ایک مالدار و دولت مند باپ اور اس کی دولت سے متعلق مجھے ایک طالبعلم(مولوی) کے عنوان سے کس طرح پیش آنا چاهئے ؟ کیا میں اس دولت سے استفاده کر سکتا هوں ؟

اسلام کی نظر میں ایک بهت اهم اخلاقی مسئله ماں باپ کے حقوق کی رعایت کرنا هے جس کے ذریعه انسان معنوی کمالات حاصل کر سکتا هے ۔

خداوند عالم نے والدین کے احترام اور ان کے قانونی اور صحیح دستورات پر فرمانبرداری کے سلسله میں متعدد آیات میں یاد دهانی کی هے



[1]







[2]



۔

لیکن خاص کر اپنے ماں باپ کی دولت کے استعمال کے سلسله میں چند نکات اهمیت کے حامل هیں :


الف:

اگر آپ کو علم هے که والدین کی دولت حرام مال سے هے تو آپ کا فریضه واضح و روشن هے نه آپ کو اسے استعمال کرنے کاحق هے اور نه هی اسے دوسروں پر انفاق کر سکتے هیں ۔


ب :

لیکن اگر ان کی دولت حلال آمدنی سے هے تو آپ کا فریضه مختلف هے اور آپ والدین کے مال سے ان کی رضایت کے ساتھ حسب ذیل نکات کے پیش نظر استفاده کر سکتے هیں :



1-  




ایک انسان خاص کر ایک طالبعلم (مولوی) کے لئے سب سے اهم دولت عزت نفس اور دوسروں حتی والدین کے مال سے وابسته نه رهنا هے ، کرامت و عزت نفس انسانی روح کا وه نقطه هے جو انسانی اخلاق کی تکمیل اور اس کے حیا کے لئے اسلامی توجه کا مرکز هے ارشاد خداوندی هے : (( عزت ، خدا ، رسول اور مومنین سے مخصوص هے ))



[3]



۔


پیغمبر اکرم صل الله علیه وآله وسلم ارشاد فرماتے هیں: ((اپنی حاجتیں طلب کرو مگر عزت نفس هاتھ سے جانے نه دو ))



[4]


عزت نفس سے استفاده اور اس میں افراط و تفریط سے متعلق شهید مطهری اپنی کتاب فلسفه اخلاق میں لکھتے هیں : ممکن هے کچھ لوگ افراط کی حد تک هوں ، حد یه هے که اگر کوئی ضرورت بھی هو تب بھی کسی سے نهیں کهتے ، جب که پیغمبر اکرم صل الله علیه وآله وسلم نے فرمایا هے :

[ ((اطلبوا الحوائج)) اپنی حاجتیں طلب کرو لیکن (( بعزﺓ النفس)) لیکن عزن نفس کے ساتھ یعنی عزت نه جانے پائے ، جب آپ اپنی حاجتیں دوست (یا ماں باپ ) سے بتائیں تو اسی حد تک که آپ کی عزت و بزرگی پائمال نه هو ، لیکن جب کرامت و بزرگی و عزت نفس پر آنچ آنے لگے تو ٹھهر جایئں یهی محتاجی اور فقر بهتر هے ]



[5]




2-  




اس بات کی طرف توجه هونی چاهئے که مال کے تصرف میں آپ کے والدین نے کتنی چھوٹ آپ کو دی هے ، کیا فقط آپ کو استعمال کا حق دیا هے یا اس میں سے راه خدا میں بھی انفاق کر سکتے هیں اور دوسروں پر بھی خرچ کر سکتے هیں ۔

اگر دوسروں پر خرچ کرنے کی اجازت دی هے یا اس سلسله میں آپ کو اپنا مددگار بنایا هے تو بھی ان سے مشوره ضرور کریں تا که آپ خود بھی عام شان و شوکت اور خاندانی دولت و نعمت سے بهره مند هوں اور اپنے والدین کی بھی اس خدادادی دولت و نعمت کی صحیح اور شرعی طریقه سے استعمال کرنے میں مدد کریں ۔

اور اگر باپ کی دولت سے استفاده کی اجازت فقط خود کے لئے هے تو طالبعلمی کی شان و شوکت ، جو ایک عرفی امر هے ، زمان و مکان ، علمی سطح ، شخصی حالات ، خاندان سے وابستگی اور دوسرے شرائط کے پیش نظر استعمال کرنے کی صورت حال مختلف هوگی اور آپ خاندانی دولت و امکانات سے بهره مند هو سکتے هیں ۔



3-  




مال حلال میں بھی انسان کو یه بات پیش نظر رکھنی چاهئے که اگر مال حلال تھا تو بھی جس طرح چاهیں استعمال کرنا جائز نهیں هے ، روایات میں هے که مال حرام میں عقاب و عذاب هے اور مال حلال میں حساب و کتاب هے



[6]



اس لئے انسان کو چاهئے که جب تک مال حلال اس کے اختیار میں هے صحیح اور حلال راه میں استعمال کرے ۔ یهی وه ذمه داری هے جو هر ایک خاص کر علمائے دین ، طالبعلم اور دینی معارف کے متلاشیوں کی گردن پر پے ۔







[1]



و قضیٰ ربُّکَ الّا تعبدوا الّا اِیّاه و بالوالدینِ احساناً ۔ ۔ ۔ فلا تَقُل لھما اُفٍّ ولا تَنھرھُماو قُل لھما قولاً کریماً ٭ وَاخفِض لهُما جناحَ لاذُّلّ مِنالرّحمَۃِ و قُل ربّ ارحَمھُما کَما ربّیانی صغیراً ، سوره اسراء ، آیت 23-24 ؛( و وصینا الانسانَ بوالدَیهِ حسناً)، اور تمهارے پروردگار نے تو حکم هی دیا هے که اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نه کرنا اور ماں باپ کے ساﺘﮭ نیکی کرنا اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمهارے سامنے بڑھاپے کو پهنچیں تو (خبردار) ان کے جواب میں اف تک نه کهنا اور نه جھڑکنا اور (جو ﮐﭽﮭ کهنا سننا هو) تو بهت هی ادب سے کها کرو اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کے ساﺘﮭ شانے جھکائے رکھو اور دعا کرو که اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے بچپنے میں میری پرورش کی اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما ۔ ووصینا الانسانَ بوالدیه، هم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساﺘﮭ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا هے ۔

 


 








[2]



 

 

مرتبط عنوان: والدین کے حکم اور اولاد کا فریضه ، سوال نمبر 4467 (سائت: 4774)






[3]



 

 

منافقون ، 8 (ولله العزۃ ولرسوله و المؤمنین۔ ۔ ۔ )






[4]



 

 

نهج الفصاحه ، حدیث 325 ، ص 64 ” اطلبوا الحوائج بعزۃ الانفس”






[5]



 

 

شهید مرتضیٰ مطهری ، فلسفه اخلاق ، ص 124






[6]



 

 

بحار الانوار ، ج 44 ، ص138

تبصرے
Loading...