رافضی كون لوگ ھیں؟

رافضی كون لوگ ھیں؟

بھت سے لوگوں كے ذہنوں میں یہ بات آتی ھے كہ رافضی فرقہ، شیعوں اور اھل سنت سے الگ ایك فرقہ ھے، یھاں تك كہ بعض موٴلفین نے اس مسئلہ میں غلط فھمی كی ھے اور وہ یہ نہ سمجھ سكے كہ یہ فرقہ سنیوں كا ھے یا شیعوں كا،بعض شیعہ عوام اس كو اھل سنت كا فرقہ تصور كرتے ھیں (جبكہ حقیقت یہ ھے كہ رافضی نہ سنی فرقہ ھے نہ شیعہ)، لہٰذا ھم یھاں پر اس بارے میں علمی اور تاریخی گفتگو كرتے ھیں:
”رفض“كے معنی ھر اس چیز كو چھوڑنے كے ھیں جو وحی كے ذریعہ نازل هوئی هو، یا بت پرستی اور قدیم افسانوں كی طرف پلٹنے كو بھی رفض كھا جاتا ھے اور یہ بھی وحی كو ترك كرنے كے معنی میں سے ھے۔
اور یہ بات مسلمانوں سے مخصوص نھیں ھے بلكہ تمام الٰھی ادیان میں ایسی بیماریاں تھی جن كی وجہ سے وہ انحراف اور تباھی میں مبتلا هوئے ۔

(اس جگہ بعض موٴلفین نے مثالیں پیش كی ھیں مثال كے طور پر جناب موسیٰ ں، جناب عیسیٰں كے دین كے ماننے والوں نے وحی كی تعلیمات كو چھوڑكر انحراف اور شرك اختیار كیا)
اسلام میں اس طرح كا انحراف سب سے پھلے عبد اللہ ابن سبا جو كہ حِیری یمانی یهودی تھا، اس كے ذریعہ ایجاد هوا یہ شخص صدر اول میں اسلام لایا تھا
یہ شخص (عبد اللہ ابن سبا) خود اسرائیلی فكر ركھتا تھا چنانچہ اس نے اسلام قبول كرنے كے بعد اس طرح كے كارنامے شروع كئے،اور حضرت علی ںكے بارے میں اس طرح غلو كیا كہ پھلے تو آپ كو پیغمبر كھا اور اس كے بعد آپ كو خدا كہنے لگا۔
عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مرید اسلام اور اس كی تعلیمات اور خود امام ںسے بھت دور تھے ان كا كہنا تھا كہ حضرت علیںپیغمبر تھے لیكن جبرئیل نے غلطی كی كہ حضرت علیں كو پیغمبری دینے كے بجائے حضرت محمد (ص)كو دیدی۔

۔ قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا حرام ھے

ابن تیمیہ كا كہنا ھے كہ اس حدیث شریف كے پیش نظر”لاٰ تُشدُّ الرِّحَالُ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاٰثَةِ مَسٰاجِدَ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدی ھٰذَا وَالْمَسْجِدُ الاَقْصیٰ“(تین مسجدوں كی زیارت كے لئے سفركرنا جائز ھے :
1 مسجد الحرام (خانہ كعبہ)،
2۔ میری یہ مسجد ،اور
3۔ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)اور دوسری مساجد یا انبیاء یا اولیاء اللہ اور صالحین كی قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا بدعت اور ناجائز ھے)۔
اسی طرح ابن تیمیہ كاكہنا ھے كہ قبور كی زیارت كی غرض سے سفر كرنا اور عبادت كے قصد سے زیارت كرنا، چونكہ عبادت یا واجب هوتی ھے یا مستحب اور سبھی علماء كا اتفاق ھے كہ قبور كی زیارت كے لئے سفر كرنا نہ واجب ھے اور نہ ھی مستحب، تو زیارت كے لئے سفر كرنا بدعت هوگا۔
اس كے بعد كھتے ھیں: خلفائے اربعہ كے زمانہ تك بلكہ جب تك ایك بھی صحابی رسول زندہ رھا كوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء، اولیاء اور صالحین كی قبروں كی زیارت كے لئے نھیں جاتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے صحابی بیت المقدس كی زیارت كے لئے تشریف لے جاتے تھے لیكن وھیں پر موجود جناب ابراھیم خلیل اللہ كی قبر كی زیارت نھیں كرتے تھے اور كوئی بھی اپنی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے نھیں جاتا تھا، ابن تیمیہ اس بحث كے ذریعہ شیعوں پر سخت حملہ كرتے هوئے كھتے ھیں كہ رافضی لوگوں نے صالحین كی قبور كو مسجد بنالیا ھے اور وھاں نمازیں پڑھا كرتے ھیں، اور قبروں كے لئے نذر كرتے ھیں اور بعنوان حج ان كی زیارت كے لئے جاتے ھیں، اورخانہٴ مخلوق كے سفر كو بیت الحرام (خانہ كعبہ) كے حج سے افضل سمجھتے ھیں اور اس (زیارت)كو حج اكبر كھتے ھیں

