قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ

قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ

حکومت کے سلسلہ میں اسلام کا یہ اصل نظریہ ھے کہ جس کو ھمارا معاشرہ ولایت فقیہ کے نام سے جانتا ھے اس نظریہ کو بیان کرتے وقت ھم نے بیان کیا تھا کہ انسان کا تنھا جنگل یا غار میں زندگی بسر کرنا ممکن ھے، لیکن کبھی کبھی انسان کی مادی او رمعنوی پیشرفت اجتماعی زندگی کے بغیر حاصل نھیں ھوسکتی، تمام علوم، فنون اور ٹیکنولوجی اجتماعی زندگی کا ھی ثمرہ ھے، یھاں تک کہ جو افراد خود سازی اور تھذیب واخلاق اور سیر و سلوک او رعرفان کے راستوں کو طے کئے ھوئے ھیں وہ اجتماعی زندگی کے اثر اور اپنے اخلاق کے اساتذہ اور مربیوں کے ذریعہ اس مقام پر پھونچے ھیں۔اگر بشر کے مابین یہ ارتباط و رابطہ نہ ھوتا تو وہ کبھی مادی اور معنوی پیشرفت حاصل نھیں کر سکتے تھے، اس بنا پر انسان کیلئے اجتماعی زندگی کی ضرورت پیش آتی ھے اور اس لئے کہ افراد اس نعمت الٰھی سے استفادہ کریں تو اجتماعی زندگی کو گذارنے کے لئے ان سب پر حاکم ھونے والے کچھ قوانین کا ھوناضروری ھے ۔بدیھی ھے کہ اگر قوانین نہ ھوں تو معاشرہ میں بے نظمی، اختلال اورعسر وحرج لازم آئےگا اور انسانی زندگی حیوانی زندگی میں تبدیل ھوجائےگی، بعض محققین کھتے ھیں کہ انسان ذاتی طور پر ایک دوسرے کیلئے بھیڑیے کی مانند ھیں اور ان کو کسی زبردستی طاقت کے ذریعہ معتدل کرنا چاھیے لیکن اس طرح کا رویہ افراط کرنے والے انسانوں کے ساتھ کیا جاتا ھے، بھر حال انسان کے اندر بھت سے ایسے جاذبات پائے جاتے ھیں کہ اگر ان کو نظم اور قانون کے ذریعہ مھار نہ کیا جائے تو معاشرہ میں فساد پھیل جائےگا۔اس کے بعد یہ سوال پیش آتا ھے کہ یہ قوانین کس طرح کے قوانین ھونے چاھئیں اور ان میں کیا خصوصیات ھونی چاھئیں تاکہ وہ انسانی معاشرہ کی دنیا اور آخرت کی سعادت کی طرف ھدایت کرسکیں؟ مختصر طور پر یہ بیان کیا جاچکا ھے کہ ایک گروہ کا یہ عقیدہ ھے کہ قانون کو معاشرہ میں صرف نظم اور امنیت برقرار کرنے والا ھونا چاھیے اسکے علاوہ قانون کا اور کوئی فریضہ نھیں ھے، دوسرے گروہ کا عقیدہ ھے کہ قانون کو معاشرہ میں نظم وامنیت کے علاوہ عدالت کو بھی برقرار کرنے والا ھونا چاھیے اس بنا پر قانون کی تعریف کرنے میں مختلف نظریے بیان کئے گئے ھیں جیسا کہ ھم نے مجمل طور پر بیان کیا ھے، اسی بارے میں کچھ افراد کھتے ھیں کہ معاشرہ میںنسانوں کے طبیعی حقوق کے خلاف ھونے والے قوانین کو نافذ نھیں کرنا چاھئے۔اس مندرجہ بالا نظریہ کی تائید میں اخباروں، رسالوں اور تقریروں میں مختلف طرح کے انگیزہ بیان کئے جاتے ھیں اور کھا جاتا ھے کہ آزادی انسانوں کے طبیعی حقوق کی بیان گر ھے، اور کوئی قانون انسانوں سے اس طبیعی حق کو چھین نھیں سکتا ھے، ھم یہ بیان کر چکے ھیں کہ یہ نظریے مختلف اشخاص کی طرف سے اور مختلف انگیزوں کے ساتھ بیان ھوئے ھیں اور میرا بذات خود ان افراد کے ساتھ کوئی واسطہ بھی نھیں ھے کہ ان مطالب کو بیان کرنے والے کس گروہ سے تعلق رکھتے ھیں اور ان کا کیا انگیزہ ھے اور وہ کیوں ان مطالب کو بیان کرتے ھیں؟ میں صرف اس عنوان سے کہ طالب علم ھوں اور پچاس سال سے میرا علوم دینی سے سروکار ھے میں صرف فلسفہٴ حقوق یا فلسفہٴ سیاست کے بارہ میں اسلامی نقطہ نظر سے تو بحث کر سکتا ھوں اور اپنا نظریہ پیش کر سکتا ھوں، اور شاید اکثر افراد کو معلوم ھوگا کہ میرا کسی گروہ، کسی حزب، او رکسی تشکیلات سے کوئی رابطہ نھیں ھے، اور حقیرصرف وظیفہ شرعی کے حکم سے مطالب پیش کررھا ھوں۔اگرکچھ افراد معاشرہ میں فساد برپا کرنا چاھتے ھیں، لوگوں کے سامنے غلط تفسیروں کو پیش کرتے ھیں یا مطالب میں تحریف کیا کرتے ھیں، وہ ان تفسیروں کی ابتداٴ یا آخر سے کچھ کلمات کو حذف کر دیتے ھیں اور ایک جملہ ھوتا کسی کا ھے اور اس کو کسی اور سے منسوب کر کے بیان کیا کرتے ھیں اور اس کو ذرہ بین کے سامنے رکھکر اس سے غلط استفادہ کرتے ھیں تو میرا ایسے افراد سے کوئی رابطہ نھیں ھے، معاشرہ میں ایسے افراد ھمیشہ رھے ھیں اور آئندہ بھی ھوںگے۔