امام خمینیؒ تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی شخصیت

از قلم: مجتبیٰ علی شجاعی

حوزہ نیوز ایجنسی20ویں صدی میں ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت کا جنم ہوا جس نے ظلم و بربریت پر مبنی ہزاروں سالہ شہنشاہیت کا تختہ پلٹ دیا ایک ایسا انقلاب برپا کردیا جس سے تاریخ کے قدآور سیاستدان انگشت بہ دندان رہ گئے۔ایک مسلم امریکی دانشور کو کہنا پڑا کہ تاریخ امام خمینی ؒ کو بیسویں صدی کی سب سے عظیم شخصیت کی حیثیت سے یاد کرے گی۔سید روح اللہ موسوی خمینی ؒ  اکتوبر1902  ء میں سرزمین ایران پر ایک مذہبی،مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔روح اللہ خمینی ؒ کے والد گرامی کا نام سید مصطفی موسوی تھا جوفقیہ زمانہ میرزای شیرازی کے ہم عصر تھے۔شیرازی حوزہ علمیہ مکتب سامرا کے موسس تھیقاچاری دور میں تحریم تمباکو کا تاریخ ساز فتویٰ اسی مرجع تقلید نے جاری کیا تھا جو آگے چل کر ایک تحریک بن کر اُبھری۔امام خمینی ؒ کے والدگرامی حاج مصطفیٰ موسوی نے نجف اشرف میںدینی تعلیم حاصل کی۔اجتہاد کرنے کے بعد مصطفیٰ خمینی زندگی کے آخری سانس تک اپنے علاقے خمین میں دینی امور کے فرائض انجام دیتے رہے۔امام خمینی ؒ کی والدہ ماجدہ کا نام ھاجرہ آغا خانم تھا وہ بھی ایک دیندار،متقی،نڈر اور تعلیم یافتہ خاتون تھی۔امام خمینیؒ کی ولادت کیصرف پانچ ماہ بعد آپ کے والد گرامی ظالم حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔والد کی شہادت کے بعد۱۵سال تک امام راحلؒ کی تربیت وپرورش مادر گرامی اور خالہ نے کی۔
امام نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقے سے حاصل کی۔جملہ ادبیات،منطق،فقہ اور اصول وغیرہ کی تعلیم مرزا محمود افتخار العلماء،مرزا رضا نجفی خمینی،شیخ علی محمد بروجردی،شیخ محمد گلپیگانی،آقا عباس اراکی اور سید مرتضیٰ پسندیدہ جیسے برگزیدہ اساتید سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اراک و قم کا سفر کیا حوزہ علمیہ اراک میں بھی ناموراور قدآورشخصیات کی تربیت نصیب ہوئی امام نے جن بزرگان دین سے کسب فیض حاصل کیا ان میں عبد الکریم حائری،،محمد علی شاہآبادی، آیت اللہ بروجردی، میرزا جواد ملکی تبریزی،  سید ابو الحسن رفیعی قزوینی،  علی اکبر حکمی یزدی،  سید محمد تقی خوانساری کے نام قابل ذکر ہیں۔شیخ عبد الکریم حائری نے جب قم کی جانب ہجرت کی تو امام خمینی ؒ بھی دیگر شاگردوں کے صف میں اپنے استاد کے پیچھے پیچھے حوزہ علمیہ قم پہنچا۔امام خمینی ؒ نے حوزہ علمیہ قم میں علوم دین کے اعلیٰ مراحل بڑی تیزی کے ساتھ طے کئے یہاں تک کہ درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔اس عارف باللہ نے مدرسہ ملا صادق،مدرسہ فیضیہ،مسجد محمدیہؐ،مسجد اعظم،مسجد سلماسی،مسجد شیخ اعظم انصاری،حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں فقہ،اصول،فلسفہ عرفان و اخلاق اسلامی کے بے پناہ دروس سے اپنے شاگردوں کی تعلیمی و تربیتی پیاس بجھادی۔گویا گھٹا ٹوپ اندھیری میںبیداری کا چراغ روشن کیا۔