خدا کی نعمتوں کا شکر بجالانا کیوں واجب ھے؟

لغت میں شکر “ذھن میں نعمت کا تصور کرنے اور قول اور عمل میں اس  کے اظھار کرنے کو کھتے ھیں”[1] ۔ اس سوال کےجواب میں کھ نعمت کا شکر کیوں واجب ھے کچھه نکات کی جانب توجھ کرنا ضروری ھے ۔

۱۔ منعِم ( نعمت دینے والے) کا شکر بجا لانا ایک باطنی اور فطری چیز ھے۔ انسان اپنی عقل اور فطرت کی جانب رجوع کرکے اس حقیقت کو سمجھه لیتا ھے کھ جس نے بھی اسے کوئی نعمت عطا کی ھو یا کوئی خدمت انجام دی ھو ( اگر چھ وه خدمت اور نعمت چھوٹی ھی ھو ) بے خیال نھ رھے اور کسی بھی طرح اس کا شکریھ بجا لائے اور اس کی قدردانی کرے،  ورنھ عقل کی جانب سے وه سزا  کے قابل ھوگا اور عقلاء اس کی مذمت کریں گے ، اور اسے حیوانوں سےپست تر جانیں گے۔ کیونکھ بھت سے حیوانوں میں شکر گزاری کی خصلت واضح ھے اسی حکم عقل کے مطابق جب انسان توجھ کرتا ھے کھ ایک لاثانی قدرت نے وجود کے سرمایھ اور دیگر بڑی قیمتی اور بے شمار مادی اور معنوی نعمتیں اس کو عطا کی ھیں تو وه اپنے اوپر فرض جانتا ھے کھ اس ولی نعمت کے لئے بے خیال نھ رھے اور جھان تک اس کے لئے ممکن ھو اس کی نعمتوں کا شکریھ کرکے ، اس کی کرامت ، عظمت اور بزرگی کےمقابلے میں اپنا سر خم کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔ اس طرح کی ذھنیت ھر انسان میں فطری طور پر موجود ھے جو ھر ایک پر اپنے مُنعِم کا پھچاننا واجب کرتا ھے، کیونکھ پھچان کے مرحلے کے بعد ھی قدردانی اور شکر گزاری ممکن ھوتی ھے ۔ [2]

۲۔ شکر گزاری کے فلسفھ سے آگاھی، ھمیں نعمات الھی پر شکر گزاری کے واجب ھونے کی ھدایت کرتی ھے:

ممکن ھے کھ انسانوں کو بھی ان نعمتوں کے مقابلے میں جو وه دوسروں کو عطا کرتے ھیں شکر گزاری کی توقع رھتی ھوگی ، لیکن بے شک جو خدا ھر چیز سے بے نیاز ھے اگر پورا عالم اس کا انکار کرے تو اس کے کبریائی دامن میں ذره برابر فرق بھی نھیں آتا۔ اس کو بندوں کی شکر گزاری کی ضرورت ھی نھیں ھے۔ لیکن اپنی بےنیازی کے باوجود بھی بندوں کے اوپر، مصلحت اور حکمت کے مطابق شکر گزاری کو واجب قراردیا ھے اور قرآن کریم میں شکرگزاروں کو خوشخبری دی ھے اور نا شُکرے افراد کی طرف بے توجهی کرکے ارشاد کرتا ھے : “جو خدا کا شکر کرے گا وه اپنے ھی فائدے کے لئے شکر کرتا ھے اور جس نے ناشکری کی تو خدا تو بھر حال قابل حمد و ثنا ھے”۔ [3]

نعمت کی نا شکری کو شدید   کا باعث جانتا ھے اور فرماتا ھے ” اور اگر تم ناشکری کرو گے توبے شک میرا عذاب شدید ھے ” [4]

اگرچھ خداوند متعال اس سے عظیم ھے کھ ناشُکرے افرادکو محروم کرے، لیکن ناشکری خود بخود بعض چیزوں سے محروم ھونے کا سبب بنتی ھے جیسے نعمت کا زائل ھونا ، خیر کا اٹھه جانا ،نیز احسان ، شجاعت ، ایثار کے ختم ھونے کا سبب نا شکری هی بنتی ھے اور منعم کی شکر گزاری کے نتائج بے شک عظیم ھیں اور ھر انسان کو اس کی شان اور منزلت کے مطابق عطا ھوتے ھیں۔

پس شکر گزاری کے مسئلے پر اتنی تاکید کرنے کا فائده خود انسان کو ھوتا ھے اور اگر اس کے فلسفے کے بارے میں غور کریں تو اس کا واجب ھونا بھی واضح ھوتا ھے:

اولا ) جو فرد یا قوم خدا کی نعمتوں کی قدر کرتی ھے چاھے شکر گزاری ان کے دل میں ھو یا زبان اور عمل میں، وه یھ ثابت کرتی ھے کھ وه نعمت حاصل کرنے کے قابل ھیں۔ خداوند متعال کا کام بھی ھمیشھ حکمت کے مطابق ھوتا ھے خدا بغیر کسی وجھ کے نھ کسی سے نعمت لیتا ھے اور نھ کسی کو نعمت عطا کرتا ھے۔ آیات اور روایات اسلامی میں شکر نعمت کے دائمی اور زیاده ھونے کا سبب جانا گیا ھے اور حدیث میں حضرت امیر المؤمنین علیھ السلام فرماتے ھیں: ” شکر کا فائده ، نعمت کا زیاده ھونا ھے” [5]

ثانیا ) جب انسان کے اندر شکر گزاری کی روح پرورش پاتی ھے تو خالق کی شکر گزاری سے مخلوق کی شکر گزاری تک پھنچتی ھے اور مخلوق کی خدمت اور تکلیف کے مقابلے میں شکر گزاری اور شکریھ اداکرنے سے انسان کی استعداد کھلنے لگتی ھے اور اس کے جوھر وجود کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ھیں۔ اور نتیجھ کے طورپر سماج اور صاحبان نعمت میں خیر اور نیک کام انجام دینے کے لئے ان کے ارادے دوگنے ھوتے ھیں۔

ثالثا ) خالق کی شکر گزاری ، اس کی معرفت کے دروازوں کو کھولتی ھے اور خالق سے انسان کے رابطھ کو مضبوط بناتی ھے۔ شکر گزاری منعم اور نعمت کی معرفت کا سبب بنتی ھے اور یھ معرفت روز بھ روز خدا کے ساتھه بندوں کے رابطے کو بھی مضبوط کرتی ھے۔ اور اس کے عشق کی آگ کو دلوں میں بھڑکاتی ھے ۔

۳۔ بے شک کسی فرد میں پوری نعمتوں پر شکر کرنے کی طاقت نھیں ھے کیونکھ فکر،عقل،زبان،ھاتھه، پاؤں،وغیره کی شکر گزاری کی توفیق کھ جس کے ذریعے انسان دلی، زبانی ، اورعملی شکر بجالاتا ھے، یھ سب خدا کی نعمتوں کے ذریعے سے ھے اوریھ توفیق جب شکر گزاری کی راه میں قرار دی جائے تو وه ایک اور نعمت ھے جس پر ایک اور شکر کرنے کی ضرورت ھے اسی وجھ سے جیسا کھ اسلامی روایات میں اشاره ھوا ھے انسان کا سب سے بڑا شکر نعمتوں کے مقابلے میں خدا کا شکر بجالانے میں ناتوانی کا اظھار ھے اور حق تعالی کے حضور گناه اور تقصیر کا اظھار کرنا ھے۔ ورنھ خد کی خداوندی کا حق کوئی بھی ادا نھیں کرسکتا ھے۔ [6]

نتیجھ یھ کھ : شکر گزاری نھ صرف فطری اور باطنی امر ھے بلکھ انسان کی تمام سعادتوں اور عظیم الھی برکات کا سرچشمھ ھے جو دن بھ دن انسان کو خدا سے نزدیک کرتا ھے اور خدا کے ساتھه بندوں کے عشق و محبت کو مضبوط بناتا ھے اور تقوی اور پرھیز گاری کا عامل ، رستگاری اور سعادت کی جانب راستھ اور ذات خدا کے مقابلے میں انسان کی بندگی اور عبودیت کی معرفت کے لئے ایک نورانیت ھے اسی لئے خداوند متعال کے بے نیاز ھونے کے باجود حکمت اورمصلحت کے عنوان سے شکر گزاری بندوں پر ضروری اور واجب قرار دی گئ ھے۔



[1]  مفردات راغب۔ س ۲۶۵، لفظ “شکر “۔

[2]  توحید از دیدگاه عقل و نقل، جعفر کریمی، قدرت اللھ فرقانی ، فصل لزوم شناخت خدا، تھوڑی تبدیلی کے ساتھه۔

[3]  سوره لقمان / ۱۲ ” و من یشکر فانما یشکر لنفسھ و من کفر فان اللھ عنی حمید”

[4]  سوره ابراھم / ۷ ‘ لئن شکرتم لازیدنکم و ل۴ن کفرتم ان عذابی لشدید”

[5]  شرح فارسی غرر الحکم ، جلد ۳ ۔ صفحھ، ۳۳۸ ، ثمره الشر زیادۃ النعم۔

[6]  مکارم شیرازی ، ناصر اخلاق در قرآن ، ج ۳ ص ۸۰ اور ۸۱۔ 

تبصرے
Loading...