اگر آپ کے یاد ھو تو میں نے پھلے بھی مکرر اس مسئلہ کی تاکید کی ھے کہ ھم کبھی کبھی ایسا کلمہ استعمال کرتے ھیں کہ اس کا دقیق اور مشخص و معین مفھوم نھیں ھوتا اور ھر شخص اپنی قوت فھم کے مطابق اس سے مطلب اخذ کرتا ھے اور یھی اشتباہ غلطی کا سبب ھوتا ھے اور اس چیز کا باعث ھوتا ھے کہ سننے والا صحیح طریقہ سے کھنے والے کی بات کو نھیں سمجہ سکا اور بعض موقعوں پر یہ مغالطہ کا سبب ھوتا ھے، کبھی تو اتفاق سے مغالطہ ھوجاتا ھے، اور کبھی کوئی شخص جان بوجہ کر مغالطہ کرتا ھے۔منجملہ ان کلمات میں سے ایک کلمہ “حق طبیعی” ھے جو اس جگہ پر بیان کیا گیا ھے جبکہ اصولی طور پر اس طرح بیان ھونا چاھیے کہ “حق” کیا ھے اور اسکے طبیعی ھونے کا کیا مطلب ھے؟

2۔مکتب حقوق طبیعیجو افراد فلسفہ حقوق سے آشنا ھیں اور یہ جانتے ھیں کہ فلسفہ حقوق کے مکاتب میں سے ایک “حقوق طبیعی” ھے، گذشتہ زمانہ اور جب سے تاریخ فلسفہ مدون ھوئی ھے کچھ لوگوں نے اس موضوع سے متعلق بحث کی ھے۔یونان کے بعض قدیم فلاسفہ معتقد تھے کھ:انسان حقوق رکھتے ھیں جن کو طبیعت نے ان کو دیئے ھیں انسان کی طبعیت میں حقوق وضع کئے گئے ھیں اور کوئی شخص ان حقوق کو ان سے سلب نھیں کر سکتا، اس لئے کہ انسانی طبیعت نے افراد کیلئے ان حقوق کا ایجاب کرلیا ھے اور اسی بنیاد پر وہ نتیجہ گیری کرتے ھیں اور ظاھراً یہ نتائج ایک دوسرے کے سازگار نھیں ھوتے اور یھیں سے فلسفہ حقوق و اخلاق کے باب میں ایک معروف مغالطہ ایجاد ھوا جسکو “مغالطہ طبیعت گرایانھ” کھا جاتا ھے، کیونکہ کچھ افراد کھتے ھیں کہ انسان متعدد طبیعتیں رکھتا ھے مثال کے طور پر سفید گورے انسانوں کی ایک طبیعت ھوتی ھے اور کالے انسانوں کی دوسری طبعیت ھوتی ھے، کالے انسان جسم کے اعتبار سے گورے انسانوں سے زیادہ طاقتور اور فکری اعتبار سے ضعیف (کمزور) ھوتے ھیں، اسی طرح کا نظریہ ارسطو کا بھی نقل ھوا ھے (یہ غلط فھمی نہ ھوجائے کہ حقیر ان نظریات کو تسلیم نھیں کرتا ھوں اور فقط نقل کرتا ھوں) جب کالے انسان بدن کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ھوتے ھیں تو ان کو صرف بدنی کام انجام دینا چاھیے؟! اور گورے افراد فکری اعتبار سے زیادہ قوی ھیں تو معاشرہ کے تمام اداری کام ان کے حوالہ کردینے چاھییں، نتیجتاً بعض انسان دوسرے انسانوں کی خدمت کیلئے پیدا ھوئے ھیں اسی وجہ سے غلامی ایک “طبیعی” قانون ھے، ھم ابھی اس بحث کو چھیڑنا نھیں چاھتے کہ کیا کالے انسانوں کی طبیعت اس چیز کا تقاضا کرتی ھے یا نھیں؟ یہ خود ایک مفصل بحث ھے اور اس کے لئے بھت زیادہ وقت درکار ھے۔بھرحال طول تاریخ میں حقوق طبیعی کے باب میں سب سے زیادہ عاقلانہ، معتدل اور سالم مطلب یہ بیان کیا گیا ھے کہ اگر کوئی چیز انسانوں کی طبیعت کلی کی مقتضی ھوتی ھے تو وہ متحقق ھوتی، انسان کو اس طرح کی طبیعت کلی کے اقتضا ٴ سے محروم نھیں کرنا چاھیے، یھاں تک تو مطلب کچھ قابل تسلیم ھے لیکن اس کے قطعی اثبات کے لئے استدلال کی ضرورت ھے کہ کیوں جو چیز انسان کی طبیعت کے متقاضی ھے اس کو بجالایا جائے اور انسان کو اس سے محروم نہ رکھا جائے؟ یہ بھر حال اس مطلب کے اصل مشترک کے عنوان سے تسلیم کیا گیا ھے۔ھمارا بھی یھی عقیدہ ھے کہ جو انسان کی طبیعت کی اقتضا ٴ کرتی ھے اور طبیعی طور پر وہ تمام انسان تقاضہ کے اعتبار سے مشترک ھےں تو انسان کو اس طرح کی ضروتوں سے محروم نھیں کرنا چاھیے اس مطلب کی تائید میں عقلی استدلال بھی موجود ھیں جن کو ھم فعلی طور پر بیان نھیں کرنا چاھتے ھیں، لیکن سوال یہ ھے کہ ان ضروتوں کے مصادیق کیا ھیں؟انسان کی طبیعت کو کھانے کی ضرورت ھوتی ھے اور تمام انسانوں کو غذا کی ضرورت ھے اس بنا پر کسی انسان کو کھانا کھانے محروم نھیں کرنا چاھیے یعنی نہ اسکی زبان کاٹی جائے یا اسکو کوئی ایسی دوا کھلادی جائے جس کی وجہ سے وہ بات کرنے سے محروم ھو جائے اور یا اسی طرح کے دوسرے امور، لیکن اس بات کی طرف متوجہ رھنا چاھیے کہ اس طرح کے مطالب بیان کرنے کے خاص اھداف ھوتے ھیں۔