اور ان كے علماء نے اس سلسلہ میں بھت سی كتابیں بھی لكھیں ھیں،ان میں ایك شیخ مفید (چوتھی او رپانچویں صدی كے مشهور ومعروف عالم) ھیں جنھوں نے ”مناسك حج المشاہد“ نامیكتاب لكھی ھے۔

1
چنانچہ ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ كھتے ھیں:
”اگر كوئی یہ اعتقاد ركھے كہ انبیاء اور صالحین كی قبروں كی زیارت كرنا، خداوندعالم كی رضا اور خوشنودی كا سبب ھے، تو اس كا یہ اعتقاد اجماع كے بر خلاف ھے۔ 2

اور حقیقت تو یہ ھے كہ اسلام میں قبور كی زیارتكے مسئلہ كا كوئی وجود نھیں۔ 3

یھاں تك كہ اس مسئلہ میں یہ بھی كھا جاسكتا ھے كہ زیارتوں كے لئے سفر كرنے(ابن تیمیہ كے بقول حج قبور) كا گناہ كسی كو ناحق قتل كرنے سے بھی زیادہ ھے، كیونكہ كبھی كبھی یہ عمل اور یہ زیارت باعث شرك اور ملت اسلامی سے خارج هونے كا سبب بنتی ھے۔ 4 اور اگر كوئی شخص یہ نذر كرے كہ مثلاً میں خلیل الرحمن یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی یا كوہ طوریا غارِ حراء یا اس طرح كی دوسری جگهوں كی زیارت كے لئے جاؤں گا، تو ایسی نذر پر عمل كرنا ضروری نھیں ھے۔ 5
زیارت قبور كے سلسلے میں اجماع اور اتفاق كی وضاحت
خود ابن تیمیہ كے زمانہ سے اور اس كے بعد مختلف فرقوں كے علماء نے ابن تیمیہ كے عقائد بالخصوص زیارت قبور كے سلسلہ میں سفر كی حرمت كے بارے میں ابن تیمیہ كے نظریات كے جوابات اور اس كی ردّ تفصیل كے ساتھ لكھی ھیں مثلاً مالكی فرقہ كے قاضی اِخنائی (جوكہ ابن تیمیہ كے معاصرین میں سے تھے) نے ابن تیمیہ كے عقائد كی ردّ لكھی ھے جس كا نام ”المقالة المرضیّہ“ جو حرمت سفر زیارت قبور كے سلسلہ میں ابن تیمیہ كے عقائد كی ردّ ھے،

یہ كتاب جس وقت ابن تیمیہ كے ھاتھوں میں پهونچی تو اس نے اس كاجواب لكھا جس كا نام ”كتاب الردّ علی الاخنائی“ ركھا جو اس وقت بھی موجود ھے۔
قاضی اخنائی نے جیسا كہ ابن تیمیہ نے ان سے نقل كیا كہ ابن تیمیہ كا نظریہ مسلمانوں كے اجماع كے خلاف ھے اور انبیاء اولیاء اور صالحین كی قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا مستحب سفر ھے، اس لحاظ سے یہ سفر مسجد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرح ھے اور اگر كوئی یہ كھے كہ مذكورہ تین مسجدوں كے علاوہ سفر كرنا صحیح نھیں ھے تو اس كی یہ بات اجماع كے خلاف ھے، اور گویا اس شخص نے كھلے عام خدا اور پیغمبروں سے دشمنی كے لئے قیام كیا ھے۔
ایك دوسری جگہ پر اخنائی كھتے ھیں كہ بعض علمائے كرام نے پیغمبر اكرم(ص) كی قبر كی زیارت كو واجب قرار دیا ھے،

خلاصہ یہ كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے مستحب هونے میں كسی كو بھی شك وشبہ نھیں ھے، چنانچہ مسند ابی شَیبہ میں یہ حدیث شریف وارد هوئی ھے:
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ: ”مَنْ صَلّٰی عَلَیّٰ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہُ وَمَنْ صَلّٰی نَاِئیاً سَمِعْتُہُ“ 6
حضرت رسول اكرم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میری قبر كے نزدیك مجھ پر صلوات بھیجے تو میں اس كو سنتا هوں اور اگر كوئی دور سے بھی مجھ پر صلوات بھیجے تو میں اس كی صلوات بھی سنتا هوں۔

