اسلام کیسے تمام مشکلات کو حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟

دین اسلام انسان کو دنیوی و اخروی سعادت تک پہنچنے کے لیے قوانین، احکام اور دستوروں کا ایک مجموعہ ہے۔ چونکہ خداوندمتعال نے اس مجموعہ کو وضع کیا ہے، اس لیے قطعاً کمال و جامعیت کا مالک ہے اور انسان کے تمام مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ معاشرہ کے تمام افراد اس کے دستور پر عمل کریں۔ توجہ کرنی چاہئیے کہ ہر قانون پر عمل کرنے کے لیے کچھ مشکلات اور محدودیتیں ہوتی ہیں، ان مشکلات اور محدودیتیوں کو قبول کرنے اور ان کے ساتھ تعامل کیے بغیر اس قانون سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں لوگ اپنی زندگی میں متعدد مشکلات سے دوچار ہیں، وہ اس لیے ہے کہ اسلامی دستور پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے ہی نفع و نقصان کو مدنظر رکھتا ہے اور ہم اسلام کو صرف اسی محدودیت میں مدنظر رکھتے ہیں۔ اس لیے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اسلام نے رزق و روزی کو حاصل کرنے اور جائز آمدنی حاصل کرنے کا راستہ دکھایا ہے اور اس کے لیے احکام و دستور وضع کیے ہیں لیکن ان کا اسی وقت نتیجہ حاصل ہو سکتا ہے، جب تمام لوگ ان احکام و دستور پر عمل کریں۔ لیکن اگر ایک شخص محنت کرے اور دوسرے بیکار بیتھ کر اس کی محنت سے فایدہ اٹھائیں یا اس کے حق کو غصب کریں تو اس کے لیے کوئی چیز باقی نہِیں رہے گی۔

اس بنا پر نوجوانوں کی شادیوں کا مسئلہ بھی اسلام کے احکام و دستور کے ذریعہ قابل حل ہے؛ بشرطیکہ لڑکی، لڑکا اور ان دونوں کے خاندان اسلامی احکام و دستور پر عمل کریں اور اپنے توقعات کو کم کریں اور فضول خرچی اور دیکھا دیکھی سے پرہیز کریں۔

آج کل تمام معاشروں میں ایسی بہت سی لڑکیاں اور عورتیں ہیں، جو ایک سالم اور نیک شوہر سے شادی کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ لیکن جاننا چاہئیے، کہ بہت سے مواقع پر زندگی کے ابتدائی مراحل میں کامیابیاں اور مشکلات زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ اسلام آپ کے پاس آکر آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹائے اور آپ کی من پسند لڑکی کو رہائشی گھر اور موٹرکار وغیرہ کے ساتھ آپ کے اختیار میں دے دے، تو کیا یہ ایک بیہودہ توقع نہیں ہے؟ ازدواج کے لیے آمادہ افراد کو جاننے کے لیے اپنے مخصوص طریقہ کار ہیں اسی طرح خواستگاری کے بھی اپنے مخصوص طریقے ہوتے ہیں کہ ان ہی طریقوں سے اقدام کرنا چاہئیے اور اپنی توقعات کی سطح کو قدرے نیچے لانا چاہئیے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اسلام میں زندگی کی بنیاد سعی و کوشش میں ہے۔ سعی و کوشش کے ذریعہ ہی انسان زندگی کی لذت و نعمت کو محسوس کر سکتا ہے۔

اگر ازدواج کے لیے آمادہ ہر لڑکا اور لڑکی مشکلات اور سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھ کر جدوجہد کرے اور مالی لحاظ سے اپنے سے پست درجہ کے گھرانوں سے کسی لالچ کے بغیر رشتہ جوڑنے کی کوشش کرے، تو کیا پھر بھی ہمارے معاشرہ میں ازدواج کی مشکل باقی رہے گی؟

اس بنا پر کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ اسلام نے مقصد تک پہنچنے کی راہیں مشخص کی ہیں لیکن ان کے لیے سنجیدگی کے ساتھ عزم و ارادہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔ البتہ ممکن ہے بعض طریقہ کار ہمارے سلیقہ کے مطابق صحیح ہوں لیکن خدا کی نظر میں ممنوع ہوں، اور یہ صرف خداوندمتعال کے ان طریقوں کے دراز مدت میں برے اثرات و نتائج اور انفرادی و اجتماعی نقصانات کے بارے میں علم کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم اس بات پر اعتقاد اور یقین رکھتے ہوں کہ خداوندمتعال ہم سے آگاہ تر اور دانا تر ہے اور ہمارے اسلام پر عمل کرنے یا نہ کرنے سے اسے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا ہے، اور اگر اس نے ہم سے کچھ مانگا ہے اور ہم پر واجب کیا ہے، تو وہ خود ہمارے ہی فائدہ کے لیے ہے اور اگر ہمارے لیے کوئی چیز ممنوع قرار دی ہے تو وہ ہمارے لیے مضر ہونے ہی کی وجہ سے ہے، تو ہم قطعاً خدا کے دستور پر عمل کرنے کی سختیوں کو کسی قیمت  پر خرید لیں گے اور احکام الہٰی کے منافی اپنے سلیقوں اور دلچسپیوں سے چشم پوشی کریں گے۔

آپ کی شادی کے بارے میں اگرچہ ممکن ہے ابتداء میں بہت سے مشکلات ہوں لیکن خداوندمتعال نے مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے اور فرماتا ہے: ” اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دے گا۔ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے۔[1]

بہرحال اسلام نے تمام مشکلات اور منزل مقصود تک پہنچنے کا طریقہ حل ہمیں دکھایا ہے، لیکن اس کے لیے مقدمات فراہم کر کے مشکلات و موانع کو ختم کرنے کی ذمہ داری خود افراد پر ہے۔ جس طرح انبیائے الہٰی {ع} اور ائمہ طاہرین{ع} اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی مشکلات سے دوچار تھے لیکن کبھی ان مشکلات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے تھے یا کبھی یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ کوئی غیبی ہاتھ آکر  ان کی دستگیری کرے گا۔ قرآن مجید نے بھی انہیں مقصد تک پہنچنے کی راہ میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت کی ہے۔ آپ کو بھی جاننا چاہئیے کہ ایسے افراد بھی گزرے ہیں جن کے حالات ہر لحاظ سے آپ سے بدتر تھے لیکن انہوں نے ہمت ، کوشش اور جدوجہد کر کے اور مشکلات کو برداشت کر کے ان پر قابو پا کے کامیابیوں کی چوٹیاں سر کی ہیں۔ البتہ جو شخص کوشش و تلاش کرے گا اور تقویٰ کا دامن تھام لے گا، یقیناً  وہ الہٰی امداد سے بہرہ مند ہوگا[2]۔

قابل توجہ بات ہے کہ اسلام کی جامعیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اسلام میں عقل کو چھٹی مل گئی ہے اور اسلام نے مشکلات حل کرنے کے راستوں کو بالکل معین کر کے رکھ دیا ہے، بلکہ اس قسم کے مسائل کو عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لیے ملاحظہ ہو:

” نظریہ اندیشہ مدرنی” سوال: 900 {سائٹ:988} اور سوال 17 {سائٹ:217}

 


[1] نور، 32، “وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ”

[2] . طلاق،2،” مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً”یعنی:”جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ پیدا کرتا ہے۔.”

 

تبصرے
Loading...