اسلامی حکومت اور ثقافتی حربے

اسلامی حکومت اور ثقافتی حربے

 
1۔ جو لوگ دین کو بالکل نھیں مانتے، ظاھر ھے کہ یہ لوگ بالکل بھی پسند نھیں کریں گے کہ کسی ملک میں دینی احکام جاری ھوں، لیکن الحمد للہ ایسے افراد ھمارے معاشرے میں بھت کم ھیں۔2۔ جو لوگ دین کو قبول کرتے ھیں لیکن مغربی کلچر کے تحت تاثیر واقع ھیں ان کا اعتقاد یہ ھے کہ دین کا دائرہ سیاست و معاشرے سے جدا ھے اور دین کو فقط انفرادی اور خدا سے رابطہ میں منحصر کرتے ھیں اور کھتے ھیں: اجتماعی زندگی کے مسائل کا دین سے کوئی ربط نھیں ھے اسی نظریہ کو عمومی طورپر سیکولیزم یا دین کا مسائل زندگی سے جدا کرنا کھا جاتا ھے۔3۔جو حضرات واقعاً معتقد ھیں کہ اسلام میں اجتماعی اور اسلامی مسائل موجود ھیں، لیکن ناخواستہ طور پر مغربی کلچر سے متاثر ھیں اور کبھی کبھی ایسی باتیں کرتے ھیں کہ اسلام سے ھم آھنگ نھیں ھیں۔

2۔علماء اور ان کی خطرناک ذمہ داریبھر حال ھم خداوند عالم کے معین کردہ وظیفہ اور ذمہ داری کے تحت موظف ھیں کہ حتی المقدور اسلامی عظمت کو بیان کر یں اورفکری دینی انحرافات سے لوگوں کو روکیں، اور اس چیز کی طرف بھی اشارہ کریں کہ بعض احباب اور خیر خواہ حضرات فکر کرتے ھیں کہ اس سیاسی و اجتماعی زمانے میں ان بحثوں کو چھیڑنے کی ضرورت نھیں ھے! یھاں تک کہ بعض حضرات کا تصور یہ ھے کہ ان باتوں کو چھیڑنا نقصان دہ ھے،کیونکہ ان سے افکار وعقائد متاثر ھوتے ھیں، ان حضرات کا تصور یہ ھے کہ ھم جس قدر سعی و کوشش کرسکتے ھیں کریں کہ فکری و اعتقادی وحدت ایجاد ھوجائے، لھٰذا ان چیزوں سے پرھیز کریں کہ جن کی وجہ سے اختلاف و افتراق ھوتاھے تو یہ معاشرے کیلئے زیادہ سود مند ھے۔بعض حضرات خیر خواھی کی وجہ سے کھتے ھیں آپ ان بحثوں کو چھوڑ کر دوسری ضروری اور بھتر بحثوں کو معاشرے میں یھاں کریں اور بلند مقامات کو حاصل کریں اور ایسے کام کریں جو آپ کے لئے بھی سودمند ھوں اور معاشرے کیلئے بھی مفید ھوں۔ان حضرات (کہ جن میں بعض خیر خواہ بھی ھیں) کی خدمت میں عرض کریں کہ ھم بھی اس راستہ کو اچھا سمجھتے ھیں کہ جس میں عافیت و بھلائی ھو، اور ان لوگوںکے مزاج کو بھی اچھی طرح جانتے ھیں کہ جو واہ واہ کرتے ھیں،لیکن ھماری یہ شرعی ذمہ داری ھے کہ جس کو خداوند عالم نے ھم پرواجب کیا ھے البتہ یہ ذمہ داری سب سے پھلے انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی ھے اور اسکے بعد علمائے کرام کی ذمہ داری ھوتی ھے اور واقعاً یہ راستہ بھت مشکل اور خطرناک ھے اور واہ واہ ، سبحان اللہ سبحان اللہ کی جگہ تھمت ، بھتان، بدگوئی اور کبھی کبھی جلاوطنی، زنداں اور قتل وغیرہ کو قبول کرتے ھیں، بھر حال اس راہ میں بھت سی مشکلات ھیں جیساکہ ھمیں تاریخ میں انبیاء ،ائمہ معصومین علیھم السلام نے ان کو برداشت کیا ھے لھٰذا ھم بھی اس راستہ پر قائم ھیں اگرچہ ھمارے دوست و احباٴ بھی ھم پر ملامت کریں، کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:(اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالھُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَاہ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اٴُوْلٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللَّہ وَیَلْعَنُھُمُ اللَّاعِنُونَ..).(1)”بے شک جو لوگ (ھماری) ان روشن دلیلوں اور ھدایتوں کو جنھیں ھم نے نازل کیا ھے اس کے بعد چھپاتے ھیںجب کہ ھم کتاب (تورات) میں لوگوںکے سامنے صاف صاف بیان کرچکے ھیں تو یھی لوگ ھیں جن پر خدا (بھی) لعنت کرتا ھے (اور) لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ھیں”جو حضرات اپنے حقائق سے آگاہ ھیں لیکن اپنے ذاتی یا کسی خاص گروہ کے نفع کی خاطر ان حقائق کو مخفی رکھتے ھیں ان پر خدا، ملائکہ اور اولیاٴ خدا کی لعنت ھوتی ھے جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ھوا ھے:”اِذَا ظَھرَتِ البِدَعُ فِی اُمَّتِی فَلْیُظْھِرِ العَالِمُ عِلْمَہ وَاِلَّا فَعَلَیْہ لَعْنَةُ اللہ.”(2)”جس وقت دین میں بدعت ھونے لگیں تو علماء پر واجب ھے کہ اپنے علم کو بیان کرےں، اور لوگوں کو انحرافات سے روکیں، ورنہ اس پر خدا کی لعنت ھوگی”لھٰذا ھمارے سامنے دو راستے ھیں یا تو ھم اپنے دوستوں کی ملامت اور دشمنوں کی تھمتوں کو برداشت کریں، اور خدا کی رضایت حاصل کریں، یا لوگوں کی داد و تحسین کو پسند کریں اور خدا کی لعنت کے مستحق ھوں، لھٰذا ھم ترجیح دیتے ھیں کہ لوگوں کی تھمتوں اور بدگوئیوں کو برداشت کریں، لیکن ھم خدا کی لعنت کے مستحق نہ بنےں، لھٰذا ھم پر یہ اھم ذمہ داری ھے اور ھمارے لئے نیز دوسرے علماٴ کیلئے ان مسائل پر بحث و گفتگو کرنا دوسری چیزوں سے زیادہ واجب ھے۔