اسلامی حکومت کی خاص پھچان

اسلامی حکومت کی خاص پھچان

قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے گذشتہ جلسوں میں عرض کیا کہ ھماری بحث ” اسلام کے سیاسی نظریات” کا یہ حصہ مخصوص ھے حکومت کی ذمہ داریاں اور اس کے اختیارات کی تحقیق وبررسی سے اورجو مباحث اس موضوع سے مربوط ھیں بے شک حکومت کی ذمہ داریوں کی صحیح شناخت تب ھی ھوسکتی ھے جب ھم حکومت کے فلسفہ کو سمجھ لیں، اور کوئی بھی مجموعہ، کوئی بھی عضو یا کوئی بھی حصہ ایک خاص ضرورت اور ایک خاص ھدف کے لئے بنایا جاتا ھے؛ کیونکہ اگر وہ اس کے ما تحت نہ ھوں تو اس میں نقص اور خلل واقع ھوجائے گا، اور پھر معاشرہ کی ضرورتیں اور مصالح مکمل طور پر محقق نھیں ھوپائیں گی پس ھر عضو یا ھر مجموعہ کے وظائف او رذمہ داریاں ان کی ضرورت کے تحت؛ ان کے وجود کا تقاضا کرتی ھے۔حکومت کے سلسلہ میں قانون گذار طاقت کی ضرورت واضح ھوگئی، کیونکہ کوئی ایسی ھیئت یا کمیٹی ھو جو معاشرہ کے لئے ضروری قوانین بنائے لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قوہ مجریہ (حکومت) کی کیا ضرورت ھے؟ وجود حکومت کا فلسفہ کیا ھے ،اور اگر حکومت نہ ھوتی تو پھر کیا حالات پیدا ھوتے؟ اور اگر عوام الناس کی اس طرح سے اخلاقی اور معنوی تربیت ھوجاتی کہ وہ کسی بھی حال میں قانون کی خلاف ورزی نہ کرتے تو کیا پھر حکومت کی ضرورت نہ تھی؟ اس صورت میں حکومت کی اصلی علت معاشرہ میںقوانین کو جاری کرنے کی ضمانت ھوگی ، اس بنیاد پر بعض لوگوں کا یہ تصور ھے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جاسکتی ھے کہ خود اپنی مرضی سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور پھر کسی ضامن یعنی حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے لیکن مسلم طور پر یہ نظریہ حقیقت سے کوسوں دور ھے ، اور جیسا کہ ھم نے حکومت کی ضرورت پر دلائل کے سلسلہ میں پھلے بھی عرض کیا کہ حکومت کی ضرورت پر ضمانت اجرائی کے علاوہ دوسرے دلائل بھی موجود ھیں ؛ منجملہ معاشرہ کی عظیم اور اھم ضرورتوں کا ھونا جومعاشرہ کے تمام افراد سے متعلق ھوتی ھیں، اور کوئی خاص شخص یا کوئی خاص گروہ ان کا عھدہ دار نھیں ھوسکتا، اور ان میں اس بات کی ضرورت ھوتی ھے کہ کوئی ایک ایسی ھم آھنگ کمیٹی ھو جو اپنی منصوبہ بندی کے تحت معاشرہ کی ان ضرورتوں کوپورا کرسکے ھم نے یہ (بھی) عرض کیا کہ معاشرہ کی عام ضرورتوں میں سے ملک پر حملہ کرنے والوں کے مقابلہ میںجنگ اور دفاع کا مسئلہ بھی ھے بے شک جب جنگ زوروں پر ھوتی ھے تو کوئی خاص فرد یا خاص گروہ دشمن کے حملہ کو روکنے پر قادر نھیں ھوسکتا اور تنھا جنگ کو ادارہ نھیں کرسکتا، بلکہ معاشرہ میں ایک ھمہ گیراور سسٹامیٹک قدرت کا ھونا ضروری ھے تاکہ جنگ میں کامیابی مل سکے اور اپنی منصوبہ بندی کے ذریعہ عوام الناس کو جنگ میں شرکت کی دعوت دے اور ان کو ٹرینڈ کرکے جنگی فنون میں ماھر بنا کر آمادہ جنگ کرے۔ان کے علاوہ معاشرہ کی دوسری ضروریات بھی ھوتی ھیں کہ جن کو پورا کرنا حکومت کے زیر سایہ ھی ممکن ھے؛ مثلاً معاشرہ میںحفظ الصحت، تعلیم وتربیت اور ضروری دانش کو پورا کرنا؛ اسی طرح دوسری ضروریات بھی ھوتی ھیں جن کے لئے مخصوص وزارت خانے ھونے ضروری ھوتے ھیں اور ظاھر سی بات ھے کہ معاشرہ کے حالات بدلنے اور نئی نئی قسم کی ضرورتوں کا ایجاد ھونا؛ جن کے لئے الگ الگ وزارت خانے ھونے ضروری ھیں: مثلاً معاشرہ کی ضرورت کے لئے بعض حالات میں اگر صرف پانچ وزارت خانے کافی ھوں لیکن نئی نئی ضرورتوں کے پیش نظر ان وزارت خانوں میں اضافہ کیا جاسکتا ھے، اور یہ مناسب نھیں ھے کہ قانون میں مخصوص تعداد میںوزارت خانے معین کئے جائیں بلکہ ان کی تعداد زمان و مکان کے شرائط کے لحاظ سے ھونا چاھئے لھٰذا اسلامی سیاسی نظریہ کے لحاظ سے بھی یہ معین نھیں ھے کہ اسلامی ملک کا صدر کتنے وزیر رکہ سکتا ھے، بلکہ اس مسئلہ کو آزاد رکھا گیا ھے تاکہ زمانہ کے پیش نظر اور مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے وزارت خانے تعین کئے جائیں۔
