اس بارے میں وضاحت کیجئے کھ دین اسلام صلح اور مصالحت کا دین ھے یا جنگ اور بے امنی کا ۔

اسلام کی لغوی جڑیں ، دو کلمے ” سلم ” اور ” سلام ” (جو صلح اور امن کے معنی میں ھیں )  ھیں ، پوشیده ھیں۔



[1]



قرآن مجید میں جگھ جگھ صلح اور مصالحت کی جانب اشاره ھوا ھے



[2]



اس حقیقت کی تائید میں کھ اسلام صلح ، امن اور دوستی کا دین ھے فرمایا گیا ھے  ؛ یا ایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافه و لا تتبعوا خطوات الشیطان انھ لکم عدو مبین ”



[3]



ایمان والو تم سب مکمل طریقھ سے اسلام میں داخل ھوجاؤ اور شیطانی اقدامات کا اتباع نھ کرو کھ وه تمھاری کھلا دشمن ھے۔

قرآن کی نظر میں مستحکم عالمی صلح ، اور انسانی سماجوں کا آرام و سکون،  صرف خدا پر ایمان کے ذریعے ھی   متحقق ھوتا ھے ، اور سبھی انسانی معاشروں (جو زبان ، نسل ، حکومت  اور جغرافیائی لحاظ سے مختلف ھیں) کو آپس میں ملانے کا نقطھ صرف خدا پر ایمان ھے۔ اور اگر مسلمانوں  کا یھ  عقیده ھے کھ عالمی صلح اور سماجی عدل حضرت امام مھدی (عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف ) کی حکومت کے ذریعے ھی برقرار ھوگا وه حقیقت میں اس امر پر تاکید کرتے ھیں۔

یھاں تک کھ خداوند متعال آیھ شریفھ میں فرماتا ھے:” و ان جنحوا للسلم فاجنح لھا۔۔۔۔”



[4]



اگر دشمن انصاف پسند صلح کا خواھاں ھے تو تم  اس کو قبول کرو”

البتھ اس بات کی یاد دھانی ضروری ھے کھ دنیا میں انسانون کے اختیار کے سبب بعض لوگ بغاوت ، سرکشی ، ظلم اور ستم کرنے لگتے ھیں  اور زمین پر فساد اور تباھی پھیلاتے ھیں۔   اس لئے ضروری ھے کھ ایک جامع اور کامل دین انسانی ھدایت کی راه میں ان رکاوٹوں کے ھٹانے کیلئے ایک جامع دستور العمل پیش کرے۔  
 البتھ کبھی کبھی بغاوتوں اور سرکشیوں کا سلسلھ  اس نوعیت کا ھوتا ھے  کھ دفاع اور طاقت کے استعمال کے علاوه اور کوئی چاره نھیں رھتا ھے۔ اسی لئے  اسلام میں جھاد کا قانون بنایا گیا ھے۔  یعنی قرآن مجید ان لوگوں کے  ساتھه سختی سے پیش آنے کا حکم دیتا ھے، جن کے ساتھه  منطقی طور پر بات نھیں کی جاسکتی ھے اور انھوں نے گستاخی سے انبیاء  علیھم السلام  کی ھدایت اور ارشاد کی راهیں بند کردی ھیں اور دشمنی اور ھٹ دھرمی  کے ساتھه جان بوجھه کر  اسلام سے جنگ کرتےھیں۔ اور  اس سلسلے میں فرمایا ھے : ” اے پیغمبر آپ کفار اور منافقین کےساتھه جھاد کریں  اور ان پر سختی کریں”



[5]


اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کو چاھئے کھ وه  دشمنوں کے دلوں میں رعب  اور خوف پیدا کریں  تا کھ وه تجاور،خیانت اور دشمنی مسلمانوں کو نقصان پھنچانے کا وھم  اپنے ذھن میں نھ لاسکیں۔



[6]


البتھ اسلامی دستور ، جو فوجی آمادگی اور سرحدوں



[7]



کی حفاظت سے متعلق ھے اسلام کی صلح اور دوستی کی آئینھ دار ھے ۔ اور خدا کی راه میں جھاد جو حقیقت میں اسلامی عبادت کا اھم حصھ ھے اور خدا کے ساتھه عشق اور انسان دوستی ، ناپاکی اور غیر اقدار کی مخالفت کا اعلی مظھر ھے ، اور  جنگ خونریزی ، بغاوت اور سرکشی کے ساتھه بھت فرق رکھتا ھے۔

خداوند متعال نے جھاد کی اھمیت کے بارے میں فرمایا ھے : ” جاھدوا فی اللھ حق جھاده”



[8]



اللھ کے بارے میں اس طرح جھاد کرو جو جھاد کرنے کا حق ھے۔

چونکھ اسلام میں جھاد کشور گشائی اور ذاتی طاقت کو بڑھانے کیلئے واجب نھیں کیا گیا ھے۔ پس جھاد ایک آزادی بخش اقدام ھے نھ کھ جنگ اور فساد کا قدم ، اس لئے اگر جھاد کے اھداف تک پھنچنا غیر فوجی طریقے سے میسر ھو تو اس صورت میں فوجی طاقت کا استعمال نھیں کرنا چاھئے ۔ اسی لئے ھر جنگ کے آغاز میں واجب ھے کھ کفار کو اسلام کی طرف دعوت  دی جائے۔

