تزکیه اور خودسازی کے سلسله میں کس حد تک استاد کی ضرورت هوتی هے؟

جب انسان کو ظاهری اور تجرباتی علوم ، جیسے جسم کے علاج کےلئے طبیب اور استاد کی ضرورت هو تی هے تو یقینآ روح کے علاج کے لئے بھی طبیب اور استاد کی ضرورت هے کیونکه یه امر زیاده مشکل هے-

لیکن یه وه راه هے،جسے طے کر نے کے لئے سب سے بڑا استاد راهنمائی کرتا هے-تمام انسانوں کی راهنمائی کے لئے ابتدائی استاد خداوند متعال هے –قرآن مجید میں ارشاد هوا هے :” الله صاحبان ایمان کا ولی هے ، وه انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا هے –”[1] اور ارشاد الهی هے: “اور جن لوگوں نے همارے حق میں جهاد کیا هے هم انهیں اپنے راستوں کی هدایت کریں گے-“[2] پس خداوند متعال کی مدد سےاور اس پر توکل کر کے اس راه میں قدم بڑهایا جاسکتا هے- اگر خداوند متعال نے انسان کی راه میں کسی متقی و پرهیز گار شخص کو قرار دیا تو وه اس سے استفاده کرتا هے ، لیکن اگر اس نعمت سے انسان محروم هوا تو ،وه اس راه پر آگے بڑھنے سے نهیں رکتا هے، بلکه اپنی معلو مات پر عمل کر تا هے اور خدا وند متعال اسے مجهو لات کا علم عطا کر تا هے ، حدیث شریف میں آیا هے که: جوشخص اپنی معلو مات پر عمل کرے،خدا وند متعال اسے مجهو لات کا علم عطا کر تا هے-“[3]

حضرت آیت الله بهجت سے ایک سوال کے دوران پوچھا گیا:” کیا اس طریقه کے لئے استاد کی ضرورت هے ؟” انهوں نے جواب میں فر مایا : ” تمھارا  استاد تمھارا علم هے ، جو کچه جانتے هو اس پر عمل کر نا ، جو نهیں جانتے هو وه کافی هے –” اسی طرح جس شخص نے یه سوال کیا تھا که : ” میں سیر وسلوک کا اراده رکھتا هوں ، مجھے کونسا کام انجام دینا چاهئے ؟ فر مایا گیا : ” گناه سے اجتناب کر نا ایک هزار سال زندگی کے لئے کافی هے-“[4]

پس انسان کا ابتدائی استاد خدا وند متعال هے ، اسی لئے اس نے انسانوں کی هدایت کے لئے انبیا بھیجے هیں ، ان کے بعد آئمه اطهار علیهم السلام او ان کے بعد متقی اور پر هیز گار انسان استاد کا عهده سنبھالتے هیں – کسی خاص استاد کی عدم موجود گی میں انسان خدا وند متعال کی مدد اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور آئمه اطهار علیهم الاسلام کی روح سے استعانت حاصل کر کے اس راه پر گامزن هو سکتا هے اور اپنے علم کو معلم جان سکتا هے ، جو اسے گناهوں سے بچا سکتا هے اور یهی گناه سے اجتناب اور واجبات بجالانا اس کے لئے اس راه میں رشد و بالید گی کا سبب بن سکتا هے-



[1]  -” الله ولی الذین آمنوا یخرجهم من الظلمات الی النور”، بقره، ٢٥٧-

[2] – ” والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا” ،عنکبوت،٦٩-

[3] – المحجھ ا لبیضا، ج٦،ص٢٤: بحار الانوار ،ج٨٩،ص١٧٢:الخرائج ،ج٣،ص١٠٥٨-

[4] – به سوی محبوب ،دستور العمل ھا و راھنمائی ھای حضرت آیت الله بھجت ،ص٥٨-

تبصرے
Loading...