ٹھیک ھے آج کل سرحدی علاقوں میں ھمارے لئے بھت سی مشکلات ھیں اور ھو سکتا ھے کہ آئندہ ھمارے لئے فوجی مشکلات کا سامنا ھو، ٹھیک ھے افغانستان میں طالبان کے ذریعہ کہ ھمارے سفارتخانہ کے ذمہ دار افراد اور 35 ڈرائیور گرفتار ھوں کہ جس کی وجہ سے ھماری ملت اور حکومت کو دکہ پھونچا، مظاھرے ھوئے اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کو پیش کیا گیا، لیکن ان 40 یا 50 لوگوں کا دشمن کے ذریعہ گرفتار ھونے کا خطرہ ھماری یونیورسٹیوں میں ھزاروں جوان مسلمانوں کا امریکائی عناصر کے ذریعہ ان کے جال میں پھنسا زیادہ خطرناک نھیں ھے۔یعنی مغربی ثقافتی عناصر کے ذریعہ گرفتار ھونے کا خطرھ، چند ایرانیوں کا دشمن کے ھاتھوں گرفتار ھونے سے کھیں زیادہ خطرناک ھے، اگرچہ وہ لوگ مشکلات میں ھیں لیکن ان کا اجر خداوند عالم کے نزدیک محفوظ ھے، لیکن اگر ھمارے جوان و نوجوان خصوصاً شھداء واسیروں کے کی اولاد یونیورسٹیوں میں دین سے منحرف ھوجائیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ھے؟ کیا فکری گرفتاری مزید خطرناک نھیں ھے؟ کیا اس سلسلے میں کسی کی کوئی ذمہ داری نھیں ھے؟(ممکن ھے کوئی ھم کو مقصر ٹھھرائے اور کھے کہ آپ غلط سوچتے ھیں اگرانسان آزاد ھے تو پھر اس کو اپنی رائے کا اظھار کرنا چاھیے، تو پھر ھمیں بھی حق ھونا چاھیے کہ ھم بھی اپنی رائے کا اظھار کریں چونکہ ھم بھی تقریباً 50 سال سے دینی علوم کی تعلیم و تعلم میں مشغول ھیں اور ھم بھی اپنی رائے کا اظھار کرسکتے ھیں)ھماری بحث یہ تھی کہ ھماری اس بات( کہ معاشرے میں اسلامی و الھٰی قوانین کو حاکم ھونا چاھیے) کے مقابلے میں بعض لوگوں شبھات و اعتراض کئے تھے اور ھم بھی اس چیز کی طرف اشارہ کیا تھا، بعض لوگوں کا کھنا تھا کہ معاشرے میں اسلامی احکام کا جاری ھونا انسان کے مسلّم حقوق سے ھم آھنگ نھیں ھے، انسان کے مسلّم حقوق میں سے ایک آزادی ھے تو پھر فکر، دین، سیاست اور بیان میں آزادی ھونا چاھیے، طبیعی طور پر ھر انسان یہ حق رکھتا ھے کہ کسی بھی دین کو منتخب کرے، اور اس کو یہ اختیار ھے کہ اپنے دین کو بدل دے، اور اس کو یہ بھی حق ھے کہ اپنے نظریات و عقائد کی ترویج و تبلیغ کرے، اگر آپ یہ کھیں کہ اس ملک میں اسلامی قوانین کا حاکم ھونا ضروری ھے، تو بعض حضرات ایسے بھی ھیں جوان قوانین کو نھیں چاھتے، کیا ان کو حق ھے کہ اپنی رائے کا اظھار کریں اور کھیں کہ ھم ان قوانین کو نھیں چاھتے، ظاھر ھے کہ جو لوگ دیں کے منکر ھیں ان کی طرف سے اس طرح کے سوالات پر کوئی تعجب نھیں ھے لیکن افسوس تو ان لوگوں پر ھوتا ھے کہ جو دیندار ھونے کا دم بھرتے ھیں اور اس طرح کے سوالات پیش کرتے ھیں یھاں تک کہ اپنے ساتھ اسلامی القاب بھی شامل کرتے ھیںیا خود کو امام خمینی کا پیرو کھلاتے ھیں!!

3۔ملکی اخباروں میں مغربی غلط آزادی کی تبلیغحد تو یہ ھے کہ بعض اخباروں میں (کبھی مزاحاً اور کبھی حقیقتاً کبھی کسی کے قول کو نقل کرتے ھیں کبھی کسی لڑکے یا لڑکی کی طرف سے)لکھتے ھیں کہ کیوں صرف مرد کیلئے چند بیویوں کا رکھنا جائز ھے لیکن عورتوں کیلئے چند شوھروں کا رکھنا جائز نھیں ھے، یا یہ کہ کبھی کبھی مشورھ، پیش کیا جاتاھے کہ چند مرد مل کر کسی ایک عورت سے شادی کر سکتے ھیں! توجہ رھے کہ یہ باتیں کسی کیمونسٹ ملک کے اخباروں کی نھیں ھے بلکہ جمھوری اسلامی ایران کے اخباروں میں ایسی باتیں لکھی جاتی ھیں! یا کسی ایک اسلامی یونیورسٹی میں اس طرح کی تقریر ھوتی ھے اور خود کو کسی اسلامی ادارہ سے منسلک ھونے کے اعتبار سے تقریر ھوتی ھے، اور کھا جاتا ھے کہ آج کل رھبری (ولی فقیھ) کی مخالفت، پیغمبر کی مخالفت میں کوئی حرج ھی نھیں بلکہ اگر چاھیں خدا کے خلاف بھی مظاھر کریں تو کوئی ایسا قانون نھیں کہ ان کو روک سکے! یہ باتیں اگر کسی غیر اسلامی یا کسی کافر و مشرک سے سنی جائیں تو کوئی جائے تعجب نھیں لیکن اگریھی باتیں جمھوری اسلامی ایران، حاکمیت اسلامی اور حاکمیت ولایت فقیہ میں یونیورسٹیوں کے درمیان کی جائیںاور کوئی بھی ان کے مقابلہ کیلئے کھڑا نہ ھو تو واقعاً شرم آور ھے، اور اگر کوئی طالب علم اعتراض کرے تو اس کو اھمیت نھیں دی جاتی۔اس وجہ سے ھم نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا، اور یہ اعلان کرتے ھیں کہ واقعاً یہ چیزیں بدعت اور خطرناک ھیں اور اسلام کے مخالف ھیں اور اگر کوئی شخص اپنی تقریروں میںایسی باتیں کرناچاھتا ھے تو کم از کم اسلام کے نام سے ایسی باتیں نہ کرے،تاکہ معلوم ھوجائے کہ اسلام کیا ھے اور کفر کیا ھے اور ھر انسان اپنی مرضی کے مطابق اس کا انتخاب کرے، یہ آزادی دین اور آزادی بیان مغربی ثقافت کا ثمرہ ھے یہ ایسا انپورٹ پھل ھے کہ جو ظاھر میں بھت عمدہ اور میٹھا ھے لیکن اندر سے زھریلا ھے، یہ پھل مغربی ثقافت کے درخت کے مناسب ھے لیکن ھمارے اسلامی ثقافت سے اس صورت اور اس وسعت میں بالکل بے تکا ھے۔