۳۔یورپ میں حقوق بشر کی حدودآپ حضرات جانتے ھیں کہ اس عصر (دور) کے آخر میں عالمی پیمانہ پر حقوق بشر کے عنوان سے ایک مسئلہ کا اعلان کیا گیا، شروع میں اس اعلان کی چھیالیس ملکوں کے نمائندوں نے تائید کی اس کے بعد آھستہ آھستہ دوسرے ممالک بھی ان سے ملحق ھوگئے اور نتیجتاً وہ اعلان عالمی اعلان کی صورت میں بدل گیا، اس اعلان میں انسانوں کیلئے حقوق بیان کئے گئے، منجملہ یہ حقوق کہ آزادی بیان، مکان منتخب کرنے کی آزادی، شغل اختیار کرنے کی آزادی، مذھب انتخاب کرنے کی آزادی اور ھمسر انتخاب کرنے کی آزادی ھے۔یہ حقوق (جن کیلئے اس اعلان میں استدلال بھی نھیں کی گیا) کھاں سے وجود میں آئے اور کس طرح تمام انسانوں کے حقوق کے عنوان سے بیان کئے گئے اسکا مفصل ایک تاریخچہ ھے، فلسفہ حقوق سے آشنا حقوق دانوں کو (خاص طور سے مسلمان حقوقدان) کی طرف سے اس اعلان میں بھت سی بحثیں بیان کی گئی ھیں، منجملہ یہ بحث کہ !وہ فلسفی مطالب جن کو تم انسانوں کے حقوق کے عنوان سے بیان کرتے ھو اور ان کو مطلق جانتے ھو اور تمھارا یہ عقیدہ ھے کہ ان کو کسی کو محدود کرنے کا حق نھیں وہ کیا ھیں؟ اور ان کیلئے کون سا استدلال پایا جاتا ھے؟کیا ان کی مشخص و معین کرنے کی کوئی حد ھے یا نھیں؟ اور کیا یہ حقوق مطلق طور پریہ حقوق قانون سے بلند درجہ رکھتے ھیں اور کسی قانون کو ان حقوق کو محدود کرنے کی اجازت نھیں؟ کیا کوئی قانون آزادی بیان کی حدود کو معین کرنے کی اجازت نھیں رکھتا؟ کیا کسی قانون کو انتخاب ھمسر کو محدود کرنے کی اجازت نھیں؟ کیا کوئی قانون ایسا نھیں ھے جو یہ بیان کر سکے کہ تم کو اپنی مملکت کی حدود سے باھر مسکن کو انتخاب کرنے کا حق نھیں ھے؟ کیا کسی قانون کو ان حقوق کی حدود کو مشخص و معین کرنے کی اجازت نھیں ھے؟جب ھم یہ کھتے ھیں کہ فلاں مطلب طبیعی حق ھے اور انسان کی طبیعت کے متقاضی ھے اور بالفرض اس پر عقلی استدلال بھی موجود ھو تو کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ ان حقوق کی کوئی حد نھیں ھے؟اگر حدبندی ھے تو کون اس حدبندی کو کون معین ومشخص کرتا ھے؟ حقیقت یہ ھے کہ خود اعلان کو لکھنے والے اور اکثر اس اعلان کی تفسیر کرنے والے (جھاں تک حقیر کی اطلاع میں ھے) بھی ان سوالوں کا صحیح جواب دینے سے کتراتے نظر آتے ھیں۔آخر کار یہ کہ آزادی قانون سے بلند و بالا ھے اس سے مراد کیا ھے؟ کیا کچھ ایسی آزادیاں بھی ھیں جن کو محدود کرنے کا کسی قانون کو حق نھیں؟ کیا ھم یہ سوال نھیں کر سکتے کہ ان آزادیوں کی حد کھاں تک ھے؟ کیا آزادی بیان کا یہ مطلب ھے کہ ھر شخص جو کچھ اسکا دل کھے وہ سب کھہ ڈالے؟! ھم تو یہ مشاھدہ کرتے ھیں کہ کوئی ملک ایسی اجازت نھیں دیتا اور آزادی بیان کیلئے حدبندی کا قائل ھوتا ھے، مثال کے طور پر باشخصیت افراد کی توھین کرنا دنیا میں کھیں بھی جائز نھیں ھے۔

۴۔آزادی کی حدبندی میں تعارض کا ظاھر ھونااب یہ سوال در پیش ھے کہ آزادیوں کی حدبندی کھاں تک ھے اور کون اس کو معین کرتا ھے؟ اس کا مجمل جواب یہ ھے کہ جب یہ کھا جاتا ھے کہ آزادی قانون سے بلندو بالا ھے اور اس کو محدود نھیں ھونا چاھیے اس سے مراد شرعی آزادیاں ھیں، کچھ افراد کھتے ھیں کہ مشروع اور معقول آزادیاں اور کچھ دوسرے افراد نے دوسری قید کا اضافہ کیا ھے، حقوق بشر کے اعلان میں اس کو “اخلاقی” سے تعبیر کیا گیا ھے یعنی اخلاقی موازنہ کے ساتھ حقوق کی رعایت کرنا اور کم وبیش یہ ایک مبھم معنی رکھتاھے اور مشروع قانون سے ان کی مراد یہ نھیں ھے کہ دین اسلام جیسی شریعت نے اس قانون کو جائز قرار دیا ھو، اگرچہ لغت کے اعتبار سے ریشہ مشروع اور شریعت ایک ھے لیکن حقوق و سیاست کے بارے میں مشروع سے مراد وہ قانون ھے جسکو حکومت معتبر جانتی ھو نہ یہ کہ ھر حال میں شریعت نے ھی اس کو اجازت دی ھو، بعض متدین افراد کو یہ مطلب شک و شبہ میں نہ ڈال دے کہ جب ھم یہ کھتے ھیں کہ مشروع حقوق یا مشروع آزادیاں تو ان کو شریعت اسلام نے مشخص و معین کیا ھے، مشروع سے ان کی مراد وہ حقوق ھیں جو معتبر اور قانونی ھیں، اور نامشروع سے مراد دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنا ھے۔لیکن یہ سوال در پیش ھے کہ کونسے حقوق مشروع اور معقول ھیں اور کونسے نامشروع اور نامعقول ھیں؟ اور کس شخص کو انھیں معین و مشخص کرنا چاھیے؟ ان کے پاس اس جواب کے علاوہ اور کوئی چارہ نھیں ھے کہ آزادی سے مربوط جزئیات اور حدود کو قانون معین و مشخص کرتا ھے اور یھیں سے سب سے پھلے تناقض اور تعارض کا آغاز ھوتا ھے کھ: ایک طرف تو وہ یہ کھتے ھیں کہ یہ حقوق اور آزادیاں قانون سے زیادہ اونچا درجہ رکھتی ھےں اور کوئی قانون ان کو محدود نھیں کرسکتا ھے، لیکن جب ھم ان سے کھتے ھیں کہ یہ آزادی مطلق ھے یا محدود؟ تو وہ جواب میں کھتے ھیں کھ: مطلق آزادی نھیں ھے چونکہ وہ صحیح جواب نھیں دے سکتے اس لئے کھتے ھیں کہ ھماری مراد مشروع آزادیاں ھیں۔جب ھم ان سے کھتے ھیں کہ مشروع سے کیا مراد ھے؟ تو جواب دیتے ھیں کہ جس چیز کو قانون نے تصویب کر دیا ھو، یعنی قانون آزادی کی حدبندی کو مشخص و معین کرتا ھے،اور ابھی تو تم نے تو یہ کھا تھا کہ یہ آزادیاں قانون سے بلند و بالا ھیں۔ممکن ھے آپ اس کا یہ جواب دیں کہ مشروع اور معقول آزادیوں سے تمام انسان اور عقلائے عالم واقف ھیں، ھم ان سے کھتے ھیں کہ جس مطلب کو تمام انسان اور عقلائے عالم جانتے ھوں تو پھر بحث ھی ختم ھو جاتی ھے، چونکہ ھم اور تمام مسلمان انھیں میں شمار کیے جاتے ھیں، اور دنیا میں تقریباً ایک میلیارد اور چند لاکہ مسلمان ھیں اور عقلا ء بھی انھیں میں شامل ھیں، اور سب یہ کھہ سکتے ھیں کہ اسلام میں کس قسم کی آزادیوں کو قبول کیا گیا ھے اور وہ کس قسم کی آزادیوں کو قبول کرتے ھیں اور کس قسم کی آزادیوں کو رد کرتے ھیں، ھماری تمام معلومات اور مطالعات کے مطابق ابھی تک یہ سوال بلا جواب ھے اور فلاسفہ حقوق کے پاس اس کا کوئی قطعی جواب نھیں ھے کہ آزادیوں کو کونسی چیز محدود کرتی ھے؟

5۔حقوق بشر میں آزادی کی اھمیتحقوق بشر کے اعلان کی شرح کرنیوالوں اور فلاسفہ حقوق نے اپنی فلسفہ کی کتابوں میں آزادی کی حدبندی کے بارے میں مندرجہ ذیل چیزیں لکھی ھیں:1۔جس چیز کو فردی آزادیوں کو محدود کرنے کے عنوان سے بیان کیا گیا ھے وہ دوسروں کی آزادی ھے، یعنی ھر فرد وھاں تک آزاد ھے جھاں تک وہ دوسروں کا مزاحم نہ ھو اور دوسروں کے حقوق سے تجاوز نہ کرے، فلاسفہ حقوق نے اس موضوع کو بھت زیادہ اھمیت دی ھے اور اس کے بارے میں بھت زیادہ پافشاری کی ھے اور حقیقت میں حقوق بشر کے اعلان میں جو یورپ کے فلاسفہ حقوق کی انجیل کے مانند ھے اس چیز پر بھت زیادہ تاکید کی ھے کہ ھر انسان وھاں تک آزاد ھے جھاں تک وہ دوسروں کا مزاحم نہ ھوتا ھو، لیکن اگر فردی آزادی سے دوسروں کو زحمت ھوتی ھو وہ اس طرح کی آزادی سے محروم ھوگا اور یھیں پر آزادی محدود ھوجاتی ھے۔یھاں پر بھت سے سوال پیش آتے ھیں: پھلاسوال: تم دوسروں کی مزاحمت کرنے کو کن مقولوں سے تعبیر کرتے ھو؟ کیا یہ مزاحمت صرف امور مادی میں ھے یا امور معنوی کو بھی شامل ھوتی ھے؟ کیا لوگوں کے دینی مقدسات کی مخالفت کرنا ان کی آزادی کی مخالفت کرنا ھے یا نھیں؟ یورپی لیبرال کا نظریہ کھتا ھے کہ آزادیوں کی حدبندی معنوی ادوار کو شامل نھیں ھوتی اور امور معنوی کی مخالفت آزادی کو محدود نھیں کرتی۔لھٰذا جب یہ کھا جاتا ھے کہ دین اسلام خدا وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقدسات اسلام کی اھانت کرنے والے کو مرتد سمجھتا ھے، مثال کے طور پر اسلام، سلمان رشدی کو مقدسات اسلام کی اھانت کرنے کی وجہ سے واجب القتل سمجھتا ھے تو وہ اس چیز کو تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نھیں ھیں اور کھتے ھیں کہ بیان آزاد ھے، وہ محقق ھے جو چاھے لکہ سکتا ھے، تم بھی جو چاھو وہ لکھو! تو ھمارا ان سے یہ سوال ھے کہ اس کتاب کے مطالب سے دوسروں کی مقدسات کی اھانت ھوتی ھے؟ تو حقیقت میں وہ یہ نھیں کھہ سکتے کہ توھین آمیز نھیں ھے۔کیا آزادی بیان اتنا وسیع ھے کہ ایک شخص دنیا کے اس کونہ سے ایک میلیارد سے زیادہ مسلمانوں کی مقدس شخصیت پیغمبر جنکو مسلمان اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ھیں اور اپنے ھزاروں عزیزوں کو آپ پر فدا کرنے کیلئے تیار ھیں ان کی شان میں گستاخی کرے؟ کیا اس کام کو آزادی بیان کھا جاتا ھے؟ اور یہ وھی مطلب ھے جس کو تمام لوگ درک کرتے ھیں؟ کونسی عقل، منطق استدلال اور شریعت اجازت دیتی ھے کہ ایک انسان دوسرے ایک میلیارد مسلمانوں کی مقدس شخصیت کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر حقوق بشر کے اعلان میں آزادی بشر سے یھی چیز مراد ھے تو ھم بغیر کسی چون و چرا کے آرام کے ساتھ ایسے اعلان کو تسلیم نھیں کرتے۔

