قانون کے اعتبار کا معیار

قانون کے اعتبار کا معیار

1۔بحث کا پھلا طریقہ جَدَلی ھے جس میں اس بات کا خیال نھیں رکھا جاتا کہ مخاطب مسلمان ھے ، اسلام اور شیعت کا عقیدہ رکھتا ھے یا کسی اور مسلک سے وابستہ ھے، اس میں تو صرف طرفین کے توافق وتفاھم کی خاطر ابتدائی اصول اور مبانی کو اصول موضوعہ قرار دیکر بحث کی جاتی ھے اور انھیں مقدمات پر اعتماد کرتے ھوئے بحث کو جاری رکھا جاتا ھے۔
2۔ بحث کا دوسرا طریقہ برُھانی ھے، جس میں بحث کو منظم، عمیق اور عقلی دلیلوں کے ساتھ بیان کیا جاتا ھے اور گفتگو کے تمام اطراف وجوانب یھاں تک کہ اصول موضوعہ کی بھی تحقیق وجستجو کی جاتی ھے اور یقینی وظاھری چیزوں پر اعتماد کرتے ھوئے اپنے مدعا کے لئے عقلی اور غیر قابل اعتراض دلیلوں کو قائم کیا جاتا ھے۔اگرچہ برھانی بحث خستہ کنندہ ھوتی ھے اورعلمی محفلوں اور اعلیٰ تعلیم گاھوں کے لئے مناسب ھوتی ھیں اور ان کے سننے والے بھی خاص افراد ھونے چاھئے،لیکن اس بات کو بھی مدّنظر رکھنا چاھئے کہ ھمارے معاشرہ میں اپنی ثقافت کو بلندکرنے اور معلومات حاصل کرنے کے لئے قدم اٹھالئے گئے ھیں اور آج کل ھمارے بھت سے جوانوں کی معلومات خاص طور سے دینی اور سیاسی مسائل پر گذشتہ اندیشمندوں سے کھیں زیادہ ھے اسی وجہ سے برھانی ومدلل اور عمیق مباحث کی ضرورت ھے تاکہ ھمارے معاشرہ کی فکری اور ثقافتی معیار میں خاص طور سے جو مراکز اصل نظام اور اسلامی اصیل عقائد سے متعلق ھیں ان میں ترقی ھو، ان میں مقابلہ کرنے اور اعتراضا ت کے جوابات دینے کی طاقت پیدا ھو، تاکہ دوسروں سے متاثر نہ ھوں،اسی لئے ھم اصول موضوعہ سے مربوط مطالب کو علمی اور فلسفی پیچیدہ اصطلاحوں کے بغیر سادہ طریقہ سے بیان کریں گے ، اور ان عقلی عقیدوں کو ذھن میں راسخ اور مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ اعتراضات کے سیلاب سے بھت کم متاثر ھوں۔حکومت اور سیاسی نظام کا ایک بنیادی کام یہ ھے کہ اس کی بیک سائڈ مضبوط ھو اور وہ معاشرہ میں حقوقی قوانین جاری کرنے کی ضامن ھو، اوریھی سے اخلاقی قوانین کا حقوقی اور سیاسی قوانین سے فرق واضح ھوجاتا ھے ، چونکہ اخلاقی قوانین اس لحاظ سے کہ اخلاقی ھےں ان کو الگ سے نافذ کرنے کی ضمانت کوئی ضرورت نھیں ھوتی اور ھر انسان اپنے عقائد اور اپنی معنوی حیثیت کی و جہ ان کا پابند ھوتا ھے اور ان پر عمل کرتا ھے ، لیکن حقوقی قوانین کے لئے الگ سے ضامن کا ھونا ضروری ھے حقوقی قوانین کی خاصیت یہ ھوتی ھے کہ ان کو معاشرہ یا کسی ادارہ کے ذریعہ عوام الناس کے لئے جاری کیا جاتا ھے یھاں تک کہ اگر گوئی ان کا معتقد بھی نہ ھو تو بھی اُس پر ان قوانین کی پابندی کرنا ضروری ھوتا ھے اور اگر کوئی ان قوانین کو ماننے سے سرپیچی کرے تو حکومت کا وظیفہ ھے کہ اس کے ساتھ طاقت وزبردستی سے پیش آئے اور اگر ضرورت پڑے تو ان قوانین کے نفاذ کیلئے اسلحہ کا بھی استعمال کرسکتی ھے۔انھیں باتوں کو مدنظر رکھتے ھوئے انقلاب کے بعد خاص طور سے اندرونی حالات اور بے رحمانہ قتل وغارت کے بعد نظام کے ذمہ دار افراد نے قانون مندی پر زور دیایھاں تک کہ انقلاب کے ابتدائی سالوں میں سے ایک سال کا نام “سال قانون” رکھا گیااور اب تک تمام حکومتوں نے اس اعلان کی پابندی کی ھے، اور اسی وجہ سے موجودہ حکومت کا ایک اصلی او راھم مقصد قانون کے نعرہ کو ملکی پیمانے پر جاری کرنا اور خلاف ورزی سے لوگوں کو منع کرنا ھے، لھٰذا سب سے پھلے قانون اور اس کے معتبر ھونے کے بارے میں بحث کرنا ضروری ھے تاکہ اس بارے میں جو سوالات واعتراضات درپیش ھوں ان کا قانع کنندہ جواب دیا جاسکے۔