مغربی ماحول اور کلچر کی عکاسی کرنے کے لئے ھمیں مجبوراً کھنا پررھا ھے کہ آج کل مغربی ممالک میں مذھب کو صرف ایک پارٹی کے نظریہ کی طرح دیکھا جاتا ھے مثلاً کسی ملک میں چند پارٹیاں ھوںاور وھاں کوئی نئی پارٹی وجود میں آئے، یا کوئی کسی دوسری پارٹی میں چلا جائے تو یہ کام ھمارے لئے باعث تعجب نھیں ھے، مذھب کے سلسلے میں بالکل اسی طرح کا ماحول مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں موجود ھے جھاں ھر روز ایک نیا مذھب اور نیا فرقہ پیدا ھوتا ھے یہ مسئلہ واقعاً ھمارے لئے باعث تعجب ھے، تقریباً سو سال پھلے ایک شخص پیدا ھوا جس کا نام “باب” تھا اس نے دعویٰ کیا کہ “میں ایک نیا اسلام لے کر آیا ھوں، اور میں شیعوں کا امام زمانہ ھوں جس نے ظھور کر لیا ھے” اس بات پر سب کو تعجب ھوا کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ کوئی ایک نیا مذھب لے کر آئے (البتہ ایران سے باھر خصوصاً امریکہ میں اس باطل و بے بنیاد مطلب کو جدید اسلام کے نام سے ترویج کیا جاتا ھے، اور وھاں کوئی جائے تعجب نھیں ھے) لیکن امریکھ، کناڈا اور یورپی ممالک میں ھر سال چند جدید مذھب اور فرقے پیدا ھوتے ھیں، مثال کے طور پرعیسائیت کہ اصل مذھب ارنوڈوکس، کاٹولیک اور پروٹسٹان ھیں لیکن صرف پروٹسٹاں کے پانچ سو سے زائد فرقے مغربی مالک میں موجود ھیں۔جس وقت ھم نے سال گذشتہ امریکہ لاتین کا سفر کیا تو ھم نے دیکھا کہ امریکہ میں کئی نئے مذھب وجود میں آچکے ھیں اور ان کے مبلّغ تبلیغ کرنے میں مشغول ھیں، وھاں اس طرح کے مسائل ھوتے رھتے ھیں جب کسی اخبار میں اعلان ھوتا ھے کہ ایک نیا فرقہ پیدا ھوچکا ھے اور اس جدید فرقہ کا کشنیس ( اس مذھب کا عالم) پیدا ھو چکا ھے اور اس کی کلیسا بن چکی ھے تو وھاں کوئی تعجب نھیں ھوتا، اور لوگ بھی بھت آسانی سے اس فرقہ میں شامل ھو جاتے ھیں، اسی کو “مذھب کی آزادی”کھا جاتا ھے۔

4۔اسلامی پروٹسٹانیزم، اسلام پر ایک حملہبعض لوگوں کی توقع اور امید یہ ھے کہ اسلامی جمھوری ایران میں بھی مذھب جیسی آزادی ھونا چاھیے اس بنا پر بھت سے لوگوں نے مشورہ پیش کیا کہ اسلام میں بھی ایک مذھب پروٹسٹانیزم ھونا چاھیے ھماری اصطلاح کے مطابق اس مشورہ کو سب سے پھلے فتح علی آخوند زادہ (آخوند اف) نے پیش کیا، اس کے بعد دوسرے دانشمند نے بھی اپنی اپنی تقریروں میں اس مسئلہ کو بیان کیا، بعض مورخوں، رائیٹروں نے اپنی کتابوں میںلکھا اور مشورہ پیش کیا کہ اسلام میں بھی ایک پروٹسٹانیزم ھونا چاھیے، اور آج کل امریکہ میں اس طرح کی تبلیغات ھوتی رھتی ھیں کہ ایران میں بھی ایک دوسرا “مارٹن لوئر” پیدا ھو جو ایک نیا پروٹسٹاں اور جدید اسلام کو تشکیل دے ، تاکہ آج کی اس ماڈرن زندگی کے مناسب ھواور یہ 1400 سال پرانا اسلام آج کی زندگی کیلئے مناسب نھیں ھے اگر امریکہ ایسا مشورہ پیش کرے تو کوئی تعجب کی بات نھیں ھے۔کیونکہ ان کا مقصد اسلام کو ختم کرنا ھے خود ان کے کھنے کے مطابق انھوں نے اس سلسلے میں پروگرام بنا رکھے ھیں اور اس کے لئے مخصوص کوٹہ بھی معین کر رکھا ھے اور بارھا اس چیز کا اقرار بھی کیا ھے کہ اس زمانے میں ان کا اصلی دشمن اسلام ھے لیکن تعجب کی بات تو یہ ھے کہ ان کی تبلیغات کا اثر آھستہ آھستہ ھمارے ملک میں بھی ھوتا جارھا ھے، اور بعض لوگ ایسے ملتے ھیں جو اخباروں اور ماھانہ رسالوں میں اسلام کے ضروری مسائل پر اعتراض کر ڈالتے ھیں مثال کے طور پر کیوں ارث میں مرد و عورت کا حصہ برابر نھیں ھے یا یہ کہ عورت چند شوھر کیوں نھیں رکہ سکتی وغیرہ وغیرہ اور کبھی کبھی تو اسلام کے ضروری احکام کا مذاق بناتے ھیں۔آپ حضرات کو یا د ھوگا کہ انقلاب کے شروع میں جب قصاص کے بارے میں بحث ھوئی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ قصاص کی بحث انسانیت سے دور ھے ،اس وقت امام خمینی ۺنے فرمایا تھا کہ اگر کوئی جانتے ھوئے ایسی باتیں کرتا ھے تو ان کی مسلمان بیویاںان پر حرام ھےں ،اور انکا مال مسلمان ورثاء میں تقسیم ھوگا ،لیکن ان کی جان قابل احترام نھیں ھے، البتہ ارتدادکے احکام صرف قصاص کے منکرمیں منحصر نھیں ھیں ،لیکن اگر کوئی اسلام کے کسی بھی ضروری حکم کا انکار کرے تو وہ مرتد ھوجاتاھے،لیکن پھربھی دیکھنے میں آتا ھے کہ بعض لوگ بغیر کسی شرم وحیاء کے اخباروں ، رسالوں یھاں تک کہ کبھی ان اخباروں کے ذریعہ کہ جو بیت المال سے نکلتے ھیں ،ایسی باتوںکو کھتے ھین اور اسلام کے ضرور ی احکام کا انکار کرتے ھیں۔واقعاً کوئی ھونا چاھیے جو ان لوگوں کو یاددھانی کرے کہ امام خمینی کا نظریہ صرف قصاص کے منکروں سے مخصوص نھیں ھے (بلکہ ھر اس شخص کو شامل ھے جو اسلام کے کسی بھی ضروری احکام کا منکر ھو) اور کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ھے کہ وہ مسائل جو شیعہ و سنی دونوں فرقوں میں متفق علیہ ھیں اور سنیوں نے بھی اس کی مخالفت نھیں کی، ان پر بھی اعتراض کرتے ھیں یا ان کا مذاق بناتے ھیں!کیا باصلاحیت مراجع اس طرح کے مسائل کی تحقیق وبررسی کرنے کے ذمہ دار نھیں ھیں؟ یا کم از کم یہ ضروری نھیں کہ کوئی یاددھانی کرائے کہ ایسا خطرہ آئندہ کی نسل کیلئے موجود ھے؟ جن لوگوں نے امام خمینی کے بیان کو نھیں سنا ھے، اور ان کے درس میں شرکت نھیں کی ھے کیا ان کیلئے خطرہ نھیں ھے کہ وہ جمھوری اسلامی ایران کے اخباروں میں لکھے گئے ان مطالب کے تحت تاثیر قرار پائیں اور سوچیں کہ ان نظریات سے ھماری اسلامی حکومت بھی متفق ھے اور یہ اسلامی نظریات ھیں؟ کم از کم کوئی توھو جو اُن کو بتائے کہ ان نظریات کا اسلام سے کوئی ربط نھیں ھے۔بھر حال یہ نظریہ واقعاً خطرناک ھے کہ دین ایک طرح کا سلیقہ ھے اور انسان جس دین کو چاھے انتخاب کرے، اور اس کو عوض کرنا چاھے تو عوض کرلے،مغربی ممالک میں ایسا ھوتا ھے کہ ایک جوان اپنے دوست کے ساتھ کسی ایک کلیسا میں جاتا ھے اور اس کا دوست کھتا ھے کہ میں فلاں کلیسا کو بھت دوست رکھتا ھوں جس کے نتیجہ میں وہ اپنے مذھب کو بدل دیتا ھے اس کا دوست بھی تحت تاثیر قرار پاتا ھے اور اپنے دوست کی پیروی کرتے ھوئے وہ بھی اپنا مذھب بدل لیتا ھے کیا مذھب ایک لباس کی طرح ھے،کہ جب چاھا پھن لیا اور جب چاھا بدل لیا یا اس کا ماڈل عوض کر لیا، اسلام کی بنیاد اس چیز پر نھیں ھے کہ انسان کی سعادت و شقاوت دلخواہ اور مختلف طریقوں سے حاصل ھو سکے، تاکہ یہ نتیجہ نکل سکے کہ دین ایک طرح کا سلیقہ ھے کبھی یہ دین کبھی دوسرا دین، کبھی وہ مذھب جس کو بھی چاھو انتخاب کرلو، اور حکومت بھی لوگوں کو اس طرح کی آزادی دے، اسلام دین کو زندگی کا اھم مسئلہ مانتا ھے اور دنیا و آخرت کی سعادت و شقاوت کو صحیح دین کے انتخاب کرنے میں جانتا ھے۔لھٰذا اس طرح کی گفتگو کرنے میں یہ خطرہ موجود ھے کہ جس کو احساس کرتے ھیں اور کبھی کبھی اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے ھیں افسوس کہ بعض لوگ غفلت کرتے ھیں یا خود کو غافل بنا لیتے ھیں، اب ان بحثوں کوبیان کرنے کی وجہ ھمارا ان انحرافات سے مقابلہ کرنا اور اپنی اس ذمہ داری کو پورا کر نا ھے۔

5۔حق مسلّم کا مفھوم حقیقییھاں پراس مسئلہ کی وضاحت کرنا بھت ضروری ھے کہ طبیعی اور حق مسلم سے کیا مراد ھے؟ اور آزادی کس معنی میں انساں کا حق مسلم ھے؟ جن ضروریات کا انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ھے اس کو حق طبیعی کھا جاتا ھے لھٰذا گفتگو کرنا ،اپنی رائے کا اظھار کرنا یہ انسان کی طبیعت کا تقاضا ھے اور کسی کو بھی اس کو منع کرنے کا حق نھیں ھے۔ھم نے عرض کیا کہ کھانا پینا انسان کی طبیعت کا تقاضا ھے بلکہ انسان کا سب زیادہ طبیعی ترین حق کھانا پینا ھے لیکن صرف اس وجہ سے کہ کھانا پینا انسان کا حق طبیعی ھے تو کیا وہ دوسروں کے مال کو کھاسکتا ھے؟ اور کیا کسی بھی قانون کو یہ معین کرنے کا حق نھیں ھے کہ کونسی چیز کھانا حلال ھے اور کون سی چیز کا کھانا حرام ھے؟ کس کے مال کو کھا سکتا ھے اور کس کے مال کو نھیں کھاسکتا، کیا کوئی عقلمند انسان اس بات کو قبول کر سکتا ھے کہ انسان آزاد ھے اور اپنی مرضی سے جو بھی چاھے کھائے کسی کا بھی مال ھو اس کو تناول کرے؟ اس طرح گفتگو کرنا بھی ھرانسان کا مسلم حق ھے لیکن اس کو یہ حق نھیں کہ جو بھی منہ میں آجائے وہ بکتا پھرے، جس طرح قانون کو یہ اجازت ھے کہ وہ یہ کھے کہ کیا کھائے اور کیانہ کھائے؟ جس طرح دین کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ یہ کھے کہ خنزیر کا گوشت یا الکحل والی چیزوں کو نہ کھائے، جبکہ کھانا پینا انسان کا طبیعی حق ھے، گفتگو کے بارے میں بھی اس طرح ھے گفتگو کی قسم ،زمانہ اور جگہ سب قانون معین کرتا ھے جس کو تقریبا ً تمام دنیا نے قبول کیا ھے لیکن مغربی حضرات دین کے سلسلے میں کھتے ھیں کہ جو چاھیں کھیں کیونکہ دین ایک ذاتی امر اور ایک سلیقہ ھے انسان کی حقیقی زندگی سے اس کا کوئی ربط نھیں ھے بلکہ انسان کے خدا سے رابطہ کا نام دین ھے، اور خدا سے یہ رابطہ مختلف طریقوں سے ھو سکتا ھے، انسان کوئی بھی طریقہ اپنا سکتا ھے۔یہ دین بھی صراط مستقیم ھے اور وہ دین بھی صراط مستقیم ھے، بت پرستی بھی صراط مستقیم ھے اور اسلام بھی صراط مستقیم ھے!! لیکن اسلام کا یہ نظریہ نھیں ھے ،کس اسلام کا، اس اسلام کا جس کو حضرت محمد مصطفیٰ 1400 سال پھلے لے کر آئے تھے نہ کہ “باب” اور “مارٹن لوٹر” جیسے کذاب لوگوں کا اسلام ، پھر ھم تو اس اسلام کی بات کرتے ھیں جس کوحضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ھیں۔