قارئین كرام!یھاں پر دو باتوں كی طرف توجہ كرنا ضروری ھے:
پھلی بات یہ ھے كہ یہ دونوں (ابن تیمیہ اور اخنائی) ایك دوسرے كے عقیدے كو مسلمین كے اجماع كے بر خلاف جانتے ھیں ۔ 7 اور دوسری بات یہ ھے كہ ابن تیمیہ كی بھت سی چیزوں كا مدرك اور سند امام مالك اور اس كے پیروكار حضرات كی تحریریں ھیں، لیكن اس كے باجود اكثر وہ لوگ جو ابن تیمیہ كی مخالفت كے لئے اٹھے، وھی علماء ھیں جن كا تعلق مالكی مذھب سے تھا اورجنھوں نے دمشق اور قاھرہ میںابن تیمیہ سے بحث وگفتگو اور مناظرے كئے اور ابن تیمیہ كو زندان میں بھجواءے ۔
آئےے اپنی بحث كی طرف پلٹتے ھیں:ابن شاكر كھتے ھیں كہ شدِّ رِحال (مذكورہ مساجد كے علاوہ سفر كرنے كی حرمت) كا موضوع ان اھم مسائل میں سے ھے جن كی وجہ سے اس زمانہ كے علمائے كرام كو مخالفت كے لئے كھڑا هونا پڑا۔ 8
مرحوم علامہ عبد الحسین امینی رحمة اللہ علیہ زیارت قبور كے بارے میں بحث كرتے هوئے اھل سنت كی كتابوں سے بھت سی ا حادیث كو نقل كرتے ھیں اور انھوں نے ایسی باون (۵۲) قبروں كا شمار كرایا ھے جو گذشتہ زمانہ سے آج تك اھل سنت كی زیارت گاہ بنی هوئی ھیں، اور اس بات پر خود ان كی كتابوں سے حوالے بھی بیان كئے ھیں۔ 9
شیعوں كی طرف دی گئی نسبتوں كی وضاحت
قدیم زمانہ سے شیعوں كی طرف ایك جھوٹی نسبت یہ دی گئی ھے كہ شیعہ حضرات اپنے اماموں اور رھبروں كی قبروں كی زیارت كو حج بیت اللہ كی طرح مانتے ھیں، یہ تھمت اور دوسری تھمتیں جو مختلف بھانوں سے شیعوں پرلگائی گئی ھیں، یہ سب ”سلجوقیوں“كے زمانہ میں زیادہ رائج هوئی ھیں، اس طرح كہ جب” نظام الملك“ اسماعیلہ فدائیوں كے ھاتھوں قتل هوا، اس دور میں حسن صباح اور اس كے ساتھیوں نے قدرت حاصل كرلی، اس وقت سلجوقی بادشاهوں كو بھت زیادہ نگرانی وپریشانی تھی اور خوف ووحشت كی وجہ سے ان كی راتوں كی نیند یں حرام هوچكی تھیں، اس موقع پر شیعوں كے دشمنوں نے موقع پایااور سلجوقی بادشاہ كے كانوں میں یہ بات بھر دی كہ شیعہ (یا ان كے بقول رافضی) تمھارے سخت دشمن ھیں، چنانچہ سلجوقی بادشاهوں كو شیعوں كے قتل عام اور ان كے شھروں كو تباہ وبرباد نیز شھروں میں آگ لگانے پر اُكسایا گیا، (اور اس نے ایسا ھی كیا) جس كے نمونے نظم اور نثر كی كتابوں میں كثرت سے دیكھے جاسكتے ھی، چنانچہ كتاب تاریخ مذھبی قم میں اس طرح كے بعض واقعات موجود ھیں یھاں تك كہ اس وقت كے مشهور ومعروف شیعہ علماء كو بھی قتل كیا گیا۔
خلاصہ یہ كہ شیعوں كے دشمنوں نے ان پر باطنی (یعنی اسماعیلی اور حسن صباح كے تابع هونے) جیسی تھمت لگاكر سلجوقی بادشاهوں كو شیعوں كے قتل وغارت پر مجبور كردیا تاكہ وہ شیعوں كے قتل وغارت میں ذرہ برابر بھی كوئی كمی نہ چھوڑےں، نیز شیعوں سے مزید دشمنی پیدا كرنے كے لئے شیعوں كے خلاف بھت سی دوسری تھمتیں بھی لگائیںجن میں سے ایك زیارت قبور بھی ھے، جس كے بارے میں یہ كھا كہ شیعہ زیارت قبور (ائمہ) كو حج كی طرح سمجھتے ھیں،