6۔یورپ میں آزادی کی حدبندی پر اعتراضاتجو افراد اس اعلان کو معتبر سمجھتے ھیں اور اس کا انجیل کی حد تک احترام کرتے ھیں ان سے ھمارا بنیادی سوال یہ ھے کہ اعلان کیسے معتبر ھوتا ھے؟ کیا تمھارے پاس کوئی عقلی دلیل ھے؟ اس صورت میں تم کو اس پر عقل سے بھی استدلال کرنا چاھیے، بڑے آرام سے یہ نھیں کھا جاسکتا کہ “آزادی قانون سے بلند درجہ رکھتی ھے اور اس کو محدود نھیں کیا جا سکتا ھے” اگر تم یہ کھتے ھو کہ اس کا اعتبار اس وجہ سے ھے کہ ممالک کے نمائندوں نے اس اعلان پر دستخط کر دئیے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ اس کا اعتبار دستخط کا تابع ھے، اب جن ممالک نے اس اعلان پر دستخط نھیں کئے ھیں یا کسی شرط کے ماتحت دستخط کئے ھیں ان کے بارے میں کیا خیال ھے؟ کیا وہ بھی بغیر کسی چون وچرا کے اس کی اتباع کر سکتے ھیں؟ھر معاشرہ ثقافت، مقدس چیزیں اور خاص احکام رکھتا ھے اور اسی حقوق بشر کے اعلان کے ایک حصہ میں آیا ھے کہ ھر شخص اپنا مذھب منتخب کرنے میں آزاد ھے اور جب انسان کسی مذھب کا انتخاب کرلیتا ھے تو اس کو اسکے احکام پر عمل کرنا چاھیے کسی مذھب کے منتخب کرنے کا مقصد یہ نھیں ھے کہ صرف زبان پر جاری کر لیا جائے بلکہ انسان کو عمل کرنے میں بھی آزادانہ طور پر اپنے مذھب پر عمل کرناچاھئے۔اب ھم نے بھی اسلام کو آزادانہ طور پر منتخب کیا ھے، اسلام کا بھی فرمان ھے کہ جو شخص بھی اولیاٴ اسلام کی اھانت کرے گا اسکی سزا موت ھے، یورپی ثقافت کھتی ھے کہ اسلام کا یہ حکم حقوق بشر کے خلاف ھے انسانوں کے طبیعی حقوق کے بر خلاف ھے، اس لئے ھر انسان اپنی طبیعت کے اقتضاٴ کے مطابق جو کچھ چاھے کھنے کا حق رکھتا ھے! نتیجہ کے طور پر حقوق بشر کے اعلان میں جو یہ دو مطلب آئے ھیں یہ ایک دوسرے کے معارض ھیں۔ھم اپنی پھلی بحث کی طرف پلٹتے ھیں کہ ھر شخص جو چاھے وہ کھنے کا حق رکھتا ھے اس مطلب پر کونسی دلیل ھے؟ تو تم اپنے ملک میں ھر شخص کو جو کچھ وہ کھنا چاھے اسکی اجازت کیوں نھیں دیتے ھو؟ اگر کوئی شخص تھمت لگاتا ھے تو عدالت میں اسکی کیوں شکایت کرتے ھو، اور جب وہ یہ کھتا ھے کہ “آزادی بیان” ھے اور جو میں نے چاھا وہ کھا ھے تو کس دلیل کی بنا پر اس سے یہ کھتے ھو کہ اس طرح کی باتیں مت کرو؟ معلوم ھوتا ھے کہ مطلق آزادی بیان نھیں ھے اور بعض مطالب کو بیان نھیں کرنا چاھیے، اس مطلب کو دنیا کے تمام انسان تسلیم کرتے ھیں کہ مطلق آزادی نھیں ھے ورنہ انسانیت اور معاشرہ باقی نہ رھتا جس میں کوئی قانون حاکم اور حقوق کی رعایت ھوتی۔نتیجہ کے طور پر کوئی شخص مطلق آزادی کو تسلیم نھیں کرتا، لیکن سوال یہ ھے کہ اسکی حد کھاں تک ھے؟ آزادی بیان کو نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا اور ھم نے عرض کیا کہ آزادی کو لامحدود نھیں کھہ سکتے اور ایسا کسی شخص نے بھی نھیں کھا ھے اور عملی طور پر کوئی مملکت اس بات کو تسلیم نھیں کرسکتی کہ ھر انسان کا جو دل چاھے وہ بیان کرے اور لکھے اگرچہ وہ تھمت و افتراٴ ھی کیوں نہ ھو اور دوسرے لوگوں کی گمراھی کا سبب ھو، قومی امنیت کے برخلاف ھو۔اگر گفتگو کرنا آزاد ھے تو ھم بھی گفتگو کرتے ھیں، اگر وہ ھم کو اجازت دیں تو ھم بھی ان سے ایک سوال کرتے ھیں، اور حقوق بشر کا اعلان لکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ زانوئے ادب تھہ کریں اور ان کے سامنے اپنا سوال بیان کریں، ھمارا ان سے سوال یہ ھے کہ کس دلیل کی بنیاد پر انسان آزاد ھے کہ وہ جو چاھے کھے؟ اگر آزادی مطلق ھے تو تم خود کیوں تسلیم نھیں کرتے ھو؟ تھمت لگانے اور افتراٴ باندھنے اور اھانت کرنے کو کیا تم خود بھی تسلیم کرتے ھو کہ آزادی مطلق ھے؟نتیجتاً تم نے یہ تسلیم کرلیا کہ آزادی محدود ھے، لیکن وہ کھاں تک محدود ھے؟ جھاں تک تمھارا دل چاھے وھاں تک محدود ھے؟جب تم یہ کھتے ھو کہ دوسروں کی آزادی کا مزاحم نھیں ھونا چاھیے تو ھمارا تم سے سوال یہ ھے کہ تم دوسروں کی آزادی کو کس حد تک معتبر سمجھتے ھو؟ کیا آزادی کی حد بندی یہ ھے کہ جھاں تک دوسروں کا جانی مالی اور ان کی حیثیت کا نقصان نہ ھوتا ھو؟ کیاو روح، حیات معنوی، افکار اور ان کی مقدس آرزوں پر صدمات وارد ھوتے ھیں وہ ممنوع ھیں یا نھیں؟ اگر ممنوع ھیں تو ھمارا بھی یھی نظریہ ھے، ھم بھی یھی کھتے ھیں کہ آزادی بیان حدبندی رکھتی ھے، مقدس چیزوں کی اھانت نھیں کرنا چاھیے چوں کہ یہ دوسروں کے حق سے تجاوز کرنا ھے۔

