ہمارے ملک میں عالم اور غیر عالم کے درمیان انصاف کے نفاذ میں کوئی فرق نہیں

پویا نیوز کے ثقافتی گروہ کی رپورٹ کے مطابق: خداوند کی طرف سے مسلمانوں کو انصاف پر عمل کرنے کا حکم قرآن کے اہم احکامات میں سے ہے دنیا کے افراد اپنی تخلیق کے مطابق، اپنی سرگرمیوں کے مطابق جنھیں وہ انجام دیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق جنھیں وہ دیکھاتے ہیں حقدار بن جاتے ہیں انصاف یہ ہیکہ ہر انسان کو اس کا حق جو اس نے اپنی خلقت اور سرگرمیوں کی وجہ سے حاصل کیا ہے  دیا جائے۔

انصاف اور عدالت کے مقابے میں ظلم ہے یعنی جس چیز کا انسان مستحق ہے اسے نہ دیا جاے اور اُس کا حق اُس سے لیا جاے او اس کے مقابلے میں بھی تبعیض ہے یعنی دو مستحق شخص ہوں   اور دونوں  برابر کے مستحق ہوں اور ایک سے نعمت کو چھپایا جاے جب کے دوسرے سے نہیں لہذا اس بنا پر کہا جا سکتا ہے عدالت کی اہم تعریفوں میں سے ایک تعریف یہ ہیکہ جس کے بارے میں ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات میں بھی اشارکیا گیا ہے عدالت کا مطلب یعنی ہر چیز کو اُس کی جگہ پر رکھنا۔ وضع الامور فی مواضعھا۔ لہذا ہر وہ چیز جو اپنی اصلی جگہ سے نکل جاے تو یہ ظلم یا تبعیض کے برابر  ہے۔

شیعوں کے لئے عدالت اور انصاف کو جاری کرنے کے لئے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام بہترین نمونہ عمل ہیں کیوں کہ آپ نے اپنی حکومت کے دوران عدالت کو جاری کرنے کے لئے اپنی جان  قربان کے تیار تھے اور اسی حق اور حق طلبی کے راستے پر چلتے ہوے شھادت پر فائز ہو گئے اس کے بعد امیر المومنین کی سیرت دین کے ذمہ داروں اور علماء کے لئے بہترین نمونہ عمل بن گی جس کی وجہ سے امام خمینی رح نے عدالت کے نفاذ اور ظلم و تبعیض سے بچنے کو اسلامی انقلاب کے مقاصد میں سے بتایا  امام خمینی رح نے امیرالمومنین کی سیرت کی پیروی کرتے ہوے  عدالت اجتماعی کو نافذ کرنے میں اس حد تک مصر تھے کہ عدالت کو نافذ کرنے میں معمولی سی غلطی کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔

اس سلسلہ میں امام خمینی رح کی اس تقریر کے کچھ  حصہ کو پڑھیں  جو انھوں نے علماء کو خطاب کرتے ہوئے  منشور روحانیت کے عنوان سے کی تھی۔

ہمارے ملک میں عدالت کے نفوذ میں عالم اور غیر عالم میں کوئی فرق نہیں ہے  لیکن جب ایک خطار کار عالم کے خلاف، چاہیے اس کا ماضی اچھا ہو یا برا ہو شرعی اور قانونی طور پر کاروائی  کی جاتی ہے تو مختلف گروہ چیخنے لگتے ہیں کہ اسلامی جمہوری علماء کو بے عزت کر رہی ہے۔ اور اگر کوئی معافی کا حقدار ہو اور اُسے معاف کر دیا جاے تو بولتے ہیں کہ علماء کو اہمیت اور ترجیح دی گی ہے۔

ایران کی عزیز عوام کو ہوشیار رہنا ہو گا ممکن ہے خطا کاروں کے خلاف حکومت کی کاروائی سے دشمن عالم دین کی اصطلاح سے غلط فائدہ اُٹھاے اور اپنی نشریات اور سرگرمیوں سے وفادار علماء دین کی نسبت آپ کی ذہنیتوں کو خراب کرے۔اور اس کو حکومت کی عدالت کی دلیل سمجھیں کہ کسی کو بھی ترجیح نہیں دی جاتی اور خدا جانتا ہے میں ذاتی طور پر اپنے لئے کسی حق اور اہمیت کا قائل نہیں ہوں۔

اگر مجھ سے کوئی خطا سرزد ہو سزا کا مستحق ہوں اب سوال یہ ہیکہ ان تلخ واقعات کی تکرار کو روکنے کے لئے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے حوزوں میں اجنبیوں کے مداخلت  بند ہوجائے گی کیا کیا جاے؟ اگر چہ کام مشکل ہے، لیکن علاج کیا ہے؟

کچھ سوچنا چاہیے، پہلی شرعی اور الہی ذمہ داری یہ ہے کے علماء اور انقلابی طلاب علموں کے اتحاد کو برقرار رکھا جاے  وور نہ دوسری صورت میں  ایک اندھیری رات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔

تبصرے
Loading...