2۔قانون کے معتبر ھونے کا معیار اور اس کی وسعتبھت سے لوگوں کے سامنے یہ اعتراضات وسوالات پیش آتے ھیں کہ مثلاًقانون کس حد تک معتبر ھے اور اس کی ابتدا کھاں سے ھوئی؟ اور افراد کو کس حد تک قانون کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا چاھئے؟ او رکون سا قانون اتنا معتبر ھے کہ افراد کو سوفی صد اس کا تابع اور مطیع ھونا ضروری ھے؟ بحث کو آگے بڑھانے اور ان سوالوں کے بارے میں کچھ بیان کرنے سے پھلے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ ھم مسلمانوں کے نظریہ کے اعتبار سے اسلامی نظام کے تابع ھےں اور حضرت امام خمینی(رہ) او رمقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ العالی کے اقوال ھمارے لئے حجت ھیں ۔لھٰذا اس بات کا کوئی شبہ باقی نھیں رہ جاتا کہ کہ ھم اسلامی حکومت کے قوانین چاھے وہ پارلیمنٹ نے بنائے ھوں یا حکومت کے کسی دوسرے ادارہ نے بنائے ھیں یھاں تک کہ قوانین کے وہ بخشنامہ جو مختلف وزارتخانوں سے اداورں کو دئے جاتے ھیں ان سب کا نافذ کرنا ضروری ھے ، اور امام خمینی(رہ) کے فرمان کے مطابق اسلامی حکومت کے تمام قوانین ومقررات لازم الاطاعت ھیں ، لھٰذا ھمارے لئے ان سب پر عمل کرنا ضروری ھے، اور ھم سب کو ذاتی طور پر اسلامی حکومت کے چھوٹے سے چھوٹے قوانین ومقررات کی بھرپور رعایت کرنا چاھئے اگرچہ کسی مقام پر وہ ھمارے فقھی فتوے کے خلاف ھی کیوں نہ ھو۔اور اس بارے میں کوئی شک وشبہ باقی نھیں رہ جاتا کہ اسلامی حکومت کے احکام و قوانین ومقررات اور ولی امر مسلمین کی اطاعت ھم سب پر واجب ھے، اب اگر ھم قانون کے اعتبار کے معیار وملاک کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو کسی کو یہ وھم نہ ھو کہ ھم اسلامی حکومت کے قوانین کے لازم الاطاعت ھونے کے بارے میں شک کررھے ھیں بلکہ اس سے تو ھمارا مقصد فکری بنیادوں کو اس بات کے لئے مستحکم کرنا ھے کہ اسلامی حکومت کی اطاعت کرناضروری ھے۔اور ھماری کوشش تو اس سوال کی وضاحت کرنا ھے کہ ھم اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کیوں کریں؟ اور یہ معین ھونا چاھئے کہ قانون کے معتبر ومعین ھونے کی وجہ کیا ھے؟ جب حکومت کسی دن عمومی چھٹی کا اعلان کردیتی ھے یا قوانین ومقررات کے تحت آنے والے افراد کے لئے کچھ ٹیکس معین کرتی ھے یا معمول کے مطابق کچھ احکام نافذ کرتی ھے یا جداگانہ شرائط جیسے جنگ کی شرطوں میں عمومی طور پر عوام الناس کو طلب کرتی ھے اور خاص قوانین جاری کرتی ھے کہ عوام الناس یہ جان لیں کہ وہ قوانین اور مقررات پر کیوں عمل کریں ، اور صرف یہ کہ کوئی شخص حکم صادر کردے اورعوام الناس اس کی پیروی کرکے اس پر عمل شروع کردے، یہ کافی نھیں ھے۔دوسری طرف سے ھماری بحث “سیاسی فلسفھ” سے مربوط ھے، مسئلہ قانون اور اس کا معتبر ھونا اور اس کی اطاعت کا لازم ھونا یہ تمام سیاسی نظاموں کی بنیادی بحثوں میں سے ھے اور یہ صرف اسلامی نظام سے مخصوص نھیں ھے، “فلسفہٴ سیاست اور فلسفہٴ حقوق” سے تقریباً سبھی لوگ واقفیت رکھتے ھیں، اور محقیقن اور ماھرین حضرات نے معارفِ بشری کے ان دو موضوعات کو بیان کرنے میں بڑی کوششیں اور محنتیں کی ھیں اور مختلف نظریات کو مناسب دلیلوں کے ذریعہ بیان کیا ھے، لیکن پھر بھی آج تک وہ اس نتیجہ پر نھیں پھونچ سکے جو برھانی اورمدلل ھو، اور مکمل طور سے قانع کنندہ ھو تاکہ اس کا دفاع کیا جاسکے، اور قانون کے معتبر ھونے کے باب میں ان محققین نے مندرجہ ذیل تین اھم نظریات قائم کئے ھیں:

الف: نظریہٴ عدالتبعض محققین نے قانون کے معتبر ھونے میں عدالت کومعیار قرار دیاھے، کہ اگر کوئی قانون عدالت اور عوام الناس کے حقوق کی رعایت کی بنیاد پر بنایا جائے گا تو وہ معتبر ھوگا اور عوام الناس پر اس کی اطاعت کرنا واجب ھوگی، لیکن اگر قانون عدل کی بنیاد پر نہ بنایا گیا ھو بلکہ غیر عادلانہ طور پر بنایا گیا ھو تو وہ قانون معتبر نھیںھے۔
ب: معاشرے کی ضرورتوں کو پوراکرناقانون کے معتبر ھونے میں دوسرا نظریہ یہ ھے کہ وہ قانون معتبر ھے کہ جو معاشرے کی ضروتوں کو پورا کرسکے، کیونکہ معاشرہ کے افراد اجتماعی زندگی سے سروکار رکھتے ھیں جن میں ان کی مخصوص ضرورتیں ھوتی ھیں او ران میں ان کا کوئی فردی اور ذاتی پھلو نھیں ھوتا ھے، اگرچہ تمام لوگوں کو ان ضروتوں کا سامنا کرنا ھوتا ھے لیکن اصل میں وہ لوگ اجتماعی ھیں اور اجتماعی زندگی کی شرطوں کا خیال رکھتے ھیں،مثال کے طور پر عمومی نظافت کی رعایت کرنا معاشرہ کی ایک اھم ضرورت ھے اگرچہ ھر شخص اگر وہ چاھے تو اپنی ذاتی زندگی اور گھر کی چھاردیواری کے اندر رہ کر اس کی رعایت کرسکتا ھے۔