2۔ نظام اسلامی اور لائیک نظام میں حکو مت کے سلسلہ میں بنیادی فرققارئین کرام ! یہ بات طے ھوچکی ھے کہ حکومت کی ضرورت کا فلسفہ معاشرہ کی مختلف ضرورتیں ھیں جن کو صرف حکومت ھی انجام دے سکتی ھے خلاصہ گفتگو یہ ھے کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داری؛ معاشرہ کی مختلف ضرورتوں کو پورا کرنا اور قوانین کا نافذ کرنا ھے۔ھم نے قانون گذاری کی بحث میں یہ عرض کیا کہ وسعت کے لحاظ سے اسلامی معاشرہ کے قوانین لائیک حکومتوں سے مختلف ھیں: کیونکہ لائیک حکومتوں میں قوانین کو صرف عوام الناس کی مادی ضرورتوں کوپورا کرنے کے لئے بنایا جاتا ھے،اور ان کی حکومت کی بنیاد ھی عوام الناس کی صرف مادّی اور دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنا ھوتا ھے یھاں تک کہ بعض حکومتوں میں اس بات کی شرط کی جاتی ھے کہ دین کے بارے میں کوئی حمایت نہ ھو، اور کسی بھی حکومتی ادارہ میں دین کی کوئی طرفداری یا اس کی حمایت دکھائی نہ دے۔لیکن اسلامی حکومت میں قوانین کو صرف مادی ضرورتوں کے لحاظ سے نھیں دیکھا جاتا بلکہ معنوی ضرورتوں کو بھی مدّ نظر رکھا جاتاھے ، بلکہ معنوی مصالح کو مقدم رکھا جاتا ھے یہ مسئلہ بالکل قوہ مجریہ (حکومت) میں بھی بیان ھوتا ھے کہ اسلامی نظام میں حکومت ان قوانین کو جاری کرنے کی ضامن ھے جو دنیاوی زندگی سے متعلق ھوتے ھیں اور معنوی ( اور اخروی) زندگی سے بھی متعلق ھوتے ھیں جس دلیل کے تحت ھم نے قانون گذاری کے سلسلہ میں عرض کیا کہ قوانین کو ایسا ھونا ضروری ھیں جن سے معنوی ضروریات بھی پوری ھوں بلکہ ان کو مقدم رکھا جائے، اسی دلیل کے تحت اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ھوتی ھے کہ معنوی مصالح، حقوق الٰھی اور اسلامی شعار ( رسومات) سے متعلق قوانین کو بھی نافذ کرے ، اور اس سلسلہ میں ھونے والی خلاف ورزیوں کا سدّ باب کرے اور اگر کوئی اسلامی مقدسات کی اھانت کرنا چاھے تو اس کو بھی روکے؛ بےشک یہ مسئلہ حکومت کی اھم ذمہ داریوں میں سے ایک ھے۔

3۔ مغربی کلچر کے عاشق افراد کی طرف سے سیکولر حکومت کی پیش کشبعض اخباروں اور تقریروں میں یہ بیان کیا جاتا ھے کہ حکومت کی ذمہ داری، عوام الناس کی مادی ضرورتوں کا پوری کرنے، ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنے اور ھر ج ومرج (افرا تفری) سے روک تھام کے علاوہ کوئی ذمہ داری نھیں ھے اور معنوی اور دینی مصالح کو پورا کرنا علماء اور دینی مدارس کی ذمہ داری ھے ! یہ نظریہ مغربی کلچر اور سیکولر طرز تفکر سے متاثر ھونے کانتیجہ ھے، جیسا کھھم نے اس سے قبل بھی عرض کیا کہ مغربی ممالک کے کلچر کا سب سے واضح امتیاز “سیکولرازم” ھے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنا لائیک اور بے دین حکومتوں میں دنیاوی امور حکومت سے متعلق ھوتے ھیں لیکن معنوی امور حکومت سے متعلق نھیں ھوتے اگر کچھ لوگ دین اور معنوی امور میں مشغول ھونا چاھتے ھیں تو اپنے اس ھدف کے تحت ذاتی امکانات کو خرچ کریں اور اس سلسلہ میں سرکاری امکانات سے استفادہ نھیں کرنا چاھئے کیونکہ دین کے سلسلہ میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نھیں ھے ، اسلامی ثقافت کے بالکل برعکس جس کے اھم ترین وظائف میں سے : اسلام کو حفظ کرنا، معاشرہ میں اسلامی شعارکو رائج کرنا اور ان کو بھلادئے جانے سے روک تھام کرنا نیز بے توجھی اور خدا نخواستہ اسلامی شعار اور مقدسات کی توھین کرنا؛ وغیرہ ھے۔جو لوگ اسلامی ثقافت کو قبول نھیں کرتے بلکہ مغربی کلچر کے تابع ھیں؛ ان کی طرف سے اس نظریہ کا پیش ھونا کہ “حکومت کو دینی امور میں دخالت نھیں کرنا چاھئے۔” بعید نھیں ھے اور ھمارا ان سے یہ اختلاف مبنائی ھے اور ھماری ان سے یہ بحث ھے کہ اسلام حق ھے یا نھیں؟ لیکن یہ نظریہ ان لوگوں کی طرف سے جو خود کو مسلمان اور اسلامی اصول کا معتقد سمجھتے ھیں ان کے لئے مناسب نھیں ھے، اور اس طرح کی گفتگو کرنا اس بات کی نشانی ھے کہ انھوں نے اسلامی ثقافت کو نھیں سمجھا ھے۔

