سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۵۴ میں ارشاد ھوا ہے: — – ” اور یہودیوں نے عیسی سے مکاری کی تو اللہ نے بھی جوابی مکاری کی، خدا بہترین مکر کرنے والا ہے -” کیا اس آیہ شریفہ میں خدا وند متعال اپنی مکاری کے بارے میں فخر سے بات نہیں کرتا ہے؟ کیا مکاری ایک بری چیز نہیں ہے؟

اس آیہ شریفہ میں مکر الہی کی مراد کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عربی ادبیات میں مکر الہی کے کیا معنی ہیں؟ھ

 

عربى لغت میں “مکر” کا لفظ موجوده فارسی ادبیات میں استعمال ہونے والے لفظ “مکر” سے کافی فرق رکهتا ہے- کیونکه آج کل کی فارسی زبان میں “مکر” شیطانی اور نقصان ده سازشوں کو کہاجاتا ہے، جبکہ عربی ادبیات میں ہر قسم کی چارہ اندیشی اور تدبیر کو مکر کہا جاتا ہے- مفردات را غب میں آیا ہے کہ: “المکر صرف الغیر عمایقصد”[1] “مکر کے معنی کسی کو اس کی مراد سے روکنا ہے” خواہ اس کی مراد اچهی ہو یا بری-

اس بنا پر قرآن مجید میں استعمال ہوئے لفظ “مکر” کے وہ معنی نہیں ہیں، جو فارسی میں اس لفظ کے نقصان دہ شیطانی سازشوں کے معنی ہیں بلکہ عربی ادبیات میں یہ نقصان دہ سازشوں کے بارے میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اچهی تدبیروں کے بارے میں بھی استعمال ہوتاہے- اس وجہ سے قرآن مجید میں کبھی “ماکر” لفظ “خیر” کے ساتھ بیان ہوا، جیسے: “و مکروا مکراللہ واللہ خیرالماکرین”[2] “خداوند متعال بہترین تدبیر کرنے والاہے” اور کبھی لفظ مکر لفظ “سیئ” کے ساتھ آیا ہے، جیسے: ولا یحیق المکر السیئ الا باهلہ”[3] “برا نقشہ اور تدبیر کرنے والے کوہی اس کا نقصان پہنچے گا”

زیر بحث آیہ شریفہ میں “مکر” کو خداوند متعال سے نسبت دینے کے معنی یہ ہیں کہ دشمن، یعنی “عیسائی” اپنے شیطانی منصوبوں کے ذریعہ اس الہی  دعوت میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے تهے، لیکن خداوند متعال نے اپنے پیغمبر [ص ]کی جان کے تحفظ اور دین کی ترقی کے لئے تدبیر کی اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنادیا-[4]

اس معنی کی بنا پر مکر ہمیشہ اور ہر موقع پر بری چیز نہیں ھوتی ہے-

اس لفظ کو خداوند متعال سے نسبت دینا نقصان دہ سازشوں کو نا کام بنانے کے معنی میں ہے، اور جب یہ لفظ مفسدین کے بارے میں استعمال ھوتا ہے تو اس کے معنی اصلاحی پروگراموں میں رکاوٹ ڈالنا ھوتا ہے[5]

 


[1]  المفردات فی غریب قرآن، ص:۷۷۲

[2] آل عمران، ۵۴

[4]تفسیر نمونہ، ج۲، ص: ۵۶۷ و ۵۶۶

[5] تفسیر نمونہ، ج۱۵، ص:۴۹۸

 

تبصرے
Loading...