پس خداوند متعال نے جھاد کو مستکبروں کے کچلنے اور مستضعفوں کو آزاد کرنے اور ان لوگوں کی معرفت اور واقفیت کیلئے واجب  کیا ھے جو جھالت اور بے خبری کے عالم میں توحید کے معارف سے ناواقف  ھیں اور دنیا و آخرت میں سعادت حاصل کرنے سے بے خبر رکھے گئے ھیں



[9]


علامھ طباطبائی،  جنگ طلبی اور جھگڑا مول لینے کی نفی میں جھاد کی حقیقت اور فلسفھ کے بارے میں لکھتے ھیں؛ جھاد کا مقصد دین کو قائم کرنا اور کلمۃ اللھ کو بلند رکھنا ھے پس جھاد ایک ایسی عبادت ھے کھ جس میں قصد قربت کی شرط ھے جھاد دوسروں کے مال اور عزت پر برتری حاصل کرنے کیلے نھیں ھے بلکھ انسانی حق سے دفاع کرنے کیلئے واجب کیا گیا ھے اور دفاع اپنی ذات میں ھی محدود ھے جبکھ تجاوز حد سے باھر نکلنے کا نام ھے اسی لئے آیھ شریفھ کے آگے ارشاد ھے: لا تعتدوا ان اللھ لا یحب المعتدین”



[10]



، زیادتی مت کرو بے شک خداوند زیادتی کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا ۔



[11]


نتیجھ کے طور پر حقیقی اسلام نھ صرف زیادتی ، تجاوز،  ناسازگاری اور جنگ کا دین نھیں ھے ۔ بلکھ اس کا دستور و فرمان من جملھ جھاد ، انسان دوستی ، صلح و امن کی حفاظت ، الھی حاکمیت کے مقابل باغی حاکمیت کی نفی اور ظلم و ناانصافی کے خلاف جنگ ھے اور ایک مختصر جملے میں جھاد کا مطلب عادلانھ اور مقدس جنگ کا نام ھے جو بلند الھی اقدار کو متحقق کرنے کیلئے ھے



[12]


پس دشمنوں اورکافروں کے ساتھه ، صلح کرنا اھل ایمان کی عزت و اقتدار کی  حفاظت  سے مشروط ھے جس طرح حضرت علی علیھ السلام  نے مصر کے گورنر مالک اشتر، سے فرمایا؛ اگر کسی دشمن نے تمھیں صلح کی دعوت دی تو خدا کی خوشنودی  اسی میں تھی اس کو رد نھ کرنا ۔ کیوں کھ صلح ، تمھارے سپاھیوں کے لئے  آسایش،  تمھارے لئے غم و آلام سے راحت اور تمھاری سرزمین کے لئے امن و امان کا سبب ھے۔

لیکن صلح کے بعد اپنے دشمن سے بھی  چوکنا اور ھوشیار رھو کیونکھ کبھی کبھی دشمن تم کو غافل کرنے کے لئے ، خود کو تمھارے قریب لے آتا ھے پس احتیاط کرو اور دور اندیش بنو اور دشمن کے بارے میں کسی خوش فھمی میں نھ رھو۔



[13]





[14]


لیکن مؤمنوں کے درمیان صلح، قرآن مجید اور اسلام کا واحد راستھ ھے اور اسلام نے بخشش اور عفور کی سفارش کرکے مومنوں کو بھائی چارے اور دوستی کی جانب دعوت دیتا ھے۔



[15]


ھاں قرآن ، خوف اور سستی کی وجھ سے صلح اورموافقت کو اسلامی اقدار سے عقب نشینی کا باعث جانتا ھےاور اسکی مذمت کرتا ھے اور ضعیف الایمان افراد کو جو جھاد اور مشکلات سے میدان جنگ میں صلح کی بات کرتے ھیں انھیں تنبیھ کرتا اور فرماتا ھے َ فلا تھنوا و تدعوا الی السلم و انتم الاعلون واللھ معکم ،



[16]



پس اے مومنوا ! تم  دین کے کاموں میں سستی مت کرو اور ڈر کی وجھ سے کافروں کو صلح کی دعوت مت دو بلکھ اسلام کی جانب بلاؤ تمھارا مقام زیاده بلند ھوگا اور خدا تمھارے ساتھه ھے اور تمھارے اعمال سے کچھه کم نھیں ھوگا۔

جو کچھه یھاں تک بیان ھوا ھے اس سے واضح ھوتا کھ حقیقی اسلام ، دنیا میںجنگوں اور غیر موافق حالات کی جڑ نھیں ھے بلکھ  منطقی طور سے ا سلام کبھی بھی اس کی تائید نھیں کرتا ھم اس نکتھ کو مانتے ھیں کھ اسلام سب سے کامل اور جامع دین کے عنوان سے دنیا میں  بلند مقاصد کے ساتھه  اسلامی اور غیر اسلامی امتوں کوجگانے   اور ھدایت کرنے کے لئے مستکبروں کے ظلم و ستم سے جنگ کرنے میں آج بھی  دنیا بھر میں جانا پھچانا ھوا ھے