حوزہ علمیہ نجف میں امام خمینی ؒ کے تدریسی جلسوں میں ہی نظریہ ولایت فقیہ کا خاکہ نظر آیا۔ولولہ انگیز قیادت اورخداد صلاحیتوں سے ایک روشن ضمیر جماعت تیار کی جنہوں نے قدم قدم پر امام خمینی ؒ کا ساتھ نبھایا من و عن صدائے استغاثہ پر لبیک کہا۔آگے بڑھ کر یہ ایک مستحکم و منظم تحریک بن گئی جس نے غلام قوم کی تقدیر ہی بدل ڈالی اور قوم کو جہالت کی ظلمتوں سے نکالنے میں منفرد کردار ادا کیا۔
اُس وقت ایران میں مطلق العنان بادشاہت تھی جومغرب کی کٹھ پتلی نالائق اور نااہل حکومت تھی۔ مذہبی سازگار حکومت بھی نہیں تھی۔اس حکومت میں پردہ اور عمامہ کا مذاق اُڑایا جاتا تھا عورت کو کھلونا اور علما کوبُری نگاہوںسے دیکھا جارہا تھا۔امام راحل ؒ امام خمینی ؒکی قیادت میں علما روشن فکر طبقہ نے اس نالائق اورنااہل حکومت پر اعتراض کیا 1341شمسی میں علماء کی جانب سے حکومت کے خلاف پہلا بیانیہ منظر عام پر آیا اسی سال امام خمینی کی صدارت میں قم میں مراجع کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں انقلاب کی بو آنے لگی۔آگے چل کر باضابطہ تحریک پردے سے باہر آگئی۔تحریک اس قدر مستحکم ہوگئی کہ شاہ ایران کے ساتھ ساتھ عالمی استعمار کی ٹانگیں بھی لڑ کھڑا گئی۔عالمی سطح پر اس انقلابی تحریک کو کچلنے کے لئے تمام طرح کی سازشیں رچی گئی۔لیکن خالص اسلامی اصول و قوانین پر مبنی یہ تحریک دن دوگنی رات چوگنی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوگئی۔اسرائیل اورمریکہ کے کہنے پربدنام زمانہ سیکورٹی انٹلی جنس سروس’’ساواک‘‘ کے غنڈوں نے اس تحریک کے روح رواں حضرت امام خمینیؒ،روشن فکر طبقہ اوردیگر مراجع و علمائے کرام کے خلاف ظلم و تشدد کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا۔
ساواک کے ریکارڈ تورڈ مظالم کے باوجود امام خمینی ؒ مشن پیغمبری سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنے قول و فعل پرچٹان کے مانند ڈٹے رہے۔ 1963 میں یوم عاشورا کے موقع پر امام کا وہ خطاب انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس میں انہوں نے شاہ کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا پردہ چاک کیا قم مرگ بر شاہ کے نعروں سے گونجنے لگا۔ اس خطاب نے خفتہ ضمیر اور مردہ دل افرادکو جگانے کا کام کیا۔گویا آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔شاہ کے کارندے بے بس ہوکر نئی تدبیریں سوچنے لگے انہیں امام خمینیؒ کی گرفتاری میں ہی اپنی عافیت نظر آئی لیکن شاہ اس کے آقا اور کارندوں کی تمام تر تدبیریں ایک ایک کرکے ناکام ہورہے تھ۔اسی شب امام خمینی ؒ کو قم سے گرفتار کرکے تہران پہنچایا گیا،لیکن ایرانیوں کے غیور طبقہ اور علمائے کرام کی مزاحمت سے امام خمینی ؒ رہا کردئے گئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں علمائے کرام اور روشن فکرافراد کوتحریک حامی کے پاداش میں ساواک اور سفاک پہلوی فورسز نے بے دردی کے ساتھ قتل کیا ہزاروں کی تعداد میں حریت پسندوں کو بدنام زمانہ زندانوں میں ڈال دیا لیکن جب سار ی تدبیریں ناکام ہوگئیںتو امام خمینی ؒ کو ملک بدر کردیا۔
