نفرت کے بیج سے وحدت کا انتظار

تحریر: امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی دنیا کی کوئی قوم اور کوئی انسان اس وقت تک نہ پختہ ہوتا ہے اور نہ ہی بالغ جب تک وہ اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتا۔ آپ کو دنیا کی نوے فیصد ترقی یافتہ قوموں اور 95 فیصد کامیاب لوگوں میں عاجزی نظر آئے گی۔ آپ دنیا بھر کی اخلاقیات کی شرح نکال لیں آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے وہ قوم جس کے شہری غفلت پر معذرت اور غلطی پر معافی مانگنے کے عادی ہیں وہ قومیں ترقی کے سٹینڈ پر سب سے آگے ہیں اور ہر وہ قوم جو غلطی پر”ڈٹ” جاتی ہے یا جو معافی مانگنے، اپنی اصلاح کرنے میں کنجوسی سے کام لیتی ہے وہ ترقی کے عمل میں دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہے۔
آپ روزمرہ کی زندگی میں بھی ہر اس شخص کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مطمئن، مسرور اور ترقی یافتہ پائیں گے جو آئی ایم سوری، میں معافی چاہتا ہوں یا ببخشید یا میں آپ سے معذرت خواہ ہوں جیسے الفاظ کو معمول بنا لیتا ہے، جو تھینک یو، شکریہ اور مہربانی کہتے ہوئے نہیں تھکتا اور آپ ہر اس شخص کو بیزار، محروم، چڑچڑا اور تنگدست پائیں گے جو دوسروں کا شکریہ ادا کرنے یا غلطی پر معذرت کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے۔
حال ہی میں ایک تحریر نظروں سے گزری ہے جو استاد شیخ شبیر میثمی کی اِہانت پر مبنی تھی۔ جونہی اس تحریر کو پڑھا تو میں سوچ رہا تھا ہم  نے آج تک تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، ہم آج بھی اپنے ماضی پر شرمندہ نہیں ہیں، ہم آج بھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لئے تیار نہیں، ہم آج بھی اپنی کوتاہیوں کو گلوکوز لگا رہے ہیں، ہم آج بھی آگ کے جلے پر برف رکھ رہے ہیں اور ہم آج بھی گندے پوتڑوں پر پرفیوم چھڑک کر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
میں نے پچھلی سطروں میں عرض کیا ہے قومیں جب تک اپنی غلطیوں اور اپنے ماضی پر شرمندہ نہیں ہوتیں، یا جب تک خود سے معافی نہیں مانگتیں اس وقت تک ان کی پختگی اور بلوغت کی عمر شروع نہیں ہوتی لہذا اس مذکورہ تحریر کے ساتھ ساتھ آج تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماضی میں قائد موجود کو پہنچائی گئی اذیتیں غلط تھیں، قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا غلط عمل تھا، شہید ترابی کی کنپٹی پر پستول رکھ کر غلطی کی تھی، شریف النفس بزرگ عالم دین علامہ رمضان توقیر کی کی گئی توہین غلط تھی، شہرت کی چند سانسوں کے لئے اپنے کو غیروں کے پاس گروی رکھنا غلط تھا، جس شخص نے پہلی بار ملت کے درمیان جدائی کا بیج بویا وہ ملت کا خائن تھا، ملت کو جھوٹے نعروں کا دودھ پلانے کا رخ غلط تھا، قومی قیادت کے خلاف جنگ اخبار میں چھپنے والا آرٹیکل بوگس تھا، مفتی جعفر رح اور شہید حسینی رح کے بنائے ہوئے دستور اور آئین کے ساتھ دھوکہ کرنا فراڈ تھا۔
مذکورہ تحریر کو اگر عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے ذریعے ملت جعفریہ کی کیا خدمت کرنا مقصود تھی؟
ہم بڑے دلچسپ لوگ ہیں کہ نفرت کے بیج بو کر اتحاد کی فصل کاٹنے کا انتظار کرتے ہیں؛ وحدت کے نام پر جدا ہوتے ہیں؛ وحدت کے نام پر سازشوں کے جال بُنتے ہیں اور ان میں نہ پھنسنے والوں کے خلاف ہرزہ سرائیوں کو مردانگی اور فیشن سمجھتے ہیں۔
استاد شیخ شبیر حسن میثمی صاحب پاکستان کے ممتاز، علمی، دینی، سماجی، سیاسی، نیک طبع، ملنسار اور ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ استاد میثمی انتہائی صلح جُو، معتدل المزاج اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں۔آپ اختلافی مسائل میں شدّت پسندی کی بجائے رواداری اور اعتدال پسندی کے قائل و فاعل ہیں. آپ تمام تر مصروفیات کے باوجود ہم سب کے سروں پر دستِ شفقت رکھتے ہیں۔ دلسوز اور خدمتگزار رہنما ہیں، دوستان کے ساتھ بے تکلّف دوستوں کی طرح پیش آتے ہیں، ان کی گفتگو نہایت سادہ مگر دلنشین اور معلومات افزا ہوتی ہے. مختصر اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں ساری بات کہہ جاتے ہیں۔

تبصرے
Loading...