4۔ اسلامی شعار کا حفظ اور رائج کرنا ، حکومت کی ایک ذمہ داریپس جو ذمہ داری مشترک طور پر لائیک اور دینی حکومت کی ھوتی ھے؛ اس کے علاوہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری یہ ھے کہ وہ اسلامی شعار کو قائم کرے البتہ عوام الناس اپنی مرضی سے بعض اسلامی رسومات کو انجام دے سکتے ھیں؛ مثلاً نماز جماعت کا برقرار کرنا، محفل اور عزاداری کرنا، دینی مدارس قائم کرنا، اسلامی پروگراموں کے منعقد کرنے کے لئے ملّی اور مذھبی مرکز قائم کرنا ان میں سے حوزات علمیہ دینی اھم مرکزوں میں شمار ھوتے ھیں جو عوام الناس کی دی ھوئی رقوم شرعی سےچلتے ھیں اور اسلامی شعار کے حفظ ، ان کی ترویج اور اسلامی ثقافت کی تبلیغ میں مشغول رھتے ھیں ، ان کے لئے حکومت کوئی فنڈ معین نھیں کرتی لیکن عوام الناس کا ان شعار کو انجام دینا حکومت کی ذمہ داری کوسلب کرنے کے معنی میں نھیں ھے، اور ایسا نھیں ھے کہ پھر ان امور میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نھیں رہ جاتی کیونکہ اگر عوام الناس کا رضا کارانہ طور پر کام کرنا کافی نہ ھوا تو پھران امور کو انجام دینا حکومت کی ذمہ داری ھے مثال کے طور پر: حج ایک عبادی وظیفہ ھے اور جو شخص مستطیع ھوجائے تو اس کے لئے حج کرنا واجب ھوجاتاھے ، مجتھدین کرام؛ فقھی کتابوں اور روایات سے استفادہ کرتے ھوئے اس مسئلہ کو بیان کرتے ھیں کہ اگر ایک ایسا موقع آجائے کہ اسلامی ملک کے پورے معاشرہ میں کسی پر حج واجب نہ ھو یا اگر کسی پر واجب تو ھوگیا ھے لیکن وہ حج پر جانے کے لئے تیار نہ ھو ، بلکہ نافرمانی کرے اور اپنی مرضی سے کوئی حج پر نہ جائے اور خانہ کعبہ کے خالی رہ جانے کا اندیشہ ھو، تو اس موقع پراسلامی حکومتوں پر مسلمانوں کے بیت المال سے ایک گروہ کو حج کے لئے بھیجنا واجب ھے ؛ کیونکہ وہ اسلامی شعار جو تمام ھی مسلمانوں کے لئے حفظ مصالح کے باعث ھیں وہ تعطیل نھیں ھونے چاھئیں۔پس جبکہ حج ایک عبادی مسئلہ ھے اور دنیاوی اور سیاسی امور میں شمار نھیں ھوتا اور خود عوام الناس انجام دیتے ھیں اور اپنے پاس سے خرچ کرتے ھیں، لیکن اگر عوام الناس نے نافرمانی کی یا حج بجالانے کی قدرت نہ رکھتے ھوں تو پھر اسلامی حکومت پر اسلامی شعار کو قائم کرنے اور قوانین کو جاری کرنے کے ضامن کے عنوان سے ؛ یہ ذمہ داری ھے کہ حج کو انجام دینے کے مقدمات فراھم کرے۔اس بنا پر اسلامی اور لائیک حکومت کا بنیادی فرق یہ ھے کہ اسلامی حکومت ھر چیز سے پھلے اسلامی شعار اور اسلام کے اجتماعی احکام وقوانین کو جاری کرنے کی فکر میں رھے اور ان کو مقدم رکھے البتہ عملی میدان میں معنوی اور مادّی امور میں کوئی ٹکراؤ نھیں ھوتا لیکن بالفرض اگر ان میں ٹکراؤ ھو بھی جائے تو پھر معنوی امور کو مقدم کرے۔لھٰذا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں کی سر فھرست درج ذیل چیزیں ھونا چاھئے: اسلامی شعار کو قائم کرنا، قوانین اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کرنا اور ایسی چیزوں کی روک تھام کرنا جومعاشرہ میں اسلامی ثقافت کے کمزور ھونے کا باعث بنے نیز کفر کے رسومات سے روک تھام کرنا۔

5۔ حکومت اور اس کے کردار ی پھلوقارئین کرام ! ھم نے اس سے پھلے بھی عرض کیا کہ حکومت پر لازم ھے کہ وہ معاشرہ کی بعض ضرورتوں کوپورا کرنے کی خود ذمہ داری قبول کرے، مثلاً دفاع اور جنگ کا مسئلہ ، جس میں منصوبہ بندی، سیاست گذاری اور اس کے اجرائی امور تمام مسائل حکومت کے ذمہ ھوتے ھیں لیکن حکومت کے مخصوص کاموں کے علاوہ یہ بھی ذمہ داری ھوتی ھے کہ اسلامی معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے جس کی دو صورتیں ھوسکتی ھیں:1۔ حکومت صرف منصوبہ بندی، سیاست گذاری اور ان کے اجراء پر نظارت رکھے اور براہ راست ان امور میں دخالت نہ کرے۔2۔ منصوبہ بندی ، سیاست گذاری اور نظارت کے علاوہ ان امور کو خود اپنے ذریعہ انجام دے۔مزید وضاحت کے لئے عرض کرتے ھیں کہ معاشرہ کے کسی ایک پروجکٹ کو کامیاب بنانے کے لئے پھلے اس کے مقاصد کا روشن ھونا ضرروی ھے تاکہ اسی بنا پر منصوبہ بندی کی جاسکے، اس کے بعداس کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو منظم کیا جاتا ھے کیونکہ کسی ایک پروجکٹ کے لئے مدت معلوم ھونی چاھئے شروع اور ختم ھونے کی مدت معلوم ھو اور اس کا خرچ بھی موجود ھو اس مرحلہ کے بعد جو کمپنی اس کام کو کرنا چاھے اس کو طے کیا جاتا ھے؛ یعنی یہ معین کیا جاتا ھے کہ کون لوگ اور کس شکل میں اس پروجکٹ کو انجام دیں گے ، اس کا مدیر ، اس میں کام کرنے والے اور ان کے وظائف معین کئے جاتے ھیں مثلاً امام خمینی انٹر نیشنل ایر پورٹ پروجکٹ کو لے لیجئے : پھلے یہ طے ھوتا ھے کہ کیا اس ایرپورٹ کی ضرورت ھے یا نھیں (اگرچہ یہ بات ملک کی اھم سیاست گذاری سے متعلق ھے) جس کی بنا پر یہ طے ھوتا ھے کہ اس پروجکٹ پر کام ھونا چاھئے یا نھ؟ اور جب پروجکٹ کو قبول کرلیا جاتا ھے تو پھر اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کی جاتی ھے اور یہ طے کیا جاتا ھے کہ یہ پروجکٹ کتنی زمین میں اور کس طرح کے امکانات کے ساتھ انجام دیا جائے اور کس نقشہ کے تحت ھو اس کے بعد اس کا مدیر اور اس کے شروع ھونے کی تاریخ معین کی جاتی ھے، آخر میں اس پروجکٹ کی بولی لگائی جاتی ھے تاکہ جو کمپنی کم خرچ میں اس پروجکٹ کو مکمل کرنے پر آمادہ ھو تو اس کام کو اس کے حوالے کردیا جائے اس صورت میں ایک وقت حکومت سیاست گذاری اور منصوبہ بندی کے بعد اس پروجکٹ کو بھی اپنے ھاتھوں میں لے لیتی ھے اور کوئی سرکاری شعبہ یا کوئی وزارتخانہ اس پروجکٹ پر کام کرتا ھے اور اس پروجکٹ کا خرچ سرکاری خزانہ سے اور سرکاری افراد کے ذریعہ تکمیل ھوتا ھے یا کسی پروجکٹ کو معین کرنے کے بعد کسی کمپنی کے حوالے کیا جاتا ھے تاکہ اس پروجکٹ کو عملی جامہ پھنائے، بھر حال دونوں صورتوں میں حکومت اس پروجکٹ کو عملی بنانے کا وعدہ کرتی ھے لیکن ممکن ھے کہ حکومت کسی پروجکٹ کے لئے ؛سیاست گذاری اور منصوبہ بندی کے بعد اس کام کو خود اپنے ذمہ نہ لے ، اور اس کے خرچ اور اس پر کام کرنے کے لئے دوسروں کے حوالہ کردے اور خود صرف نظارت کرتی رھے ؛ یعنی حکومت اپنی طرف سے کچھ معائنہ کار افراد کو معین کرتی ھے تاکہ قوانین اور مقررات کی خلاف ورزی کی روک تھام کی جاسکے اور نقشہ کے مطابق عمل نہ کرنے سے روکا جاسکے نیز عوام الناس کے مال کو تلف اور برباد ھونے سے روک تھام کی جاسکے اور کوشش یہ کی جاتی ھے کہ پروجکٹ اسی اصل نقشہ کے تحت عمومی مصالح کے قوانین کے مطابق عملی جامہ پھنایا جاسکے۔6۔ “ٹوٹالیٹر”(1) (Totalitair ) اور “لیبرل”حکومت کا مڈلان پروجکٹ کے مقابلہ میں معاشرہ کی ضرورتیں مثلاً جنگ اور دفاع، تعلیم وتربیت، علاج معالجہ اور شھر کی صفائی وغیرہ کا انتظام قاعدتاً حکومت کے ذمہ ھوتا ھے، لیکن یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا حکومت کی ذمہ داری صرف ان ضرورتوں میں منصوبہ بندی اور حد اکثر نظارت ھوتی ھے؟ یا منصوبہ بندی اور نظارت کے علاوہ ان کو جاری کرنے کی بھی ذمہ داری اسی کی ھوتی ھے، اور بنیادی طور پر اسلام کی نظر میں کونسا طریقہ صحیح ھے؟ کیا اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے بنانے کا خرچ حکومت کے ذمہ ھے؟ یا اس کا کچھ حصہ حکومت کے ذمہ ھوتا ھے اور کچھ حصہ عوام الناس کے ذمہ ھوتا ھے؛ جیسا کہ اکثر ممالک میں منجملہ ھمارے ملک میں ایسا ھوتا ھے کہ ابتدائی تعلیم سب کے لئے ضروری ھے اور اس کا خرچ بھی حکومت کے ذمہ ھے، لیکن یونیورسٹی کی تعلیم کا خرچ حکومت کے ذمہ نھیں ھے بلکہ حکومت یونیورسٹی میں فیس لے کراعلیٰ تعلیم دیتی ھے، اگرچہ بعض ملکوں میں یونیورسٹی کی تعلیم بھی مفت ھوتی ھے۔بعض حکومتوں میں یہ کوشش کی جاتی ھے کہ معاشرہ کے زیادہ سے زیادہ امور حکومت کے ذریعہ انجام پائیں، اور یہ طریقہ کار بڑے بڑے مالداروں کی ظالمانہ رفتاراور اپنے ذاتی مفاد کے لئے معاشرہ کے فوائد کو خطرہ میں ڈالنے والے افراد کے مقابلہ میں ایک عکس العمل ھے کیونکہ یہ جامعہ گرا )معاشرہ کی فکر رکھنے والا ) نظریہ اور سوسیالیسٹ “Socialiste”، کمیونسٹ “communiste” ملکوں کا وجود میں آنا؛ مالدار ملکوں میں عوام الناس پر ھونے والے ظلم وستم کا نتیجہ تھا کیونکہ مغربی ممالک میں غریبوں کے حق میں مالداروں نے اس قدر ظلم کیا جس کے نتیجہ میں یہ شدت پسند نظریہ وجود میں آیا کہ تمام کام حکومت کے ذمہ ھو،اور حکومت کو ھونے والے عام فائدوں کو تمام لوگوں کے درمیان برابر سے تقسیم کیا جائے تاکہ تمام لوگ اجتماعی زندگی کے امکانات سے بھرہ مند ھو سکیں ، در حقیقت عام زندگی کے امکانات سے تمام لوگوں کا برابر ھونا اور عوام الناس سے ظلم کو دور کرنا؛ معاشرتی ، سیاسی اور معاشی مسائل میںیہ نظریہ سوسیالیسٹ کا ھے جو دس بیس سال پھلے سے کافی رنگ لایا ھے اور میٹریالیزم(2) “Materialism” نظریہ کے ساتھ نیز فقر وغربت کو دور کرنے اور تمام لوگوں میں مساوات ایجاد کرنے جیسے نعروں کے ذریعہ بڑے بڑے ملکوں میں (قدیم) روس اور چین وغیرہ میں حکومت کرنے لگا اور اس کے بعد سے مالدار ممالک بلوک “Bloc” (3) کا سخت رقیب مانا جانے لگا۔