[17]


اوریھ قدرتی بات ھے  کھ طاغوت اور  ارباب مال و قوت ، کے ارباب جن کی سرپرستی عالمی استکبار کرتا ھے  




[18]



 اپنے غلط مقاصد تک پھنچنے میں حقیقی اسلام کو  سب سے بڑی رکاوٹ جانتے ھیں اور اپنی پوری طاقت سے اس کے خلاف زھر اگلنے، خراب کرنے اور اسے نابود کرنے میں کسی بھی اقدام سے پیچھے نھیں رھتے ھیں۔  اور اسلام کا  ایک ڈراونا  چھره بنا کر پیش کرتےھیں اور اس  کو جنگ ، دھشت گردی ، جھگڑ ے کے  عامل کے طور پر  پھچنواتے ھیں جب کھ وه خود جنگ اور دھشت گردی اور جھگڑوں کی جڑیں ھیں،  اور مسلماں اپنے آپ کا دفاع کرتے ھیں۔ البتھ مومنوں کو مذھب اھل بیت کی پیروی میں حقیقی اسلام کے چھرے کو پھچنوا کر یھ کوشش کرنی چاھئے کھ استعماری سازشوں کو بے کا ر بنا کر حقیقی اسلام کو ان دھشت پسند اور غیر منطقی گروھوں سے الگ کرلیں  جن کی داغ بیل خود استعماری طاقتوں نے ڈالی ھے؛

مزید معلومات کیلئے رجوع کریں

۱۔ تفسیر المیزان ، علامھ طباطبائی۔

۲ جھان و موارد مشروعیت آن در قرآن ، مطھری ، مرتضی۔

۳۔ پرسشھا و پاسخ ھا درباره نظام سیاسی اسلام ، مصباح یزدی ، محمد تقی ، ص ۲۳۹، ۲۳۶۔

۴۔ آموزس دین ، علامھ طباطبائی، ص ۲۶۴، ۲۵۹

عناوین

۱- ایمان اور امر بھ معروف و۔۔۔ و جھاد ابتدائی ، سوال نمبر 2573 (سائٹ نمبر: 2816)



۲۔ جھاد ابتدائی ، سوال ۱۱۳۔ (سائٹ نمبر: ۱۳۴۷)



۳۔ دین اور اکراه ، سوال 3116، (سائٹ نمبر: 3389)



[1]

 

 کتاب العین ، ج ۷ ص ۲۶۷، اور عنوان ،




آیھ شریفھ ۱۹ آل عمران میں اسلام کا مفھوم ، سوال 2563 (سائٹ نمبر: 2809)



قرآن اور اسلام اور مسلمان کے معنی۔ سوال ۸۲۹ ، سایٹ نمبر ۸۹۸۔


[2]

 
سوره نمل ۳۲، ۴۴۔


[3]

 

  سوره بقره / ۲۰۸۔


[4]

 

 سوره انفال / ۶۱۔


[5]

 
سوره تحریم ، / ۹


[6]

 

 مصباح یزدی ، محمد تقی ، پرسشھا و پاسخ ھا درباره نظام سیاسی اسلام ، ص ۲۳۲۔


[7]

 

 ” و اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ۔۔” ( انفال / ۶۰)


[8]

 

 سوره حج / ۷۸۔


[9]

 

 نشریھ معرفت، نمبر، ۱۰۳۔ ،مقالھ اھداف و جھاد در اسلام ، حمزه علی۔


[10]

 

 سوره بقره / ۱۹۰۔


[11]

 

 طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج ۱۰ ص ۶۳۔ بیروت ، موسسه الاعلمی۔


[12]

 

 مزید مطالعھ کے لئے رجوع کریں ، مرتضی مطھری ، جھاد و موارد مشروعیت آن در قرآن ، قم صدرا۔


[13]

 

 نھج البلاغھ ، مکتوب ، ۵۳۔




[14]

 

 حسین اسکندری ، آیھ ھای زندگی، ج ۱، ص ۳۰۰۔


[15]

 

 سوره حجرات / ۹ ۔۔۔ ۱۰۔


[16]

 

 سوره محمد ۳۵۔


[17]

 

  انقلاب اسلامی ایران کا متحقق ھونا اور ایران کو اسلامی مملکتوں کا مرکز ماننا ، امام خمینی (رح) کی بلند خدمات نے اس مبارک کام میں بھت اثرات پیدا کردئے۔






[18]



 

 یھاں پر اسلام سے مراد ” حقیقی اور اصیل اسلام” ھے جس کی دوسری تعبیر مذھب اھل بیت علیھم السلام ھے اور جس نے ظلم اور ستم کی جڑوں کے مقابل میں کبھی بھی نرمی نھیں برتی ھے۔ 

تبصرے
Loading...