امام خمینی (رح) کی فاتحانہ انداز میں وطن واپسی

حضرت امام خمینی (رح) 14/ سال جلاوطنی کی زندگی گذارنے کے بعد 12/ بہمن  1357 ش مطابق 1 / فروری 1979 ء کو ایران واپس آئے اور آپ کی آمد پر ایرانی عوام نے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے بھاری اکثریت کے ساتھ پر زور استقبال کیا۔ اس دن کو جنتری کے لحاظ سے دهہ فجر کے آغاز کا دن معین کیا گیا ہے۔

وسیع پیمانہ پر عوام کے شاہ کے خلاف قیام کرنے اور انقلاب برپا کرنے اور شاہ کے فرار کرنے پر شاہپور بختیار، پہلوی حکومت کے آخری اور اکلوتے امیدوار کے عنوان سے وزیر اعظم کے منصب پر باقی رہا۔ جس کی وجہ سے روزانہ احتجاج کرتے رہے بلکہ ہر دن پہلے دن سے زیادہ پر جوش اور پر زور احتجاج کرتے تھے اور اپنے اس قدم میں زیادہ پختہ عزم کے ساتھ سڑکوں پر آتے تھے اور “آزادی” اور “جمہوری اسلامی” کا نعرہ لگاتے تھے۔ امام خمینی (رح) کی انقلاب تحریک اور قیادت میں عوام کی اصلی خواہش یہی تھی۔ امام خمینی (رح) نے اپنے ملک ایران آنے کی شرط شاہ کے ایران سے نکلنے کی لگائی تھی۔

اسلام دشمن اور علماء مخالفین جب امام خمینی (رح) کو ترکیہ جلاوطن کررہے تھے تو ان کے وہم و گماں میں یہ نہیں تھا کہ خمینی فاتحانہ انداز میں دوبارہ ایران واپس آئیں گے اور شہنشاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

جب شاہ نے ناکام ہو کر  16/ جنوری کو ایران سے نکل گیا تو امام خمینی (رح) نے عالمی اخبار ایجنسیوں میں اعلان کرایا کہ ایران سے شاہ کا نکلنا پہلوی حکومت کے 50/ سالہ مجرمانہ اور ظالمانہ حکومت کا خاتمہ ہورہاہے۔ اور یہ ایرانی عوام کے بہادرانہ مقابلوں اور دلیرانہ مجاہدتوں کا نتیجہ ہے۔ میں اس کامیابی پرقوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ پہلی فرصت میں ایران جاؤں گا۔

یہ سنتے ہی امام کے چاہنے والوں، دوست داروں، عاشقوں اور فدائیوں کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور امام کے پر زور استقبال کے لئے بہتر سے بہتر پروگرام منعقد کرنے میں مشغول ہوگئے لیکن پہلوی حکومت کے کاسہ لیسوں، اہلکاروں، مزدوروں اور عہدیداروں کو زبردست جھٹکا لگا۔ جو لوگ پہلوی حکومت کے خلاف عوام کے سڑکوں پر آنے سے خوفزدہ تھے انہوں نے امام کے ایران واپس آنے کو اپنی امیدوں کا خاتمہ جانا اور انھیں یقین ہوگیا کہ اب پہلوی سلطنت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔

اس وجہ سے امام کے ملک میں آنے پر نت نئے انداز اور طریقہ سے پابندیاں لگانے لگے۔ بختیار وزیر اعظم کی حیثیت سے گوناگوں سازشیں کرنے لگا، یعنی ان لوگوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ جس جہاز میں امام ہیں یا اسے بم سے اڑادیا جائے یا پھر اس کا راستہ بدل دیا جائےاور اس کے بعد انہیں گرفتار کرکے کہیں اور بھیج دیا جائے لیکن الحمدللہ ان کی ناپاک سازشیں ناکام ہوئیں۔ اس کا  آخری تیر ہوائی اڈہ کو بند کرنا تھا۔ کیونکہ طے تھا کہ امام خمینی (رح) کو فرانس سے انقلاب پرواز 26/ جنوری کو ایران لے کر آئے گا۔ ملک کے ہوائی ادارہ نے اعلان کیا کہ فضائی خرابی اور دکھائی نہ دینے کی وجہ سے جہاز کو کنسل کیا جاتا ہے۔

یہ سنتے ہی امام کے چاہنے والوں اور شیدائیوں نے سڑک پر نکل کر احتجاج اور مارچ کرنا شروع کردیا اور حکومت کے اس اقدام پر اعتراض کی بوچھار کردی اور تینوں افواج کے اعلی افسروں نے اپنے اپنے مرکز تہران، اصفہان، کرمانشاه، دزفول، ہمدان اور بوشہر میں دھرنا دے دیا۔ اس کے بعد وہ سارے لوگ معترض احتجاج کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ احتجاج کرنے والوں کی بھیڑ مہر آباد ہوائی اڈہ کی طرف روانہ ہوگئی۔ پورے ملک کے مجاہد علماء کے امام کے استقبال پر پابندی لگانے والوں کے خلاف یونیورسٹی کی مسجد میں دھرنا دے دیا اور اعلان کیا کہ امام خمینی (رح) کی ایران آمد تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

آخر کار دشمنوں کی سازش ناکام ہوئی اور امام خمینی 31/ جنوری کو فرانس ہوائی اڈہ سے ایران کے لئے روانہ ہوگئے اور 1/ فروری کو اپنے عزیز وطن ایران واپس آگئے اور اپنے چاہنے والوں کے پر زور استقبال کا سامنا کیا۔ امام کے ہمراہ لوگوں کی کافی تعداد آئی اور ہر طبقہ اور گروہ کےلوگوں کے ہمراہ ایران آگئے، دشمن کے قلب میں نشتر چبھنے لگا اور ایران کا پورا ماحول “حق آیا اور باطل چلا گیا باطن کو جانا ہی تھا” کا مصداق بنا۔

خداوند عالم اس انقلاب کو امام زمانہ (عج) کے ظہور سے متصل کردے۔ آمین۔

تبصرے
Loading...