7۔مادی اور معنوی مصالح پر قانون اسلام کی توجہاب اس بحث کو برقرار رکھنے میں یہ سوال پیش آتا ھے کہ اسلامی نقطہٴ ٴ نظر سے آزادی کی اساس و بنیاد کیا ھے اور اس کی حد بندی کیا ھے؟ قانون کیلئے پھلے بیان کی گئی خصوصیات سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ انسانوں کے معاشرہ میں اجتماعی زندگی کے اھداف و مقاصد اور مادی و معنوی مصالح کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر قانون کا موجود ھونا ضروری ھے، اگر اجتماعی زندگی نہ ھو تو افراد کے مادی اور معنوی مصالح پورے نھیں ھوسکیںگے، اجتماعی زندگی کے ماتحت انسان اس چیز کا منتظر رھتا ھے کہ وہ خدا دادی نعمتیں جیسے علوم، ٹیکنالوجی اور صنعتوں سے بھی اور معارف و کمالات روحی کے بلند پایہ کے استادوں سے بھی کما حقہ استفادہ کرےگا، ان معارف و علوم کا صرف اجتماعی زندگی میں ھی حاصل کرنا میسر ھے۔نتیجتاً قانون ایسا ھونا چاھیے جو انسانی رشد کی مادی اور معنوی جھتوں میں ضمانت لے قانون کا صرف معاشرہ میں نظم برقرار کرنا ھی کافی نھیں ھے، مثال کے طور پر اگر دو افراد یہ طے کریں کہ وہ دوسروں کو کوئی نقصان پھونچانے اور معاشرہ کے نظم میں خلل ڈالے بغیر ایک دوسرے کو قتل کر ڈالیں گے تو کیا وہ یہ صحیح کام انجام دیںگے؟اگر آپ حضرات کو یاد ھو تو کچھ دن پھلے امریکہ کے ایک شھر میں انسانوں کے ایک گروہ کو جلا دیا گیااور یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ وہ افراد تھے جو اپنے رسم و رواج میں خودکشی کو کمال سمجھتے تھے! البتہ ذھن میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ ممکن ھے خود امریکا کی حکومت کے ممبران نے جب ان افراد کو اپنے نظام کے مخالف دیکھاھو، تو سب کو نیست و نابود کردیا ھو، فرض کر لیجئے کہ اس گروہ نے اپنے مذھبی عقیدہ کے مطابق اس فعل کو انجام دیا تو کیا ان کا ایسا کرنا صحیح ھے؟ کیا یہ کھا جا سکتا ھے کہ انھوں نے کسی کو کوئی اذیت نھیں دی اور خود ایک دوسرے سے موافقت کر کے ایک دوسرے کو قتل کردیا تو انھوں نے یہ صحیح کام انجام دیا ھے؟ کیا حکومت کو ایسے قانون کی اجازت دیدینی چاھیے؟ کیا قانون کو ایسی اجازت دیدینی چاھیے یا نھیں؟ اگر نظم اور امنیت کی رعایت کرنا ھی صرف ملاک ھے تو یہ نظم و امنیت تو کچھ افراد کے ایک ساتھ قتل کردینے سے بھی باقی رھتی ھے! اور قانون دوسرا کوئی اور وظیفہ نھیں رکھتا۔لیبرل نظریہ میں حکومت کا وظیفہ صرف نظم وامن برقرار کرنا ھے اور قانون کا کام ھرج و مرج کو روکنے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے، اس طرز تفکر کا نتیجہ وھی چیز ھے جسکا یورپی ممالک میں مشاھد کیا جاتا ھے جیسے اخلاقی، جنسی، اور اجتماعی فساد وغیرہ یہ تمام مسائل ان کے اس قول کا نتیجہ نھیں کھ: حکومت کو افراد کے حقوق اور ان کی زندگی میں دخالت کرنے کا کوئی حق نھیں ھے اور حکومت کو تو صرف نظم برقرار رکھنا چاھیے، حکومت کو تو صرف مسلح پولیس کی طرح اسکولوں میں رھنا چاھیے تاکہ بچے ایک دوسرے کو یا اپنے استادوں کو قتل نہ کردیں، وھاں پر برقراری ٴ نظم و امنیت اسی حد تک ھے کیا قانون کا وظیفہ صرف یھی ھے؟ یا دوسرے وظایف جسیے انسانوں کے اندر رشدونموکرنابھی قانون کی ذمہ داری ھے؟ اور کیا قانون کو اخلاقی برائیوں سے بھی روکنا چاھیے؟جو کچھ ھم نے بیان کیا اس کا نتیجہ کھ: قانون کو مصالح معنوی کو بھی مد نظر رکھنا چاھیے، اس بنا پر جو کچھ انسانوں کے معنوی مصالح اور ان کی شخصیت، روح الٰھی، مقام خلیفہ الٰھی اور انسانیت کیلئے مزاحمت ایجاد کرتا ھے اور اسی طرح جو مصالح مادی اور انسانوں کی امنیت اور سلامتی کو ضرر پھونچاتا ھے وہ بھی ممنوع ھونا چاھیے، کیا اجتماع اسلئے نھیں ھوتا کہ انسان اپنی انسانیت کی وجہ سے رشد کرے اور صرف اپنے حیوانی مقاصد ھی نھیں بلکہ انسانی مقاصد کو بھی حاصل کرے؟ تو قانون مصالح مادی اور معنوی دونوں کا متکفل ھونا چاھیے، لھٰذا کسی کی حیثیت، کرامت اور لوگوں کی مذھبی مقدس گاھوں سے معارضہ کرنا یہ انسانوں کی روحی اور معنوی رشد ونموکو روکتا ھے یہ بھی ممنوع ھونا چاھیے، جس طرح سے مواد مخدر کا رائج کرنا یا زھریلی دوا کا انجکشن لگانا منع ھے اس لئے کہ وہ انسان کو بیمار کرتا ھے اور ھستی سے ساقط کردیتا ھے، اور اس کے مصالح مادی کو خطرہ میں ڈال دیتا ھے۔اب اگر کوئی اس زھر کا عادی ھوجائے اور اسکے حیوانی افعال میں کوئی خلل ایجاد نہ ھو اور وہ ظاھراً صحیح و سالم ھو لیکن اس کا فھم و شعور ختم ھوگیا ھو تو کیا یہ اس کیلئے جائز ھو جائےگا؟اور اگر دوسری طرح کی آفتیں اور زھر اپنا کام کر جائے جو اس کی سلامت معنوی اور ایمان کے ختم ھوجانے کا باعث ھوجائے تو کیا ان امور کا انجام دینا ممنوع نھیںھے؟ کیا یہ انسان کی انسانیت کو ضرر پھونچانا نھیں ھے؟ اگر کچھ افراد معاشرہ میں ایسی شرطیں فراھم کریں جو لوگوں کو دینداری سے دور کریں تو ان کو آزاد ھونا چاھیے؟ قرآن کریم ارشاد فرماتا ھے کھ:(صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّہ وَ کُفْرٌ بِہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ… ) (1.)”اور (یہ بھی یاد رھے) کہ خداکی راہ سے روکنا اور خدا سے انکار او رمسجد حرام (کعبہ) سے روکنا(اس سے بڑہ کر گناہ ھے)”جو چیز خداوندعالم کی راہ، ترقی اور انسانوں کے حقائق دین سے آشنا ھونے کے راستہ کو بند کردے اور دین کو جوانوں کے نزدیک مشتبہ جلوہ دینے کا باعث ھوتا ھے وہ منع ھے چونکہ وہ انسان کی انسانیت کو ضرر پھونچاتا ھے، کیسے جو چیز انسان کی حیوانیت کو لطمہ پھونچاتی ھے تو وہ ممنوع ھوتی ھے لیکن جو چیز انسان کی انسانیت کو ضرر پھونچائے وہ آزاد ھوتی ھے؟ دنیا کھتی ھے: ھاں، لیکن دین کھتا ھے کھ: نھیں، ھمار ا یہ عقیدہ ھے کہ معاشرہ میں اس قانون کا اجراٴ ھونا چاھیے جو انسانوں کی مصالح معنوی کی رعایت کرے اور مصالح معنوی کی رعایت کرنا مصالح مادی سے زیادہ اھم ھے۔(قارئین کرام اس بات کا خیال رکھیں کہ جو کچھ ھم نے بیان کیا اس کا علمی بحث سے تعلق ھے اور ممکن ھے اس کا عینی مصداق نہ مل سکے لھٰذا اس کا مطلب یہ نہ سمجہ لیں کہ ھم نے اقتصاد کو بالائے طاق رکہ دیا ھے۔)

8 ۔مصالح معنوی اور دینی کا مصالح مادی پر مقدم ھونااگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ ھماری اقتصادی حالت تو اچھی ھوتی ھو لیکن ھمارے دین پر آنچ آتی ھو یا دینی حالت توسدھرتی ھو لیکن اقتصاد ی حالت پر آنچ آتی ھو تو ھم کو دونوں میں سے کونسی چیز انتخاب کرنی چاھیے؟ ھمارا تو یہ اعتقاد ھے کہ اسلام کی پیشرفت اقتصادی پیشرفت کی بھی ضامن ھے، مگر ایک طولانی عرصے کے بعد، لیکن کبھی یہ امکان ھے کہ اقتصادی منافع کچھ تھوڑی مدت تک کیلئے ختم ھوجائیں اور افراد کیلئے کچھ تنگی کا باعث ھوجائے، اب اگر اس طرح کی وضعیت پیش آجائے تو بیان کئے گئے مقدمات اور استدلال کو مدنظر رکھتے ھوئے مصلحت دینی کو مقدم ھونا چاھیے یا دنیوی کو مقدم کرنا چاھیے؟ جیسا کہ نھج البلاغہ میں امام حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ھے کہ:”فان عرض بلاء فقدم مالک دون نفسک فان تجاوز البلاء فقدم مالک و نفسک دون دینک .”(2 )”اگر تمھاری جان خطرہ میں پڑ جائے تو تم اپنے مال کو اپنی جان پر فدا کردو اگر جان ومال کے درمیان خطرہ ھو تو مال کو قربان کردو لیکن اگر جان اور دین کے درمیان خطرہ ھے یعنی زندگی کفر کی حالت میں ھو اور ایمان کی حالت میں شھادت ھو تو پھر اپنی جان ومال کو دین پر قربان کردینا چاھئے، اس موقع پر اگر انسان قتل ھوجائے تو اس کا کوئی نقصان نھیں ھوگا”کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:(قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ.)(3)”(اے رسول) تم منافقوں سے کھہ دو کہ تم تو ھمارے لئے (فتح یاشھادت)دو بھلائیوں میں سے ایک کے (خواہ مخواھ) منتظر ھی ھو”جو شخص دین اسلام کی راہ میں قتل ھوجائے اس کا کیا نقصان ھوتا ھے؟ وہ سیدھا جنت میں جائےگا، لیکن بالفرض اگر کوئی شخص بے دین سو سال تک زندہ رھے تو دن بہ دن اسکے عذاب میں زیادتی ھونے کے علاوہ اس کا اور کیا فائدہ ھوگا؟، پس اسلامی نقطہٴ ٴ نظر سے مصالح دینی اورمعنوی مصالح مادی سے اھم ھیں،اس بنا پر قانون کو مصالح معنوی کی رعایت کے علاوہ مصالح معنوی کو اولویت بھی دینا چاھیے، ھماری بحث استدلالی ھے اور ھم اپنے استدلال کو کسی دوسرے پر نھیں چھوڑدیتے ھیں جو افرادتسلیم نھیں کرنا چاھتے وہ رد کر سکتے ھیں، ان استدلالوں کی بنیاد پر ھم نے کوئی غیر منطقی مطلب بیان نھیں کیا۔