لیکن عمومی نظافت کی رعایت کرنے کی خاطر ھر شخص کو اس کی رعایت کرنے پر آمادہ کرنا ایک مشکل کام ھے اور اس بات کی ضرورت محسوس ھوتی ھے کہ فرد کے عملی اقدام سے بالا تر کوئی ادارہ یا قانون موجود ھو جو عمومی ضرورتوں کو پورا کرسکے. مثال کے طور پر اگر معاشرہ میں وبا اور طاعون جیسی خطرناک بیماریاں پھیل جائیں تو ان بیماریوں پر کنٹرول کرنے کے لئے فردی اقدامات سودمند ثابت نھیں ھوسکتے بلکہ اس چیز کی ضرورت پیش آئے گی کہ حکومتی پیمانہ پر کسی ادارہ کی طرف سے بیماری پر کنٹرول کرنے اور عمومی نظافت کو ایجاد کرنے کے لئے واکسن (سوئی) وغیرہ لگائے جائیں . تو حکومت کی ذمہ داری یہ ھے کہ وہ قوانین وضع کرکے اگرچہ وہ موسم کے لحاظ ھی سے کیوں نہ ھوں، لوگوں کو اس بات کا پابند بنادے کہ فلاں مدت تک سب کو واکسن لگوالینے چاھئے، (جیسا کہ ھم پھلے بھی بیان کرچکے ھیں کہ قانون سے ھماری مراد عام معنی ھیں جو تمام لازم الاجراء دستور العمل اور آئین نامہ وغیرہ کو بھی شامل ھوتا ھے)قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ کیا چونکہ عمومی نظافت معاشرہ کی ضرورت ھے اور اس کی رعایت کرنا ایک اجتماعی ضرورت ھے، لھٰذا اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کچھ خاص قوانین بنائے گئے ھیں،اور سب پر ان قوانین کی رعایت کرنا ضروری ھوتا ھے اسی طرح اپنے مقام و محل زندگی کے اچھے اور سالم رکھنے کے لئے حکومت کی طرف سے کچھ اذارے معین کئے گئے ھیںجو ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا اقدام کرتے ھیں اور عوام الناس پر بھی ان اداروں کی طرف سے صادر ھونے والے قوانین اور دستور العمل کی پیروی کرنا لازم ھوتا ھے، نتیجہ کے طور پر حکومت کی طرف سے بھی ادارے معین کئے گئے ھیں جیسے تعلیمی ادارے، نظافت ومعالجہ کے ادارے، وزارتخانے، او ران کے دستور العمل جو معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرتے ھیں اور اسی بناپر ان کو شرعی حیثیت ھے لھٰذا ان کے دستورات کے مطابق ھر فرد پر عمل کرنا واجب ھے۔
ج: عوام الناس کیا چاھتی ھےبعض محققین قانون کے معتبر ھونے کا معیار وملاک عوام الناس کو خواھش سمجھتے ھیں ان کے نظریہ کے مطابق قانون معاشرہ کی خواھشوں کو پورا کرنے کے لئے ھوتا ھے، لھٰذا جب بھی عوام الناس کوئی چیز حکومت اور قانون بنانے والے ادارہ سے طلب کرے تو حکومت کے پارلیمینٹ میں عوام الناس کے نمائندے عوام الناس کی خواھش کے مطابق قانون بنائیں، اورچونکہ جب قانون لوگوں کی خواھش کو مدنظر رکہ کر بنایا گیا ھے ، تو پھر عوام الناس کا بھی فریضہ یہ ھے کہ اس کی پیروی اور اس کی حفاظت کرے اور اس سلسلہ میں بھر پور کوشش کرے، درحقیقت عوام الناس کی عینی خواھش کا متحقق ھونا پارلیمینٹ کے ممبروں کا منتخب کرنا ھے او ران کو چاھئے کہ کہ وہ عوام الناس کی خواھش کے مطابق قوانین بنائیں، اس بناپر اگر عوام الناس کے منتخب کئے ھوئے نمائندے قانون بنانے کا حق نہ رکھتے ھوں تو عوام الناس کی طرف سے ان کا منتخب کرنا بے فائدہ اور بے سود ھوگا، اور اگر ان کو قانون بنانے کا حق ھو لیکن ان کی جانب سے وہ قانون لازم الاجراء نہ ھو تو قانون گذاری ایک عبث امر ھوگا۔اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ قانون کے اعتبار کے سلسلہ میں حقوق وسیاست کے کے فلاسفہ کے نظریات کا خلاصہ تھا، اور یہ فطری تقاضا ھے کہ ھم مسلمان ھونے کے ناطے قانون کے معتبر ھونے کا معیار خداوندعالم کی طلب اور مرضی جانتے ھیں، اور یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ جس چیز کا خداوند عالم نے حکم دیا ھے وھی قانون شمار کیا جائے گااور اسی کو معتبر سمجھا جائے گا، البتہ یہ آخری نظریہ وہ لوگ مانتے ھیں جو خداوندعالم کو قبول کرتے ھیں۔(ھم مندرجہ بالا نظریوں کی تفصیلی طور پر تحقیق وتنقید اور تجزیہ وتحلیل کرنے سے صرف نظر کرتے ھیں اور صرف اسی تحقیق اور تنقید پر اکتفاء کرتے ھیں جو عام افراد کی فھم ودرک کے مناسب ھے.)