6۔اسلام کی حقیقی قرائت اور اس کا صحیح مطلببعض لوگ کھتے ھیں کہ ھم بھی اس اسلام کو مانتے ھیں، لیکن اس اسلام کی مختلف قرائتیں ھیں آپ ایک قرائت کو بیان کرتے ھیں،تو کچھ لوگ دوسری قرائت بھی بیان کرتے ھیں، یہ نظریہ بھی مغربی ثقافت کا ایک ثمرہ ھے کہ اسلام کیلئے مختلف قرائت کے معنی کرتے ھیں، جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ کینیڈا میں چند سال پھلے عیسائیت کا ایک فرقہ بنا، اور اس فرقے کے پاپ سے سوال کیا گیا کہ ھم جنس بازی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ھے؟ تو اس نے جواب دیا تھا کہ اس وقت تومیں اپنی رائے کا اظھار نھیں کر سکتا لیکن میرا یہ مشورہ ھے کہ انجیل کو دوبارہ پڑھا جائے! کیونکہ تورات و انجیل میں اس کا کام کی سخت مذمت کی گئی ھے جس طرح اسلام نے بھی اس کی مذمت کی ھے،جب اس سے سوال ھو اکہ تو اس مقدس کتاب کا احترام کرتے ھیں آپ اس بارے میں اپنی نظر بیان کریں؟ وہ اگرچہ ھم جنس بازی کا حامی تھا لیکن صاف صاف بیان نھیں کر سکتا تھا تو اس نے جواب دیا انجیل کا پھر سے مطالعہ کرنا چاھئے!!اس طرح یہ لوگ بھی کھتے ھیں کہ اسلام اور قرآن کی دوبارہ قرائت کی جائے،ان کے جواب میں ھم یہ عرض کرتے ھیں کہ ھم لوگ شیعہ و سنی علماٴ کی 1400 سال پرانی قرائت کو معتبر جانتے ھیں ھم جس اسلام کا دم بھرتے ھیں یہ وھی اسلام ھے کہ جس کی آئمہ معصومین علیھم السلام نے قرائت کی ھے اور ان ھی کی اتباع میں 14 صدی کے علماء نے اسلام کی قرائت کی ھے، یھی قرائت ھمارا معیار وملاک ھے، اور اگر اسی اسلام میں جدید قرائت پیدا ھوجائیں اور ان کی بنا پر اسلامی احکامات بدل دئےے جائیں تو ھم اس اسلام کو نھیں مانتے، اور نہ ھی ایسے اسلام کو پسند کرتے ھیں اور ھماری نظر یہ کے مطابق کوئی بھی عقلمند مسلمان “باب” اور “مارٹن لوٹر” جیسے افراد کا اختراع کئے ھوئے اسلام کو پسند نھیں کرے گا۔ھم جس اسلام کو مانتے ھیں اور اس کی بھر پور حمایت کرتے ھیں اس کے منابع قرآن، سنت پیغمبر و آئمہ معصومین علیھم السلام ھیں ، جنھیںشیعہ اور اھل سنت فقھاء چودہ سو سال سے بیان کرتے آرھے ھیں،خصوصاً وہ احکام کہ جن میں شیعہ سنی میں کوئی اختلاف نھیں ھے، یہ اسلام ھم سے کھتا ھے کہ جس طرح کھانے پینے میں قوانین کی رعایت ضروری ھے اسی طرح گفتگو کرنے میں بھی قوانین کی رعایت ضروری ھے اسلام کوئی لباس تو ھے نھیں کہ جس کو آج پھنا اور دوسرے دن اتار پھینکا، دین کے سلسلے میں تحقیق و جستجو کرناضروری ھے اور دین حق کو قبول کرنا چاھیے۔اسلام کے دامن میں اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے اتنی دلیلیں موجود ھیں کہ کوئی یہ نھیں کھہ سکتا کہ میں نھیں سمجہ سکا کہ کون سا دین حق ھے؟ مگر یہ کہ کوئی صحیح طریقہ سے تحقیق و مطالعہ نہ کرے، اگر کوئی “میکرونیزی جزائر” کا رھنے والا یہ کھے کہ مجہ پر اسلام کی حقانیت واضح نھیں ھوسکی ھے، تو شاید اس کی یہ بات قبول کر لی جائے لیکن اگر کوئی 1400 سالہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے علماء اسلام کی مھم ترین کتابوں کے ھونے کے باوجود بھی یہ کھے کہ میں اسلام کو نھیں پھچان سکا تو کوئی بھی اس کی باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ھوگا۔بھرحال جس اسلام کو ھم مانتے ھیں وہ یہ کھتا ھے کہ جس طرح آپ نے کھانے پینے کی چیزوں کی حد بندی کررکھی ھے اسی طرح گفتگو کرنے میں بھی قوانین کی رعایت کرنا ضروری ھے،یعنی کسی کو یہ حق بالکل نھیں ھے کہ جو چاھیں کھہ ڈالیں، بلکہ اسلامی قوانین کے تابع ھونا ضروری ھے، اگر اسلامی قوانین کے برخلاف عمل کیا تو آپ کا یہ کام اسلامی معاشرے کیلئے نقصان دہ ھے، جس طرح آپ حضرات بھی جانتے ھیں کہ گمراہ کنندہ اور کتب ضالّہ کی خرید وفروخت حرام ھے، اسلام اس چیز کی اجازت نھیں دیتا کہ جن لوگوں میں حق و باطل کے شناخت کی صلاحیت نھیں ھے وہ کسی بھی کتاب کو خریدیں اور پڑھنا شروع کردیں، ھر کس و ناکس کی تقریروں کو سنیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں صاف صاف ارشاد ھوتا ھے:(وَاِذَا رَاٴَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِی اٰیَاتِنَا فَاٴَعْرَضَ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِی حَدِیْثٍ غَیْرِہ..).( 3)”او رجب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ھماری آیتوں میں بے ھودہ بحث کررھے ھیں تو ان (کے پاس) سے ٹل جاؤ یھاں تک کہ وہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات میں بحث کرنے لگیں”یا مومنین کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے جو لوگ دین پر اعتراض کرتے ھیں ان کی صحبت میں نہ بیٹھو:(وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ اٴَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیَاتِ اللَّہ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَءُ بِھَا فَلا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِی حَدِیْثٍ غَیْرِہ اِنَّکُمْ اِذاً مِثْلُھُمْ اِنَّ اللَّہ جَامِعُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْکَافِرِیْنَ فِی جَھنَّمَ جَمِیْعاً…)(4)”(مسلمانو) حالانکہ خدا تم پر اپنی کتاب قرآن میں یہ حکم نازل کرچکا ھے کہ جب تم سن لو کہ خدا کی آیتوں کا انکار کیا جاتا ھے اور اس سے مسخرا پن کیا جاتا ھے تو تم ان (کفار) کے