شہید شیخ نمر باقر النمر کے ہاتھوں کی تحریر، عزت و کرامت کی عرضداشت(۱)

چکیده:شیخ نمر کی عرضداشت نے سعودی عرب کے اندرونی اور بیرونی افکار کی توجہ کو اپنی طرف جلب کر لیا، ان کی یہ تحریر ہر عام و خاص کا موضوع سخن بن گئی۔ یہ وہ چیز تھی جس نے آل سعود کی نیندوں کو حرام کر دیا۔ حالانکہ اگر سعودی حکومت اس منشور کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی رعایا کے پامال ہو رہے شہری حقوق پر تجدید نظر کرتی تو ملک کی صورت حال میں بہتری آ سکتی تھی۔

شہید شیخ نمر باقر النمر کے ہاتھوں کی تحریر، عزت و کرامت کی عرضداشت(۱)

۲۰۰۷ کے موسم گرما میں سعودی عرب کے مشرقی علاقے کے رہنے والے عالم دین شہید شیخ نمر باقر النمر نے ایک سیاسی و سماجی ترقیاتی پلان اور منشور پیش کیا تھا جو اس ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے اور حکومت و ملت کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے ایک بہترین اور لاجواب لائحہ عمل تھا۔
شیخ نمر نے اس منصوبہ اور منشور کو ’’ریضۃ العزۃ و الکرامۃ‘‘ (عزت و کرامت کی عرضداشت) کے عنوان سے سعودی عرب کی حکومت کو پیش کیا اور اس کے بعد اپنے اس ایجاد کردہ منشور کو عملی جامہ پہنانے کے طریقہ کار کو نماز جمعہ کے خطبوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مبتکرانہ عرضداشت کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ  عدالت، برابری، آزادی اور سربلندی کے بنیادی قواعد پر مبنی عوامی حکومت کا وجود عمل میں لایا جائے اور اس کی قانونی حمایت، منصفانہ عدلیہ کے ذریعے کی جائے۔
یہ عرضداشت سعودی عرب کے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے عوام کے مطالبات کا خلاصہ اور عوامی حکومت کے قیام کو عمل میں لانے کا ایک شرعی منشور تھا۔ ایسی حکومت جس میں عدالت، آزادی اور سربلندی قانونی اور عدالتی دائرے میں بغیر کسی امتیاز کے تحقق پائے۔
شیخ نمر کی عرضداشت نے سعودی عرب کے اندرونی اور بیرونی افکار کی توجہ کو اپنی طرف جلب کر لیا، ان کی یہ تحریر ہر عام و خاص کا موضوع سخن بن گئی۔ یہ وہ چیز تھی جس نے آل سعود کی نیندوں کو حرام کر دیا۔ حالانکہ اگر سعودی حکومت اس منشور کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی رعایا کے پامال ہو رہے شہری حقوق پر تجدید نظر کرتی تو ملک کی صورت حال میں بہتری آ سکتی تھی۔