چنانچہ اس نظریہ کی جذابیت اور اس کے نعرے ھمارے ملک میں بھی بعض لوگوں کوبھت اچھے لگے اور ایک مدت تک اس نظریہ کی حمایت ھونی لگی، نیز بھت سے افراد اس کے طرفدار بن گئے، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ گذشتہ زمانہ میں (انقلاب اسلامی سے پھلے) ھمارے ملک میں بھی سوسیالیسٹی اور کمیونسٹی پارٹیاں تشکیل پائیں لیکن انقلاب اسلامی کی وجہ سے اس کی جڑیں ھل گئیں ، اور اس کا بوریا بستر لپٹ گیا، تاریخی تجربہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومت (جو مالداروں اور صاحب قدرت لوگوں کو سوء استفادہ کرنے سے روک تھام کے نعرہ سے برسر پیکار آتی ھے ) اس کا سیاسی، اجتماعی اور معاشی معاملات میں تمام کاموں میں ذمہ داری لینا صحیح اور کار آمد نھیںھے، اور جلد ھی ان کے خاتمہ کا باعث اور کمیونسٹی بلوک کے ممالک کا شیرازہ بکھرنے کا سبب ھے مخصوصاً ھمارے شمالی پڑوسی ملک کا حال سب نے دیکھاکہ کمیونسٹی نظریہ کی اجتماعی اور سیاسی بنیادیں کس طرح ھلیں اور روس جیسی عظیم طاقت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور اس ملک کی شھنشاھیت کا جنازہ نکل گیا۔قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ بھی فلسفہ سیاست میں ایک نظریہ ھے جس کی بنا پر حکومت معاشرہ کے مختلف امور میں زیادہ سے زیادہ دخالت رکھتی ھے ، تاکہ مالداروں اور صاحب قدرت لوگوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکا جاسکے (لیکن ھم اس وقت مذکورہ نظریہ کی کمزرویاں نھیں بیان کرنا چاھتے ) اس کے مقابلہ میں کمیونسٹ “communiste”، سوسیالیسٹ “Socialiste” اورلیبرل نظریات ھیں جن کی بنا پر معاشرہ کے تمام امور خود عوام الناس کے ذمہ ھوتے ھیں، اور اپنے کام میں آزاد ھوتے ھیں کہ جس طرح چاھیں عمل کریں اس نظریہ میں حکومت معاشرہ کے کاموں میں کم سے کم دخالت کرتی ھے نیز اس کی دخالت ضروری حد تک اور معاشرہ میں بد نظمی کو روکنے کے لئے ھوتی ھے۔ظاھر سی بات ھے کہ لیبرل نظریہ میں چونکہ عوام الناس اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی امور سے مکمل طور پر آزاد ھوتے ھیں اور جو افراد زیادہ امکانات اور قابلیت رکھتے ھیں تو وہ لوگ تمام ھی چیزوں سے خصوصاً معاشی امور میں بھت زیادہ فائدہ اٹھاتے ھیںاور دوسروں سے مقابلہ جیت جاتے ھیں جس کے نتیجہ میں اقتصادی کاروبار ان کو بھت زیادہ فائدہ پھنچاتا ھے، جبکہ ان کے مقابلہ میں کمزور اور غریب لوگ جن کے پاس کم امکانات ھوتے ھیں وہ مزید غریب اورکمزور ھوتے چلے جاتے ھیں۔لوگوں کے درمیان یہ اختلاف اورمعاشرہ کے بھت کم مالدارافراد کا عمومی اور ملی سرمایہ کا مالک بن جانا، نیز معاشرہ کے دوسرے طبقات میں فقر وغربت کا بڑھنا ؛ یہ سب سبب بنتے ھیں کہ عوام الناس اعتراض کرے اور حکومت کے خلاف مظاھرے کرنے لگیں اور پھر ان کو سیاست میں آنے نھیں دیا جاتا، اس کے بعد کیمونسٹ نظام کا تشکیل پانا جس میںمعاشرہ کے غریب لوگوں کا زیادہ دھیان رکھا جاتا ھے لیکن لیبرل ملکوں میں بھی حکومت کے خلاف مظاھروں اور انقلاب سے روکنے کے لئے کم در آمد لوگوں کو کچھ سھولتیں دی جاتی ھیں۔اس وقت یورپی ممالک جن کے بھت سے ملکوں میں لیبرل نظام کی حکومت ھوتی ھے ان میں بھی سوسیالیسٹ “Socialiste” پارٹیاں اپنی کارکردگی دکھاتی ھیں، یھاں تک کہ بعض حکومتوں میں سوسیالیسٹ یاسوسیال ڈیموکریٹک پارٹیاں کامیاب ھوتی ھیں مثلاً انگلینڈ کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں”کارگر پارٹی”کبھی کبھی اکثریت سے کامیاب ھوجاتی ھے صرف اسی وجہ سے کہ اس کا نظریہ سوسیالیسٹ ھے اور اس نظریہ میں غریب اور کم درآمد لوگوں کو خیال رکھا جاتا ھے اور یہ بھی اس وجہ سے ھوتا ھے کہ کھیں معاشرہ کا غریب اور کم در آمد طبقہ حکومت کے خلاف انقلاب برپا نہ کردے؛ کیونکہ جب معاشرہ کے تقریباً سبھی طبقات کے لئے عام سھولتیں مھیا ھوں گی تو پھر غریب عوام الناس حکومت کے خلاف قدم نھیں اٹھائیں گے عوام الناس کی سھولیات میں جن چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ھے ان میں سے کچھ در ج ذیل ھیں:1۔ اپاھج اور بے کار لوگوں کے لئے بیمھ۔2۔میڈیکل بیمہ۔3۔ سرکار کی طرف سے کم در آمد لوگوں کے لئے مکان بنوانا اور ان کو کم سے کم کرایہ پر دینا۔