صحابه کے بارے میں قرآن مجید میں کثرت سے ستائش کى آیات موجود هونے کے باوجود شیعه کیوں ان کى مذمت کرتے هیں؟

آپ کا یہ سوال حقیقت میں مندرجہ ذیل پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے:

1­ کیا پیغمبر اکرم (ص) کے صحابیوں کى قرآن مجید میں ستائش کى گئى ہے؟

2­ کیا جس شخص یا گروہ کى خدا اور اس کے رسول (ص) کى طرف سے ستائش کى جائے، ممکن نہیں ہے کہ وہ کبھى خطا کا مرتکب ہوجائے اور راہ راست سے بھٹک جائے؟

3­ کیا، جن آیات سے آپ نے استناد کیا ہے، ان سے آپ کی مراد یہ ہے کہ تمام صحابیوں کى عصمت ثابت ہوتى ہے؟

4­ کیا شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کى رحلت کے بعد آپ (ص) کے تمام صحابى مرتد ہوئے ہیں؟

5­ کیا صحابیوں کى طرف سے ابوبکر کى بیعت کرنا، خلافت کے سلسلہ میں ان کى حقانیت کى دلیل ہے؟

ہم بالترتیب ان موضوعات پر بحث کریں گے:

قرآن مجید میں صحابیوں کى ستائش کے بارےمیں، یہ کہنا ہے کہ اس مطلب کوہم بھى قبول کرتے ہیں اور خداوند متعال نے بہت سى آیات میں، من جملہ جن آیات کے بارےمیں آپ نے اشارہ کیا ہے، صحابیوں کى تحلیل کى ہے اور ہم تصور نہیں کرتے ہیں کہ شیعہ علمامیں سے کوئى اس حقیقت کا انکار کرتا ہو، لیکن اس کے یہ معنى نہیں ہیں کہ جن اشخاص اور گروہ کى کسى خاص زمانہ میں ان کى نیک کار کردگى کى وجہ سے خداوند متعال کى طرف سے ستائش کى گئى ہو، انھیں ایک قسم کى ضمانت ملتى ہے اور اس سے استناد کرکے وہ ہمیشہ آخر عمر تک، جو بھى چاہیں انجام دے سکتے ہیں اور ان کا مواخذہ نہیں ہوگا اور لوگ ان کى تنقید نہیں کرسکتے ہیں! پیغمبر اکرم (ص) بھى اس قسم کى ضمانت کے مالک نہیں تھے، محترم صحابیوں کى بات ہى نہیں! خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: “اور اگر پیغمبر ہمارى طرف سے کوئى بات گڑھ لیتا، تو ہم اس کے ہاتھ پکڑلیتے اور پھر اس کى گردن اڑادیتے، پھر تم میں سے کوئى مجھے روکنے والا نہ ہوتا!” اس کے بعد فرماتا ہے: ” اور یہ موضوع صاحبان تقوى کے لئے ایک درس عبرت ہے­”[1] تمام مسلمانوں، خاص کر صحابہ کو اس آیہ شریفہ پرخوب غور کرنا چاہئے کہ خداوند متعال نے انھیں نمونہ عمل قرار دیا ہے، اور انھیں ہرگز اس عنوان سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے، کیونکہ خداوند متعال اپنے پیغمبر (ص) کے بارےمیں، لوگوں کے عقائد سے متعلق امور میں کسى قسم کى غفلت  اور بے توجہى کو قبول نہیں کرتا ہے، بیشک صحابیوں کے ساتھ بھى یہى برتاو کرے گا­

بنى اسرائیل کے بارے میں بھى ایسا ہى واقعہ رونما ہوا ہے، باوجود یکہ خداوند متعال بعض آیات میں ان سے اعلانیہ کہتا ہے کہ : “ہم نے تمھیں عالمین سے بہتر بنایا ہے”[2] اور دوسرے مواقع پر شدت سے ان کى مذمت کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ وہ ملعون[3]، ظالم[4]، بیوقوف[5] اور فاسق[6]۔۔۔ ہیں!