سلجوقی زمانہ میں جس شخص نے آشكارا طور پر شیعوں كی طرف یہ نسبت دی ھے اس كا نام ابوبكر محمد راوندی (چھٹی صدی كا مورخ) ھے جو شیعوں سے اپنی دشمنی كو ثابت كرتے هوئے ان پر بھت سی ناجائز تھمتیں لگاتے هوئے اس طرح كھتا ھے كہ بھت سے كاشی (یعنی كاشان كے) لوگوں كو حاجی كھا جاتا ھے جنھوں نے نہ تو خانہ كعبہ كو دیكھا ھے اور نہ ھی بغداد، كو صرف ان لوگوں نے طوس كی طرف سفر كیا ھے۔ 10 طوس كی طرف سفر كرنے سے اس كا مقصد حضرت امام علی رضاںكی زیارت ھے۔
اس كے بعد سے یہ عظیم تھمتیں ان لوگوں كی كتابوں میں كم وزیاد پائی جانے لگیں جو تعصب یاشیعوں كے عقائد سے ناآشنائی كی وجہ سے دشمنی كرتے تھے، منجملہ ان كے عرب كا ایك مورخ اور سیّاح بنام محمد ثابت جس نے تقریباً چالیس سال پھلے ایران كا سفر كیا اور خصوصاً مشہد مقدس گیا،اس طرح لكھتا ھے كہ شاہ عباس كبیر (مشهور صفوی بادشاہ) چونكہ اس كو عرب اچھے نھیں لگتے تھے اسی وجہ سے اس نے ایرانیوں كو حج سے روكا اور لوگوں كو امام رضاںكی زیارت كی ترغیب دلائی اور كھا كہ وہ اسی كو اپنا كعبہ قرار دیں، اور وہ خود بھی پاپیادہ حضرت امام رضاںكی زیارت كے لئے گیا، اسی وجہ سے یہ لوگ آج كل بھت كم حج كے لئے جاتے ھیں، اور مشہدی (امام رضاںكی زیارت كرنے والے) كو حاجی پر ترجیح دیتے ھیں، وغیرہ وغیرہ ۔ 11
قارئین كرام!جیسا كہ معلوم ھے كہ یہ سیّاح مورخ، ایران آنے سے پھلے بعض كتابوں كے پڑھنے كے بعد اپنے ذہن میں شیعوں كے خلاف بعض تھمتیں لئے بیٹھا تھا، اسی وجہ سے اپنے مشاہدات كو تعصب كی نظر سے دیكھتا تھااوربغیر كسی غور وفكر كے ان كو انھیں تھمتوں پر حمل كرتا تھا، چنانچہ بغیر غور وفكر كے اپنے سفر نامے میں لكھتا تھا، اسی وجہ سے اس كے سفر نامے میں بھت سی چیزیں حقیقت كے خلاف موجود ھیں۔
اگر وہ ذرا بھی انصاف سے كام لیتا تو اس كو معلوم هوجاتا كہ عربوں سے شاہ عباس كی دشمنی كی كوئی دلیل نھیں ھے اور شاہ عباس عربوں كا دشمن كیوںهوتا؟! كیونكہ بھت سے تاریخی مدارك اس كے خلاف موجود تھے، اسی طرح شاہ عباس كی ایرانیوں كو حج سے روكنے پر بھی كوئی دلیل نھیں ھے، اور اس كے مشہد مقدس كا پاپیادہ سفر كرنے كی وجہ اس كی نذر تھی، اس كے علاوہ كسی بھی تاریخی سند میں كوئی بات بیان نھیں هوئی، اور یہ بات كس طرح ممكن ھے كہ ایك دیندار بادشاہ شاہ عباس جس نے بھت سے كار خیر انجام دئے پانی كے لئے كنویں كھدوائے بھت سی مسجدیں بنوائیں، ایسا شخص حج جیسے اھم واحب سے اور اگر محمد ثابت صاحب تھوڑی سی بھی تحقیق كرتے اور لوگوں كے ساتھ كچھ دن زندگی بسر كرتے تو انھیں ایرانیوںكے بارے میں معلوم هوجاتا كہ ایرانی اس شخص كا جو مكّہ معظمہ كی زیارت اور حج سے مشرف هوتا ھے كس قدر احترام كرتے ھیں اور صرف حاجی ایك ایسا لقب ھے جو تمام ایرانیوں میں احترام كے لئے كھا جاتا ھے، بڑے بڑے اور جید علماء كرام كے لئے بھی شروع میں حاجی لگایا جاتا ھے اور عام لوگوں كو بھی احترام كی وجہ سے حاجی كھا جاتا ھے۔
اسی طرح اس كو معلوم هوجاتا كہ ھر ایرانی كی یہ دلی تمنا هوتی ھے كہ وہ مكہ ومدینہ كی زیارت سے مشرف هو، اور اس بات كو سبھی حضرات جانتے ھیں كہ كسی بھی زمانہ میں ایرانی حاجیوں كی تعداد كسی بھی اسلامی ملك سے كم نھیں رھی، اور حاجیوں كی بڑھتی هوئی تعداد كی وجہ سے ایران میں امیر الحاج معین كیا جاتا ھے، اور سعودی عرب كی رپورٹ كے مطابق ایرانی حجاج كی تعداد پھلے نمبر پر هوتی ھے، اور امكانات اور دیگر وسائل سفر وغیرہ كے لحاظ سے بھی پھلا درجہ هوتا ھے۔
مذكورہ مورخ كی بے توجھی كو مد نظر ركھتے هوئے اس بات كی طرف اشارہ كرنا مناسب ھے كہ موصوف روضہ امام رضاںمیں صحن عتیق كے ایوان میں لگے فیروزوں كی باتیں كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں كہ فیروزوں كی كان فارس كے علاقہ فیروزآباد میں ھے وھاں ایك پھاڑ ھے جس كے ایك اھم حصہ میں فیروزے پائے جاتے ھیں۔
