عقد ام کلثوم سے مربوط ایک شبہ اور اسکا ازالہ

عقد ام کلثوم سے مربوط ایک شبہ اور اسکا ازالہ

“یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہاامام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں “(تحریر الشہادتین ص 77 مطبوعہ لکھنو)۔پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی “مدینہ جدنا” کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر “معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔
ترقی پر تنزلی کا شوقحضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔
اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور “باپ” ہوتے ہوئے اسی کا “نواسہ”بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرتعمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔
عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ 3 ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کیشادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ 2 ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔”بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں “(پ 1 بقرہ)اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔
 

http://shiastudies.com/ur/2132/%d8%b9%d9%82%d8%af-%d8%a7%d9%85-%da%a9%d9%84%d8%ab%d9%88%d9%85-%d8%b3%db%92-%d9%85%d8%b1%d8%a8%d9%88%d8%b7-%d8%a7%db%8c%da%a9-%d8%b4%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3%da%a9%d8%a7-%d8%a7/

تبصرے
Loading...