کیا آپ کے عقیدہ کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قسم کا ماجرا ہمارى امت میں بھى دھرایا جاسکتا ہے، خاص کر اس روایت کے پیش نظر جسے ہمارے سنى بھائیوں نے نقل کیا ہے، جو اس پر مبنى ہے کہ جو کچھ بنى اسرائیل میں واقع ہوا ہے، وہ اس امت میں بھى واقع ہوگا[7]؟! کیا آپ کى نظر میں، خداوند متعال کے عدل و انصاف  کے موافق ہے کہ خداوند متعال حضرت موسى (ع) کے صحابیوں کو سنیچر کے دن ماہى پکڑنے کے جرم میں شدید سزادے[8]، لیکن پیغمبر اسلام (ص) کے بعد خلافت جیسے اہم تر امور میں آپ (ص)  صحابیوں کى خطاووں سے چشم پوشى کریں؟!

اس بنا پر، ہمارے اعتقاد کے مطابق، قرآن مجید میں توجہ اور غور کرنے سے آپ کے سوال کے دوسرے حصہ کا جواب واضح ہوتا ہے اور قرآن مجید میں ایک گروہ کى ستائش، اس  بات کى ہرگز دلیل نہیں بن سکتى ہے کہ اس گروہ کے تمام افراد تاعمر ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم و دائم رہیں گے­

لیکن جواب کو مکمل تر کرنے کے لئے ہم ان آیات پر بحث و تحقیق کرتے ہیں، جن سے آپ نے استناد کرکے خاص قسم کا نتیجہ حاصل کرنے کى کوشش کى ہے:

اولا: اگر آپ، سورہ اعراف میں بنى اسرائیل  اور حضرت موسى (ع) کى داستان سے متعلق اشارہ کى گئى آیت سے پہلے والى آیات کا مطالعہ کرتے تو آپ کو حضرت موسى (ع) کے صحابیوں کے اتار چڑھاو کے بارے میں اہم اور دلچسپ نکتے ملتے اور شائد آپ اس آیہ شریفہ کو اپنے استناد کى فہرست سے حذف کردیتے! ان آیات میں حضرت موسى (ع) کى مختصر غیبت کے دوران بنى اسرائیل کى گوسالہ پرستى کى داستان بیان کى گئى ہے[9] اور اس کے بعد حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) کے مناظرہ اور صرف ان دو افراد کے اس امتحان الہى میں موفق ہونے کى داستان کى وضاحت کى گئى ہے[10]، اس کے بعد حتى کہ حضرت موسى (ع) کے ستر برگزیدہ صحابیوں کو احمقوں کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے جو بجلى کى کڑک سے دوچار ہوئے[11]، اور سرانجام اعلان کیا گیا ہے کہ صرف وہى لوگ نجات یافتہ ہیں، جو ایمان لائے، پیغمبر اکرم (ص) کى تعظیم  کى، آپ (ص) کى مدد کى اور قرآن مجید کى پیروی کى­[12]

بیشک، اس قسم کى آیات کو بیان کرنا، صرف داستان سرائى اور لوگوں کو سرگرم کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے صحابى اس سے عبرت حاصل کریں اور بنى اسرایئل کے جیسے انجام سے دوچار نہ ہوجائیں، افسوس کہ بعض مسلمانوں نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا، اس کا ایک نمونہ، پیغمبر اکرم (ص) کى زندگى کےآخرى لمحات میں آنحضرت (ص) کى وصیت کا ماجرا ہے، کہ اس کے استناد بیان کئے جایئں گے، کیا آپ اس ماجرا کو پیغمبر اکرم (ص) کى تعظیم سمجھتے ہیں جس کى طرف آپ نے اس آیت سے استناد کرکے اشارہ کیا ہے یا بے احترامى ؟!