جب كہ یہ بات سب كو معلوم ھے كہ ایران میں فیروزہ كی كان نیشاپور میں ھے اور فارس كے علاقہ فیروز آباد میں كبھی كوئی فیروزہ كی كان نھیں تھی، ظاھراً اس مورخ كو فیروزآباد كے پھلے جز فیروز نے اس غلطی میں پھنسادیا ھے۔
اس سلسلہ میں ابن تیمیہ كی بات كتنی تعجب خیز ھے جبكہ وہ شیعوں كی فقہ سے كافی معلومات ركھتا ھے اور اپنے بعض مسائل میں شیعوں كے نظریہ كو اختیار كرتا تھا، اس كے باوجود كس طرح دوسروں سے متاثر هوگیا اور وہ تھمتیں جو لوگوں نے چند صدی قبل شیعوں پر لگائی گئی تھیں،اور ائمہ اور بزرگا ن دین كی زیارتوں كو جنھیںشیعہ متفق علیہ (سنی شیعہ) روایتوں كے مطابق مستحب مانتے اور ان پر تاكید كرتے ھیں ابن تیمیہ نے یہ كیسے گمان كر لیا كہ شیعہ ان كو خانہ كعبہ كے حج كے برابرقرار دیتے ھیں۔ 12
عجیب بات تو یہ ھے كہ اس نے اس عقیدہ كو شیخ مفید ۺ (جو خود سنی موٴلفوں كے مطابق شیعوں كے عظیم فقھاء اور متكلمین میں سے ھیں)كی طرف نسبت دی ھے۔
كیا یہ ممكن ھے كہ شیخ مفیدۺ زیارت كو جو كہ ایك مستحب كام ھے حج بیت اللہ كے برابر قرار دے دیںجو ھر مستطیع پر واجب ھے، یا اس سے بڑی بات كھیں كہ زیارت حج اكبر ھے۔ ؟!
شیخ مفید ۺ اور دوسرے عظیم علماء كی تو اور بات ھے یہ بات تو عوام الناس اور جاھل شیعہ بھی نھیں كہہ سكتا،اور نہ صرف یہ كہ كوئی ایسا عقیدہ نھیں ركھتا بلكہ یہ بات تو ان كے كانوں میں بھی نھیں پڑی ھے۔
اس بحث كے آخر میں یہ بات عرض كرنا ضروری ھے كہ كسی بھی كتاب میں چاھے وہ رجالی هو یا تاریخی یا بیو گرافی مذكورہ كتاب ”مناسك حج المشاہد“كا كوئی ذكر موجود نھیں ھے جوطرف منسوب هوئی ھے، نہ معلوم ابن تیمیہ نے اس كتاب كو كس خواب میں دیكھا ھے جس كی نسبت شیخ مفید كی طرف دیدی۔ 13
ایك یاد دھانی
ھم نے بار بار اس بات كی طرف توجہ دلائی ھے كہ ابن تیمیہ چونكہ شیعوں سے بھت زیادہ دشمنی اور عناد ركھتا تھا اسی وجہ سے اس نے ان باطل عقیدوں كی نسبت شیعوں كی طرف دی ھے جبكہ وہ خود اچھی طرح جانتا تھا كہ شیعہ جو كچھ بھی كھتے ھیںیا جس چیزپر اعتقاد ركھتے ھیں ان سب كو انھوں نے اپنے ائمہعلیهم السلام كے ذریعہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل كیا ھے ،ابن تیمیہ تقریباً اكثر مقامات پر شیعوں كو رافضی كھتا ھے اور جیسا كہ معلوم ھے كہ یہ نام شیعوں كے دشمن بدنام كرنے اور طعنہ كے طور پر استعمال كرتے ھیں۔
ھم یھاں پر رافضی كے بارے میںكتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے كچھ چیزیں خلاصہ كے طور پر بیان كرنا مناسب سمجھتے ھیں:
رافضی كون لوگ ھیں؟
بھت سے لوگوں كے ذہنوں میں یہ بات آتی ھے كہ رافضی فرقہ، شیعوں اور اھل سنت سے الگ ایك فرقہ ھے، یھاں تك كہ بعض موٴلفین نے اس مسئلہ میں غلط فھمی كی ھے اور وہ یہ نہ سمجھ سكے كہ یہ فرقہ سنیوں كا ھے یا شیعوں كا،بعض شیعہ عوام اس كو اھل سنت كا فرقہ تصور كرتے ھیں (جبكہ حقیقت یہ ھے كہ رافضی نہ سنی فرقہ ھے نہ شیعہ)، لہٰذا ھم یھاں پر اس بارے میں علمی اور تاریخی گفتگو كرتے ھیں:
”رفض“كے معنی ھر اس چیز كو چھوڑنے كے ھیں جو وحی كے ذریعہ نازل هوئی هو، یا بت پرستی اور قدیم افسانوں كی طرف پلٹنے كو بھی رفض كھا جاتا ھے اور یہ بھی وحی كو ترك كرنے كے معنی میں سے ھے۔ 14
اور یہ بات مسلمانوں سے مخصوص نھیں ھے بلكہ تمام الٰھی ادیان میں ایسی بیماریاں تھی جن كی وجہ سے وہ انحراف اور تباھی میں مبتلا هوئے ۔ (اس جگہ بعض موٴلفین نے مثالیں پیش كی ھیں مثال كے طور پر جناب موسیٰ ں، جناب عیسیٰں كے دین كے ماننے والوں نے وحی كی تعلیمات كو چھوڑكر انحراف اور شرك اختیار كیا)
