بات کا استدلال کیا ہے !مذکورہ واقعہ سے متعلق روایاتجن وجوہات جن کی بناپر یہ مسئلہ پیچید ہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا وہ یہ ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت دونوں نے اس واقعہ کو اپنی حدیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ، البتہ اس واقعہ کو اہل سنت نے تفصیل اور بڑی شدو مدکے ساتھ نقل کیا ہے ،لیکن شیعوں نے اس کو یا تومجمل او رضعیف یا پھر اہل سنت سے حکایت یا الزام خصم کے طور پر نقل کیا ہے،جس سے بعض نا فہم اہل سنت کا دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوتا ،بہر حال ہم یہاں ان روایات کو نقل کرکے جن میں اس مسئلہ کا بیان ہوا ہے تحقیق کرتے ہیں:١ ۔ ابن سعد کہتے ہیں : عمر ابن خطاب نے ام کلثوم بنت علی ـ سے اس وقت شادی کی جبکہ ابھی وہ بالغ بھی نہیں ہوئی تھیں ،اور شادی کے بعد وہ عمر کے پاس ہی تھیں کہ عمر کا قتل ہوگیا ، اور آپ کے بطن سے دو بچے زید اور رقیہ نام کے پیدا ہوئے ۔ (١)٢۔ حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: عمر ابن خطاب ام کلثوم بنت علی سے شادی کرنے کی غرض سے حضرت علی ـ کے پاس آئے ، اور اپنی خواہش کو حضرت کے سامنے پیش کیا ،حضرت علی ـ نے کہا : میں نے اس کواپنے بھتیجے عبد اﷲ ابن جعفر سے منسوب کیا ہوا ہے ، عمر نے کہا :آپ کو اس کی شادی میرے ساتھ ہی کرنا ہوگی، چنانچہ حضرت علی ـ نے جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی ، اس کے بعد عمر مہاجرین کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم لوگ مجھے مبارک باد کیوںنہیں پیش کرتے ؟ سب نے پوچھا :کس بات کی مبارک بادی ؟ کہنے لگے : اس لئے کہ میں نے علی و فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم سے شادی کی ہے ،اور میں نے رسول ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔ (2)٣۔ بیہقی اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: حضرت عمرسے جب جناب ام کلثوم سے نکاح ہوگیا تو عمر مہاجرین کے پاس آ کر اپنے لئے تبریک کے طالب ہوئے اس لئے کہ انھوں نے سن رکھا تھا کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا ہے: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول ۖ کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔ (3) اس واقعہ کو اہل سنت کے دیگر مؤرخین نے بھی اپنی کتابوںمیں لکھا ہے جیسے خطیب بغدادی ، ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ابن حجر عسقلانی۔(4)تمام روایتوں کی جانچ پڑتال ١) امام بخاری او رمسلم نے اپنی مشہور اور مہم کتابوں میں ان روایتوں کے ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے ، چنانچہ بہت سی روایات ایسی ہیں جنھیں ان کتابوں میں نقل نہ ہونے کی وجہ سے ضعیفقرار دیا گیاہے، لہٰذا اہل سنت کو ان روایات پر بھی غور کرنا ہوگا ۔ ٢) جس طرح یہ حدیثیں صحاح ستہ میں نقل نہیں کی گئی ہیں ، اسی طرح یہ روایتیں اہل سنت کی دیگر مشہور کتابوں میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں جیسے مسند احمد بن حنبل ۔ ہر روایت کی جدا جدا سند کے لحا ظ سے چھان بینحاکم نیشاپوری نے اس واقعہ کو صحیح جانا ہے ، لیکن ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس کی سند کو منقطع قرار دیا ہے ، اسی طرح بیہقی نے اس کو مرسل کہا ہے ،نیز بیہقی نے دوسری سندوں کے ساتھ بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن یہ سب سندیں ضعیف ہیں ۔ابن سعد نے بھی”الطبقات الکبری ” میں اس کی سند کو مرسل نقل کیا ہے ، اور ابن حجر نے اصابہ میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم ہے ، لیکن اہل سنت کے اکثر علمائے رجال نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔(5)اسی طرح اس سند میں عبد اﷲ بن وہب ہے جس کی تضعیف کی گئی ہے ۔ (6) ابن حجر کہتے ہیں:یہ روایت دوسری سند کے ساتھ بھی نقل کی گئی ہے حس میں عطا خراسانی ہے لیکن اس کو امام بخاری اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (7)خطیب بغدادی نے دوسری روایت جس سند کے ساتھ نقل کی ہے اس میں احمد بن حسین صوفی ، عقبہ بن عامر جہنی اور ابراہیم بن مہران مروزی نظر آتے ہیں ان میں سے پہلے راوی کیلئے صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یہ ضعیف ہے ، اور دوسرا راوی معاویہ کے لشکریوں میں سے تھا، اور تیسرا مہمل ہے ، اس تفصیل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان روایتوں میں سے کوئی بھی روایت معتبر سند نہیں رکھتی ۔
متون احادیث کی تفتیش مختلف احادیث کے متون ملاحظہ کرنے کے بعد قابل اعتراض چند باتیں ظاہر ہوتی ہیں : ١۔ڈرانا اور دھمکانا بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خواستگاری تہدید کے ساتھ تھی ۔ ابن سعد نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے عمر کے جواب میں فرمایا وہ ایک چھوٹی لڑکی ہے ، لیکن عمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم آپ کو حق نہیں کہ مجھے اس کام سے روکیں ، میں اس کو جانتا ہوں کیوں نہیں تم اس کومیرے نکاح میں لاتے ؟ (8)ابن مغازلی عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عمر نے کہا: قسم خدا کی مجھے اس شادی کے اصرار پرکسی نے مجبور نہیں کیا مگر اس بنا پر کہ میں نے رسول ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا…۔(9)اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام نے بہت زیادہ اصرار کرنے پرا س کام کو مجبوراً انجام دیا ۔ ٢۔ متن حدیث میں اضطراب و تزلزل عقد ام کلثوم کے بارے میں جتنی روایتیں نقل کی گئی ہیں وہ اپنے متن اورمضمون کے لحاظ سے مضطرب و متزلزل نظر آتی ہیں ، اور یہ اضطراب و تزلزل ایسا ہے جو ان کو حجت اورمعتبر ہونے سے ساقط کررہا ہے ، مثلاً بعض روایتوں میں اس طرح وارد ہوا ہے: حضرت علی ـ خود اس عقد نکاح کے متولی تھے اور بعض میں آیا ہے کہ اس عقد کی ذمہ داری عباس کی حوالے تھی، اسی طرح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ یہ عقد ڈرا اور دھمکا کے کیا گیا ، بعض میں ہے کہ امیر المومنین اس پر راضی تھے ، اسی طرح بعض روایتوں میں ہے کہ عمر ان سے بچہ دار بھی ہوئے، ان میں سے ایک بچہ کا نام زید تھا، بعض کہتے ہیں کہ عمر مباشرت کرنے سے پہلے ہی مر گئے تھے ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ زید بن عمر نے اپنے بعد اپنی نسل بھی چھوڑی ، بعض روایتوں میں آیا ے کہ زید بن عمر نے کوئی نسل نہیں چھوڑی ، بعض کہتے ہیں کہ زید اور ان کی ماں ماردئے گئے تھے ، بعض میں ہے کہ زید کے مرنے کے بعد ان کی ماں زندہ تھیں ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ عمر نے اس شادی میں چالیس ہزار درہم مہررکھا تھا ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چار ہزار درہم تھا …… ۔!!اس کثرت سے روایتوں میں اختلاف کا پایا جانا ان کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ٣۔حضرت ام کلثوم اور عمر کے سن میں تناسب نہیں تھا فقہاء حضرات بحث نکاح میں زوجین کا آپس میں کفو ہونا شرط جانتے ہیں چنانچہ اس چیز کو مد نظررکھتے ہوئے عمر اور ام کلثوم کے سن میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے ، کیونکہ ٩ ھ میںجناب ام کلثوم پیدا ہوئیں، اس طرح ان کی عمر ١٧ ہجری میں آٹھ یا نو برس ہوتی ہے جبکہ حضرت عمر اس وقت ستاون سال کے ہو رہے تھے، چنانچہ ابن سعد کہتے ہیں : علی ـ نے عمر سے کہا میری لڑکی ابھی صغیرہ ہے ، (بعض روایتوں میں صبیہ کی لفظ آئی ہے ، جس کے معنی وہ بچی جو بہت چھوٹی ہو) (10)کیا حضرت علی ـ کو ام کلثوم کیلئے کوئی رشتہ دستیاب نہیں ہورہا تھا کہ ستاون سال کے بڈھے سے کردیا ؟! ٤۔ یہ ام کلثوم حضرت ابوبکر کی بیٹی تھی بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی ایک لڑکی کا نام ام کلثوم تھا عمر نے اس سے شادی کرنے کی درخواست کی تھی جسے قبول کرلیا گیا تھا ، چونکہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی بچی کا نام بھی تھا لہٰذا نام کی مشابہ ہونے کی وجہ سے بعض نافہم لوگوں نے اسے ام کلثوم بنت علی کی طرف منسوب کردیا ، چنانچہ ابن قتیبہ معارف میں لکھتے ہیں : جب عمر ام کلثوم بنت ا بی بکر سے شادی کرنے کی درخواست عائشہ کی پاس لے کر گئے تو عائشہ نے اسے قبول کرلیا،لیکن ام کلثوم عمر کو پسند نہیں کرتی تھیں۔(11)حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عائشہ اورحضرت عمر کے درمیان وسیع تعلقات کا قائم ہونااس احتمال کے قوی ہونے پر مزید دلالت کرتا ہے۔ عمر ی موصلی اور عمر رضا کحالہ نے بھی اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔(12) ٥۔ جرول کی بیٹی ام کلثوم بعض مؤرخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی جانا ہے ، لہٰذا اسم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ام کلثوم بنت علی لکھ دیا گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہیں : زید اصغر اور عبیداﷲ(جو جنگ صفین میں معاویہ کے ساتھ مارے گئے) کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسلام نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ (13)اکثر مؤرخین ام کلثوم بنت جرول اور عمر کے درمیان شادی زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔(14) ٦۔ام کلثوم بنت عقبہ ابن معیط بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔ ٧۔ ام کلثوم بنت عاصم بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عاصم تھی ۔ ٨۔ام کلثوم بنت راہبامام ابن ماجہ اور ابن دائود کے قو ل کے مطابق عمر کی شادی انھیں سے ہوئی تھی۔ ٩۔عقد ام کلثوم شرعی معیارسے منافات رکھتاہےعقد ام کلثوم سے متعلق روایات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یا عمر شرعی مسائل سے بے خبر تھے یا پھر یہ واقعہ ہی جعلی اور گڑھا ہوا ہے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ قبل اس کے کہ عمرحضرت علی ـ سے ام کلثوم سے شادی کی درخواست کرتے حضرت نے ام کلثوم سے کہا : جاؤ اپنی زینت کرو اور خوب سج دھج کر آؤ ، جب وہ اپنا سنگار کرکے آئیں تو آپ نے ان کوعمر کے پاس بھیج دیا جب عمر نے ان کو دیکھا تو ان کی طرف لپکے اور اپنے ہاتھوں سے ان کی پنڈلیاں کھول دیں! اور کہنے لگے : اپنے بابا سے کہو میں راضی ہوں ، جب ام کلثوم حضرت علی ـ کے پاس آئیں توآپ نے کہا: عمر نے کیا کہا؟ کہنے لگیں : جب عمر نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف بلایا، اور جب میں ان کے نزدیک گئی تو میرے بوسے لینے لگے اور جب کھڑی ہوگئی تو میری پنڈلیا ں پکڑ لیں !لا حول ولا قوة الا باﷲ ،اگر اس روایت کی تنقید کرنا مقصود نہ ہوتی تو ہم ہرگز ایسی رکیک اور توہین آمیز روایت نقل نہ کرتے، یہ واقعہ حضرت امیر المومنین ـ کی غیرت سے بالکل سازگاری نہیں رکھتا ، حضرت علی شادی سے پہلے کیسے اپنی لڑکی کا ہاتھ ایسے شخص کے حوالے کردیں گے جو شرعی حدود کی رعایت کرناجانتا ہی نہ ہو،اسی وجہ سے سبط ابن جوزی اس واقعہ کو اپنے جد صاحب”المنتظم” سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : یہ واقعہ بہت قبیح ہے ،اگرچہ میرے جد اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے شادی سے پہلے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھ لیں لیکن عمر نے اس کو دیکھا تو اسکی شلوار کو اٹھاکر اس کی پنڈلیاں ہاتھوں سے مس کرنے لگے ، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ام کلثوم کے علاوہ کوئی کنیز بھی ہوتی تب بھی خدا کی قسم یہ عمل قبیح اور خلاف شرع تھا ،کیونکہ تمام مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ غیر محرم عورت کامس کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ، اور وہ بھی عمر ایسا کام کریں !!