ساتھ مت بیٹھو یھاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور کرنے لگیںورنہ تم بھی اس وقت ان کے برابر ھوجاؤ گے اس میں تو شک ھی نھیں کہ خدا تمام منافقوں اور کافروں کو (ایک نہ ایک دن) جھنم میں جمع ھی کرے گا”بس وہ لوگ جو اسلام کا دم بھرتے ھیں لیکن اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ھیں، اور اسلام کے دشمنوں کی باتوں کو رائج کرتے ھیں یہ وھی منافقین ھیں جن کا ٹھکانہ بھی کافروں کی طرح جھنم ھے، ایک بار پھر تاکید کرتا ھوں کہ اسلام فرماتا ھے:جاؤ اور حقیقت کو تلاش کرو اس کے بعد دشمنوں سے بحث کرو اور اسلام کے تعلیم شدہ حقائق کے ذریعہ ان کو مغلوب کرو، لیکن جب تک تم میں اتنی صلاحیت نہ ھو کہ اسلامی عقائد سے اچھی طرح دفاع کر سکو، تو پھر تم گمراہ اور انسانی شیاطین کی ھم صحبت نہ ھو، اس کشتی گیر کی طرح کہ جس کو پھلے تمرین اور پریکٹس کرنا ھوتی ھے تب وہ کشتی کے میدان میں اترتا ھے اور کشتی لڑتا ھے اور وہ جوان کہ جس نے ابھی تک تمرین نھیں کی ھے وہ کس پھلوان سے کشتی نھیں لڑسکتا، چونکہ پھلوان اس کو ذرا سی دیر میں زمین پر دے مارے گا، اور اس کی ھڈیاں ٹوٹ جائیں گی، یہ آزادی کی مخالفت نھیںھے بلکہ اپنے جوانوں کو ایک نصیحت ھے کہ پھلے اسلامی علوم اور اسلامی معارف کو حاصل کریں، اس کے بعد دشمن سے بحث کریں۔بھرحال جس اسلام کو ھم پھچانتے ھیں اس کی آزادی محدود ھے، اور اس نظریہ کا مخالف ھے کہ جب گفتگو کرنے کو انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ھے لھٰذا گفتگو کرنا آزاد ھو ورنہ تو انسان کی دوسری خواھشات بھی ھیں اور وہ بھی انسان کے طبیعی حق میں شمار ھوتی ھیں مثلاً جنسی خواھشات کھانا پینا ان میں بھی کوئی محدودیت نھیں ھونا چاھیے، جس طرح کھانے پینے میں محدودیت کا قائل ھونا کسی بھی عقلمند انسان کو قابل قبول نھیں ھے گفتگو کرنے میں بھی اس طرح ھے، لھٰذا چونکہ گفتگو انسان کی فطرت کا تقاضا ھے اس کو دلیل نھیں بنایا جاسکتا کہ کوئی حد و قانون نہ ھو لھٰذا عقل اور دین ان حدود کو بیان کرنے میں اور اس کی حدیں معاشرے کی مادی اور معنوی مصالح ھیں کہ جن کو دین نے بیان کر دیاھے۔

7۔ شرعی آزادیشاید آپ حضرات نے اخباروں میں پڑھا ھو کہ بعض لوگوں نے ھماری باتوں پر اعتراضات کرتے ھوئے کھا ھے کہ فلاں صاحب مغالطہ کرتے ھیں ھم آزادی کو مطلق نھیں کھتے ھم تو یہ کھتے ھیں کہ کچھ جائز آزادی ھونا چاھیے۔ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ جائز آزادی سے آپ کی مراد کیا ھے؟ کیا آپ کی مراد وہ چیز ھے کہ جس کو شرع پسند کرتی ھے، لغت میں مشروع کے دو معنی بیان کئے گئے ھیں:1۔مشروع یعنی جس کو شریعت نے جائز کیا ھے (البتہ آپ کی مرادیہ ھونا مشکل ھے کیونکہ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ھیں وہ شریعت کے زیادہ پابند نھیں ھوتے) بھر حال اگر مشروع کا مطلب یہ ھے کہ جس کو شرع پسند کرتی ھو تو اسی کو تو ھم بھی کھتے ھیں کہ آزادی شرعی قوانین کے تحت ھونا چاھئے۔2۔ مشروع کے دوسرے معنی از لحاظ قانون جائز ھو اس معنی کے لحاظ سے بھی جیسا کہ ایران کے قانون اساسی میں بیان ھواھے قانون کو اسلام کے موافق ھونا چاھیے، ھمارے قانون اساسی اس بات کی عکاسی کرتے ھیں کہ تمام قوانین واحکام اسلام کے موافق ھونا چاھیں، اور قانون اساسی میں فقھائے شوارئے نگھبان کا فلسفہ ھی یھی ھے کہ وہ قوانین جو پارلیمنٹ میں بنائے جاچکے ھیں ان کی تحقیق کریں کہ یہ قوانین اسلام کے موافق ھیں یا نھیں؟ کیونکہ پارلیمنٹ کے تمام ممبران (اقلیت کے نمایندوں کے علاوہ کہ ان کے حقوق بھی محفوظ ھیں) مسلمان، مومن اور متقی ھیں، لیکن ممکن ھے کہ یہ ممبران کبھی کبھی غفلت کر بیٹھیں اور اس قانون کو اپنی رائے دیں کہ جو اسلام کے مخالف ھو، یعنی پارلیمنٹ کے بنائے ھوئے قوانین شورای نگھبان میں جانچے جائیں کہ یہ قانون ،قانونِ اساسی اور اسلامی نقطہٴ نظر سے موافق ھیں یا نھیں؟ اور شورائے نگھبان پارلیمنٹ کے بنائے قانون کی تائید کرتے ھیں اور شورای نگھبان کے حقوق داناں مشورت قانون اساسی سے موافق ھونے کی تائید کرتے ھیں۔اگر ھمارا قانون اساسی قانون کے اسلامی ھونے کو ضروری نہ سمجھے تو پھر شورائے نگھبان کا کیا مطلب؟ اور یہ سب تاکید حاکمیت اسلام اور ولایت فقیہ کا قانون اساسی میں ھونے کا کیا مطلب ؟اس وقت کوئی جائے تعجب نھیں کہ کوئی حقوق دان کے عنوان سے کھے چونکہ قانون اساسی کھتا ھے آزادی کی رعایت کی جائے تو پھر کوئی بھی اس آزادی کو محدود نھیں کرسکتا، قانون اساسی کھتا ھے کہ آزادی مشروع ھو یا نا مشروع ؟ اور آپ کھتے ھیں مشروع آزادی؟مشروع آزادی یعنی کیا ؟اگر مشروع شرع سے بنا ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ آزادی جس کو شرع اجازت دیتی ھو اور اگر مشروع قانون ھو تو پھر بھی قانون اساسی کے مطابق وہ آزادی کہ جن کو شرع اور قانون نے تائید کیا ھو مشروع اور جائز آزادی ھیں۔