جو کچھ ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے وہ شہید شیخ نمر باقر النمر کی اسی تحریر کا مکمل ترجمہ ہے جسے منظر عام پر لانے سے پہلے سعودی ایوان میں پیش کیا گیا لیکن سعودی حکومت نے اسے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ ہم اس کو ایک بار پھر منظر عام پر لانے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں تاکہ روشن خیال رکھنے والے تمام انسان اس تاریخی سند کی حقیقت اور اس میں بیان کئے گئے سیاسی اور فلاحی مطالبات سے آشنا ہوں اور اس کے بعد خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ منشور اور پلان، حمایت اور حوصلہ افزائی کا طلبگار ہے یا جیل اور سزائے موت کا؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شکر اس خدا کا جس نے حق کو واضح اور باقی رہنے والا پیدا کیا اور باطل کو پنہان اور زود گذر، سلام اور درود ہو محمد اور ان کی آل پاک پر جو حق پر ثابت قدم رہے اور ہمیشہ حق کی حمایت کی۔
ابتدا میں، مطالبات کے موضوع میں وارد ہونے سے پہلے کچھ باتیں مقدمے کے طور پر بیان کرتا ہوں:
یکم؛ میں صریح اور واضح، بغیر کسی تقیہ اور تکلف کے گفتگو کروں گا اس لیے کہ تقیہ قابل توجہ نقصان سے بچنے اور ظلم و جور کے خوف سے ہوتا ہے اور مجھے ان دونوں کی پرواہ نہیں ہے۔ لہذا میں تقیہ کرنے پر مجبور نہیں ہوں۔
دوم؛ درست سننے اور صحیح سمجھنے کا ہنر بہت سارے موارد میں درست کہنے اور تقریر کرنے سے زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ وہ عوامل جو حاکم اور رعایا، باپ اور بیٹا یا ان جیسے دیگر رشتوں میں کڑواہٹ اور دوری کا باعث بنتے ہیں ان میں سے ایک عامل، رعایا اور بیٹے کے افکار کو حاکم اور باپ کی جانب سے درست نہ سننا ہے یا اگر سنا جاتا ہے تو ایسے ہے جیسے ’’عاج‘‘ کے ٹاور کی بلندی سے سنا گیا ہو جو بغیر توجہ کے سننا ہوتا ہے۔
سوئم؛ حقیقت ابتدا میں بہت تلخ محسوس ہوتی ہے لیکن اگر اسے معیار بنا لیا جائے اور مستقبل کو اس پیمانے پر پرکھا جائے اور بغیر کسی خوف و ہراس کے امور کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لی جائے تو وہ شیریں اور لذیذ ہو جاتی ہے۔
چہارم؛ سرسری مطالعہ ابہامات، پیچیدگیوں، الجھنوں اور  غلطیوں سے بچنے اور مسائل کی حقیقت کو درک کرنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ یہ مطالعہ جھوٹی گزارشوں یا غلطیوں سے بھرمار، فرضی یا غلط اعداد و شمار سے مملو، متعصب یا بدگمانیوں سے بھرے تجزیئوں میں منحصر نہ ہو۔
پنجم؛ مجھے امید ہے کہ سینے صراحت گوئی، حقیقت بیانی اور واضح کلام کے لیے گشادہ ہوں گے تاکہ پاک دل اور صاف زبانیں رکھنے والے تقیہ کرنے پر مجبور نہ ہوں اور بیمار دل اور چوٹ پہنچانے والی زبانیں نفاق، دوروئی، جھوٹ اور خیانت سے دور رہیں۔
ششم؛ شیعہ تفکر رافضی تفکر ہے یعنی ظلم و ستم کو پیچھے ہٹا دینے والا ہے۔ لیکن در عین حال بہترین تمام ادیان، مذاہب اور معاشروں کے سامنے بہترین طرز زندگی پیش کرتا ہے۔ اس لیے کہ شیعہ تفکر اصلاح طلبی، امن و شانتی اور مجموعی ہمدلی کا حامل ہے، اگر چہ اس کا نتیجہ اپنے حقوق سے محرومی ہو۔ اس لیے کہ یہ تفکر فتنہ، تشدد، انتہا پسندی اور کھلبلی کو دور بھگا دیتا ہے۔ اس تفکر کے بانی امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ جو میدان جنگ کے شہ سوار اور حیدر کرار تھے لیکن فرمایا: ’’ خدا کی قسم فلاں شخص نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لیے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔ علم کا سیلاب میری ذات سے گذر کر نیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا۔ پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کر دوں یا اسی بھیانک اندھیرے پر صبر کر لوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اور بچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔ تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کر لیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اور گلے میں رنج و غم کے پھندے تھے میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا‘‘(نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ)۔ انہوں نے یوں ہمیں سکھایا ہے کہ ہم سماجی اور شہری امنیت کو برقرار رکھنے کے لیے ظلم کو تحمل کریں جیسا کہ فرمایا: ’’ جب تک کہ مسلمان امن میں ہوں اور میرے علاوہ کسی پر ظلم نہ ہو تو میں برداشت کرتا رہوں گا‘‘ یہ وہ کلام ہے جو آج بھی ان کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے دلوں میں موجزن ہے۔
اس مقدمے کے بعد اپنی بات کو خداوند علیم کے کلام سے آغاز کر رہا ہوں جو اس نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ’’ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، جو اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقینا سخت عذاب ہو گا‘‘۔
ہم بالکل اس چیز کے خواہاں نہیں ہیں اور نہ ہوں گے جو ملکی یا عوامی سلامتی کو خدشہ دار بنائے، یا حکومت کے اراکین کو کمزور کرے یا منہدم کرے یا اداروں کی کمزوری کا باعث بنے۔ ہم جن چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ایسی چیزیں ہیں جو ملک میں سلامتی اور استحکام کو تحقق بخشتی ہیں، حکومت کے ستونوں کو مضبوط بناتی ہیں اور اس کی بنیادوں کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ اس لیے کہ ہم اس حق کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے جو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے اور پیغمبروں نے حکمرانوں کو لوگوں کے درمیان عملی جامہ پہنانے کا دستور دیا ہے۔
۱؛ مذہب تشیع کو سرکاری طور پر قبول کیا جائے اسے رسمیت دی جائے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں و مراکز میں تشیع کے ماننے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آیا جائے۔
۲: ہر انسان؛ مسلمان یا غیر مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ جس مذہب کو پسند کرتا ہے اس کی پیروی کرے۔ لہذا انسان کو حق حاصل ہے کہ مذہب اہل یت(ع) کو اپنا مذہب منتخب کرے اور اس کے اصول و فروع پر عقیدہ رکھے اور اس کے مطابق عبادت کرے اور کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کی سرزنش کرے، اسے مذہب چھوڑنے پر مجبور کرے یا اسے دھشتگردی کا نشانہ بنائے یا اسے دینی مناسک کی انجام دہی سے روکے یا اسے اذیت پہنچائے۔
۳؛ ان تمام قوانین، احکاماتاور پالیسیوں کو منسوخ کیا جائے جو شیعہ مذہب اور اس کے ماننے والوں کے حقوق کو پامال کرتی یا انہیں بے اہمیت اور درکنار کرتی ہیں۔[1]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] www.abna.ir

مذکورہ مطالب کو تھوڑی ترمیم کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔

تبصرے
Loading...