ثانیا: سورہ آل عمران کى آیت نمبر 172 اور 173 کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت تین مراحل پر مشتمل ہے، اس طرح کہ ابتداء میں صحابى جنگ احد میں فرار کرنے کى وجہ سے مذمت کے مستحق تھے، لیکن چونکہ پیغمبر (ص) کے حکم کے بعد انھوں نے آپ (ص) کى پیروى کى، اس لئے ستائش کے مستحق قرار پائے، لیکن اس سے اہم تر یہ ہے کہ مذکورہ آیت صراحت کے ساتھ کہتى ہے کہ جس اجر و جزا کا اُن سے وعدہ کیا  گیا ہے، وہ صرف اسى صورت میں اس کے مستحق ہوں گے جب نیکى اور پرہیزگارى کو جارى رکھیں گے اوریہ وہى ہمارا عقیدہ ہے کہ صحابى کو تاعمر دائمی حمایت حاصل نہیں تھى، بلکہ اگروہ پرہیزگار اور نیک رہتے تو رحمت الہى کے مستحق ہوتے اور اگر ایسا نہ ہوتے تو اس قسم کا حق نہیں رکھتے­

ثالثاً: آپ نے استناد میں سورہ انفال سے استفادہ کیا ہے کہ خداوند متعال نےصحابیوں کےدرمیان الفت قائم کى ہے اور اگر آپ روئے زمین کى تمام ثروت کو بھى خرچ کرتے، تو کسى قسم کى الفت برقرار نہیں رکھ سکتے تھے! یہ بذات خود صحابیوں کے درمیان اختلافات موجود ہونے کى دلیل ہے کہ فضل الہى سے یہ اختلافات اتحاد و یکجہتى میں تبدیل ہوئے تھے ( اور انھیں اپنے کردار کے بارےمیں ہوشیار رہنا چاہئے تھا تاکہ بنى اسرائیل کے مانند، فضل الہى کو عذاب الہى میں تبدیل نہ کریں) اور سورہ انفال[13] کى بعد والى آیات میں اسى مطلب کى طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اعمال و کردار سے اتار چڑھاو کى راہ میں گامزن ہوتا ہے اس طرح کہ ایک زمانہ میں خداوند متعال نے پیغمبر اکرم (ص) کے صحابیوں میں سے ایک فرد کو ایسى قدر و منزلت عطا کى تھى کہ اسے تن تنہا دس کفار کے مقابلے میں پسند کرتا تھا، لیکن بعد میں آنحضرت (ص) کى زندگى میں ہى اس قدر و منزلت کو کم کرکے ان میں سے ہر ایک کو صرف دو دشمنوں کے مقابلے میں قرار دیا اور اس کے ضمن میں انھیں بتا دیا کہ آپ نے دنیوى زندگى کو اخروى زندگى پر ترجیح دى ہے، قریب تھا کہ آپ ایک بڑے عذاب سے دوچار ہوتے­ اب اگر کوئى شخص یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ پیغمبر اکرم (ص) کى رحلت کے بعد محترم صحابیوں میں کسى حدتک گراوٹ پیدا ہوئی تھی اور وہ پیچھے کى طرف مڑ گئے تھے، تو کیا اس قسم کا عقیدہ ان آیات کے مفاہیم کے منافى ہے اور یا یہ کہ اس قسم کى گراوٹ، زیرنظر آیات کے پیغام کے عین مطابق ہے؟!

رابعا: سورہ آل عمران کى آیت نمبر 110 جس کى طرف آپ نے آشارہ کیا ہے، کے بارےمیں بھى چند نکات قابل ذکر ہیں:

ایک یہ کہ اس میں کوئى شک  وشبہہ نہیں ہے کہ امت محمدى (ص) مجموعی طور پر، پہترین امت ہے، لیکن یہ موضوع آپ کے مقصد کو ثابت نہیں کرسکتا ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، دوسرے انبیاء کے پیرووں میں بھى ان انبیا کے بعد اختلافات پیدا ہوئے ہیں اور کبھى آپس میں لڑتے بھى تھے[14]، یہاں تک ان کے دین کا صرف نام کے علاوہ کچھ باقى نہیں بچا ہے، لیکن اس امت میں، باوجودیکہ بہت سے اختلافات بھى پیدا ہوئے، لیکن یہ امر تمام دینى معیاروں کو برباد کرنے کا سبب نہیں بنا ہے­ مثال کے طور پر اس امت کے لئے، پیغمبر، قرآن، نماز، قبلہ، روزہ، حج، جہاد اور انفاق وغیرہ مشترک ہیں اور یہ قدریں ابھى تک محفوظ ہیں اور اسى وجہ سے، مسلمانوں کا ثقافتى ذخبرہ دوسرے تمام ادیان کى بہ نسبت زیادہ ہے اور یہ امر بذات خود امت اسلامیہ کى برترى کى تایئد کرتا ہے­ آپ کس دین میں حج کے جیسے پر شکوہ مراسم پیدا کرسکتے ہیں؟! اس آیہ شریفہ میں جو دوسرا نکتہ پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے بعد والى کئى آیات میں[15]، اہل کتاب کے بارے میں بھى یہى خصوصیات بیان کى گئى ہیں کہ وہ ایمان رکھتے تھے، شب بیدارى کرتے تھے اور امربالمعروف کرتے تھے۔۔۔۔ ان کى ان خصوصیات کو ان کى حقانیت کى دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے­ آخرى نکتہ، یہ ہے کہ مذکورہ آیہ شریفہ میں، کچھ معیار بیان کئے گئے ہیں، کہ ان پر عمل کرنے کى صورت میں، مسلمان بہترین امت ہوں گے لیکن اگر مثال کے طور پر بظاہر مسلمانوں کى ایک بڑى تعداد، امر بالمعروف و نہى عن المنکر کرنے کے بجائے، پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے، امام حسین (ع)، جنہوں نے امربالمعروف و نہى عن المنکر کا اقدام کیا تھا، کے ساتھ جنگ پر اتر کر انھیں شہید کر ڈالیں، تو کیا پھر بھى انھیں بہترین امت کہا جاسکتا ہے؟! ضمناً ہم جانتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ صرف صحابیوں سے ‏مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس کے پیش نظر ہم جانتے ہیں کہ صدر اسلام سے آج تک، خود مسلمانوں کے درمیان شدید جنگیں رونما ہوئى ہیں! مثال کے طور پر، جنگ صفین میں ایک طرف امام على (ع) اور عمار وغیرہ تھے اور دوسرى طرف معاویہ، عمر و بن عاص وغیرہ تھے اور اور یہ سب افراد بھى صحابى تھے! ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں گروہ اس آیہ شریفہ کے مصداق تھے؟ اس قسم کى تفسیر سے کوئى حق و باطل قابل تشخیص نہیں ہے: اور یا یہ کہ ان دو لشکروں میں سے ایک کو  بہترین امت سمجھ لیں، کہ یہ وہى ہمارا مدعا ہے!

سورہ انفال کى آیت نمبر 64 بھى علم تفسیر کے دانشوروں کے درمیان مورد بحث قرار پائى ہے کہ کیا اس کے معنى یہ ہیں کہ خداوند متعال، رسول (ص) اور مومنین کى حفاظت کرنے والا ہے یا یہ کہ خداوند متعال اور مومنین پیغمبر کے پشت پناہ ہیں[16] اگر ہم اس کے دوسرے معنى کو قبول کریں، جو آپ کا استناد ہے، تو اس کے پیش نظر کہ فرماتا ہے: “من اتبعک من المومنین” صرف جو مومنین ، ہمیشہ پیغمبر (ص) کے تابع و پیرو ہیں، وہى آپ (ص) کے پشت پناہ ہوسکتے ہیں، نہ کہ ہر صحابى جو بعض اوقات آپ (ص) کے دستور کى نافرمانى کرتے تھے­ ایک دوسرى آیت میں پیغمبر اکرم (ص) کى بعض بیویوں کے لئے دھمکى نازل ہوئى ہے،[17]  جس کا، ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمھارے دلوں میں کجى پیدا ہوگئى ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کروگى تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبریل اور نیک مومنین اور ملائک سب اس کے مدد گار ہیں”[18]

