صحابہ اور صلح حدیبیہ

صحابہ اور صلح حدیبیہ

لیکن بعض اصحاب کو رسول خدا کا یہ اقدام ذرہ برابر آنکھوں نہ سبھایا اور انھوں نے بڑی شدت کے ساتھ مخالفت کی چنانچہ عمر بن خطاب نے رسول خدا کے پاس آتے ہی درشت لہجہ میں پوچھا ۔کیا تم نبی برحق نہیں ہو؟ آنحضرت نے فرمایا : ہوں عمر نے پھر کہا : کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ آنحضرت نے فرمایا : یہ بھی صحیح ہے عمر نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ایسی ذلت نہیں گوارا کرسکتے !آنحضرت نے کہا:- (سنو! ) میں خدا کا رسول ہوں میں خدا کی معصیت نہیں کرسکتا جب کہ وہی میرا مددگار ہے ۔عمر بولے :- کیا آپ ہم لوگوں سے نہیں کہا کرتے تھے کہ ہم عنقریب خانہ کعبہ جاکر اس کا طواف کریں گے ؟ رسول اللہ (ص) نےکہا:- لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال مکہ آکر طواف کریں گے ؟ عمر بولے نہیں یہ تو نہیں کہا تھا اس پر رسول خدا (ص) نے فرمایا :- تم یقینا آؤگے اور طواف کروگے !
اس کے بعد عمر ابو بکر کے پاس آئے اور کہا : اے ابوبکر کیا یہ شخص واقعی خدا کا رسول نہیں ہے ؟ ابو بکر نے کہا :-ہاں واقعی رسول ہیں ۔ پھر عمر نے وہی سوالات جو رسول خدا (ص) سے کئے تھے ابوبکر کے سامنے بھی دہرائے اورابو بکرنے وہی جوابات دیئے جو رسول (ص) نے دیئے تھے ۔پھر کہا:- اےشخص یہ خداکے رسول ہیں اور اپنے خدا کی معصیت نہیں کرسکتے اور خدا ان کا مددگار ہے ۔لہذا تم مضبوطی سے ان کا دامن پکڑ و جب رسول صلح کے معاہدہ سے فارغ ہوچکے تو اپنے اصحاب سے فرمایا : تم لوگ جاکر قربانی کرو اور سروں کو منڈاؤ (راوی کہتا ہے ) خدا کی قسم ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا حالانکہ آپ نے تین مرتبہ حکم دیا ۔جب کسی نے آپ کی بات نہیں سنی تو آپ اٹھ کراپنے خیمہ میں چلے گئے پھر وہاں سے نکل کر کسی سے کوئی بات کئے بغیر اپنی طرف سے اونٹ کو ذبح کیا ۔اور حجام کو بلا کر سرمنڈوایا جب اصحاب نے یہ دیکھا تو اٹھے قربانی کی ۔ اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے ۔یہاں تک کہ قریب تھا بعض بعض کو قتل کردیں گے (اس واقعہ کو اصحاب سیروتاریخ کے علاوہ بخاری نے اپنی صحیح کے اندر کتاب الشروط فی الجہاد ج 2 ص 122 پر اور مسلم نے اپنی صحیح مین بات صلح حدیبیہ میں تحریر کیا ہے )۔یہ صلح حدیبیہ کا مختصر واقعہ ہے جس پر شیعہ وسنی دونوں متفق ہیں اور اس کو مورخین اور اصحاب سیر نے لکھا ہے جیسے طبری ، ابن اثیر ، ابن سعد وغیرہ ،نے مثلا بخاری ومسلم نے بھی لکھا ہے ۔
مجھے یہاں پر توقف کرنا پڑتا ہے ۔کیونکہ میرے لئے محال ہے کہ میں ایسا کوئی واقعہ پڑھوں اور اس سے متاثر نہ ہوں اور نہ اس پر تعجب کروں کہ آخر یہ کیسے صحابہ تھے جو اپنے نبی کے سامنے ایسی جسارت کررہے تھے ۔ کیا اس واقعہ کےبعد دنیا کا کوئی باشعور آدمی یہ ماننے کے لئے تیار ہوگا ۔ کہ اصحاب رسول خدا کے ہر حکم کو بجالانے کے لئے دل وجان سے تیار رہتے تھے ۔؟ اور بجالاتے تھے ؟ یہ واقعہ ان کی پوری طرح تکذیب کرتا ہے اور ان کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دیتا ہے کیا کوئی عقلمند اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ نبی کے سامنے ایسی جسارت معمولی بات ہے ؟ یا ایسی جسارت کرنے والے معذور ہیں ؟ یا ان کی جراءت قابل قبول ہے ؟ خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے:” فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلمیا (پ 5 س 4 (نساء) آیت 65)ترجمہ :- (پس اے رسول) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ اس وقت تک سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم نہ بنائیں (پھر یہی نہیں بلکہ ) جو کچھ تم فیصلہ کردو اس سے کسی طرح تنگدل بھی نہ ہوں ۔بلکہ خوش خوش اس کو مان لیں ۔۔۔۔۔ کیا عمر بن خطاب یہاں تسلیم ہوئے ؟اور رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کو تنگدل نہیں پایا ؟ یا حکم رسول میں ان کی تردد نہیں تھا ؟ خصوصا یہ کہنا :- کیا واقعی آپ خدا کے رسول نہیں ہیں ؟ کیا آپ ہم سے کہا نہیں کرتے تھے ؟ الخ اور پھر رسولخدا (ص) نےجو کافی وشافی جوابات دیئے کیا اس کو تسلیم کرلیا ؟ اس پر قانع ومطمئن ہوگئے ؟ ہرگز نہیں اگر مطمئن ہوگئے ہوتے تو وہی سوالات ابو بکر سے جاکر نہ پوچھتے ؟ اور پھر کیا ابوبکر کے جواب سے مطمئن ہوگئے ؟ تو بہ کیجئے خدا جانے اگر یہ رسول یا ابو بکر کے جواب سے مطمئن ہوگئے تھے تو پھر کیوں کہا کرتے تھے ؟ میں نے اس کے لئے بہت سے اعمال کئے ! اب تو خدا اور اس کا رسول ہی جانتا ہے کہ عمر نے کیا کیا اعمال کئے ہیں ؟ اور پھر اس کے علاوہ باقی لوگوں نے کیوں نافرمانی کی ؟ جب رسول خدا نے تین تین مرتبہ کہا تم لوگ اٹھو قربانی کرو اور سرمنڈاو ! لیکن کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی رسول بار بار کہتے رہے مگر ہر آواز “صدا بصحرا “ثابت ہوئی “۔
سبحان اللہ! مجھے کسی طرح یقین نہیں آرہا تھا ۔کیا صحابہ کی بد تمیزی اورجسارت اس حد تک رسول کے ساتھ ہوسکتی ہے؟اگر یہ واقعہ صرف شیعہ کتابوں میں ہوتا تو میں فورا کہہ دیتا یہ صحابہ کرام پر افترا ہے لیکن یہ تو ا تنا مشہور واقعہ ہے اور اتنا صحیح قصہ ہے کہ سنی شیعہ محدثین نے لکھا ہے چونکہ میں طے کر چکا ہوں جس چیز پر سنی وشیعہ دونوں متفق ہوں گے اسی کو قبول کرو ں گا ۔ ان اصحاب کی طرف سے کونسا عذر تراشوں ؟ جو بعثت سے لے کر صلح حدیبیہ تک بیس سال رسول اللہ کے قریب رہے ہیں جنھوں نے معجزات ، وانوار نبوت اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ قرآن نے دن رات ان کو ادب سکھایا ہے کہ رسول کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں ، کیسی گفتگو کریں ۔ یہاں تک کہ خدا نے دھمکی دے دی کہ اگر میرے رسول کی آواز پر آواز بلند کروگے تم تمہارے سارے اعمال اکارت کردوں گا ۔مجھے تو باربا یہ خیال آتا ہے کہ یہ عمر بن خطاب ہی تھے ۔ جنھوں نے تمام لوگوں کو ورغلا یا تھا نہ یہ جسارت کرتے اور نہ لوگوں کو جسارت ہوتی کہ حکم رسول کی سنی ان سنی کردیں ۔ خود ان کا تردد اور نافرمانی اور متعدد مواقع پر یہ کہنا کہ میں (اس فعل کی وجہ سے ) برابر نمازیں پڑھتا رہا ، روزے رکھتا رہا صدقے کرتارہا ، غلام آزاد کرتا رہا اپنے اس کلام کی وجہ سے جو میں نے ۔۔۔۔۔ اس سلسلہ میں پورا واقعہ ان سے منقول ہے ۔ ہم کو خود اس بات کا یقین اس لئے ہوتا ہے کہ خود عمر کو بھی اس کا احساس تھا کہ یہ قصہ ویسے تو بہت عجیب وغریب ہے مگر حقیقت ہے
 

http://shiastudies.com/ur/2065/%d8%b5%d8%ad%d8%a7%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b5%d9%84%d8%ad-%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%a8%db%8c%db%81/

تبصرے
Loading...