اگر مصالحت کے بعد طرفین میں سے ایک جبر و اکراه کا دعوی کرے تو کیا مصالحت کے انعقاد پر کوئی اثر پڑتا ھے؟

اس مسئلھ کی چند صورتیں ھیں :

۱۔ صلح کے طرفین میں سے ایک جبر و اکراه کا دعوی کرتا ھے اور دوسرا جبر و اکراه سے انکار کرتا ھے ۔

۲۔ دوسرا فریق بھی جبر و اکراه کا اعتراف کرتا ھے ۔

۳۔ دوسرا فریق خاموش ره کر کھتا ھے کھ مجھے معلوم نھیں۔

پھلی صورت میں جبر و اکراه کے منکر فریق کی بات مقدم اور قابل اعتبار ھے چونکھ اس کی بات مسلمانوں کے درمیان ” اصالۃ الصحۃ” کے اصول کے مطابق ھے، کیونکھ دونوں فریق صلح کے واقع ھونے کو اصولی طور پر قبول کرتے ھیں ، لیکن ایک کھتا ھے[1] کھ یھ مصالحت صحیح طور پر واقع ھوئی ھے اور دوسرا کھتا ھے کھ مصالحت باطل تھی۔ اصل یھ ھے کھ مصالحت صحیح طور پر واقع ھوئی ھے اور کسی قسم کا جبر اکراه نھیں تھا ، مگر یھ کھ جبر و اکراه کا دعوی کرنے والا دلیل و برھان کے ذریعھ ثابت کرنے کھ مصالحت میں جبر واکراه تھا۔

اس مسئلھ کے حکم کو علم اصول کے مجموعی مباحث پر غور و خوض کرنے اور اس کے مانند فقھی کتابوں مین دیکھا جاسکتا ھے ۔ مثلا محقق حلی اپنی کتاب شرایع الاسلام میں متبایعین کے اختلاف کے بارے میں کھتے ھیں :

‘ الرابعۃ : اذا قال بعتک بعبد ، فقال بل بحر، او بخل، فقال بل بخمر۔ اوقال : فسخت قبل التفرق، و انکر الاخر فالقول ، قول من یدعی صحۃ العقد مع یمینھ و علی الاخر البینۃ”[2]

صاحب جواھر بھی کھتے ھیں: ” بلا خلاف معتد بھ اجده ۔۔۔ و لا اشکال فی جریانھا ( اصالۃ الصحۃ ) کما ھو واضح بادنی تامل۔[3]

لیکن دوسری صورت کا حکم واضح ھے کھ دوسرے فریق کی طرف سے مصالحت کے جبر و اکراه کے اعتراف کرنے کی صورت میں مصالحت کی کوئی وقعت نھیں ھے بلکھ اسلام کے تعزیراتی قوانین کے مطابق جبر و اکراه کرنے والے کے لئے سزا ھے ۔ اسلامی جمھوریھ ایران کی اسلامی سزاؤں کے تعزیراتی قوانین کی دفعھ نمبر ۶۶۸ فصل ۲۲ میں آیا ھے کھ ” جو شخص زور زبردستی یا رعب یا اکراه یا دھمکی سے کسی کو کوئی تحریر یا سند یا دستخط یا مھر کرنے پر مجبور کرے یا اس سے مربوط سند یا تحریری یا امانت کو جبرا اس سے لے لے ، اس کو تین ماه سے دو سال تک قید اور ۷۴ کوڑے تک کی سزا دی جائے گی ۔[4]

لیکن تیسری صورت کے مختلف اقسام ھیں اس سلسلھ مین مزید معلومات کے لئے تحریر الوسیله[5] کا مطالعھ کیا جاسکتا ھے۔



[1]  البتھ قاضی کو اس کے حق مین فیصلھ دینے کےلئے ضروری ھے کھ مصالحت صحیح ھونے کا دعوی کرنے والا قسم بھی کھائے ، صرف اس کے دعوی پر اس کے حق میں فیصلھ نھیں دیا جاسکتا ھے۔

[2] شرایع الاسلام ، ص ۲۷۸ ، و ۲۸۸۔

[3] جواھر کلام ، ج ۲۳، ص ۱۹۴ تا ۱۹۸

[4]  حجتی اشرفی ، غلامرضا ، مجموعھ کامل قوانین و مقررات جزائی۔

[5]  امام خمینی ، التحریر الوسیلھ ، ج ۲، ص ۳۸۳، ۳۸۴۔

تبصرے
Loading...