حکومتی سیاسی فلسفہ میں ایک دوسرے کے مخالف نظریات پائے جاتے ھیں:پھلا نظریہ سوسیالیسٹی ھے جس میں معاشرہ کو اصل مانا جاتا ھے اور معاشرہ کے مفاد کو ذاتی مفادپر مقدم کیا جاتا ھے، کیونکہ اس نظریہ میں معاشرہ پر توجہ کی جاتی ھے چنانچہ اس نظریہ کو عملی بنانے کے لئے حکومت کی ذمہ داریوں اور دخالت میں اضافہ ھوجاتا ھے ،اور معاشرہ کے اجتماعی امور میں حکومت کی ذمہ درایوں کا دائرہ وسیع ھوجاتا ھے تاکہ عمومی سرمایہ کو غارت ھونے اور غریب و مستضعف لوگوں پر ظلم وستم ھونے سے روک تھام کرسکے۔دوسرا نظریہ لیبرل ھے جس میں خاص دلیلوں کے تحت اس چیز پر اعتقاد رکھا جاتا ھے کہ حکومت کو معاشرہ کے امور میں کم سے کم دخالت کرنی چاھئے۔قارئین کرام ! آج کل تقریروں، اخباروں، مقالوں اور کتابوں میں جو لکھا جاتا ھے کہ حکومت کو کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ دخالت کرنی چاھئے انھیں دو نظریات کی بنا پر ھے اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ یورپی اور مغربی ممالک میں اکثر لیبرل نظریہ پایا جاتا ھے اور ایسی حکومتوں میں (وہ ادارے بھی جو ھمارے ملک میں سرکاری ھوتے ھیں) اکثر ادارے پرائیویٹ ھوتے ھیں، مثلاً مذکورہ ممالک میں محکمہ ڈاک یا محکمہ ٹیلی فون سرکاری نھیں ھوتے بلکہ پرائیویٹ ھوتے ھیں ، اور ڈاک کا سارا کام، نیز مختلف شھروں میں فون وغیرہ کی خدمات پیش کرنا پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ھیں ، وھاں پر حکومت صرف منصوبہ بندی اور نظارت کرتی ھے اسی طرح بجلی،پانی اور معاشرہ کے دیگر ضروریات کو پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ھیں لیکن ھمارے ملک میں یہ چیزیں حکومت کے ذمہ ھوتی ھیں۔

7۔ اسلامی نظریہ کے تحت حکومت کیسی ھونا چاھئےقارئین کرام ! یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ مذکورہ نظریات میں سے اسلام کس نظریہ کو مناسب سمجھتا ھے؟ کیا حکومت کی وسیع پیمانے پر دخالت کو پسند کرتا ھے یا حکومت کی کم سے کم دخالت اور معاشرہ کے امور کو عوام لناس کے سپرد کرنے کو پسند کرتا ھے؟ جیسا کہ ھم نے پھلے جلسے میں عرض کیا کہ عوام الناس کا وسیع پیمانے پر مختلف میدان میں شرکت کرنا حقیقت میں “جامعہ مدنی” کے ایک معنی میں سے ھے، اور اس معنی کے لحاظ سے اجتماعی کاموں کو خود عوام الناس پر چھوڑ دیا جانا چاھئے کیونکہ جب ھم اسلامی اصول کی بنیاد پر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ کو دریافت کرنا چاھیں تو ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ اس سلسلہ میں اسلام کا رویہ درمیانی ھے؛جو آرزوں اور حقیقت دونوں میں شامل ھوتا ھے۔
وضاحت:بھت سی وہ تھیوری جو یونیورسٹیوں، حوزات علمیہ یا دیگر جلسوں میں بیان ھوتی ھیں ؛بھت اچھی اور دلربا ھوتی ھیں ، لیکن ایک لحاظ سے یہ فقط خیالی اور آرمانی ھوتی ھیں جن کا عملیمیدان میں کوئی وجود نھیں ھوتا مثلاً یہ مفروضہ کہ عوام الناس کا کرداراتنا بلندکرنے کے لئے کوشش کی جائے تاکہ پھر وہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے اور پھر ان کو کسی روکنے والے قانون یا حکومت کی ضرورت نھیں ھے اس فرضیہ کا تصوربھت اچھا ھے؛ لیکن عملی میدان میں کیا کبھی ایسا ھوسکتا ھے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس کو مجری قانون (حکومت) کی کوئی ضرورت نہ ھو دوسری طرف اس وجہ سے کہ معاشرہ میں ھمیشہ قانون کی خلاف ورزی ھوتی رھی ھے یہ بات بھی قابل قبول نھیں ھے کہ حکومت کی طرف سے اتنی سختی کی جائے کہ پھر کوئی قانون شکنی کی ھمت نہ کرسکے جیسا کہ بعض مارکسسٹ “Marxist” ، فاشیسٹ(4) “Fasciste” اور پولیس کی حکومتوں میں ھوتا ھے کہ سرکاری قوانین پر شدت کے ساتھ عمل کیا جاتا ھے، اور پولیس اور فوج اس طرح سے مجرموں کے ساتھ برتاؤ کرتی ھے کہ (اس کو دیکہ کر) پھر کوئی قانون شکنی کی ھمت نھیں کرتا جس کا نمونہ ھمارا پڑوسی ملک عراق ھے جس نے ھم کو 8 سال تک جنگ کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس ملک میں فوجی حکومت ھے جو ھر قسم کی مخالفت اور اعتراض کا گلا گھونٹ دیتی ھے یھاں تک کہ اگر کسی سے کوئی چھوٹی سی بھی حرکت خلاف قانون دیکھی گئی تو اس کو عدالت کے فیصلہ کے بغیر ھی گولی ماردی جاتی ھے یا کسی دوسرے طریقہ سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ھے۔