اسلام میں اس طرح كا انحراف سب سے پھلے عبد اللہ ابن سبا جو كہ حِیری یمانی یهودی تھا، اس كے ذریعہ ایجاد هوا یہ شخص صدر اول میں اسلام لایا تھا.15
یہ شخص (عبد اللہ ابن سبا) خود اسرائیلی فكر ركھتا تھا چنانچہ اس نے اسلام قبول كرنے كے بعد اس طرح كے كارنامے شروع كئے،اور حضرت علی ںكے بارے میں اس طرح غلو كیا كہ پھلے تو آپ كو پیغمبر كھا اور اس كے بعد آپ كو خدا كہنے لگا۔
عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مرید اسلام اور اس كی تعلیمات اور خود امام ںسے بھت دور تھے ان كا كہنا تھا كہ حضرت علیںپیغمبر تھے لیكن جبرئیل نے غلطی كی كہ حضرت علیں كو پیغمبری دینے كے بجائے حضرت محمد (ص)كو دیدی۔
یھی لوگ وہ ھیں جو جناب جبرئیل كے دشمن ھیں، اور یھی كام یعنی جبرئیل كے ساتھ دشمنی اور جبرئیل پر غلطی كی تھمت لگانا وغیرہ،اس طرح كے عقائد گذشتہ مذھبوں مثلاً یونانی ستارہ پرست اور برھمنی عقائد ھیں یہ وہ مذاھب ھیں جو وحی كا انكار كرتے ھیںاور كھتے ھیں كہ خدا اور بندوں كے درمیان كوئی وحی نھیں ھے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اس خطرناك بیماری كی طرف اشارہ كیا ھے:
16
”اے رسول كہہ دیجئے كہ جو شخص بھی جبرئیل كا دشمن ھے اسے معلوم هونا چاہئے كہ جبرئیل نے خدا كے حكم سے آپ كے دل پر قرآن اتارا ھے جو سابق كتابوں كی تصدیق كرنے والا، ہدایت اور صاحبان ایمان كے لئے بشارت ھے“۔
حضرت علی علیه السلام كے بارے میں عبد اللہ ابن سبا كی باتیں اور اس كے غلونے حضرت كو ناراض كردیا، چنانچہ آپ كو بھت تكلیف پهونچی جس كی بناپرحضرت نے ارشاد فرمایا جس كو سید رضیۺ نے نہج البلاغہ میں بیان كیا ھے كہ آپ نے فرمایا: دو گروہ میری دوستی اور دشمنی كی وجہ سے ھلاك هوئے، پھلا گروہ وہ جس نے میری محبت میں غلو كیا اور دوسرا وہ جس نے میرے ساتھ سخت دشمنی كی (مراد ناصبی ھیں جنھوں نے حضرت علی ںپر كفر كی نسبت لگائی)۔ 17
اور الحمد اللہ ان دونوں فرقوں میں سے آج كوئی بھی باقی نھیں ھے جیسا كہ علامہ سید محسن امین ۺ نے اس چیز كی طرف اشارہ كیا ھے۔
عبد اللہ ابن سبا اور اس كے تابعین كا عقیدہ یہ بھی تھا كہ حضرت علیں نھیں مرے، ور آپ كی شان اس سے كھیں بلند وبالا ھے كہ آپ كو موت آئے، آپ بادلوں كے اوپر رھتے ھیں اور بجلی كی چمك كے وقت جو آواز نكلتی ھے وہ آپ ھی كی آواز هوتی ھے، اور یھی نھیں بلكہ عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مطیع حضرت علیںكو خدا بھی كھتے ھیں۔
عبد اللہ ابن سبا مسلمانوں كے درمیان وہ پھلا شخص ھے جس نے انسانی الوھیت كا حكم كیا ھے اور اس كے بعد اس كے مریدوں نے اس كام كو آگے بڑھایا، یہ لوگ در حقیقت ان عظیم ہستیوں كو خدا كی طرح نھیں كھتے تھے بلكہ ان كے بارے میں یہ كھتے تھے كہ یہ حضرات قدرت الہٰی كے مظھر ھیں۔ 18
شیعہ روایات كے مطابق حضرت علی ںنے عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مریدوں كو توبہ كرائی اور چونكہ اس نے توبہ نھیں كی لہٰذا اس كے قتل كا حكم صادر كردیا۔
واقعاً ان تمام باتوں كے پیش نظر بھی ابن تیمیہ سے تعجب ھے كہ اس نے ان فاسد اور كفر آمیز عقائدكی (جو بغدادی اور شھرستانی وغیرہ نے نقل كئے ھیں) شیعوں كی طرف نسبت دیدی، اور بعض عقائد تو ایسے ھیں كہ شاید ان كے پیرو بھی نہ هوں او راگر هوں بھی تو شیعہ اثنا عشری ان سے ھمیشہ بیزار رھے ھیں، لیكن پھر بھی ابن تیمیہ نے ان تمام كو شیعوں كی طرف نسبت دیتے هوئے ان پر حملہ كیا ھے۔ 19
ابن تیمیہ نے شیعوں پر تھمتیں لگانے میں جن كتابوں سے استفادہ كیا ھے وہ سب سے پھلے كتاب العثمانیہ جاحظ اور اس كے بعد الفرق بین الفِرق تالیف بغدادی ھے، كیونكہ اس نے اپنی كتاب منھاج السنة میں جو باتیں بیان كیں ھیں وہ بالكل وھی ھیں جو كتاب العثمانیہ میں بیان كی گئی ھیں۔