8۔دین اور قانون آزادی کو محدود کرتے ھیں۔آزادی قانون کے مافوق نھیں ھو سکتی،لیکن جو لوگ کھتے ھیں کہ آزادی دین اور قانون سے بالا تر ھے ، تو پھران سے ھمارا یہ سوال ھے کہ اگر ایسا ھے تو پھر دین اور قانون کس لئے ھیں ؟ حقیقت قانون کیا ھے ؟ کیا قانون اس کے علاوہ ھے کہ کھے فلاں پروگرام خاص قوانین کے تحت ھو،فلاں کاانجام دیں اور فلاں کام انجام نہ دیں۔مجبوراًگذشتہ مطالب کی یاددھانی کرنا ضروری ھے کہ ھر قانون صاف صاف یا اشارہ کے طور پر یہ کھتا ھے کہ انسانی کردار کو محدود ھونا چاھیے اور خاص دائرے میں انجام پائیں، لھٰذا قانون کا کام ھی آزادی کو محدود کرنا ھے، اگر دین اور قانون آزادی کو محدود کرنے کا حق نہ رکھتے ھوں تو پھر دین اور قانون کا ھونا بے کار ھے، چونکہ دین اجتماعی و سیاسی مسائل پر مشتمل ھوتاھے اور انسان کے اجتماعی و سیاسی امور کو محدود کرتا ھے اور دین کا حکم ھوتا ھے کہ یہ امور خاص قوانین کے تحت انجام پائیں اور اگر دین کے معنی اس کے علاوہ ھوں تو پھر دین کی کیا ضرورت ھے؟اگر دین اس وجہ سے آیا ھو کہ ھر شخص اپنی مرضی کے مطابق کام کرے تو پھر دین کا کیا فائدھ؟ دین کی جایگاہ و مقام کھاں ھے؟ دین کا وجود بالفاظ دیگر قانون انسان کی آزادی کو محدود کرتے ھیں، لھٰذا آزادی کو دین اور قانون سے اوپر کھنا باطل ھے۔جی ھاں ممکن ھے کہ بعض حضرات دین کی وجہ سے مشروع آزادی سے بھی روکیں اور جس چیز کو خدا نے حلال کیا ھے خرافات و قومی رسم و رواج کی وجہ سے حرام قرار دیں، جیسا کہ افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ آج بھی ھمارے ملک کے مختلف مقامات پر بعض قومیں اور عشائری قوموں میںکہ جس نے خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کر رکھا ھے ،اور اسی طرح ھمارے معاشرے میں اب بھی خدا کی حلا ل کردہ چیزوں کو برا سمجھا جاتا ھے، اور اگر ایسا نہ ھوتا تو بھت سی جنسی برائیاں ختم ھو جاتیں، حضرت امیرالمومنین علیھم السلام نے فرمایا:”لولا ما سبق من ابن الخطّاب فی المتعة ما زنا الّا شقی..”.(5)”اگر عمر متعہ کو حرام نہ کرتا تو کوئی بھی زنا نہ کرتا مگر یہ کہ شقی ھو” افسوس کہ ابھی بھی اس حلال خدا کو برا سمجھا جاتا ھے جو بھت سی مشکلات کو ختم کرنے والا ھے ھاں اگر کوئی شخص دین کے نام پر خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا چاھے،تو یہ کام بھی برا ھے نہ صرف یہ کہ برا ھے بلکہ حرام اوربدعت ھے، جس طرح اس کے بر عکس خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرنا بھی بدعت ھے:” انّ اللّہ یحبّ ان یوٴخذ برخصہ کما یحبّ ان یوٴخذ بعزائمہ..”(6)خداوند عالم جس طرح دوست رکھتا ھے کہ لوگ مباح اور حلال کردہ چیزوں سے فیض اٹھائیںاسی طرح دوست رکھتا ھے کہ واجبات کو انجام دیں اور محرمات کو ترک کریں۔تو معلوم یہ ھوا کہ دین یا قوم کے نام پر خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرنے کا کسی کو کوئی حق نھیںھے، اور آزادی کو اس طرح محدود کرنا حرام و بدعت ھے،اور کوئی بھی اس کا موافق نھیں ھے لیکن اگر اس آزادی سے مراد نا مشروع آزادیاں ھیں تو کسی کو یہ توقع نھیں ھونی چاھیے کہ دین نا مشروع آزادی کی بھی مخالفت نہ کرے!خلاصہ کلام یہ ھوا کہ آزادی دو حال سے خا لی نھیں: یا مشروع ھیں، یا نا مشروع، اگر مشروع ھیں تو دین نے ان کو جائز قرار دیا ھے، اور اس کی کوئی مخالفت نھیں کی ھے،اور پھر یہ کھنا بھی صحیح نھیں ھے کہ دین اور قانون کو یہ حق نھیں ھے کہ معاشرے سے مشروع آزادی کو بھی چھین لے، اور اگر کوئی دین اس کی اجازت دے تو پھر کس طرح کھا جا سکتا ھے کہ جس چیز میں ھم نے اجازت دی ھے اس کو انجام نہ دیں؟ یہ تو خود ایک تناقض ھے لیکن اگر آزادی نا مشروع ھو، اور دین نے اس کو منع کیا ھو تو پھر یہ بھی صحیح نھیں ھے کہ اس کو منع کرنے کا حق نہ رکھتا ھو اور یہ بھی ایک طرح کا تناقض ھے۔

۹۔آزادی کو محدود کرنے کی ضرورتھماری مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ھوا کہ ھم آزادی کو شریف چیز، خدائی عطا اور انسان کی معنوی و مادی ترقی کیلئے ایک شرط جانتے ھیں، ھمارا عقیدہ ھے کہ اگر انسان آزادی نہ رکھتا ھو اپنے اعتبار سے دین کا انتخاب اور اس پر عمل نہ کرے، تو پھر اس کے اعتقاد کی کوئی قیمت نھیں ھوگی، انسان کی ترقی اور کمال اسی میں ھے کہ دین کو اپنے علم کے ذریعہ انتخاب کرے، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اشارہ ھوتا ھے:(لَا اِکْرَاہ فِی الدِّیْنِ…) (7)”دین میں کسی طرح کی زبردستی نھیں ھے”اجبار کا مطلب ھی یھی ھے، ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ آزادی خداوند عالم کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ھے لیکن ھر نعمت سے استفادہ کیلئے بھی حد معین