(15)بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب ام کلثوم نے یہ کام کرتے دیکھا تو بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں :اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو میں تیری ناک توڑ دیتی، اس وقت خلیفہ کے گھر سے باہر نکلیں اور اپنے باپ کے پاس آگئیں ، اور سارا ماجرہ بیان کیا اور کہنے لگیں: اے بابا جان آپ نے کس پست اور بد تمیز بڈھے کے پاس بھیج دیا تھا؟(16) ١٠۔ یہ ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا نہیں اہل سنت والجماعت اس بات پر شدت سے اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خدا ۖسے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دو لڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(17) ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔ (18)نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(19)
نتیجہ: اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے: ١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولۖ کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولۖ نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیںکہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرقتھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولۖ کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟! ٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمۖ کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔ ٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔ 7)حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

(١)طبقات ابن سعد ج٨ ، ص ٤٦٢.(2) مستدرک حاکم جلد ٣ ، ص ١٤٢ . (3)بیہقی ؛ سنن کبری جلد ٧، ص ٦٣۔ (4)تاریخ بغداد ، جلد ٦، ص ١٨٢۔ الاستیعاب ج ٤،ص ١٩٥٤۔ اسد الغابة جلد٥،ص ٦١٤۔ الاصابة جلد ٤، ص٤٩٢۔ (5) عقیلی ؛ الضعفاء ج ٢، ص ٣٣١ ۔ ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج ٧، ص ١٥٨١۔(6) ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج٥، ص٣٣٧۔(7)الکامل ج ٧ ، ص ٦٩ ۔ (8)طبقات ابن سعد ج ٨، ص ٤٦٤ ۔(9)مناقب امام علی ص ١١٠۔(10)طبقات ابن سعد ج ٦ ،ص ٣١٢ ۔ (11)ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ١٧٥۔(12)عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص ٣٠٣۔ عمر رضا کحا لہ؛ اعلام النساء ج ٤ ،ص ٢٥٠۔ (13)تاریخ طبری ج ٣، ص ٢٦٩، کامل ابن اثیر ج ٣، ص ٢٨۔(14)الاعصابہ ج ٤، ص ٤٩١۔ صفوة الصفوة ص ١١٦۔ تاریخ المدینہ المنورة ج٢، ص ٦٥٩۔ (15)سبط ابن جوزی ؛ تذکرة الخواص ، ص ٢٨٨ ۔(16)اسد الغابة ج ٥، ص ٦١٤ ۔ الاصابة ج ٤، ص ٤٩٢ ۔ ذ ہبی؛تاریخ الاسلام ج ٤ ،ص ١٣٨ ۔ (17)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔ (18)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔ (19)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔
 
 

http://shiastudies.com/ur/739/%d8%b9%d9%82%d8%af-%d8%a7%d9%85-%da%a9%d9%84%d8%ab%d9%88%d9%85-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d9%81%d8%b3%d8%a7%d9%86%db%81/

تبصرے
Loading...