حوالہ جات

1. كتاب الجواب الباھر ابن تیمیہ كا ص ۱۴ سے ۱۹ تك كا خلاصہ۔
2. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۳۔
3. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۹۔
4. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۵۵۔ بعد میں زیارت كے سلسلہ میں مسند احمد حنبل میں ذكر شدہ روایات كی طرف اشارہ كیا جائے گا۔
5. مجموعة الرسائل الكبریٰ ج۲ ص۵۹۔
6. كتاب الردّ علی الاخنائی، ص ۸، ۳۴، ۱۳۱۔
7. ابن تیمیہ كھتے ھیں كہ اجماع سے میری مراد مخالف پر علم نہ هونا ھے نہ یہ كہ مخالف كی بالكل نفی كرنا۔ (الرد علی الاخنائی ص ۱۹۵)
8. فوات الوفیات جلد اول ص ۷۴۔
9. الغدیر، ج۵ ص ۱۸۴
10. راحة الصدور ص ۳۹۴، غزنویوں اور سلجوقیوں كے زمانہ میں شیعوں كو دشمنی كی وجہ سے عدالتی محكمہ میں نھیں ركھا جاتا تھا اور ان كو آل بویہ كی حكومت میں كسی عہدہ پر ركھنا گناہ سمجھا جاتا تھا، اس سلسلے میں كتاب آل بویہ اور تاریخ مذھبی قم میں تفصیل كے ساتھ واقعات موجود ھیں۔
11. جولة فی ربوع شرق الادنی (مذكورہ مورخ كے سفر ناموں میں سے ایك سفر نامہ) ص ۱۶۱۔
12. ممكن ھے كہ ابن تیمیہ كی شیعوں سے شدید دشمنی كی ایك وجہ یہ بھی هو كہ ابن تیمیہ چونكہ ”دروزیوں“ (اسماعیلیوں كا ایك غلو كرنے والا فرقہ)كا سخت دشمن تھا، اور اس فرقہ كو شیعہ فرقوں میں شمار كرتا تھا، اور ”قلقشندی“(صبح الاعشی ج۱۳ ص۲۴۸) كے كہنے كے مطابق دروزیوں اور نصیروں سے جنگ كرنا ”اَرْمنیوں“ سے جنگ كرنے سے بھی زیادہ واجب ھے،ابن تیمیہ اور اس كے مریدوں كا گمان یہ تھا كہ دروزیوں نے شام ومصر پر مغلوں كے حملوں میں ان كا ساتھ دیا ھے لہٰذا وہ مغلوں كے ھمراہ و ھمراز ھیں۔ ابن تیمیہ نے نصیروں سے جنگ كے بارے میں تفصیلی فتویٰ صادر كیا ھے(الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص۳۵۸)، اور جیسا كہ معلوم ھے كہ ابن تیمیہ كے زمانہ میں نصیریوں نے قدرت حاصل كرلی تھی اور اپنے عقائد ونظریات كو كھلے عام لوگوں كے سامنے بیان كرتے تھے، چنانچہ مشهور مورخ ذھبی نے۷۱۷ھ كے واقعات میں اس طرح لكھا كہ ایك جبلی شخص (حلب كے علاقہ جَبَلہ كی طرف منسوب) ظاھر هوا جو كبھی یہ كھتا تھا كہ میں محمد مصطفی هوں، اور كبھی یہ كھتا تھا كہ میں علی هوں، یھاں تك كہ كبھی یہ دعویٰ كرتا تھا كہ میں امام منتظرهوں، اور وہ تمام لوگوں كو كافر سمجھتا تھا، اور اس كے مرید كھتے تھے ”لا الہ الا علی“ اور لوگوں كا خون بھانا حلال سمجھتے تھے،نیز اسی طرح كی دوسری چیزیں اس سے صادر هوتی تھیں، (ذیل العبر ص ۹۱) چنانچہابن تیمیہ نے ان تمام كاموں كو شیعوں كے كھاتے میں شمار كیاھے۔
13. یھاں پر یہ كہناچاہئے كہ ابن تیمیہ چونكہ شیعوں سے بھت دشمنی اور عناد ركھتا تھااسی وجہ اس نے اپنی كتابوں میں شیعوں كے اصولی عقائد(حقیقی معنی میں) كو بیان كرنے كے بجائے ھر ان باطل عقائد اور كفر آور باتوں كو ان ملل ونحل كی كتابوں سے نقل كركے جو مختلف فرقوں كی طرف سے لكھی گئی تھیں، اور شاید جن كا اس وقت كوئی نام ونشان بھی باقی نہ هو، (البتہ مذكورہ كتابوں كے بارے میں بھی اختلاف موجود ھے) ان كو شیعوں كے عقائد كا حصہ بنا كر ذكر كیا ھے، اور اگر كسی نے اپنے شیخ یا پیر كے بارے میں چاھے وہ زندہ هویا مردہ كسی بھی طرح كی غلوكی بات كھی تو اس كو شیعوں