3۔پھلے نظریہ پر اعتراضپھلے نظریہ میں بیان کیا جاچکا ھے کہ قانون کے معتبر ھونے میں عدالت کا رعایت کرنا ضروری ھے ، یھاں پر ایک بنیادی سوال یہ پیش آتا ھے جس کو دنیا کے بڑے بڑے محققین نے بھی بیان کیا ھے اور اس سوال کے جواب میں انھوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں ھیں اور وہ سوال یہ ھے کہ عدالت کیا ھے اور عدالت کیسے متحقق ھوتی ھے؟ درحالیکہ عدالت کا مفھوم سب کے لئے واضح ھے پھر بھی سیاسی اور حقوقی نظریہ بیان کرنے والوںکے لئے یہ سوال اتنا وسیع ھوگیا اور ان کو اس بھنور میں پھنسا دیا ، لیکن یہ سب اس وجہ سے ھوا کہ انھوںنے عدالت کا مطلب مختلف نکالا ھے۔اگر تمام لوگ معاشرہ کے مال ودولت سے برابر استفادہ کریںتو عدالت قائم ھوگی یا نھیں؟ یعنی اگر ایک سیاسی نظام ان تمام مقدمات ووسائل کو فراھم کردے کہ تمام افراد گھر ، لباس اور سواری وغیرہ کے اعتبار سے بالکل مساوی طور پر استفادہ کریں تو عدالت برقرار ھے ورنہ ظلم ھے؟اس طرح کی چیزیں مکتب “مارکسیسم” (سیاست ومعاش کا مسلک) میں وقوع پذیر ھوئیں او رآخر کار” کمیونیزم” کا نظریہ پیدا ھوا۔اور اس نظریہ کو بیان کرنے والوں نے یہ اعلان کئے کہ ھم ایسا معاشرہ چاھتے ھیں جس میں کوئی طبقہ بندی نہ ھو، اور اس معاشرہ کا ھر فرد اپنی طاقت وقدرت کے لحاظ سے کام کرے، اور اپنی ضرورت کے مطابق استفادہ کرے، اس کے بعد وہ لوگ اس نتیجہ پر پھونچے کہ ان چیزوں کو عمل کے ذریعہ حاصل نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ مندرجہ بالا نظریہ کی طرف ھونے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا انھیں مشکلات میں سے عدالت کے مقابلہ میں آزادی آگئی تھی، اسی وجہ سے ان لوگوں نے اپنے نظریہ کا پھر سے بغو ر مطالعہ کیا اور کچھ تنزل کرتے ھوئے اپنے اعلانات میں “سوسیالسٹی” (عمومی سھولتیں) حکومت کو اپنایا، جب کہ وہ کمیونیزم حکومت کا ایک نمونہ کے طور پر بیان کررھے تھے۔جس وقت مارکسیسم نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی اکثریت پر خاص طور پر مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ھورھا ھے تو اس نے اس بے عدالتی اور ظلم سے منع کرتے ھوئے کھا کہ ھم کو وہ امور انجام دنیا چاھئیں کہ حقوق کے اعتبار سے تمام افراد یکساں استفادہ کریں یعنی معاشرہ میں کوئی طبقہ بندی نہ ھو، اور سب کے درمیان بطور کامل مساوات ھو سب ایک دوسرے کے لئے نمونہ عمل ھوں اور سب کے لئے زمین جنت کے مانند ھو، ادھر بعد مسلمانوں نے اس میں ایک لفظ کا اور اضافہ کردیا اور کھا “توحید کے اعتبار سب لوگ ایک ھوں “تو اب یہ دیکھنا ھے کہ کیا عدالت کا مطلب یھی ھے کہ تمام افراد ایک جیسے اور برابر ھوں؟اس کے مقابلہ میں بعض محققین کا عقیدہ یہ ھے کہ عدالت کا مطلب یہ ھے کہ ھر فرد اپنی محنت وزحمت کے مطابق معاشرہ سے استفادہ کرے، یعنی اگر کوئی شخص کسی کام کو انجام دیتا ھے تو اس کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری ملنا چاھئے،اب اگر کوئی شخص کاھلی اور سستی کرے اور کوئی کام انجام نہ دے تو اس کو دوسروں کی زحمت کے برابر استفادہ نھیں کرنا چاھئے اور اجتماعی منفعتوں کو اس کے حوالے نہ کیا جائے اس بھانہ سے کہ عدالت ایجاد ھوسکے. اور جب عدالت ایجاد ھوجائے گی تو جو افرد کام انجام دیں گے وہ اپنے کام کی مزدوری حاصل کرلیں گے اب اگر کوئی اپنی محنت وکوشش سے زیادہ کام کرے اور اس کو اس کام کا کوئی نتیجہ نہ ملے تو یہ اس کے حق میں ظلم ھوگا۔

