”عشرہ مبشرہ “کے سلسلہ میں ایک مناظرہ

”عشرہ مبشرہ “کے سلسلہ میں ایک مناظرہ

”عشرہ مبشرہ “کے سلسلہ میں ایک مناظرہ

اہل سنت کے میں احمد اپنی کتاب مسند (ج۱ ، ص۱۹۳)میں اپنی سند کے ساتھ عبد الرحمن بن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”ابو بکر فی الجنة وعمر فی الجنة وعلی فی الجنة۔۔۔الخ“۔
”ابو بکر ،عمر ،علی ،عثمان ،طلحہ ،وزبیر،عبد الرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص،سعید بن زید ابو عبیدہ جراح“۔
اہل سنت حضرات اس گڑھی ہوئی حدیث کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان دس آدمیوں کے نام ”عشرہ مبشرہ“کے عنوان سے تختیوں پر کندہ کر کے مقدس، مقامات جیسے مسجد نبوی وغیرہ میں نصب کرتے ہیں۔یہ اتنی مشہور بات ہے جس کے متعلق تقریبا ًسبھی کو علم ہے اسی سلسلہ میں ذیل کے مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں:
ایک شیعہ عالم دین کہتے ہیں: ”ایک روز میں کسی کام سے مدینہ میں نہی عن المنکر کے ادارہ میں گیا تو وہاں موجود اس کے سر پرست سے میری بات چیت ہونے لگی جو آخر کا عشرہ مبشرہ تک جا پہنچی“۔
میں نے کہا: ”میں تم سے ایک سوال کر نا چاہتا ہوں“۔
سر پرست: ”پوچھو“۔
میں: ”یہ کس طرح جائز ہے کہ ایک جنتی دوسرے جنتی سے جنگ کرے طلحہ اور زبیر عائشہ کے پر چم تلے بصرہ آکر حضرت علی علیہ السلام سے جنگ لڑیں جب کہ یہ لوگ جنتی تھے اور یہ جنگ جمل بہت سے لوگوں کے قتل کا سبب بنی اور قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”وَ مَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا“
”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس کی جزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا“۔
اس آیت کے پیش نظر جو لوگ بھی جنگ جمل میں لوگوں کے قتل کا سبب بنے ہیں انھیں جہنمی ہونا چاہئے اور اب یہ چاہے علی علیہ السلام ہوں یا طلحہ وزبیر ہوں لہٰذا اس جنگ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ حدیث صحیح معلوم نہیں ہوتی۔
سر پرست: ”اس جنگ میں شرکت کرنے والے وہ افراد جن کا تم نے نام لیا ہے مجتہد تھے انھوں نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ کام انجا م دیا ہے لہٰذا وہ گنہگار نہیں ہوں گے“۔
شیعہ عالم: ”نص کے مقابلہ میں اجتہاد جائز نہیں ہے کیا تمام کے تمام مسلمانوں نے یہ نقل نہیں کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:
”یا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔
”اے علی !تمہاری جنگ میری جنگ ہے اور تمہاری صلح میری صلح“۔
اور اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
”من اطاع علیاً فقد اطاعنی ومن عصا علیا ً فقد عصانی ۔“
”جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی“۔
اور اسی طرح آپ نے فرمایا:
”علی مع الحق والحق مع علی ،یدور الحق معہ حیثما دار“۔
”علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے حق ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وہ جیسے بھی چلیں“۔
اس بنا پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسمائے مذکورہ میں ایک طرف حق ہے اور وہ علی علیہ السلام کی ذات ہے اور حدیث ”عشرہ مبشرہ “محض جھوٹ ہے کیونکہ باطل کے طرفداروں کو جنت نصیب نہیں ہو سکتی۔
دوسری بات یہ کہ عبد الرحمن بن عوف خود اس حدیث کا راوی ہے جو خود ان دس جنتی افراد میںشامل ہے اور یہ وہی عبد الرحمن ہے جس نے عمر کی وفات کے بعد شوریٰ تشکیل ہونے کے دن علی علیہ السلام پر تلوار تان لی تھی اور ان سے کہا تھا: ”بیعت کرو ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا“، یہی وہ عبدالرحمن ہے جس نے عثمان کی مخالفت کی اور عثمان نے اسے منافق کہہ کر یاد کیا ، کیا یہ تمام چیزوں مذکورہ روایت سے مطابقت رکھتی ہیں؟ اور کیا عبد الرحمن ان دس افراد میں سے ہو سکتا ہے جنھیں جنت کی بشارت دی گئی ہو؟
کیا ابو بکر و عمر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جب کہ یہ دونوں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا سبب بنے ؟اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان سے آخری عمر تک ناراض رہیں ہوں؟
کیا عمر نے حضرت علی کو ابو بکر کی بیعت کے لئے رسی باندھ کر کھینچتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ بیعت کرو نہیں تو قتل کر دئے جاوٴگے؟
کیا طلحہ و زبیر عثمان کے قتل پر مصر نہ تھے ؟کیا یہ دونوں اس امام کی اطاعت سے خارج نہیں ہو گئے جس کی اطاعت واجب قرار دی گئی تھی؟کیا ان دونوں نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے مقابل تلوار نہیں چلائی ؟
اس کے علاوہ ان دس لوگوں میں صرف سعد بن وقاص نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ عثمان کو کس نے قتل کیا تو وہ جواب میں کہتا ہے۔”عثمان اس تلوار سے قتل کئے گئے جسے عائشہ نے غلاف سے باہر نکالا طلحہ نے اسے تیز کیا اور علی نے زہر میں بجھا یا تھا“۔
کیا آپس کی ان تمام مخالفت اور منافقت کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب لوگ جنتی ہیں؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔
اور خود یہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی مخدوش اور مردود ہے کیونکہ اس کی سند عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن وقاص میں سے کسی ایک پر تمام ہوئی ہے اور روایات میں عبد الرحمن کی سند کا سلسلہ بھی متصل نہیں ہے لہٰذا یہ اپنے اعتبار سے گر جاتی ہے اور سعید بن زید کے بارے میں یہ روایت معاویہ کے دور خلافت میں کوفہ میں نقل کی گئی ہے اور معاویہ کے دور سے پہلے کبھی کسی نے یہ حدیث نہیں سنی تھی جس کی بنا پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاویہ کا کارنامہ ہے۔

http://shiastudies.com/ur/256/%d8%b9%d8%b4%d8%b1%db%81-%d9%85%d8%a8%d8%b4%d8%b1%db%81-%da%a9%db%92-%d8%b3%d9%84%d8%b3%d9%84%db%81-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%db%8c%da%a9-%d9%85%d9%86%d8%a7%d8%b8%d8%b1%db%81/

تبصرے
Loading...