معاشرہ کے غریب اور کم در آمد لوگ جس وقت رشوت اورمھنگائی کا بازار گرم دیکھتے ھیںاور ان کے سامنے مشکلیں آتی ھیں تو یہ آرزو کرتے ھیں کہ اے کاش ان رشوت خور اور گران فروش لوگوں سے شدت کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور ان میں سے چند لوگوں کو سزائے موت دیدی جائے تاکہ پھر کوئی رشوت خوری اور گرا نفروشی کی جراٴت نہ کرے!! اس طرح کے واقعیات سوسیالسٹی ممالک میں آئے دن ھوتے رھتے ھیں۔لیکن ھمیں اس سلسلہ میں اسلامی نظریہ دیکھنا چاھئے کہ اسلام مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں سے شدت کے ساتھ برتاؤ کو کیسا سمجھتا ھے؟ کیا اسلامی نظریہ کے تحت مجرموں سے اس قدر شدت کے ساتھ پیش آنا صحیح ھے کہ اس کے بعد کوئی بھی خلاف ورزی کی جراٴت نہ کرے؟ یا مجرموں کے ساتھ اس قدر شدت نہ کی جائے بلکہ ان کو حتی الامکان آزادی دی جائے حکومت کی دخالت اور قوانین کا لاگو کرنا صرف معاشرہ میں آشوب اور ظلم وستم سے روک تھام کے لئے ھو۔قارئین کرام ! قرآن کریم اور احادیث شریف سے یھی نتیجہ نکلتا ھے کہ اسلام کی نظر میں اسلامی حکومت ایک درمیانی اور معتدل راستہ اختیار کرے۔اسلام کے فوجداری قوانین؛ بعض جرائم ، اور بعض عفت کے منافی اعمال پر بھت سخت سزا ئیں معین ھیں، لیکن اسلام ان جرائم کو ثابت کرنے کے لئے خاص شرائط اور بعض محدویت کا قائل ھے جن کی وجہ سے صرف کم ھی جرائم عملی میدان میں ثابت ھوسکیں، اور ان قوانین کے نتیجہ میں سخت سزائیں بھت کم ھی موارد (مثلاً سال میں ایک یا دو مورد) میں دی جاتی ھیں۔مثلاً قرآن مجید میںچور کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا اٴَیْدِیَھمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا)(5)”چور مرد اور چور عورت دونوں کے ھاتہ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے بدلہ ھے “(الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْھمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتَاٴْخُذْکُمْ بِھمَا رَاٴْفَةٌ فِی دِینِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْھدْ عَذَابَھمَا طَائِفَةٌ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ )(6)” زنا کار عورت او رزنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائیں اور خبردار ! دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ھوجانا اگر تمھارا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ھے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رھنا چاھئے۔”لیکن اس طرف سے اسلام نے زنا کے ثابت ھونے کے شرائط بھت سخت قرار دئے ھیں کیونکہ اسلام کا حکم یہ ھے کہ زنا کرنے والے کو یہ سزا اس وقت دی جاسکتی ھے جبکہ چارشاھد (گواھ) عادل اپنی آنکھوں سے زنا ھوتے دیکھیں اور گواھی دیں،اور سب کے سب گواھی دینے کے لئے عدالت میں حاضر ھوں، اور اگر چاروں عادل گواھی دینے کے لئے عدالت میں حاضر نہ ھوئے تو نہ صرف جرم ثابت نھیں ھوگا بلکہ ان پر “حدّقذف ” (7) جاری ھوگی، کیونکہ ان کی گواھی قابل قبول نھیں ھے اور خود ان کو ایک مومن پر تھمت لگانے کے جرم میں کوڑے لگائے جائیں گے۔اسی طرح اسلام اجتماعی مسائل میں، حکومت کو معاشرہ کی تمام ھی ضرورتوں کو پورا کرنے یھاں تک کہ غیر ضروری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار نھیں ٹھھراتا اور نہ ھی حکومت کو مکمل طریقہ پر دخالت سے روکتا ھے؛ بلکہ حکومت کی دخالت زمان ومکان کے لحاظ سے ھوتی ھے اور معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار ٹھھراتا ھے۔کبھی کبھی اس طرح کے حالات پیدا ھوتے ھیں کہ “جامعہ مدنی” کی شکل “مدینة النبی” کی شکل پر ھو جس کی بنیاد یہ ھے کہ جو کام عوام الناس خود انجام دے سکتے ھوں ، تو اس میں خود اپنی مرضی سے شرکت کریں مثلاً تعلیم وتربیت، بجلی، پانی وغیرہ جیسی ضرورتوںکا خود انتظام کریں؛ مگر بعض خود غرض اور فرصت طلب افراد ناجائز فائدہ اٹھانا چاھتے ھوںاور ان کا لالچ اوردوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کی وجہ سے معاشرہ کے غریب طبقہ کو ان کے حقوق سے محرومی کا سبب ھوتا ھو تو اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری یہ ھے کہ خود غرض اور مالدار لوگوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی میدان میں اترے، اور کمزور لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے، یا دوسرے طریقوں سے اپنا کردار نبھائے:مثلاً اگر پرائیویٹ کمپنی ٹیلیفون خدمات بھت مھنگی کردے تو پھر حکومت کواپنی طرف سے جو سستے داموں میں ٹیلیفون خدمات پیش کرے یا خدمات کرنے والے محکموں کو کلی طور پر اپنے ذمہ لے لے۔