حضرت امام خمینی ؒنے ۱۴ سالہ جلاوطنی میں بھی جدوجہد آزادی کا سلسلہ جاری رکھا۔جلاوطنی کا ایک سال ترکی اس کے بعد چند ماہ عرا ق میں گزارے لیکن یہ دونوں ممالک سامراج کے پلوے تھے ترکی کے بعدعراق کی سرزمین بھی آپ کے لیے تنگ ہو گئی تو 6 اکتوبر 1978ء کوامام خمینیؒ فرانس منتقل ہو گئے۔پیرس میں انہوں نیانقلابی سرگرمیوں میں شدت لائی۔ایرانی عوام کے نام پیغامات کا سلسلہ جاری رکھا راتوں رات امام کے پیغامات ایران پہنچتے تھے۔جن کے ذریعے آپ علمائے کرام اور روشن فکر طبقہ کی رہنمائی فرماتے تھے۔یہاں تک کہ جلاوطنی کا دور ختم ہوا اور امام راحل ایک نئی صبح لیکر مہر آباد کے ہوائی اڑے پر یکم فروری کو جہاز سے اُترا۔11فروی کے روز انقلاب اسلامی کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ ایرانی افق پر نمودار ہوااوراس سرزمین پرحکومت الٰہی قائم ہوئی۔ایرانی فضا اللہ اکبر خمینی رہبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔
امام راحل امام خمینی ؒتاریخ کی ایک ایسی عظیم الشان شخصیت کا نام ہے جس نے خدا پر مکمل اعتماد رکھ کر،یقین محکم، عمل پیہم،بے نظیرتدابیر اور خداداد صلاحیتوں سیتاریخ کا دھارا اور طوفانوں کا رُخ موڑ دیا۔زندگی کے آخری سانس تک قید و بند کی صعوبتیں6 برداشت کیں۔چودہ سالہ جلاوطنی کے کھٹن اور مشکلات ترین ایام کو گلے لگایا مگر دین وقوم کی سودا بازی سے انکار کیا۔پہلوی نے انقلابی تحریک کچلنے کے لئے امام خمینیؒ کو ڈالروں کی آفر کی ۔ لیکن امام خمینی ؒ نے ان آفر وںکو پیروں تلے روندھ ڈالا۔آخری لمحے تک ثابت قدم رہے۔تاریخ بشریت میں آپ کامیابی و کامرانی کیلئے بہترین لائحہ عمل اور نمونہ کردار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام خمینی ؒ کی ولولہ انگیز قیادت میںتحریک انقلاب اسلامی کے آگے کوئی طاقت ٹک نہ سکی سپر پاور طاقتوں کا غرور چکنا چور ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ غیور ملت کواس عظیم الشان قائد و رہنماکی ذات اور ان کی بے مثال قیادت پر یقین کامل تھا۔ امام راحل نے ایک مذہبی رہنما کے ہوتے ہوئے جس سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا دنیا بھر کے اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری یافتہ سیاستدان اس کی گرد کو بھی نہیں پا سکے نہ مستقبل میں پاسکتے ہیں۔حضرت امام خمینیؒ سیاست کے افق پر ایک عظیم رہنما و رہبرکی حیثیت سے ابھرے۔حالانکہ آپ نے دنیا کے کسی بھی یونیورسٹی میں پولٹکل سائنس میں ڈگری حاصل نہیں کی تھی نہ ہی اس سے پہلے سیاست میں کوئی خاص تجربہ حاصل تھا لیکن جب بحثیت سیاستدان اُبھرے تو دنیا کیسیاستدانوں کے لئے ایک ائیڈیل بن گئے۔ 
