ہماری عمارتی تہذیب اور اجیرن زندگی

تحریر: مفکر اسلام انجنیئر سید حسین موسوی

حوزہ نیوز ایجنسیکسی بھی قوم میں رہائش اور کام کرنے کی عمارتیں وہاں کے موسم اور ثقافت کے مطابق ہوتی ہیں۔ اسلیے کہ عمارت کا ایک بنیادی مقصد انسان کو موسمی نقصانات سے بچانا ہے جب کہ اس کا دوسرا مقصد اپنی زندگی کو منظم کرنے میں آسانی ہے۔ 

مغربی دنیا میں موسم میں سردی سخت ہوتی ہے جبکہ گرمی تو برای نام ہی ہوتی ہے۔ مغربی آدمیوں کو مسئلہ یہ ہے کہ وہ سردیوں میں اپنے گھر کو گرم کیسے رکھیں؟۔ اسلیے انکو ایسی عمارتیں چاہیں جو سورج کی گرمی اندر تک پہنچائیں۔ پھر بھی ضرورت پوری نہیں ہوتی اسلیے مختلف قسم کے ہیٹر استعمال کرتے ہیں۔

ہمارا مسئلہ سردی نہیں بلکہ گرمی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ٹیمپریچر 50 ڈگری سیٹی گریڈ سے بھی اوپر جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے  ہمیں ضرورت پڑتی ہے کہ اپنے عمارتوں کو ٹھنڈا کیسے رکھیں۔  ہمارے ملک کی جو مقامی عمارت سازی تھی وہ اسی مقصد کو سامنے رکھ کر کی گئی تھے۔ دیواریں موٹی ہوتی تھیں تاکہ سورج کی گرمی اندر آنے نہ دیں اور عمارت کی چھت زیادہ اونچائی پر ہوتی تھی تاکہ چھت پر پڑنے والی سورج کی گرمی  نیچے تک نہ پہنچے۔

جب مغرب نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس نے بھی عمارت سازی کے سلسلے میں عقلی فیصلہ کیا اور اسی عمارت سازی کے انداز کو جاری رکھا جو یہاں کی مقامی تھی۔ آپ اب بھی انگریزوں کے زمانے کی بنی ہوئی عمارتیں دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔

لیکن ہم پر مسلط کونے والے مغرب کے مرید شاہ سے بھی زیادہ شاہ کے وافادار نکلے اور مغربی عمارت سازی کو اپنایا۔ کانکریٹ کی عمارتیں، پتلی دیواریں اور نچلی چھتیں۔ اب حال یہ ہے کہ جتنی تپش دیوار کے باہر ہے اتنی ہی اندر بھی ہے۔  اسلیے بغیر ایئر کنڈینشنر کے رہنا مشکل ہوگیا۔ قسطون پر ایئر کنڈیشنر تو لے لیا لیکن بجلی کا بل کہاں سے دیں گے؟ اسلیے بجلی چوری کی اور بجلی والوں کو بھی اس میں شامل کر لیا۔

اس وقت ہمارا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغرب کی کاپی کرنا چھوڑیں اسلیے کہ ہم مغرب نہیں مشرق ہیں۔

عمارت کا دوسرا مقصد زندگی کے کاموں میں آسانی لانا ہے۔ مسلمان اقوام میں حجاب اور پردہ کا کلچر ہے جو ابھی تک کافی حد تک  قائم ہے۔ جب عمارتی تہذیب ہمارے کلچر کے مطابق ہوتی تھی تو مردانہ اور زنانہ حصے جدا  ہوتے تھے۔ مردانہ حصہ میں مرد اپنی مصروفیات آسانی سے جاری  رکھتے تھے اور زنانہ حصہ میں خواتین اپنی مصروفیات  آسانی سے جاری رکھتی تھیں۔ اڑوس پڑوس سے ملنے والے یا مہمان جب آتے تھے تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، آسانی سے ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ یہ چیز قوم میں معاشرت اور اجتماعیت وجود میں لانے اور اسے قائم رکھنے کا ذریعہ تھی۔

مغرب نے جب خاندانی نظام کو ختم کردیا اور خواتین کے حجاب کا رواج بھی ختم ہو گیا تو انہوں نے اپنے کلچر کے مطابق گھر بنائے اور عمارت سازی کی۔ ہم نے مغرب کی بنا سوچے سمجھتے تقلیدکی۔ اب گھر میں مردانہ اور زنانہ حصہ کا کوئی تصور نہیں رہا۔ اسلیے مردوں اور عورتوں کی نفسیات بھی ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ طلاق کی زیادتی گھریلو نا اتفاقی کی کثرت کا ایک اہم عنصر یہی ہے جس سے ہم ناواقف ہیں۔

مردانہ حصہ جدا نہ ہونے کی وجہ سے مہمان زحمت لگتے ہیں اور اڑوس پڑوس سے روابط منقطع ہو گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم کے اندر  انفرادیت اپنے کمال پر ہے اور اجتماعیت کا فقدان ہے۔ گلی کے ایک طرف کروڑوں کا بنگلہ ہے تو دوسری طرف بھی اربوں کی کوٹھی لیکن گلی نہ صرف کچی ہے بلکہ گندی بھی ہے۔ یہ بنگلے اور کوٹھیاں ہماری  انفرادیت ہے اور گلی ہماری اجتماعیت ہے۔ عمارت سازی جب قوم کے کلچر اور ضروریات سے ہٹ کر ہوگی تو یہی نتیجہ نکلے گا۔

یاد رکھیں جس قوم سے اجتماعیت ختم ہو جائے وہ قوم نہیں رہتی افراد کا ریوڑ  رہ جاتا ہے۔

تبصرے
Loading...