۹۔اسلام اورلیبرالیزم کے مابین آزادی اور قید میں فرقساری دنیا کے تمام عقلا ٴ کے مانند ھماری نگاہ میں بھی آزادی محدود ھے، لیکن ان کے اور ھمارے مابین یہ فرق ھے کہ ان کے یھاں آزادی کے مقید ھونے کا یہ مطلب دوسروں کی آزادی سے تجاوز کرنا ھے اور ھمارے یھاں آزادی کے محدود ھونے کا مطلب مصالح اجتماعی کی ھر مصلحت سے تجاوز کرنا ھے، انسان اپنی زندگی میں آزاد ھےں وہ بات کریں، کھائیں، کام کریں، تجارت کریں، اقتصادی حالت درست کریں، بحث کریں، سفر کریں، قرارداد پر دستخظ کریں، بہ طور خلاصہ انکو ھر کام کرنے کی اجازت ھے لیکن کس حد تک؟ جھاں تک معاشرہ کے مادی اور معنوی مصالح تباہ وبرباد نہ ھوتے ھوں۔جھاں آزادی مادی لحاظ سے معاشرہ کے مصالح کو نقصان پھونچانا شروع کردے وہ ممنوع ھے، اور اسی طرح جھاں پر آزادیوں سے استفادہ کرنا معاشرہ کی معنوی مصالح سے معارضہ کرجائے تو ایسی آزادیاں ممنوع ھیں مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں آزادی سے استفادہ کرنا منع ھے یہ ھماری دلیل و منطق ھے، اور اگر کسی کے پاس ھم سے بھتر منطق ھے تو ھم اس کو سننے اور اس سے استفادہ کرنے کیلئے تیار ھیں، فلسفہٴ حقوق کے استادوں سے میری گذارش ھے کہ وہ زیادہ دقت سے کام لیں۔جھاں تک ھم کو اطلاع ھے آج تک حقوق اور سیاست کے فلاسفہ نے اس سوال کا کوئی قطعی اور منطقی جواب نھیں دیا کہ آزادی کی حد بندی کیا ھے؟ اگر ھمارے اساسی قانون یا عادی قوانین یا بزرگان عالم کے کلمات میں یھاں تک کہ اگر امام خمینی(رہ) قدس سرہ کے کلمات میںاس سے مشابہ کوئی تعبیر موجود ھو تو اسکی تفسیر کی خاطر اسکے اھل سے رجوع کرنا چاھیے، ھم بھی قانون کے جاری ھونے کے طرفدار ھیں اسلامی ملک میں قوانین کی بہ نسبت ھماری ذمہ داری دوسروں سے کھیں زیادہ ھے۔لیکن ھمارا دوسروں سے یہ فرق ھے کہ ھم قانون کو اس لئے معتبر سمجھتے ھیں کہ ولی فقیہ نے ان پر دستخط کر دئیے ھیں، اور چونکہ امام خمینی(رہ) قدس سرہ نے فرمایا ھے کہ “اسلامی حکومت کی اطاعت کرنا واجب ھے” کچھ افراد کھتے ھیں کہ: چونکہ لوگوں نے اپنے ووٹ بھی دیئے ھیں، اب کونسی منطق قوی ھے؟ کسکا اثر زیادہ ھے؟جب کسی شخص سے کھا جائے چونکہ لوگوں نے ووٹ دئے ھیں، اس لئے اس قانون پر عمل کرنا واجب ھے؟ممکن ھے وہ شخص یہ جواب دے کہ میں نے اس نمائندے کو ووٹ ھی نھیںدیا ھے، یا میں اس قانون سے راضی ھی نھیں ھوں!لیکن امام خمینی(رہ) قدس سرہ نے فرمایادیا ھے کہ : اگر اسلامی حکومت کوئی حکم صادر کرے اور مجلس شورائے اسلامی کسی حکم کو تصویب کر دے تو وظیفہٴ شرعی کے عنوان سے اس کی اطاعت کرنا چاھیے؟ اس وقت دیکھیں کیا چیز وقوع پذیر ھوتی ھے، اب ھم قانون کے پابند ھیں یا وھ.؟ یھاں تک کہ اگر کسی اساسی (بنیادی) قانون میں بھی کوئی ابھام پایا جاتا ھو تو اسکی تفسیر کی خاطر کسی صلاحیت دار مرجع کی طرف رجوع کرنا چاھیے کسی اور کی طرف نھیں۔پس نتیجہ یہ نکلاکھ: تمام ملتوں اور تمام عقلا ء کے درمیان آزادی محدود ھے، لیکن اسلامی نقطہ ٴ نظر سے معاشرہ کی مصالح مادی اور معنوی اسکی حد ھیں، تمام انسان وھاں تک آزادھیں جھاں تک معاشرہ کے مادی اور معنوی مصالح کو کوئی نقصان نہ پھونچتا ھو۔
حوالہ.1سورہ بقرہ 217.2شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج8 ص250.3سورہ توبہ 52

 

http://shiastudies.com/ur/2925/%d9%82%d8%a7%d9%86%d9%88%d9%86-%da%a9%db%92-%d8%b3%d9%84%d8%b3%d9%84%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ba%d8%b1%d8%a8-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%a7%d8%af%db%8c-%d9%86%da%af%d8%a7%db%81/

تبصرے
Loading...