آخرى مطلب، جس کى طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، وہ سورہ فتح کى ایک آیت تھى، کہ اس میں پیغمبر (ص) کے صحابیوں کے لئے کچھ خصوصیات بیان کى گئى ہیں، جو ان میں ہونى چاہئیں، (اس کے علاوہ، بشارت، بخشش اور پاداش بھى صرف ان افراد کے لئے مدنظر رکھے گئے ہیں جو ایمان اور نیک کردار پر قائم و دائم ہوں­ آپ کےعقیدہ کےمطابق، کیا جنگ احد اور جنگ حنین میں میدان کارزار سے فرار کرنے والے افراد” اشداء على الکفار” میں شامل ہوتے ہیں یا “رحماء بینھم” میں شامل ہوں گے؟ اور کیا، حضرت على (ع) کے خلاف بغاوت کرکے خونین جنگیں برپا کرنے والے یا پیغمبر اکرم (ص) کى باقى بچى تنہا لخت جگر، یعنى فاطمہ زہراء (س) کى حرمت کو پامال کرنے والے بھى “رحماء بینھم” میں شامل ہوں گے؟ اور کیا مال دنیا کو جمع کرنے اور اپنے لئے سبز محل تعمیر کرنے والے صحابى بھى “یبغون فضلا من اللہ و رضوانا” میں شامل ہوسکتے ہیں۔۔۔؟

دلچسپ بات ہے کہ اس سورہ کى دوسرى آیات من جملہ آیت 6، 11، 12 اور 15 پر سرسرى نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر بعض مسلمانوں کى خداوند متعال نے بعض موقع پر سرزنش و ملامت کى ہے­

اس بنا پر، اس کے باوجود کہ مدح صحابہ کے سلسلہ میں آپ کى طرف سے استناد کے طور پر پیش کى جانے والى آیات کو ہم بھى قبول کرتے ہیں، لیکن کسى صورت میں یہ آیات اس امر کى دلیل نہیں ہیں کہ صحابى ہر قسم کے عیب و نقص سے مبرا تھے اور ہمیں ان کى کارکردگى پر تنقید کرنے کا کوئى حق نہیں ہے­

ضمنا، جس طرح خداوند متعال نے بہت سى آیات میں صحابیوں کى ستائش کى ہے، اس کے مقابلے میں بہت سى ایسى آیات بھى پائى جاتى ہیں، جن میں ان کى مذمت اور سرزنش بھى کى گئى ہے اور مثال کے طور پر، ان کى جنگ احد میں میدان کارزار سے فرار کرنے کى دلیل کو ایسا گناہ شمار کیا گیا ہے جس کے بعض صحابى مرتکب ہوئے ہیں[19] اور بعض آیات میں  اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابیوں میں ایسے افراد بھى پائے جاتے تھے، جو جنگى غنایم کى تقسیم کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) ہر اعتراض کرتے تھے اور اگر غنایم سے انھیں کوئى چیز ملتى تو خوش ہوتے تھے ورنہ آپ (ص) پر غضبناک ہوتے تھے[20]! بہت سے مواقع پر، بعض صحابى، پیغمبر اسلام(ص) کے دستور، سے مختلف بہانوں سے پہلوتہى کرتے تھے اور آپ (ص) کى بشارتوں اور مژدوں کو جھٹلاتے تھے­[21] اس بنا پر خداوند متعال نے بھى تمام صحابیوں کو ایک سطح پر قرار نہیں دیا ہے، بلکہ ان میں سے بعض، جو فاسق تھے کے بارے میں مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے اور مومنین کو ایسے افراد کى باتوں کى تحقیق کرنے کى دعوت دى ہے­[22]

شیعوں نے قرآن مجید کى تمام آیات، صحابیوں کى کارکردگى اور ان کے قوى اور ضعیف نقات کى تحقیق کرنے کے بعد ایک متعادل موقف اختیار کیا ہے، اور وہ ہر صحابى کے بارے میں، اس کے کردار کے پیش نظر الگ الگ نظریہ رکھتے ہیں، نہ یہ کہ بعض مسلمان بھائیوں کے مانند، انھیں نا قابل تنقید سمجھ کر ان کے تمام کردار و عمل کو تمام نقائص و معارضات کے باوجود برحق جانتے ہیں! کیا شیعوں کا یہ عقیدہ، قرآن مجید کى کسى آیت کے برخلاف ہے؟