8۔ متحد حکومتوں کے نقائصقارئین کرام ! مذکورہ نظریہ کی بنا پر اسلامی نظریہ کی اصل یہ ھے کہ معاشرہ کی ضرورتیں خود عوام الناس کے ذریعہ پوری ھوں، لیکن اگر خود غرض، فائدہ پرست اور مال ودولت کے لالچی افراد یا اس طرح کے گروہ کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ضائع ھورھے ھوں تو پھر حکومت کو عملی میدان میں اترنا چاھئے، اور مناسب طریقہ کار، زمان ومکان کے لحاظ سے مصلحتوں کی رعایت کرتے ھوئے؛ خلاف ورزیوں سے روک تھام کے لئے ضروری قدم اٹھائے کیونکہ یھی راستہ درمیانی اور معتدل ھے، کیونکہ عملی طریقہ سے یہ بات ثابت ھوچکی ھے کہ معاشرہ کی تمام فعالیتوں کو حکومت کے ذمہ قرار دینا؛ بھت سی دلیلوں کی بنا پر صحیح اور مفید نھیں ھے مثلاً اگر حکومت ؛معاشرہ کی تمام ھی ضرورتوں کو پورا کرنا چاھے تو پھر اس کو بھت بڑے سسٹم کی ضرورت ھے اور تقریبا (بیس فی صد ) لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینی پڑینگی اور اس طرح کے طریقہ کار پر تین اشکال ھوتے ھیں:
پھلا اشکال:اگر تمام ھی کام سرکاری طریقہ سے انجام دئے جائیں تو پھر حکومت کو ایک بھت بڑے خرچ کی ضرورت ھے نیز معاشرہ کے لئے بھی بھت سی مشکلات پیش آسکتی ھیں۔
دوسرا اشکال:(یہ اھم اشکال ھے) جس وقت اس طرح کا بھت بڑا سسٹم بنے تو اس کے درمیان خلاف ورزی بھی زیادہ ھوگی، جس وقت کم، محدود اور بھترین افراد پر یہ سسٹم مشتمل ھو تو اس میں خلاف ورزی بھی کم اور بھت معمولی ھوگی، لیکن اگر ایک عظیم سسٹم بنایا گیا اور تمام امور میں دخالت کرنے کا حق اس کو ھوگیا تو پھر اس میں خلاف ورزی اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے امکانات بھی زیادہ ھوجائیں گے مثال کے طور پر اگر حکومت مھنگائی روکنے کے لئے کوئی ادارہ بنائے جو دکانوں پر جاکر اس سلسلہ میں رپورٹ تیار کرکے حکومت تک پھنچائے لیکن اگر ھر دکان کے لئے ایک معائنہ کرنے والا معین کرے تو پھر آپ اندازہ لگائیں کہ کتنے لوگوں کو نوکری دینی ھوگی، اس کے علاوہ ان کے درمیان بھی خلاف ورزی زیادہ ھوں گی، اور ان میں سے بھت سے لوگ دکانداروں سے رشوت لیں گے تاکہ ان کے خلاف رپورٹ نہ بھیجیں جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ حکومت کو ان معائنہ کاروں پر ایک اور ادارہ بنانے کی ضرورت ھوگی۔جبکہ تجربہ سے یہ بات ثابت ھوچکی ھے کہ اس طرح کی منصوبہ بندی کامیاب نھیں ھوئی ھے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نھیں ھوا ھے بلکہ خلاف ورزیوں اور رشوت خوری میں اضافہ ھوا ھے۔
تیسرا اشکال:یہ اشکال(بھی) اسلام کی نظر سے اھم ھے ، کیونکہ اسلام اس لئے آیا ھے کہ عوام الناس اپنی مرضی اور اختیار سے خود سازی اور نیک کام میں رغبت حاصل کریں، طاقت کے بل بوتے پر نھیں کیونکہ انسان کا کام اس وقت با اھمیت ھوتا ھے جب وہ اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے، لیکن اگر کسی کام کو مجبوری میں انجام دیا ھے تو پھر اس کام پر وہ معنوی اثر نھیں ھوگا جو اسلام چاھتا ھے اور اصلی مقصد پورا نھیں ھوگا۔
حوالے(1)ٹوٹالیٹر (اس حکومت کو کھتے ھیں جو ایک گروہ کے نفع میں قوانین بنائے اور اپنے مخالفین کو مخفی پولیس وغیرہ کے ذریعہ نابود کرنے کی درپے ھو، مترجم)(2) وہ مادی فلسفہ جو معنویات کا منکر ھے اور صرف مادہ کو پھچانتے ھیں نیز خلقت کائنات کو مادہ کے اجزاء کی حرکت سے جانتے ھیں،(مترجم)(3 ( وہ چند متحد ملک جن کی سیاسی روش ایک ھو ( مترجم)(4)(ظالمانہ طریقہ حکومت، جو پھلی عالمی جنگ کے بعد اٹلی میں رائج تھا لیکن آج کل ڈکٹیٹر شب “Dictaorship” کے معنی میں استعمال ھوتا ھے، مترجم(5)سورہ مائدہ آیت 38(6)یسورہ نور آیت 2(7) ” حدّ قذف ” زنا کی تھمت لگانے والے پر 8۰ کوڑے لگائے جاتے ھیں،جس کی صراحت سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں وارد ھوئی ھے (مترجم(

 

http://shiastudies.com/ur/2981/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d8%ad%da%a9%d9%88%d9%85%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%ae%d8%a7%d8%b5-%d9%be%da%be%da%86%d8%a7%d9%86/

تبصرے
Loading...