ھے:(وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہ فَاٴُولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ…) (8)”اور جو خدا کی مقرر کی ھوئی حدوں سے آگے بڑھتے ھیں وہ ھی لوگ تو ظالم ھیں”اپنی حدود سے تجاوز کرنا شقاوت اور الھٰی نعمت کے چھن جانے کا سبب ھے،جو چیز انسان کی سعادت وکامیابی کا سبب ھے، اگراس سے تجاوز کیا جائے تو پھر یھی چیز اس کیلئے شقاوت و بدبختی کا سبب بن جاتی ھے، جب انسان کھانے پینے میں حد سے بڑہ جائے تو وہ بیمار ھو جاتا ھے اور کبھی کبھی مرنے کی نوبت بھی آجاتی ھے، جنسی شھوت کا ھونا بھی ایک خداداد نعمت ھے، وہ جب اپنی حد سے بڑہ جاتی ھے تو پھر معاشرے میں برائیاں پھیل جاتی ھیں اور کبھی کبھی معاشرے کی ھلاکت اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا ھونے کی باعث ھوتی ھیں. لکھنا، گفتگو کرنا بھی اس طرح ھے،ھمیں اس چیز کا حق نھیں ھے کہ صرف اس وجہ سے کہ انسان کی طبیعت گفتگو کا تقاضا کرتی ھے لھٰذا جو چاھے کھیں، جبکہ ان تمام چیزوں میں حدود کی رعایت کرنا ضروری ھے، ٹھیک ھے کہ اسلامی حکومت کو لوگوں کو مشروع آزادی دینا ضروری ھے لیکن اسلامی حکومت کو بھی نا مشروع آزادی کو روکنے کا حق ھے۔اخباروں کے بیان کردہ شبھات میں سے ایک شبہ یہ بھی ھے کہ ھم اور آپ (مولف) اس طرح گفتگو کرکے قانون اساسی اورقومی حاکمیت کو ختم کرنا چاھتے ھیں،ان کا کھنا یہ ھے کہ قانون اساسی کے مطابق ھر انسان اپنی زندگی کے مالک ھیں اور اگر ان کو مجبور کیا جائے کہ فقط دین کی رعایت کریں تو پھر انسان اپنی زندگی کا مالک نھیں! واقعاً یہ شبہ بڑا ھی فریب دینے والا ھے۔ھم ان کے جواب میں یہ عرض کرتے ھیں کہ کیا قانون اساسی میں صرف اس چیز کو بیان کیا گیا ھے؟ کیا اس قانون اساسی میں یہ نھیں ھے کہ حاکمیت و حکومت کا مالک خدا ھے؟ کیا اس قانون میںیہ نھیں ھے کہ معاشرے میں وہ قانون جاری ھوں جو اسلام کے موافق ھوں؟ کیا یہ چیزیں قانون اساسی میں نھیں ھیں کیا صرف قانون اساسی میں یھی ھے کہ لوگ اپنی زندگی پر خود حاکم ر ھیں؟ممکن ھے کوئی یہ کھے کہ یہ قانون اساسی کی یہ دو باتیں آپس میں ٹکراتی ھیں لھٰذا ان کے لئے تفسیر اور کسی راہ حل کی ضروت ھے، لیکن اگر واقعاً غور کیا جائے تو یہ ان دو باتوں کو سمجھنا آسان ھے جب پھلی اصل میں یہ کھا جاتا ھے کہ حاکمیت اور حکومت کا خدا مالک ھے اور دوسری اصل میں یہ کھا جاتا ھے کہ انسان اپنی زندگی پر خود حاکم ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ لوگ خدا کی حاکمیت کے زیر سایہ دین زندگی پر حاکم ھیں، لھٰذا اسلامی معاشرے کے علاوہ کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنا مذھب اور اپنا قانون ھم پر تھونپے،یعنی امریکہ کو اپنا قانون ھم پر نافذ کرنے کا کوئی حق نھیں ھے، ھمارے افراد خود اپنے لئے مفید قانون کو ووٹ دیں، اور ھمارے افراد نے ھی اسلامی قانون کو اپنا ووٹ دیا ھے۔ایک شخص” اھواز یونیورسٹی” میں اپنی تقریر کے دوران کھتا ھے: اگر لوگ خدا کے خلاف مظاھرہ کرنا چاھیں تو قانون کو ان کو روکنے کا کوی حق نھیں ھے؟! کیا انسانوں کی حکومت کا یھی مطلب ھے؟ کیا قانون اساسی اس چیز کو کھتا ھے؟ اگر کوئی قانون اساسی کو نہ جانتے ھوئے اس طرح کی باتیں کرے تو کوئی تعجب کی بات نھیں، تعجب تو ان لوگوں پر ھوتا ھے جو خود کو قانون داں کھلاتے ھیں، لیکن پھر بھی اس طرح کی باتیں کرتے ھیں!ممکن ھے کوئی یہ کھے ھم نھیں مانتے کہ جو آپ کھتے ھیں وھی قانون اساسی ھے، تو اس کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں کہ اگر قانون میں کسی طرح کی پیچیدگی ھے تو اس کی مفسّر شورائے نگھبان ھے اگر آپ اس قانون اساسی کو قبول کرتے ھیں تو بھی یہ قانون آپ کو تفسیر کرنے کی اجازت نھیں دیتا، اور پیچیدگی اور تعارض کے حل کو بھی خود ھی معین کرتا ھے اگر آپ اسی قانون اساسی کو مانتے ھیں تو اس کی تفسیر شورائے نگھبان سے پوچھئے، وہ شورائے نگھبان جو اسلام و قانون اساسی کی محافظ ھے، اور یہ شورائے نگھبان احکام اسلامی کی محافظت کیلئے نھیں ھے، اس وقت اگر آپ کی تائید ھوتی ھے تو پھر آپ اسلام پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ھیں۔بھرحال جو کچھ ھم نے بیان کیا اسلام کے دشمنوں کے بعض شبھات تھے جو مکڑی کے جالے سے بھی ضعیف و کمزور ھیں، اور اسلام کے دشمنوں کے پاس ان سست اور کمزور باتوں کے علاوہ اور کیا ھوسکتا ھے۔
حوالے1۔سورہ انعام آیت682۔سورہ نساء آیت1403۔ابن ابی الحدید، شرح نھج البلاغہ، ج12،ص2534۔بحار الانوار، ج6۹،ص3605۔سورہ بقرہ آیت265.6۔سورہ بقرہ آیت22۹.
 

http://shiastudies.com/ur/2924/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d8%ad%da%a9%d9%88%d9%85%d8%aa-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%ab%d9%82%d8%a7%d9%81%d8%aa%db%8c-%d8%ad%d8%b1%d8%a8%db%92/

تبصرے
Loading...