آپ کے سوال کے جوتھے اور پانچویں حصہ کے بارے میں، چونکہ ہماری سائٹ میں کئى جوابات دئے گئے ہیں، اس لئے آپ کو ان کا مطالعہ کرنے کى دعوت دى جاتى ہے[23] لیکن اجمالى طور پر ، جو ارتداد ہمارے مدنظر ہے، وہ شرک و بت پرستى کى طرف پلٹنے کے معنى میں نہیں ہے، بلکہ خداوند متعال اور اس کے پیغمبر (ص) کے بعض دستوروں کى نافرمانى کے معنى میں ہے، اور یہ امر پیغمبر اکرم (ص) کے بعد والے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ آپ (ص) کى پورى زندگى کے دوران بھى اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں مثال کے طور پر جنگ احد اور جنگ حنین میں میدان کارزار سے بعض صحابیوں کا بھاگنا، آنحضرت (ص) کى زندگى کے آخرى دنوں میں اسامہ کے لشکر میں شامل ہونےکے سلسلہ میں پیغمبر (ص) کے دستور کى نافرمانى، اور پیغمبر (ص) کو وصیت لکھنے کے لئے قلم و دوات[24] نہ دینے کے واقعات پیش کئے جاسکتے ہیں، اس کے علاوہ صرف زر و زور سےہى افراد کو صحیح راستہ سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ لالچ اور پروپیگنڈا بھى ان عوامل میں شمار ہوتے ہیں، جو پہلے سے موجود تھے اور گزشتہ امتوں میں بھى اس کے مانند مثالیں پائى جاتى ہیں کہ سامرى کے ذریعہ بنى اسرائیل کا گوسالہ پرست ہونا اسکا ایک نمونہ ہے­

 

 


[1]  حاقه، 48-44 .

[2]  بقره، 47 و 122.

[3]  نساء، 46 و 47 و مائده،13 و 78 و ….

[4]  بقره، 51.

[5]  اعراف، 155.

[6]  اعراف، 163.

[7]  صحیح ترمذی، دار الفکر، بیروت، 1403 ه ق، ج 4، ص 135.

[8]  بقره،65 و نساء،47 و  اعراف، 163.

[9]  اعراف، 148.

[10]  اعراف، 151-150.

[11]  اعراف، 154.

[12]  اعراف، 157.

[13]  انفال، 68- 65.

[14]  بقره، 253 و …

[15]  آل عمران، 114-113.

[16] محمد بن احمد بن قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، انتشارات ناصر خسرو، تهران، 1364 ه ش، ج 8، ص 43. 

[17]  مفسرین نے عمر بن خطاب سے نقل کرکے اس آیت میں مخاطب عائشہ و حفصہ بیان کیا ہے ملاخظہ ہو: تفسیر قرطبی، همان، ج 19، ص 189

[18]  تحریم، 4.

[19] آل عمران، 133.

[20]  توبه، 58.

[21]  احزاب، 13- 12.

[22]  حجرات، 6.(ان جاءکم فاسق بنبأ فتبینوا …) تفاسیر کى طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاسق، صحابیوں میں سے ایک تھا جو بعد میں حضرت على (ع) کا ایک اصلى دشمن بن گیا­

[23] صحابہ کے ارتداد کے بارے میں ملاحظہ ہو: 1348 (سایت: 2982) ضمناسوال 2795 (سایٹ: ) کا مطالعہ: خلیفہ اول کى انصار کى طرف سے بیعت کى کیفیت آپ کے ابہام کو کس حدتک دور کرسکتى ہے .

[24]  صحیح بخاری، دار الفکر، بیروت، 1401 ه ق، ج 5، ص 138-137.

تبصرے
Loading...