4۔ اسلامی قوانین کی برتریبغیر کسی شک وشبہ کے عدالت کی دونوںمندرجہ بالا تفسیریں (کہ جن کو نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا) مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور مقام عمل میں ناھم آھنگ ھیں، جن سے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ احکام ، عقائد اسلامی اور مسائل توحید سے سازگاری نھیں رکھتے، نمونہ کے طور پر ھمارے دین اسلام میں بھت سے ایسے احکام ھیں جو خود ھمارے عقیدہ کے مطابق معاشرہ کے لئے بھترین اور سب سے زیادہ مفید ھیں اور مسلماً عدالت کے مطابق ھیں لیکن دنیا کے بھت سے افراد ان کو نھیں مانتے اور نہ ھی ان کو عادلانہ سمجھتے ھیں، مثال کے طورپر بھت سے مقامات پر ارث کے مسئلہ میں مرد وعورت کے درمیان فرق رکھا گیا ھے اگرچہ بعض مقامات میں ان دونوں کی میراث بھی مساوی اور برابر ھے اور اس فرق کی نص صریح قرآن مجید کی یہ آیت ھے: (فَلِذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاٴُنْثَیَیْنِ.)(1) “مرد کو عورت کے حصہ کے دوگنا ملے گا”اس میں کوئی شک شبہ نھیں ھے کہ جو افراد اسلام کے نظریات اور اعتقادی اصول کی معرفت نھیں رکھتے وہ اس طرح کے قانون کو ظالمانہ قانون سمجھتے ھیں، چونکہ ان کے نظریہ کے مطابق خداوند عالم مرد وعورت کے درمیان تبعیض کا قائل ھے، دوسری طرف یہ کہ گھریلو مشترک زندگی میں اسلام نے مرد کو اس بات کا مکلف قرار دیا ھے کہ وہ مشترک زندگی کے تمام مخارج خواہ وہ عورت کے کھانے پینے کی چیزیںھوں یا لباس ھو یا گھر، سب کچھ مرد کو ھی پورا کرنا ھے، اور اسلامی نقطہٴ نظر سے عورت کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ اپنی تمام درآمد کو بینک میں جمع کردے اور اس کی میراث اور اس کی درآمد کا خود اسی سے متعلق ھو، اور اس پر اپنی زندگی کے لئے کچھ بھی خرچ کرنا لازم نھیں ھے اور اس کو اپنے گھر کے تمام خدمات جیسے لباس دھونا، کھانا بنانا، یھاں تک کہ بچہ کو دودہ پلانے کی مزدوری لینے کا بھی حق ھے، البتہ جو افراد نزدیک سے اسلام کو نھیں جانتے جب وہ اس طرح کے احکام کو دیکھتے ھیں اگر انصاف سے کام بھی لیں تویھی کھتے ھیں کہ اسلام نے عادلانہ قانون نھیں بنائے ھیں۔ان تھمتوں کو دور کرنے اور اسلام کے احکامات کی مناسب وضاحت کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسلام کے قوانین عادلانہ ھیں یا نھیں؟ ھمیں یہ دیکھنا ھوگا کہ ھم عدالت کے کیا معنی کرتے ھیں، کیونکہ اگر عدالت کے معنی مساوات ھے تو تمام قوانین غیر عادلانہ ھیں اس لئے کہ ان میں مساوات کی رعایت نھیں کی گئی ھے، اور اگرعدالت کے کوئی اور معنی ھیں تو یہ دیکھنا ھوگا کہ وہ معنی کیا ھیں؟ البتہ عدالت کی ماھیت اور کیفیت کی معرفت حاصل کرنا اور عدالت کا متحقق کرنا آسان کام نھیں ھے اسی وجہ سے بڑے بڑے فیلسوف حضرات نے عدالت کے بارے میں بڑی بڑی تحقیقات کی ھیں اور ان میں سے بعض نے عدالت اور آزادی کے درمیان رابطہ کی تحقیق کی ھیں۔خلاصہ کلام یہ کہ اگر ھم قانون کے معتبرھونے کا ملاک ومعیار عدالت قرار دیں تو ھماری مشکل رفع نھیں ھوگی اورھمارے ذھن میں سب سے پھلا سوال یہ آتا ھے کہ عدالت سے کون سے معنی مراد ھیں؟ کیونکہ ھر انسان اپنے لحاظ سے عدالت کے معنی اور تفسیر کرتا ھے، اور اسی بنا پر قانون کو عادلانہ اور معتبر سمجھتا ھے اور اس پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ھے اس کے مقابلے میں دوسرا انسان عدالت کی اپنی تفسیر کے بناپر اس قانون کو غیر عادلانہ اور غیر معتبر سمجھتا ھے۔
5۔دوسرا نظریہ عملی نھیں ھےقانون کے معتبر ھونے کا دوسرا معیار یہ تھا کہ اس سے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے، البتہ یہ معیار کسی حدتک قابل قبول ھے چونکہ تمام افراد کم وبیش اجتماعی ضروتوں کو سمجھتے ھےں، اور یہ جانتے ھیں کہ معاشرہ کوکن چیزوں کی ضرورت ھے، خاص طور سے جس معاشرہ میں ھم زندگی بسر کرتے ھیں اور ھم سے پھلے جس معاشرہ میں ھمارے آباء اجداد زندگی بسر کرتے تھے یقینا ایسا قانون اور حاکم موجود تھا جو ضرورتوں کو درک کرے اور اس کو یہ معلوم تھا کہ کس طرح معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا ھے۔اس نظریہ پر یہ اعتراض ھوتا ھے کہ معاشرہ کی ضرورتوں کو مختلف طریقوں سے پورا کیا جاسکتا ھے اور یھی امر قانون کو منظم کرنے میں فرق کا سبب بنتا ھے. مثال کے طور پر کسی شھر کو خوبصورت اور اچھا بنانا اور اس کو صاف ستھرا رکھنا ایک عام ضرورت ھے اور اس ضررورت کو ضرور پورا ھونا چاھئے، لیکن اس کا خرچ کھاں سے آئے؟ تو کیا گھر کے ھر فرد پر کچھ خاص رقم رکھی جائے اور اس کو جمع کیا جائے؟یعنی گھر کے ھر فرد کو اس بات کا پابند بنادیا جائے کہ وہ شھر کی نظافت اور اس کو صاف وستھرا رکھنے کی بابت کچھ رقم ادا کرے. دوسرا نظریہ یہ ھے کہ شھر کے جاری مخارج کو عمومی سرمایہ سے پورا کیا جائے یعنی وھی سرمایہ جو عام طور سے مالی ٹیکس کے ذریعہ جمع کیا جاتا ھے اور اکثر وہ سرمایہ مالدار لوگوں سے وصول کیا جاتا ھے، اور جو غریب لوگ شھر کے پسماندہ علاقوں میں رھتے ھیں اور ان کے مکانات نامناسب ھوتے ھیں تو وہ اس ٹیکس کے ادا کرنے سے معاف ھوتے ھیں۔تیسرا نظریہ یہ ھے کہ حکومت اس چیز کی پابند ھوتی ھے کہ وہ زمین کے اندر سے نکلنے والی چیزیں جیسے تیل، لوھا، وغیرہ ان کو فروخت کرکے ان کی وصول کی گئی رقم سے معاشرہ کی ضرورتوں کوپورا کرے۔ان تمام باتوں کے باوجود قانون کے معتبر ھونے کا معیار معاشرہ کی ضرورتوں کوپورا کرنا بیان کیا گیا ھے اور مندرجہ بالا نظریات میں سے ھر ایک نظریہ معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ھے تو ان میں سے کس نظریہ کو عملی جامہ پھنایا جائے اور معتبر قانون کے عنوان سے پیش نظر رکھا جائے اور عوام الناس کون سے قانون کو سب سے زیادہ صحیح اور عادلانہ سمجھتے ھیں؟ لھٰذا صرف یہ معیار بھی قانون کو معتبر مشخص کرنے کے لئے کافی نھیں ھے۔

6۔تیسرے نظریہ کی کمی اور اسلامی لحاظ سے ضرورتوں کی وسعتتیسرے ملاک کے اعتبار سے صرف وھی چیزیں جس کو عوام الناس معتبر سمجھی ھے اور جس کو وہ طلب کرتے ھیں وہ ایک قانون کی صورت میں جاری ھونا چاھئے، یھاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ھے کہ کیا معیار یہ ھے کہ تمام لوگ سوفی صد کسی ایک ھی چیز کو طلب کریں؟ اور یقینا ایسا نھیں ھوتا ھے کہ تمام لوگ کسی ایک چیز پر متفق ھوجائیں اور شاید لاکھوں قوانین میں سے سے کوئی ایک قانون بھی ایسا نہ ھو کہ جس کی تمام افراد نے سوفی صد موافقت کی ھو اور ایک قانون چاھے عام طور پر لوگوں کے من پسند ھی کیوں نہ ھو پھر بھی کم سے کم ایک دو فی صد افراد اس کی مخالفت ضرور کرتے ھیں، اس بناپر مخالفت کرنے والوں کے لئے قانون کے معتبر ھونے کا ملاک کیا ھے؟دوسرا نکتہ یہ ھے کہ جو کچھ عوام الناس چاھتے ھیں، وہ عدالت کی میزان پر پوری نہ ھو تو کیا وہ قانون معتبر نھیں ھے؟ اسی طرح اگر عوام الناس کا مطالبہ دوسرے معیار سے اختلاف رکھتا ھو، یعنی عوام الناس کے مطالبہ معاشرہ کو ضروتوں کوپورا رکنے والی ضرورتوں میں شامل نہ ھوتو کیا وہ پھر اعتبار رکھتاھے؟ اگر کسی قانون میں یہ لازم کیا جارھا ھو کہ عوام الناس سے کچھ رقم وصول کی جائے تو شاید اکثر افرد اس کی مخالفت کریں چونکہ جب نئے ٹیکس مقرر کئے جاتے ھیں تو عوام الناس اس کو زبردستی قبول کرتے ھیں (یعنی بڑی مشکل سے مانتے ھیں). معمولی طور پر کسی بھی جگہ بھی قانون مالیات کو عام طور پر خوشی سے قبول نھیں کیا جاتا، جب کہ یہ طے ھے کہ حکومت معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یہ رقم وصول کرتی ھے، تو عوام الناس بڑی مشکل سے اس کو قبول کرتی ھے۔اس صورت میں اگر لوگوں کی خواھش کی مطابق عمل کیا جائے تو معاشرہ کی ضرورتیں پوری نھیں ھوسکتیں، جبکہ ایک نظریہ میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ قانون کے معتبر ھونے کا معیار معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ھے، اور جب لوگوں کا مطالبہ عام ضرورتوں کو پورا کرنے کے منافی ھو تو کیا اس وقت معاشرہ کی مصلحتوں کو مدّ نظر رکھا جائے یا اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق عمل کیا جائے؟ بغیر کسی شک وشبہ کے قانون بنانے والے اور جو لوگ معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ذمہ دار ھیں، وہ عملی طور پر مشاھدہ کرتے ھیں، کہ اگر ان موقعوں پر اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق عمل کیا جائے تو وہ کسی عمل میں پیشرفت نھیں کرسکتے، (البتہ یہ بحث ڈیموکراسی (جمھوریت) کے اصول کی طرف پلٹ جاتی ھے جس کو ھم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے)بھرحال اس طرح کے اعتراضات قانون کے معتبر ھونے کے معیار وملاک پر پیدا ھوتے ھیں، البتہ ھمارے نظریہ کے مطابق سب سے اھم او ربنیادی سوال یہ ھے کہ وہ مصالح اور ضرورتیں جو بیان ھوئی ھیں وہ صرف عادی ضرورتیں بیان ھوئی ھیں اور عام معیار یھی ھے کہ معاشرہ میں انسان کی صرف یھی ضرورتیں متحقق ھونا چاھئیں؟ کیا حکومت کا صرف یھی وظیفہ ھے کہ وہ لوگوں کی صرف مادی اور دنیاوی ضرورتوں کو ھی پورا کرے یا حکومت کے دوسرے فرائض بھی ھوتے ھیں؟ اس سے واضح الفاظ میں عرض کریں کہ ھم تمام مسلمانوں اور وہ تمام افراد جو ادیان الھٰی میں سے کسی ایک دین کو مانتے ھیں ھم سب کا عقیدہ یہ ھے کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ھے ایک بدن اور دوسرے روح، اور اکثر یا تمام ادیان کا نظریہ یہ ھے کہ روح بدن سے افضل واشرف ھے اور بدن روح کا خادم ھے. ان سب کا عقیدہ یہ ھے کہ بدن کو نظافت کی ضرورت ھے اور بدن کو بیمار ھونے سے بچانا ضروری ھے اور اگر بدن مریض ھوجائے تو اس کا علاج کرنا چاھئے، اسی طرح انسان کی روح کو بھی نظافت کی ضرورت ھے، اور بیمار ھونے سے اس کی حفاظت کرنا ضروری ھے، اور اگر مریض ھوجائے تو اس کا علاج بھی ضروری ھے، اگر ھم مادی ضرورتوں کا معنوی ضرورتوں سے مقابلہ کریں تو اس نتیجہ پر پھونچیں گے کہ روحی اور معنوی ضرورتیں بھت زیادہ اھمیت کی حامل ھیں، روح کی بیماری بدن کی بیماری سے بھت زیادہ خطرناک اور اھمیت رکھتی ھیں، کیونکہ انسان کی انسانیت کا امتیاز اس کی روح کی وجہ سے ھی ھے اور اگر اس کی روح مریض ھوجائے تو وہ انسانیت سے گر جاتا ھے،تمام حیوانات بھی بدن رکھتے ھیں او راس کو سالم رکھنے کی کوشش کرتے ھیں اور اپنی مادی اور جسمانی لذتوں کو پورا کرنے میں لگے ھوئے ھیں ،جو کچھ انسان سے مخصوص ھے اور جوھر انسانیت کو اُجاگر کرتا ھے وہ ھے انسانی روح، اب اگر انسانیت کے معیار کو کوئی خطرہ لاحق ھو تو انسان کی حقیقی موت سے ھمکنار ھوجاتا ھے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:(اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَاٴَحْیَیْنَاہ وَجَعَلْنَالَہ نُوْراً یَمْشِی بِہ فِیْ النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُہ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْھا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ (2)”کیا جو شخص پھلے مردہ تھا پھر ھم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں بے تکلف چلتا پھر تا ھے اس شخص کا سا ھوسکتا ھے جس کی یہ حالت ھے کہ (ھر طرف سے) اندھیروں میں (پھنسا ھوا ھے) کہ وھاں سے کسی طرح نکل نھیں سکتا،(جس طرح مومنوں کے لئے ایمان آراستہ کیا گیا ھے) اسی طرح کافروں کے لئے ان کے اعمال(بد) آراستہ کردئے گئے ھیں”مندرجہ بالا مطالب کو مدنظر رکھتے ھوئے جو حکومت معاشرہ کی مصلحتوں کو پورا کرنے کے درپے ھے تو کیا اس کو عوام الناس کے روحی اور معنوی امور کی طرف توجہ نھیں دینا چاھئے؟ کیا حکومت کا صرف یھی وظیفہ ھے کہ وہ لوگوں کی صرف مادی ضرورتوں کو پورا کرے ، یا معنوی مصالح کو پورا کرنا بھی حکومت کا ھی فریضہ ھے؟

