شیعه فقه میں لواط میں مفعول قرار پانے والے شخص کی بهن کیوں لواط کا فعل انجام دینے والے پر حرام هوتی هے؟

شیعه فقه میں لواط میں مفعول قرار پانے والے شخص کی بهن کیوں لواط کا فعل انجام دینے والے پر حرام هوتی هے؟

بعض مراجع کیوں اس سلسله میں شک و عدم شک میں فرق کے قائل هیں؟

اهل سنت اور شیعوں کے مطابق، قرآن مجید، فقه اور احکام اسلامی کے لیے بهترین منبع هے- لیکن قرآن مجید هرگز تنها منبع نهیںهے، کیونکه جیسا که اهل سنت کے چار اهم اماموں میں سے ایک محمد بن ادریس شافعی کهتے هیں: ” ایک طرف سے قرآن مجید میں تمام ضروری امور نهیں آئے هیں اور دوسری جانب سے جو کچھه قرآن مجید میں آیا هے ، اس میں سے بهت سے امور کی تفسیر کی ضرورت هے اور رسول خدا{ص} کے علاوه اس کی کسی میں توانائی نهیں هے، کیونکه آپ{ص} رسالت کے حکم کے مطابق قرآن مجید کو بیان کرنے والے هیں اور اگر هم سنت کو بالکل هی مسترد کریں، تو هم بڑی مشکلات سے دوچار هوں گے- مثال کے طور پر قرآن مجید کی آیات میں روزمره نماز کی رکعتیں مشخص نهیں کی گئی هیں اور اسی طرح زکوٰۃ کی مقدار اور اس کے اقسام بھی بیان نهیں هوئے هیں-“

اس وجه سے، تمام مسلمان، فقه کے اهم منابع میں سے ایک بهیت هی اهم منبع “سنت” کو جانتے هیں اور بهت سے احکام کو اسی سے استفاده و استخراج کرتے هیں-

هم شرعی احکام کے دوران ایسے مسائل سے دوچار هوتے هیں جن کے تمام مسلمان پابند هیں، لیکن وه قرآن مجید میں بالکل هی بیان نهیں هوئے هیں- مثال کے طور پر واجب نمازوں کی رکعتوں کی تعداد، جن کا قران مجید میں کهیں پر بھی ذکر نهیں آیا هے- یه بذات خود اس بات کی دلیل هے که یه احکام قرآن مجید کے علاوه مسلمانوں کے مورد اتفاق دوسرے منابع سے استخراج هوئے هیں-

شیعوں کے فقه میں اور اهل سنت کے چار مذاهب میں ، قرآن و سنت {روایات پیغمبر{ص} و اهل بیت{ع}} کے علاوه عقل و اجماع جیسے دوسرے منابع بھی قابل قبول هیں اور یهاں تک که بعض اهل سنت {مالکی اور حنبلی} “سد ذرایع” کو دوسرے عدله اور فقهی منابع کے ساتھه معتبر جانتے هیں اور جو کچھه امام ابو حنیفه سے مشهورومعروف هے، وه دوسرے منابع کے ساتھه “قیاس” کی حجیت کو بھی معتبر جانتے هیں

مذکوره تمهید کے بعد کهنا چاهئیے که ،لواط میں مفعول واقع هونے والے کی بهن، ماں اور بیٹی سے لواط کا فعل انجام دینے والے کا نکاح حرام هونے کا مسئله، ان مسائل میں سے هے جو معصومین علیهم السلام کی روایتوں سے استخراج هوا هے- اگرچه اس حکم پر شیعوں کے بڑے فقها کی فقهی کتابوں میں مفصل طور پر بحث کی گئی هے، لیکن یه احکام صرف شیعوں سے مخصوص نهیں هیں بلکه بعض اهل سنت علماء، جیسے احمد بن حنبل اور اوزعی سے بھی اس کی نسبت دی گئی هے

بعض فقها کا ، ائمه معصومین علیهم السلام کی روایتوں سے استفاده کرکے یه نظریه هے که لواط میں مفعول واقع هونے والے کی بهن کا لواط انجام دینے والے پر حرام هونا اس شرط پر هے که لواط انجام دینے والا بالغ هو اور اگر وه بالغ نه هو تو یه حرام هونا ایجاد نهیں هوتا هے- اس بنا پر اگر کهیں لواط انجام دینے والے کے بلوغ پر شک کیا جائے، یعنی شک کیا جائے که یه فعل انجام دیتے وقت بالغ تھا یا نهیں، تو لواط میں مفعول واقع هوئے شخص کی بهن لواط کرنے والے پر حرام نهیں هوتی هے-

لیکن جو فقها بلوغ کو اس سلسله میں شرط نهیں جانتے هیں {یعنی لواط انجام دینے والا اور بدرجه اولیٰ لواط میں مفعول واقع هونے والا خواه بالغ هو یا نابالغ، لواط میں مفعول واقع هونے والے کی بهن اور ماں لواط انجام دینے والے پر حرام هے}، بلوغ یا عدم بلوغ میں شک کا حکم میں کوئی مداخلت نهیں هے اور هر صورت میں حرام هونے کا حکم جاری هے

البته، اگر شک سے آپ کا مراد، اصل لواط واقع هونے میں شک هو، تو کهنا چاهئیے که اس صورت میں شیعه فقها میں سے کسی نے حرام هونے کا حکم نهیں دیا هے اور یه چیز توضیح المسائل میں واضح طور پر بیان کی گئی هےکه اگر گمان کرے که دخول واقع هوا هے یا شک کرے که دخول هوا هے یا نهیں، تو اس صورت میں حرام کا حکم جاری نهیں هوتا هے.

البته قابل توجه بات هے که حرام هونے کا حکم اس مفروضه پر هے که لواط میں مفعول واقع هونے والے کی بهن یا ماں کے ساتھه ازدواج کرنے کے بعد لواط کا فعل انجام نه پایا هو- پس اگر کوئی شخص پهلے کسی کی ماں، بهن یا بیٹی کے ساتھه ازدواج کرے اور ازدواج کے بعد اس کے ساتھه لواط کرے تو وه اس پر حرام نهیں هوتی هیں–  

تبصرے
Loading...