امام خمینی ؒ ایک نڈر شجاع اور دلیر رہنما تھے نہ صرف ایران کی مطلق العنان حکومت کے خلاف بلا کسی خوف و ڈر کے اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ اس حکومت کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ پر بھی حد درجہ تنقید کرتے رہے آپ امریکہ کو شیطان بزرگ کہا کرتے تھے۔ حضرت امام خمینیؒ نے اپنے تمام مبارزات و جد و جہد کی ابتدا سے ہی فلسطین کی آزادی اور اس پر قبضے کو ناجائز قرار دیا۔آپ فرماتے تھے کہ ’’اگر تمام مسلم ممالک ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پرڈال دیں تو اسرائیل دنیا کے نقشہ سے مٹ جائے گا۔‘‘اسلامی انقلاب کی کامیابی کے صرف چند ہی مہینے بعد 13 رمضان المبارک سنہ 1399 کو حضرت امام خمینی کی طرف سییوم القدس منانے کی اپیل کی گئی۔آپ نے فرمایا کہ’’یوم القدس ایسا دن ہے جب تمام سپر طاقتوں کو وارننگ دی جانی چاہئے کہ اب اسلام آپ کے خبیث ہتھکنڈوں کی وجہ سے آپ کے زیر تسلط نہیں آئے گا، یوم القدس، اسلام کی حیات کا دن ہے‘‘ (صحیفہ امام، جلد 9صفحہ277)۔اس کے علاوہ14فروری 1989 کے دن امام خمینی ؒنے ناول ’’شیطانی آیات‘‘لکھنے پر ملعون سلمان رشدی کے قتل کا تاریخ سازفتوی جاری بھی جاری کیا۔
امام خمینی ؒ کی قیادت میں انقلاب اسلامی جب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔بعض ناداں لوگ سمجھ بیٹھے کہ یہ جذباتی اور عارضی انقلاب ہے جو کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے ا اس انقلاب کو امریکہ کچھ ہی دنوں میں کچل دے گالیکن نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے یہ انقلاب آج بھی آب و تاب کے ساتھ کامیابی کی جانب رواںدواں ہے اور اس انقلاب کی کرنین آج دنیا بھرمیں پھیل چکی ہیں۔ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر کے آزادمنش افراد کے لئے یہ انقلاب نمونہ عمل بن گیا۔
آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہنما تھے ہمہ جہت وحدت اسلامی کے لئے کوشاں رہے امام راحل نے مسلمانوں کے مابین تفرقہ ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شیعہ مسلمانوں و سنی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالے وہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔آپ فرماتے تھے کہ ہمیں اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب اہل قرآن اور اہل توحید ہیں اور ہمیں قرآن و حدیث کے لئے زحمت اٹھانی چاہئے اور ان کی خدمت کرنی چاہئے۔کلی طور پر امام خمینی ؒ کی ذات کا ہر پہلو جامع اور روشن ہے۔اگر دنیا بھر کے سیاستدان امام خمینی ؒ کے نقش قدم پر عمل پیرا ہوجائیں تو درپیش چلنجز کا مقابلہ یقینی بن جائے گا۔
اس عظیم الشان اور بے باک قائد نے 3 جون 1989 ء کی شام شہید رجائی اسپتال تہران میںآخری سانس لی۔آیت اللہ سید محمد رضا گلپایگانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور 6 جون کو کروڑوں عقیدتمندوں کی موجودگی میں انہیں بہشت زہراء میںآہوں اور سسکیوں کے بیچ سُپر خاک کیاگیا۔آج 4جون کو امام خمینی ؒ کی  32ویں برسی منائی جارہی ہے اس موقعہ پر اپنے عظیم الشان قائد کوتہہ دل سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
بقول علامہ اقبال ؒ 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے
Loading...