7۔اسلامی انقلاب اور اس کا معنوی مصلحتوں سے برتر مقامیھاں پر ایک پیچیدہ مسئلہ جو بیان کیا جاتا ھے وہ یہ ھے کہ اگر کسی مقام پر معنوی اور مادی پیشرفت میں ٹکراؤ پیدا ھوجائے تو دونوں میں سے کس کو مقدم کرنا چاھئے؟ اگر کسی خاص زمان ومکان میں معاشرہ کی مادی پیشرفت، معنوی مصلحتوں کو چھوڑ دینے کا سبب بنے او راگر مادی اور اقتصادی وسعت اور معنوی مصلحتوں کو پورا کرنے میں تزاحم (یعنی ایک دوسرے کے روبرو ھونا) پیدا ھوجائے، تو کیا حکومت مادی وسعت کو محدود کرسکتی ھے تاکہ معنوی مصلحتیں بھی محفوظ رہ جائیں یا یہ کہ معنوی پیشرفت کا حکومت سے کوئی سروکار نھیں ھے اور حکومت کا وظیفہ صرف مادی ضرورتوں کو پورا کرنا ھے اور معنوی مصالح کو پورا کرنا خود عوام الناس کی ذمہ داری ھے؟ یہ مسئلہ بھت اھم ھے اور ھماری اجتماعی زندگی میں عملی نتیجہ رکھتا ھے، اور آج کل بڑے بڑے اخباروں اور خبروں میں شایع کیا جاتا ھے اور اس سے متعلق بڑے بڑے مناظرہ اور بحثیں ھوتی ھیں۔کچھ افرد کھتے ھیں: حکومت کا وظیفہ یہ ھے کہ وہ سیاست، معاش اور فرھنگ وثقافت میں وسعت دے ، وسعت کا مطلب وھی ھے جو عرف عام میں مشھور ھے اس بنیاد پر ثقافتی وسعت کے وہ مصادیق ھیں جن کو خاص طور سے ھم معنوی مصلحتوں کے لئے بیان کرتے ھیں اس سے مختلف ھے اور اس سے مراد قومی میراث کی حفاظت کرنا اور ورزش اور موسیقی جسے امور میں وسعت کرنا ھے۔بلا کسی شبہ جو افراد دین اسلام سے تعلق رکھتے ھیںاور انقلاب اسلامی کے طرفدار ھیں، مصالح معنوی کی ایک خاص اھمیت کے قائل ھیں اور ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ انقلاب برپا کرنے کا اصلی ھدف معنوی مصالح کی حفاظت کرنا تھا. البتہ ھمارا یہ بھی عقیدہ ھے کہ اسلام کے زیر سایہ ھی مصالح مادی بھی پورے ھوں۔اگرچہ کچھ زمانہ ھی کیوں نہ لگ جائے ان سب باتوں کے باوجود ھماری قوم نے معنوی اور الھٰی پختہ اعتقاد اور معنوی مصالح کی حفاظت کی خاطر عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ ھم معاشی ناکابندی اور مھنگائی اور دوسری مشکلات کے باوجود زندگی بسر کرسکتے ھیں ، ان کے عزیز واقارب اسلام کی خاطر قربان ھوسکتے ھیں، عورتیں بغیر شوھر اور بچے بغیر باپ کے ھوسکتے ھیں جیسا کہ شھیدوں کے وصیت ناموں سے اس بات کا مسلم ثبوت ملتا ھے کہ ان کا ھدف اسلام کی حفاظت اور معنوی مقاصد کو برقرار رکھنا تھا.جو کچھ بیان کیا جاچکا ھے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ھمارے لئے مصالح مادی کی ضرورتوںکو پورا کرنے کے علاوہ دوسرا معیار وملاک بھی موجود ھے اور وہ مصالح معنوی کی ضرورت کو پورا کرنا ھے اور اگر معاشرہ کی مصلحتوں کو پورا کرنے کو ھم قانون کے معتبر ھونے کا ایک معیار جان لیں تو ھمارے لحاظ سے “مصالح” مصالح مادی ومصالح معنوی دونوں کو شامل ھوگا۔البتہ معاشرے کے مصالح کی تحقیق وجستجو اور اس کے مصداق کو معین کرنا ایک عمیق اور سلسلہ وار بحث ھے یہ اس سے بھی کھیں زیادہ وسیع ھے جو فلسفہ سیاست اور حقوق میں بیان کی جاتی ھے اور وہ بحث اس بات پر موقوف ھوتی ھے کہ کیا حقیققت میں انسان مادی امور کے علاوہ مصالح واقعی بھی رکھتا ھے یا یہ کہ انسان کے مصالح وھی مصالح مادی ھی ھیں اور اس کے علاوہ کچھ آداب ورسومات ھیںکہ جو کبھی کبھی بدلتے رھتے ھیں اور دوسرے معنوی مصالح اور اھم ضرورتوں کے وجود میں کچھ نھیں ھیں؟ کیا مصالح اور واقعی ضرورتیں وھی مادی امور جو علمی تجربوں سے انجام پاتے ھیں اور مادی طریقوں سے ھی ان کو معین کیا جاتا ھے جیسے نظافت، معاش میں پیشرفت کرنا صنعت اور ٹکنالوجی یا اس کے علاوہ دوسرے مصالح روحی ومعنوی بھی موجود ھیں، جو تجربہ حسی کے قابل نھیں ھیں۔البتہ ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ واقعی ومصالح وھی معنوی وروحی مصالح ھیں جو “متافیزیک” (حکمت ماوراء الطبیعة) سے متعلق ھوتے ھیںاور اصطلاح میں وہ علمی مسائل کا جز نھیں ھوتے اور علمی طریقے سے قابل اثبات نھیں ھوتے ھیں، لھٰذا نتیجہ کے طور پر اگر ھم یہ بیان کریں کہ معاشرہ میں معنوی مصالح کی ضرورت کو پورا کرنا جاھئے اور ان کو پورا کرنا حکومت کا وظیفہ ھے اور ھم ایک برھانی اور مدلل بحث پیش کرنا چاھیں تو ھم کو اس مسئلہ کو ضرور بیان کرنا چاھئے کہ ھمارے مادی مصالح کے علاوہ کچھ اور بھی مصالح رکھتے ھیں یا نھیں؟۔
حوالہ1 ۔سورہ نساء ایت1762۔سورہٴ انعام آیت 122

 

ماخذ

 

تبصرے
Loading...