كے عقائد میں شمار كرلیا، (اس سلسلہ میں منھاج السنة جلد اول كا پھلا حصہ اور جلد دوم كے آخری حصہ كی طرف رجوع فرمائیں)، جبكہ حق وانصاف كا تقاضا یہ تھا كہ شیعوں كے عقائد كو ان كی كلامی كتابوں منجملہ شرح تجرید عقائد ومنھاج الكرامة علامہ حلّی ۺ سے نقل كیا جاتا، (جبكہ ابن تیمیہ نے منھاج الكرامة كی رد كرتے هوئے شیعو ں پر حملوں میں كوئی كسر باقی نہ ركھی) چنانچہ اگر ان كتابوں میں اس طرح كی كوئی بات یا غلو هوتا توپھر اس كو یہ حق تھا كہ ان كو شیعہ كے حساب میں ركھتا۔
14. جیسا كہ مشهور ھے كہ كلمہ رافضی جناب زید بن علی كے قیام كے وقت سے شیعوں پر اطلاق هوا ھے، معلوم نھیں كہ صحیح ھے بھی یانھیں،كیونكہ اس سے پھلے بھی یہ كلمہ شیعہ مخالفوں كی طرف سے شیعوں كے لئے كھا جاتا تھا۔
(عرض مترجم: یہ بات كہ بعض لوگوں نے زید بن علی ابن الحسینعلیهم السلام كی بیعت كی اور ان كو شیخین پر تبراء كرنے كے لئے كھا، اور جب تو انھوں نے انكار كردیا تو ان لوگوں نے زید كو چھوڑدیا اسی وجہ سے ان كو رافضی كہنے لگے، سراسر جھوٹ ھے بلكہ حقیقت تو یہ ھے كہ یہ ایك سیاسی حربہ ھے اور ھر اس شخص كو رافضی كھا جاتا ھے جو حكومت وقت كی مخالفت كرے، اور دوسری بات یہ كہ بعض معتبر تاریخوں نے مذكورہ بات كو نقل نھیں كیا جیسے ابوالفرج اصفھانی نے اس واقعہ كو نقل كیا اور جناب زید كے حالات لكھے لیكن كھیں اس میں كوئی ایسی بات نھیں لكھی جو اس بات پر دلالت كرے كہ كلمہ رافضی ان كے واقعہ كے بعد سے شروع هوا ھے،اور دوسری بات یہ كہ یہ كلمہ كوفہ كے شیعوں پر اس سے پھلے بھی اطلاق هوتا تھا، جیسا كہ ایك شخص نے كوفہ میں ظلم وتشدد كو امام زین العابدینںكے پاس لكھا اور عرض كی كوفہ كی حالت بھت زیادہ خراب ھے كیونكہ یہ لوگ مسجدوں اور منبروں پر حضرت علیںپر لعن وطعن كرتے ھیں اور اگر كوئی حضرت پر لعن كرنے كو منع كرتا ھے تو اس كو رافضی كھتے ھیں، اور اس كو حاكم كے پاس لے جاتے ھیں جس كے نتیجہ میں اس كو قتل كردیا جاتا ھے۔ (اقتباس از كلام مقارن تالیف استاد محترم ربّانی دامت بركاتہ)
15. بعض شیعہ محققین نے داستان عبد اللہ ابن سبا كو صرف ایك افسانہ او رمن گھڑت كھانی بتایا ھے اور خود اس كے وجود كو بھی جعلی كھاھے یعنی اس طرح كا كوئی آدمی تھا ھی نھیں، اس سلسلہ میں علامہ سید مرتضیٰ عسكری صاحب نے ایك تفصیلی كتاب تالیف كی ھے مزید آگاھی كے لئے مذكورہ كتاب كی طرف رجوع فرمائیں۔
16. سورہ بقرہ آیت ۹۷۔
17. ”ہَلَكَ فِیَّ رَجُلانِ: مُحِبٌّ غَالْ، وَمُبْغِضٌ قَالْ“ (نہج البلاغہ كلمات قصار حضرت امیر الموٴمنین(ع)
18. كتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ جلد اول ص ۹۸سے ۱۱۲تك كاخلاصہ ،مذكورہ كتاب میں رفض اور رافضی كے بارے میں ایك تازہ بیان ھے لہٰذا ضروری ھے كہ اس سلسلے میںكافی دقت اور تحقیق هونا چاہئے۔
19. عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مریدوں سے مزید آگاھی كے لئے اور دوسرے غلو كرنے والے فرقوں كے بارے میں معلومات حاصل كرنے كے لئے ”الفَرقُ بین الفِرق“ ص ۳۳۳، تالیف بغدادی كی طرف رجوع فرمائیں، اور عبد اللہ ابن سبا كا وجود ھی خیالی ھے اس بات كی تحقیق كے لئے علامہ عسكری دامت بركاتہ كی كتاب عبد اللہ ابن سبا نامی كتاب كی طرف رجوع كریں۔

 

تبصرے
Loading...